فرانسیسی جریدہ چارلی ایبڈو کے
گستاخانہ اقدام کے خلاف عالم اسلام تاحال سراپا احتجاج ہے۔ توہین رسالت پر
نہ صرف مذہبی جماعتوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، بلکہ سیاسی رہنما اور
سربراہانِ مملکت بھی اس کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ
دنیا میں امن اور انصاف کی بات کرنے والے نہ صرف ملعون جریدے کے پشتیبان بن
چکے ہیں۔ بلکہ آزادی اظہار کی آڑ میں اس ناپاک جسارت کو درست بھی قرار دے
رہے ہیں۔ فرانس کا کہنا ہے کہ مسلمان جنونیت کا شکار ہیں۔ ہم آزادی اظہار
کا گلا گھونٹ نہیں سکتے۔ امریکی صدر بارک اوباما اور برطانوی وزیر اعظم
ڈیوڈ کیمرون نے بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کو
دبانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
آزادی اظہار کے نام پر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور الحامی کتب و مذاہب
کی توہین کا سلسلہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ 2005ء میں ڈنمارک کے اخبار
نے توہین آمیز خاکے شائع کیے۔ جس کے خلاف پوری دنیا میں زبردست احتجاجی
تحریک چلائی گئی تھی۔ بعد کے ادوار میں دیگر مغربی اخبارات کی طرح 2011ء
میں چارلی ایبڈو نے بھی گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ اسی برس فلوریڈا کے چرچ
میں ملعون پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کے نسخے نذرآتش کیے، جبکہ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی گستاخانہ فلم بھی بنائی گئی۔ جس کی وجہ
سے یوٹیوب آج بھی پاکستان میں بند ہے۔ الغرض آزادی اظہار کے غلط استعمال سے
توہین رسالت کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ مزید اس تفصیل میں پڑنے کی
ضرورت نہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اس اشتعال انگیزی کا راستہ کیسے روکا
جاسکتا ہے؟ یہ بات طے ہے کہ انبیاء کی توہین ہر شخص کے لیے ناقابل برداشت
ہے۔ پوپ فرانسس نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ماں کی گالی بکنے
والے کو مکے کی توقع بھی رکھنی چاہئے‘‘۔
سوال کا آسان فہم جواب ڈھونڈا جائے تو یہ کہہ دینا غلط نہ ہوگا کہ گھونسے
سے بچنے کے لیے ہرزہ سرائی چھوڑ دی جائے۔ لیکن شاتمین رسول نے ڈیڑھ ارب
مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم
ڈیوڈ کیمرون نے اپنے دورہ واشنگٹن کے موقع پر ایک تقریب کے دوران کہا کہ
میڈیا کو حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز سے خطرہ محسوس کرے، اس کا مواد چھاپ دے۔
کاش اس موقع پر کیمرون سے کوئی پوچھنے والا ہوتا کہ پھر ریاستوں میں سنسر
بورڈ کیوں تشکیل دیے جاتے ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں
کسی ملک میں ریاستی سنسرشپ وجود نہ رکھتا ہوں۔ کوئی ریاست بھی مفاد عامہ کے
خلاف میڈیا کا استعمال برداشت نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں جیو ٹی وی کا
معاملہ سب کے سامنے ہے۔ قومی دفاعی ادارے کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے پر جیو کو
سخت نتائج بھگتنے پڑے تھے۔
شاتمین رسول نے توہین رسالت کے جواز کے لیے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کا
نعرہ لگایا ہے۔ لیکن آزادی اظہار رائے پرمغرب دہرے معیار کا شکار ہے۔ یورپ
کی تیرہ ریاستیں جن میں فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں، ہولوکاسٹ پر بات
کرنے کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ پر یقین رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ
دوسری جنگ عظیم میں جرمن نازیوں نے قریباََ ایک کروڑ یہودیوں کا گیس
چیمبروں میں قتل عام کیا تھا۔ یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ پر نظر ثانی کا
مطالبہ کرنا یا اس تحقیق کو جھٹلا دینا، تین سے دس برس قید اور جرمانے کی
سزا کا موجب بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاستی مفاد کے خلاف میڈیا کے
استعمال پر سنسر بورڈ متحرک ہوسکتا ہے اور ہولوکاسٹ پر بات کرنے کی پاداش
میں قید کی سزا ہوسکتی ہے، تو نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کا راستہ
روک کر اشتعال انگیزی کا خاتمہ کیونکر ممکن نہیں ہے؟
انسدادِ توہین رسالت کے ضمن میں راج پال قتل کیس قابل غور ہے۔ برطانوی دور
حکومت میں توہین رسالت کے مرتکب شاتم رسول راج پال کو 1929ء میں غازی علم
الدین نے طیش میں آکر ٹھکانے لگایا۔ قائداعظم محمد علی جناح آپ کے وکیل بنے۔
انہوں نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ غازی علم الدین نے توہین رسالت
پر مشتعل ہوکر راج پال کو قتل کیا ہے۔ اس لیے ملزم کو شک کا فائدہ دیتے
ہوئے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے
یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ توہین رسالت کا راستہ روکنے کے لیے مستقل قانون سازی
کی ضروت ہے، تاکہ اشتعال انگیزی کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے۔ برطانوی حکومت
نے قائداعظم کے اس مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے تعزیراتِ ہند میں 295A کا
اضافہ کیا۔ جس کی رو سے توہین رسالت و مذہب کے مرتکب کے لیے قید اور جرمانے
کی سزا مقرر کی گئی۔ تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان کے دساتیر میں سابقہ
قوانین کا تسلسل برقرار رہا۔ ضیاء الحق کے دور حکومت 1982ء میں اس کی ذیلی
دفعہ 295B کے تحت تحریف و توہین قرآن کی سزا عمر قید مقرر کی گئی۔ تاہم
1986 میں 295C کے تحت پاکستان میں شاتم رسول کی سزا موت مقرر کردی گئی ہے۔
نبی مہرباں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب کو
موت سے ہمکنار کرنا عین انصاف ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آزادی اظہار
رائے کی آڑ میں انبیاء کی عزت و حرمت پر ڈاکہ ڈالے۔ اگر ہتک عزت پر ہر فرد
کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے تو تحفظ ناموس رسالت کے لیے عالمی سطح
پر قانون سازی میں کیا چیز مانع ہے؟ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کے لیے اس
کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ انسداد توہین رسالت کی خاطر 295C کے طرز پر
قانون سازی کرے۔ انبیاء، مقدس کتابوں اور مذاہب کی توہین کا راستہ روکنے سے
ہی اشتعال انگیزی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں امن
اور انصاف کی بات کرنے والے اس اہم مسئلے کے حل کے لیے کس قدر سنجیدگی کا
مظاہرہ کرتے ہیں۔
٭……٭……٭ |