ہالبروک کی التجا امداد نہیں لینی
تو نہ لیں....پاکستانی ذلیل تو نہ کریں
موجودہ حکومت کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے یہ کیا کہہ دیا ....؟
اِسے پوری پاکستانی قوم کے لئے ایک حوصلہ افزا امر ضرور قرار دیا جاسکتا ہے
کہ گزشتہ دنوں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے لاہور کے گورنر ہاؤس میں
پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی شاطر ایلچی رچرڈ ہالبروک سے
ایک ملاقات کے دوران پوری پاکستانی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے ہالبروک پر
یہ بات عیاں کی کہ امریکا میں پاکستانی شہریوں کے لئے نئے اسکریننگ نظام
اور ڈرون حملوں پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اُنہوں نے امریکی
ایلچی پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امریکا میں اسکریننگ نظام سے
پاکستانیوں کی تلاشی توہین ہے اور ہم امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
مل کر جنگ لڑرہے ہیں اِس موقع پر اِن کا یہ بھی کہنا بجا تھا کہ ڈرون حملوں
کے بجائے امریکا ہمیں ٹیکنالوجی دے اور اِس کے ساتھ ہی ایک انتہائی خوش کُن
خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے امریکا کے
خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک پر دورانِ ملاقات یہ بھی واضح کیا ہے کہ امریکا
ہمارا آقا نہیں ہے وہ دوست بن کر دوستی کا حق ادا کرے اور امریکا کو یہ بات
اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ امریکا کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
سب سے زیادہ جانی قربانیاں ہم ہی دے دہے ہیں اور ہم ہی سب سے زیادہ مالی
نقصان بھی اُٹھا رہے ہیں اور اِس موقع پر وہاں موجود مختلف سیاسی جماعتوں
کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کی جاری اِس دہشت گردی کے خلاف
جنگ کے باعث آج پاکستان میں افغانستان اور عراق سے بھی کئی گنا زیادہ خودکش
حملے ہورہے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی اِن رہنماؤں کے اِس کا بھی ہالبروک سے
کھل کر اظہار کرتے ہوئے اپنے سینوں میں اُبلتے لاوے کو کچھ اِس طرح سے بھی
باہر نکالا کہ افغانستان میں امریکا اور اِس کی اتحادی افواج کے اتنے لوگ(
واصل جہنم )ہلاک نہیں ہورہے کہ جتنے ہمارے نہتے اور معصوم پاکستانی خودکش
حملوں اور بم دھماکوں کی وجہ سے شہید ہورہے ہیں۔
اور اِس کے باوجود بھی امریکا کی ساری مہربانیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔ اور
پاکستان کا امریکا کی جنگ کا حصہ بننے کا ہر بار یہ صلہ دیا جاتا ہے کہ
کوئی نہ کوئی آپ (ہالبروک)جیسا امریکی اپنا منہ اٹھائے جب پاکستان چلا آتا
ہے تو وہ اپنے ساتھ پاکستان سے متعلق سخت ترین نت نئی پابندیوں کی شرائط
بھی نتھی کئے لے آتا ہے کیا یہی امریکا کے ساتھ دوستی کا نتیجہ ہے؟ کہ
امریکا اپنے حقیقی دوست پاکستان کے ساتھ یہ کیسی دوستی نبھا رہا ہے؟ کبھی
تو ایسا لگتا ہے کہ امریکا اپنے کسی منہ بولے دوست کے ساتھ زبردستی کی
دوستی نبھا رہا ہے؟ امریکا جو بظاہر تو پاکستان کو امداد دے رہا ہے کہ یہاں
کے لوگوں کی حالتِ زندگی بہتر ہو اور اندر ہی اندر نہتے پاکستانیوں کو ڈرون
حملوں اور اپنے بھارتی، اسرائیلی اور افغانی ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان پر
قدم قدم پر خودکش حملے اور بم دھماکے بھی کروا کر اِنہیں ہی مروا بھی رہا
ہے یہ کیسی اَنہونی پاک امریکا دوستی ہے کہ ایک طرف تو یہی امریکا پاکستان
کو لڈن پپو (غریب و غربا )سمجھ کر امداد بھی دینے کے دم بھر رہا ہے تو اِسی
امداد کے عوض اِن ہی پاکستانیوں کو مروانے کے سامان بھی کر رہا ہے جن کے
لئے وہ امداد دیتا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ امریکا اگر واقعی پاکستان کا دوست ہے اور یہاں کی عوام کے
حالتِ زندگی بہتر بنانے کے لئے فکرمند ہے تو وہ، وہی کچھ کرے جس کا اظہار
پاکستانی قوم اور سیاستدان کئی مواقعے پر متعدد بار کر بھی چکے ہیں کہ
امریکا خود کو آقا سمجھ کر پاکستان کی امداد ناں کرے کہ پاکستان اِس کے
ڈکٹیشن پر عمل کرے اور وہ محض امداد کے عوض جو چاہیے پاکستان سے ہر جائز
اور ناجائز کرواتا رہے۔
اور یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جب ہمارے صدر اور مختلف سیاسی جماعتوں کے
رہنماؤں کے اعتراضات سُنے تو پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی
شاطر ایلچی رچرڈ ہالبروک غصے سے آگ بگولہ ہوکر پھٹ پڑے اور چیخ کر بولے کہ”
آپ کو ایڈ (امریکی امداد یا بھیک)نہیں چاہیے تو نہ لیں ہم کوئی آپ کو
زبردستی تو نہیں دے رہے ہیں؟“اور نہ صرف اُنہوں نے اپنے اِس غصے کے عالم
میں یہ کہا بلکہ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ”یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ ہم سے
ہاتھ پھیلا پھیلا کر امداد بھی بٹوریں اور اپنی جیبوں میں بھرتے رہیں اور
اُلٹا اپنے ہمدرد اور خیرخواہ امریکا پر تنقیدیں بھی کرتے رہیں“ اگرچہ اِس
دوران ہالبروک نے شکائتی انداز سے یہ بھی التجا کی کہ ”خدارا پاکستانی
میڈیا ہماری پاکستان کے ساتھ اتنی ہمدردیوں کے باوجود بھی ہمارے ہی خلاف
مہم میں مصروف ہے اَب تو پاکستانی میڈیا ہمارے (امریکا کے)خلاف جاری مہم
بند کر دے“گو کہ اِن کا پاکستانی میڈیا کو یہ کہنا تھا کہ وہ امریکا کو
ذلیل کرنا بند کردے۔
اور دوسری طرف یہ امریکیوں کی کتنی عجیب و غریب خوش فہمی ہے کہ اِس دوران
کوے جیسے چالاک اور الو جیسے عقلمند رچرڈ ہالبروک نے طیش میں آکر کسی بوتل
میں بند نکلتے جِن کی طرح سر اُٹھاتے ہوئے چیخ کر یہ بھی کہا کہ”ہم نے ہی
پاکستان کی سلامتی کے لئے طالبان کو روک رکھا ہے کیوں کہ وہ پاکستان کے لئے
حقیقی خطرہ ہیں“ یہاں ہالبروک کے منہ سے نکلنے والے اِس جملے پر میں کوئی
تبصرہ نہیں کروں گا اِس کا مطلب میرے قارئین خود اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ
میں نے ایسا کیوں کیا ہے؟
اور ہالبروک نے جب یہ دیکھا کہ آج تو شائد پوری پاکستانی قوم جاگی ہوئی نظر
آرہی ہے تو وہ ہر طرف سے اپنے اُوپر سوالات کی ہونے والے بوچھاڑ سے اپنی
جان چھوڑا کر یہ کہہ کر بھاگ نکلے کہ میرے پاس وقت کی کمی ہے اور اِس کے
بعد وہ اُٹھ کر چلے گئے۔ یہ یقیناً ہم پاکستانیوں کے لئے ایک انتہائی حوصلہ
افزا لمحہ ہے کہ کسی پاکستانی صدر اور مختلف جماعتوں کے غیور اور محب وطن
پاکستانی سیاستدانوں نے شائد پہلی بار کسی امریکی کو اِس کی گردن سے کچھ
اِس طرح سے دبوچا اور اِسے ایسا رگڑا دیا کہ اب اگر وہ غیرت مند ہوا تو وہ
پاکستان کا کبھی رخ بھی نہیں کرے گا اور اگر یہ وہ ......ہوا جس کا میں
یہاں صرف اشارہ دے کر آگے بڑھوں گا ہوا تو پھر چلا آئے گا۔
مگر اِس کے ساتھ ہی میں آج کے اپنے اِس کالم میں اِس بات کا بھی تذکرہ کرنا
ضروری سمجھتا ہوں جس کے بغیر شائد میرے قلم اور میری ایک محب وطن پاکستانی
ہونے کے ناطے حق بھی ادا نہ ہوسکے تو وہ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے گزشتہ
کئی کالموں میں موجودہ حکومت کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی نڈر اور بیباک
سیاست اور اِن کی شخصیت کو ملک و ملت اور پاکستان میں ہونے والی موجودہ
سیاست میں قابل فخر سرمایہ قراردیتے ہوئے اِن کی ِ تعریف میں بہت کچھ لکھا
مگر آج اِس ایک خبر نے نہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس
نے بھی یہ خبر پڑھی اور ٹی وی چینلز سے سُنی ہوگی اُسے یقیناً ایک لمحے کے
لئے حیران اور پریشان ضرور کر دیا ہوگا۔
کیوں کہ جب ہالبروک سے ملاقات کے دروان ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری
سمیت وہاں پر موجود ہمارے ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاستدانوں نے جس
دیدہ دلیری اور جوانمردی سے رچرڈ ہالبروک سے امریکی امداد کے عوض پاکستان
کی قربانیوں کا ذکرکرتے ہوئے امریکی رویوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور
ہالبروک سے چھبتے ہوئے سوالات کئے جن کے ہالبروک تسلی بخش جوابات بھی نہ دے
سکے کہ کوئی ایک سیاستدان یہ کہہ اٹھتا کہ امریکا ہمارے ساتھ جو کر رہا ہے
وہ ٹھیک ہے اور ہم اِس سے بھی بڑھ کر اِس کے لئے کرنے کو تیار ہیں مگر وہاں
ایسا کچھ نہیں تھا اور آج یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنے سیاستدانوں کے
ہالبروک سے پوچھے گئے سوالات کو ضرور قابل تحسین قرار دے رہا ہے۔
مگر اِس ایک خبر نے جس کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری
اطلاعات نے پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے رچرڈ
ہالبروک کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ہمیں بہت کچھ دے رہا ہے لیکن
ہم اِن سے بدسلوکی کرتے ہیں ہمیں عزت راس نہیں آتی۔ اِس کے علاوہ اِن کا یہ
کہنا بھی بڑا ہی مضحکہ خیز لگا کہ پاکستانیوں میں امریکا کے خلاف منفی
جذبات پائے جانے پر رچرڈ ہالبروک کی شکایت جائز ہے۔
میرے خیال سے صدر مملکت اور ہمارے سیاستدانوں نے ہالبروک سے ملاقات کے
دوران جس انداز سے امریکی رویوں کے خلاف اپنا آواز حق بلند کیا تھا اِس پر
خود امریکا سمیت کسی کو کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے اور اِس کے ساتھ ہی
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ امریکی بھی پاکستانیوں کے اِس جائز ردِعمل پر کسی
حد تک سوچنے پر ضرور مجبور ہوگئے ہوں گے مگر موجودہ حکومت کی مرکزی سیکٹری
اطلاعات کے ہالبروک کے حق میں آنے والے اِس بیان کے بعد امریکیوں نے
پاکستان سے نرمی برتنے کا اپنا ارادہ تبدیل کرلیا ہوگا۔ |