قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔"اور
مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت
اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کرواور سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہو جائے اور
وہ اپنے سینوں پر اوڑھنی کے بکل مار لیا کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں
مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر ،باپ ،بیٹے، بھانجے،بھتیجے،اپنی عورتیں،اپنے
غلام وہ مرد خدمت گار جو عورتوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔وہ لڑکے جو عورتوں
کے پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں(نیز ان کو حکم دو کہ اپنے پاﺅں
زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا
اظہار ہو۔ (النور۔ 30:31)
پردہ ایک عورت کو ہزار فتنوں سے بچاتا ہے اور ہمارا مذہب بھی ہمیں اس بات
کی تلقین کرتا ہے لیکن پھر بھی بہت سے مسلما ن ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات
کو پس پشت ڈال کے اپنی مرضی کے اصول بناتے ہیں اور ان کو معاشرے میں لاگو
کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جب اسلام ایک عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے تو مسلما ن ہونے کے ناطے یہ اس
پہ فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو محترم سمجھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہو ں
نا کہ اپنی مرضی اور خواہشات کو اسلامی تعلیمات اور حکم پر مقدم سمجھے ۔جب
ایک عورت معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی کو اپناتی ہے تو اس کی دیکھا
دیکھی دوسری عورتیں بھی اس کی طرز راہ پہ چلنے کی کوشش کرتیں ہیں جس سے
معاشرے میں یقینی طور پر بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ بے راہ روی کا شکار
ہوتا ہے ۔
جب ہم ویسٹرن معاشرے کی بات کرتے ہیں تو وہاں عورتوں کی ترقی اور ان کہ
حقوق پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن ایک بات جو سوچنے کی ہے وہاں عورت کی
معاشرتی ترقی کے نام پر اس کی عزت کو ملیا میٹ کر دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے
کچھ اسلامی ممالک جن میں پاکستان بھی صف اول میں ہے یہاں بھی مغربی اقدار
کی دیکھا دیکھی عورتوں کو معاشرتی ترقی کے دھارے میں لانے کے نام پربے
پردگی پر اکسایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی لڑکی ملازمت کی غرض سے
کسی ادارے میں جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کے پردے سے متعلق سوال کیا جاتا ہے
اور اس پرنوکری کے لیے یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو معاشرے
کے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالے گی تو ہی وہ اس نوکری کی حقدار کہلائے گی
وگرنہ اس کے لیے اس اداارے میں کوئی جگہ نہیں۔ایک اسلامی مملکت ہونے کے
ناطے بہت ہی شرم کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک ایسی لڑکی کو قبول نہیں
کرتا جو اللہ تعالی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتی ہے اور پردے میں رہتے ہوئے
معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
جب ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ایک اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
رکھتے ہیں تو پھر جب دین میں اپنی مرضی سے چیزوں کو اپناتے ہیں تو اللہ کے
غضب اور غصے کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم
روزہ رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں ،غریبوں کی مدد کرتے ہیں لیکن ان تمام کے
باوجود ہم پردہ نہیں کرتے تو نتیجتا ہم اپنے مذہب سے اختلاف کرتے ہیں۔
یہ بات بہت ہی عجیب اور مضہکہ خیز ہے کہ ہمارے ملک میں وہ خواتین جو کہ مڈل
کلاس اور لوئر کلاس سے تعلق رکھتی ہیں ان میں پردے کا زیادہ رحجان ہے
بانسبت ان خواتین کے جو کہ اپر کلاس سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ دین ایک آسان دین
ہے اس دین میں کوئی تنگی نہیں ایک عورت جب پردے میں ہوتی ہے تو وہ دنیا کی
گندی اور غلیظ نگاہوں سے محفوظ ہوتی ہے جب کہ بے پردگی کرنے والی عورت پر
فرشتے بھی لعن طعن کرتے ہیں ۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پردہ کرنے سے عورت کی کلاس اور اسٹیٹس پر کوئی فرق
نہیں پڑتا ایک عورت پردے میں بھی اتنی ہی حسین وجمیل ہے ،پردہ کرنے سے حسن
پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمارے ہاںخاص طور پر شادی بیاہ پر فضول خرچی کے ساتھ
ساتھ بے پردگی کا بھی دل کھول کر مظاہرہ کیا جاتا ہے جو کہ مسلمان ہونے کے
ناطے بہت ہی شرمناک بات ہے۔ایک طرف تو ہم مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتے
ہیں اور اس بات کا راگ الاپتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان
باتوں سے انکاری بھی ہیں جو کہ ہمیں ایک پکا سچا مسلمان بناتی ہیں ۔اللہ
تعالی نے دین اسلام کو ایک آسان دین بنایا ہے اگر ہم دنیاوی رسم و رواج
کارونا روئے بغیر صرف اسلامی اصولوں پر اپنی زندگیوں کو کار بند کر لیں تو
کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں حقیقی مسلمانیت کا لطف اٹھا تے ہوئے
دنیا اور آخرت میں سر خرو نہ ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کی بقا اور بہتری کے لیے اور معاشرے کو درست
سمت گامزن کرنے کے لیے پردے کو اپنایا جائے اور دوسروں کو بھی اس بات کی
تلقین کی جائے۔وگرنہ بے پردگی کا ناسور نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے
بلکہ اللہ تعالی کے غم و غصے کو بھی دعوت دیتا ہے۔کیونکہ یقنی طور پر اللہ
تعالی کی نافرمانی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے۔اللہ تعالی کی ذات ایسی عالی
شان ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں رکھی بلکہ
اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرنے سے ہم بہت سی ناگہانی آفتوں اور فتنوں
سے محفوظ رہتے ہیں۔
عام تاثر یہ بھی ہے کہ جب کوئی عورت بغیر پردہ کے معاشرے میں moveکرتی ہے
تو وہ ایک مارڈرن خاتون کہلاتی ہے جبکہ یہ تاثر بہت ہی غلط ہے جبکہ ایک
عورت پردے کے اندر رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو نکھار کے معاشرے میں ایک
خوبصورت شخصیت کے طور اپنے آپ کو منوا سکتی ہے۔
جب ہم دین اور دنیا کو کو دو الگ خانوں میں تقسیم کرتے ہیں تو یقینی طور پر
تناﺅ کا شکار ہو جاتے ہیںاور دنیاوی ترقی کی خاطر دینی احکامات کو نظر
انداز کر دیتے ہیںجبکہ مسلمان عورتوں کے لیے حضرت خدیجہ ؓاور حضرعائشہ ؓکی
زندگی ایک مثالی نمونہ ہے ۔ |