مقام مصطفٰے ﷺ کیا ہے؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
خالق ارض و سما، شمس و قمر، لیل و نہار، شجر وحجر، حیوانات و جمادات ،فصلات
و ثمرات،بحروبر غرضیکہ جملہ موجودات نے اپنے کلام قدیم میں پیارے آقا
مصطفٰے کریم ﷺ کے مقام کو واضح فرمادیا۔میری تحقیق کے مطابق قرآن کریم کی
تریسٹھ آیات اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی شان میں صراحتا اتاریں۔63 کا عدد
بھی آپ ﷺ کے ساتھ خوب مناسبت رکھتا ہے۔ جو اس کلام کو پڑھتے ہیں اور اور اس
پر ایمان رکھتے ہیں وہی مقام مصطفٰے ﷺ کا ادراک رکھتے ہیں۔ صرف ادراک نہیں
بلکہ تسلیم و رضا کے تقاضوں کو حتی المقدور پورا بھی کرتے ہیں۔ اس نور
اولین و آخرین سے ناآشنا جو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی جہالت کے قعر
مذلت میں پڑے ہیں ، جنہیں اپنی تخلیق پر غوروفکر کرنے کا شعور بھی نہیں تو
انکے بارے یہی کہا جاسکتا ہے جو اﷲ نے فرمایا کہ اﷲ ہی ہدائت دیتا ہے اور
اﷲ ہی جسے چاہے گمراہ کرتا ہے(عقل و فہم ہونے کے باوجود جو رنگِ کائنات میں
تجسس نہیں کرتے)َ َجو لوگ اپنے آپ کو اہل کتاب کہلاتے ہیں اگرچہ کہ وہ برحق
کتب سماویہ منجانب اﷲ ہیں لیکن انکے من و عن محفوظ رکھنے کی اﷲ کی مشیت نہ
ہے۔ جبھی تو ان میں ردو بدل ہوا۔ انکے تمام مضامین و احکامات کو قرآن حکیم
جامع کتاب میں سمو دیاگیا۔ تو اﷲ اور اسکے رسولوں ، قیامت اور جنت و دوزخ
کو ماننے والوں کو صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات کے آگے سر تسلیم جھکاتے ہوئے سلسلہ
نبوت پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اس ذاتِ اقدس پر ایمان لانا چاہیئے کہ جن کے
بارے انبیاء سابقین علیھم السلام نے اپنے متبعین کو تاکید فرمائی کہ تاجدار
ختم نبوت پر ایمان لانا اور انکی نصرت کرنا۔ تحریف شدہ اناجیل اربع میں کہ
خدا کا نور فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوگا اور اسکے ساتھ دس ہزار قدسی
ہونگے۔یہ فتح مکہ کی پیشین گوئی ہے کہ سیدالعالمین ﷺ اپنے دس ہزار صحابہ
کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ پھر انجیل میں سیدنا
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہی فرمان ہے کہ میں جاتا ہوں اور میرے بعد وہ
آئے گا کہ میں جسکی جوتیاں اٹھانے کے قابل نہیں۔ اسکے ایک ہاتھ میں چھاج
اور دوسرے میں چھلنی ہوگی۔ دانے کو بھوسی سے الگ کرے گا اور بھوسی کو آگ
میں ڈالے گا۔ حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ ہمیں تو ہمارے اﷲ نے اپنے کلام میں
کفار کے خداؤں کو گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے بلکہ احسن طریقہ سے تبلیغ
کا حکم دیا ہے۔ حضرات انبیاء کرام کی تعظیم ہمارا ایمان ہے کیونکہ وہ سبھی
اﷲ کے فرستادہ ہیں چونکہ ہم اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں لھذاجن کو تاج نبوت و
رسالت سے اس نے سرفراز فرمایا اور عزت دی ہم انکے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔
اور اہل کتاب کو بھی یہی کہتے ہیں کہ آوٗ اس بات کو مانو جو تمہارے اور
ہمارے درمیان مشترک ہے۔ لیکن جو حیوان ممنوعہ کا گوشت کھاتے اور دودھ پیتے
ہیں ، انکی فکرودانش پر خبیث کی چربی چڑھ چکی ہے۔ جسکے نتیجہ میں وہ مبداء
و معاد سے بے خبر ہوکر نور اولین و آخرین ، وجہ قرار عالمین، باعث تخلیق
کانئات ، مقصود کائنات رحمۃ للعلمین ﷺ کی اعلیٰ و ارفع ذات گرامی کی بے
ادبی کرتے ہیں۔ نہیں خبر کہ اس حرکت قبیحہ کے نتیجہ میں ہولناک عذاب الہی
کا شکار ہونگے اور کوئی یارومددگا نہ ہوگا۔ اس بات کا تو ہندؤں نے بھی
اقرار کیا ہے۔ ایک ہندو شاعر رادھارمن جوش بدایونی کہتا ہے۔ہندو ہوں بہت
دور ہوں اسلام سے لیکن مجھ کو بھی محمد کی شفاعت کا یقین ہے۔ ایک اور ہندو
شاعر الن جون مخلص بدایونی عرض کنا ں ہے۔ اگر تم دیکھنا چاہو خدا کو کرو
راضی محمد مصطفٰے کو ایک اور شاعر منشی بنواری لال شعلہ یو ں عشق کا شعلہ
نواز ہے ۔ بڑھے گی جب زیادہ آفتاب حشر کی گرمی تری رحمت پکارے گی یہی میدان
محشر میں چلے آؤ چلے آؤ گناہگارو چلے آؤ ہزاروں کوس کا سایہ ہے دامانِ
پیمبر میں۔ ہندو تو ہندو ہیں تم اپنے آپکو مسیحی کہلاؤ یا اسرائیلی تم ان
ہندوؤں کی خاک پا کے برابر بھی نہیں جو مقام مصطفٰے ﷺ کا عرفان رکھتے ہوئے
زبان سے برملا اس کا اظہار کرتے ہیں۔ میں موجودہ پوپ مسیحی امام کی حق گوئی
پر یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں مقام مصطفٰے ﷺ کا ادراک ہے اور یہبھی توقع ہے کہ
انہوں نے اپنے کسی عقیدتمند کو فرانسیسی خبیث باعث ذلت خواری صحافت کو جہنم
رسید کرمنے کا حکم دیدیا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح ماقبل تیرہ خبیث
واصل جہنم کیئے گئے باقیمانہ کے لیئے شہنشاہ کون و مکاں ﷺ کے جاں نثارسربکف
دیوانہ وار خبیثوں تک پہنچنے والے ہونگے۔ اے کاش کہ یہ سعادت رب کائنات
مجھے عطا فرماتا اور مجھے زندگی مل جاتی۔بہر حال این سعادت بزور بازو نیست۔
سوال یہ بھی ہے کہ پونے دو ارب مسلمانوں کی موجودگی میں کسی دشمن ِ رسول کو
توہین کرنے کی جرات کیسے ہوتی ہے؟ سلطان ترکی سلطان سلیم کے دور میں بھی
ایک فرانسیسی نے توہین رسات کی تو سلطان نے سفیر فرانس کو سارا دن اپنے محل
کے باہر ایسادہ منتظر ملاقات رکھا اور شام کو اسے حکم دیا کہ اپنی حکومت کو
بتادو کہ خبیث گستاخ کو فورا سزا دے ورنہ میرا نام سلطان سلیم ہے۔ اور
حکومت فرانس گستاخ سلطان سلیم کی ہیبت سے خوفزدہ ہوکر سزائے موت دیدی۔ اب
بھی وزیر اعظم ترکی واحد شخصیت ہے کہ جس نے فرانس کے سفیر کو ترکی سے نکالا
لیکن کیا دنیا ئے اسلام کے دیگر حکمرانوں کے دل اپنے نبی ﷺ کے لیئے نہیں
دھڑکتے ؟یہ لوگ کب تک امریکہ کی حاشیہ برداری میں اپنی آخرت برباد کرتے
رہیں گے؟ قیام خلافت مسلم اتحاد کے لیئے ضروری ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں خلافت
کا ٹوٹنا اور پھر صلیبی قوتو ں کا مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع نہ ہونے
دیناکفر کی من مانی حرکات کو جنم دیتا ہے۔ آج پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ
خلافت ترکیہ بحال کی جائے۔
عالم اسلام صلیبی اور یہودی سازشوں کاشکار ہے۔ مسلم ریاستوں کا وجود بھی
خطرہ میں ہے۔ امریکہ جب جہاں چاہتا ہے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسلمان
ریاستوں میں دہشت گردی کرتا ہے ۔ مسلمان حکمرانوں کی اپنی بقا بھی اسلامی
ریاستوں کی بقا میں مضمر ہے۔ شاتمین رسول کے بارے تساہل سے کام نہ لیں اور
فورا متحد ہوکر فرانس کے خلاف اعلان جہاد کریں۔ بصورت دیگر کیا حکمرانون کا
کلمہ پڑھنا بھی مشکوک سمجھا جائے گا۔
خادم اسلام: پروفیسر اکبر سین ھاشمی 0300-5393493ٖؒٓؒٓ
|
|