تم سے توڑوں،تو کس سے جوڑوں؟

روحانی وظائف واعمال نیز دعائیں تب فائدہ دیتی ہیں جب انہیں ان کی شرطوں اور آداب کے مطابق پڑھا جائے ،اگر شرطیں وآداب پورے نہ ہوں، تو محض وظائف پڑھنے اور اعمال میں جُت جانے سے کچھ نہیں ہوتا،’’باادب بانصیب ،بے ادب بے نصیب ‘‘۔

لوگ وظائف اور دعائیں پڑھتے یاعملیات کرتے وقت ان شرطوں وآداب کا لحاظ نہیں رکھتے اور پھر بد عقیدہ اور بد گماں ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہماری دعا ئیں تو قبول ہوتی ہی نہیں،ہم تو بارگاہِ الٰہی میں مردود ہیں،ہم جوٹہرے گناہ گاروسیاہ کار، اپنے اوپرطرح طرح کے فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں،تب نفس وشیطان انہیں مزیدبرائیوں اور غلط کاموں میں ایسے مبتلا کر دیتے ہیں کہ واپس آنا بظاہر نا ممکن سارہتاہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں واپسی کے راستے اور آپشز ہمیشہ کے لئے کھلے رہتے ہیں،بس توبہ ہی اس کا علاج ہے ،جی ہاں ،معافی کا کھلا شارعِ عام ’’توبہ‘‘ ہی ہے۔
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح وشام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق ومروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں۔

بہر حال دعاؤں اور روحانی وظائف واعمال کے کارگر ہونے کی چند شرائط وآداب یہ ہیں:(1)اعتقاداوریقین ِکامل کے ساتھ دعاء کریں،شک اور تردُّد عمل کو ضائع کر دیتا ہے۔ (۲)توبہ اور انابت الیٰ اﷲ کے ساتھ عمل کریں،لاپرواہی اوربے توجہی سے پڑھے جانے والے وظائف ،عملیات اوردعائیں ہوا میں گم جاتی ہیں۔ (۳)رزق ِحلال کا اہتمام کریں،خالق مالک راضی ہو گا تو کام خودبخودہی بنے گا۔ (۴) فرائض کا اہتمام کریں ،جو لوگ نماز اور دیگر فرائض کا اہتمام نہیں کرتے ان کے اعمال بے اثر رہتے ہیں ۔ (۵)ناجائزاورحرام کاموں سے بچیں، وہ کام جنہیں ممنوع اورحرام قرار دیا گیاہے ،ان کا ارتکاب روحانیت کو نقصان پہنچاتا ہے ،عمل کارگر نہیں رہتا۔ (۶)عربی الفاظ کی تصحیح کا اہتمام کریں،انہیں غلط سلط پڑھنے سے معنی بدل جاتے ہیں۔ اتنی عربی زبان ہر مسلمان پر فرض ہے،جس سے نماز،اذکار، دعائیں اور قرآن وحدیث کو سمجھا جاسکے۔ (۷)طہارت کا اہتمام کریں،خود بھی ظاہری باطنی پاک ہوں،لباس اور جگہ بھی پاک صاف رکھیں۔ (۸) عاجزی اور آہ زاری کے ساتھ عمل کریں۔ (۹)دعاء سے پہلے اور بعد میں درود شریف کا اہتمام کریں(۱۰)بزرگوں ومتدین علمائے دین سے تعلق ضرور رکھیں۔

نیزاﷲ تعالیٰ سے ناامیدی بھی صحیح نہیں اور نڈر بن کر بے خوف بھی نہیں ہونا چاہئے ،وہ رحمن ورحیم بھی ہیں اور جبار قہار بھی ہیں،وہی سب کچھ پر حقیقی قادر ہیں ،پوری دنیا کی تمام طاقتیں اس کی طاقت کے سامنے ہیچ ہیں،اس سے مانگتے رہنا چاہئے، ان سے مضبوط رابطہ استوار رکھنا چاہئے،ان کے ساتھ توڑ کی نہیں جوڑ کی ضرورت ہے، دعاء اﷲ پاک کو بہت پسندہے،حدیث شریف میں دعاء کو عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے،اپنے مؤمن ہونے پرفخر کرنا سیکھئے،اس زمانے میں ایسے اولیاء تو شاید نہ ہوں جو ہواؤں میں اڑسکیں یا سمندروں پے مصلے بچھاکر نمازیں ادا کرسکیں،البتہ جیسی روح ویسے فرشتے ،جیسے عوام ویسے خواص،الایمان بین الخوف والرجاء کے مطابق باری تعالیٰ سے بے نیازی اور غفلت بھی مناسب نہیں اور بیباک ہوکر اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی نامناسب ہیں،مؤمن کی اپنی ایک شان ہوتی ہے اہل ایمان کی مجالس وصحبتوں میں آمد ورفت سے ایمانی کیفیات سے بندہ آراستہ وپیوستہ ہوجاتاہے،کثرتِ تلاوت مع ترجمہ سے بھی ایمانیات میں بے پناہ اضافہ ہو تا ہے،احادیث سے مناسبت تو نور علیٰ نوراور اقبالیات سونے پر سہاگہ۔

آج امتِ مسلمہ من حیث المجموع اورہم پاکستانی بالخصوص عالمی سازشوں کے گردابوں میں پھنسے ہوئے ہیں،ہر طرف ظاہری اسباب پر بات چیت ہورہی ہے،ارے کبھی روحانی اسباب کو بھی ملحوظِ خاطر رکھاجائے،عسکری اور حکومتی سطحوں پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ قنوتِ ناز لہ و نوافل، ذکر وفکر اور دعاء ومناجاۃ کی مجالس کا اہتمام ہونا چاہئے،جب اﷲ تعالیٰ نمرود کے مقابلے میں حضرتِ ابراہیم ؑ کو ،جالوت کے مقابلے میں طالوت کواور فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ ؑ کوکامیابی سے سرفراز کرسکتے ہیں،تو وہی ذات آج اپنے دوستوں کوکمزوریوں کے باوجود غالب کرسکتی ہے،ذرہ ان کا در تو کھٹکھٹائیں جو یہ صدائیں دے رہاہے۔بازآ بازآ،ہر آں چہ ہستی بازآ،کہ ایں درگہِ ما ،درگہِ نو میدی نیست۔

قرآن کریم میں ہے:’’ارے یہ شیطان ہی ہے جو اہل ایمان کو اپنے(شیطان پرست) دوستوں سے ڈرا تاہے، تو تم ان سے نہ ڈرو،مجھ ہی سے ڈرو ،اگر تمہیں یقین ہے‘‘۔ہماری افواج ،حکومتوں اور عامۃ المسلمین کو کبھی بھی اہل شیطان کے کے کرّوفرّ اور ظاہری طمطراق سے نہیں گھبرانا چاہئے،لیکن بات وہی ہے کہ اپنی تیاری مکمل ہونا بھی ضروری ہے،یعنی خوف اور امید کے درمیان درمیان۔ابلیس اور ان کا ٹولہ خود آپ سے خائف ہیں،دیکھئے علامہ اقبال نے کس حسین انداز میں شیطان کی مجلسِ مشاورت کا نقشہ کھینچا ہے:
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ وبو
کیا زمیں،کیا مہرومہ،کیا آسمانِ توبتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب وشرق
میں نے جب گرمادیا اقوامِ یورپ کا لہو
کیا امامانِ سیاست،کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بناسکتی ہے میری ایک ہو
کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتاہے اسے
توڑکر دیکھے تو اس تہذیب کے جام وسبو
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانو کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈراسکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار،آشفتہ مغز،آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی، تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878125 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More