2 فروری ۔۔آب گاہوں کے تحفظ کا
عالمی دن ۔
دنیا بھر میں 2 فروری کو آب گاہوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔دنیا
بھر میں آب گاہوں کی حفاظت ،ان کے بارے میں آگاہی کے لیے سیمنار منعقد کیے
جاتے ہیں ،پروگرام کیے جاتے ہیں ،آرٹیکل لکھے جاتے ہیں ،آب گاہیں فطرت کا
حسن ،ماہی گیروں کا ذریعہ معاش ،انسانوں کے پینے کے لیے پانی. آب گاہوں میں
کثیر تعدا میں پودوں کی اقسام ،پرندوں کی سینکڑوں اقسام ،مچھلیوں کی درجنوں
اقسام ،پرورش پاتی ہیں ۔پانی میں پائی جانی والی 20 ہزار سے زائد مچھلیوں
کی 40 فیصد اقسام تازہ پانی میں پائی جاتی ہیں ۔اس وقت زمین کا درجہ حرارت
بڑھ رہا ہے ،جس کے سنگین اثرات دنیا پر ظاہر ہونا بھی شروع ہو چکے ہیں ۔اس
صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کے 95 ممالک نے 2 فروری 1971 کو ایران
کے شہر رامسر میں کنونشن آن ویٹ لینڈ کا انعقاد کیا ۔جس میں آب گاہوں کے
تحفظ کے لیے ایک معاہدہ طے کیا گیا ۔جو 1975 میں نافذ ہوا ، اسے رامسر
کنونشن کہا جاتا ہے ۔ دنیا کا پہلا آب گاہوں کا عالمی دن 2 فروری 1975 کو
منایا گیا۔آب گاہ سے مراد ایسے علاقے اور جزائر ،سمندر سے ابھرنے والے خطے
،ایسے پانی کے ذخائر جن میں چھ میٹر تک پانی کی گہرائی ہو ۔آب گاہیں ملک کی
معاشی صورتحال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے
بچا ؤ کا ذریعہ ہیں ۔موسم کی تبدیلیوں کو اعتدال میں رکھنے کے کام آتی ہیں
۔بارش برسنے میں معاون ہوتی ہیں ۔ہوا کے دباؤ کو قابو میں رکھتی ہیں ۔اور
سب سے بڑھ کر زیر زمیں پانی کی سطح کو برقرار رکھتی ہیں ۔رامسر کنونشن نے
دنیا کی آب گاہوں کی فہرست تیار کی ہے ۔اسے آب گاہوں کا عالمی ادارہ بھی
کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے 1976 میں اس کنونشن میں شمولیت کی اور دنیا بھر
میں آب گاہوں کے تحفظ کے لیے بنے اس کنونشن کا رکن بنا ۔رام سر کنونشن ایک
معاہدہ ہے جس کا رکن بننے کے لیے تین وعدے کرنے ہوتے ہیں ۔اول ،عالمی اہمیت
کی حامل آب گاہوں کو رام سر کنونشن میں شامل کروانا ۔دوم ، اس ملک میں پائی
جانے والی تمام آب گاہوں کے درست استعمال،اور ان کو مفید بنانے کے لیے
منصوبہ بندی کرنا ۔سوم ،انواع اور پانی کے مشترکہ نظاموں کے لیے تعاون کرنا
۔وغیرہ اب رامسر کنونشن معاہدے میں شامل ممالک کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہو
چکی ہے ۔۔کل آب گاہیں جن کو رام سر سائٹ کا درجہ دیا جا چکا ہے ان کی تعداد
1708 (کم و بیش) ہے ۔ ۔ ابتدائی طور پر اس کنونشن میں 138 ممالک نے دستخط
کیے اب تک دنیا کے 160 ممالک اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں ۔رامسر سائٹ
میں صرف ان آب گاہوں کو شامل کیا جاتا ہے جو عالمی اہمیت کی ہوں ۔پاکستان
کے کل رقبے کے ایک اندازے کے مطابق 10 فیصد سے زائد رقبہ پر آب گاہیں ہیں ۔
ان آب گاہوں کے اطراف میں 1 کروڑ 40 لاکھ افراد بستے ہیں ۔پاکستان میں
قدرتی اور مصنوعی 225 قابل ذکر آب گاہیں موجود ہیں ۔ ان میں سے 112 بڑی آب
گاہیں ہیں ۔آزاد کشمیر میں 10 ۔بلوچستان میں 22 ۔خیبر پختونخوا میں 20 ۔شمالی
علاقہ جات 12 ۔پنجاب میں 17 ۔سندھ میں30 ۔وفاق میں 1 ۔آب گاہ ہے ۔پاکستان
کی 19 آب گاہوں کو رامسر سائٹ کا درجہ حاصل ہے ۔جن میں سے صوبہ سندھ میں ،کینجھر
جھیل ،دیہہ اکڑو ،ڈرگ جھیل ،ہالیجی جھیل ،انڈس ڈیلٹا ،انڈس ڈولفن
ریزور،جبھو لگون ،نرڑی لگون ،رن آف کچھ ،صوبہ پنجاب کی آب گاہوں میں ۔تونسہ
بیراج ،اچالی کمپلیکس ،چشمہ بیراج ،بلوچستان کیآب گاہوں ہیں جن کے نام
استولا آئی لینڈ ،جیوانی کوسٹل ،حب ڈیم ،میانی ھور،اومارہ ٹرٹل بیچ،خیبر
پختونخوا میں صر ف 2 آب گاہیں رامسر سائٹ میں شامل ہیں جن کے نام ٹاڈا ڈیم
اور تھانے دار والاپائی ۔خیال رہے یہ صرف ان آب گاہوں کے نام ہیں جن کو
رامسر سائٹ میں درج کر لیا گیا ہے ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے
وسائل تیزی سے ختم ہو رہے 2040 تک 40 فیصد ختم ہو جائیں گے ۔یہ بات تو ہم
نے کئی بار سنی ہے کہ آئندہ جنگ پانی پر ہو گی۔تھر میں قحط کی جو صورت حال
ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔پاکستان میں آب گاہوں کی بقا کو شدید خطرات ہیں
کیونکہ ان کی صفائی کا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔اور بہت جلد ہم آبی قلت والے
ممالک میں سرفہرست ہو ں گے ۔ماحولیاتی قانون 1997 کے تحت صنعتی ادارے اس کے
پابند ہیں کہ وہ کیمیائی مادوں کی صفائی کر کے پانی کا اخراج کریں ۔لیکن اس
قانون پر عمل نہیں ہے جس وجہ سے آب گاہیں آلودگی کا شکار ہو رہی ہیں ۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ قانون پر سختی سے عمل ہو ۔تاکہ آب گاہوں کے تحفظ کو یقینی
بنایا جا سکے ۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آب گاہوں کا عالمی دن
منایاجا تا ہے ۔لیکن منایا ہی جاتا ہے۔حالانکہ اس دن کے منانے کا مقصد کبھی
پورا نہیں ہوا ،اگر اس پر کام ہوتا یا بنے ہوئے قانون پر عمل بھی ہوا ہوتا
تو ہر سال پاکستان میں آنے والے سیلاب سے اتنا جانی نقصان نہ ہوتا ۔پانی جو
سیلاب سے تباہی لاتا ہے ان کو اگر آب گاہوں کی طرف موڑ دیا جائے ،ڈیم بنا
لیے جائیں تو ملک کی ترقی ممکن ہے۔پاکستان کی حکومت و عوام کی ترجیحات بھی
عجیب ہیں ،مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے ،اگر ہم نے پانی کی حفاظت ،اسے
آلودگی سے نہ بچایا تو ،،آنے والے دن چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی
قلت ہو جائے گی ۔دیکھا جائے تو اس بابت کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔دنیا
ایک ایک قطرے پانی کی حفاظت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے اور ہم اپنے
پہلے سے موجود پانی کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ۔قانون بنے
لیکن صرف قانون کی کتابوں میں ان پر عمل نہیں ہے ۔پانی کی حفاظت نہ کر کے
ہم جس غفلت کا شکار ہو رہے ہیں اس پر تمام کالمسٹ بھائیوں کو قلم اٹھانا
چاہیے ۔تاکہ ادارے اس پر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور پاکستان کے
مستقبل کے لیے کام کریں ۔۔پانی کی حفاظت کی ذمہ داری ہر پاکستانی کا فرض ہے
۔ضرورت اس کی ہے کہ پاکستان میں آب گاہوں کے تحفظ کے لیے مہم چلائی جائے
مگر یہ غیر منافع بخش کام کون کرے گا ۔اس سے لفافہ ملنے کی بھی کوئی توقع
نہیں ہے ۔جو صحافی اس پر لکھیں ۔
اپنی آب گاہوں کو تحفظ دے کر ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں
۔لاکھوں افراد کو روزگار دے سکتے ہیں ۔موسم کو معتدل بنانے میں آب گاہیں
معاون ہوتی ہیں ۔پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھا جا سکتا
ہے ۔ان آب گاہوں سے لاکھوں افراد کا روز گار وابستہ ہے ،آبی وسائل کے تحفظ
کے لیے جنگلات ضروری ہیں ،ان کے بارے میں بھی ہمارے ملک کا رویہ لاپرواہی
کا ہے ،
پاکستان کی آب گاہیں اﷲ تعالی کی طرف سے پاکستان کو ایک عظیم تحفہ ہیں جن
کی قدر پاکستان کی عوام و حکومت دونوں نہیں کر رہیں ۔قدر ناکرنا ناشکری ہے
،ان آب گاہوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے ۔ |