تعلیم اور نظامتِ تعلیم
(Roshan Khattak, Peshawar)
تعلیم ہمیشہ سے پاکستان کا ایک
توجہ طلب مسئلہ رہا ہے لیکن بد قسمتی سے گزشتہ ۶۷ سالوں سے کسی حکومت نے اس
مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کو شش نہیں کی۔ہر نئی حکومت تعلیمی پالیسی
بھی بناتی رہی اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کو ششوں کی دعو یدار بھی
رہی مگرحقیقت یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم آج بھی ناقص ہے اور حکومت کی توجہ
کی مستحق ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کی ذمہّ داری مکمل طور پرصوبوں کے
حوالہ کی گئی ہے بوجوہ ہم خیبر پختونخوا میں تبدیلی کی دعوے دار پاکستان
تحریکِ انصاف کی حکومت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ خیبر پختو نخوا میں بہتر
اور دیرپا نظامِ تعلیم کو اپنے تر جیحات میں پہلے نمبر پر رکھے گی ۔موجودہ
حکومت نے اساتذہ کرام اور کلریکل سٹاف کو اَپ گریڈ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے
کہ وہ صوبے میں بہتر اور معیاری تعلیم کی خواہاں ہے ۔مگر ہم سمجھتے ہیں کہ
اگر مو جودہ حکومت محکمہ تعلیم میں مینیجمنٹ کیڈر کو نظر انداز کر دے اور
صرف تد ریسی شعبہ پر ساری توجہ مرکوز رکھے تو وہ نتائج جو عوام یا حکومت چا
ہتی ہے، کبھی حا صل نہیں ہو سکیں گے۔حکومت کو یہ بات مدِ نظر رکھنی چا ہیئے
کہ 2000 میں ایک عا لمی ادارے اور برٹش کو نسل سے حکومتِ پاکستان نے ایک
غیر جانبدارانہ سروے کرایا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ پاکستان میں
نظامِ تعلیم میں اصل اور بنیادی خرابی کیا ہے؟ اس سروے رپورٹ کے مطابق اصل
اور بنیادی خرابی محکمہ تعلیم میں سکولوں اور اساتذہ پر موئثر checkکا نہ
ہونا ہے ،جس کا حل یہ بتایا گیا کہ تد ریسی کیڈر کو مینجمنٹ کیڈر سے الگ
کیا جائے۔اس کے بعد مختلف حکو متوں نے کچھ نیم دِ لانہ کو ششیں بھی کی کہ
ان سفارشات پر عمل کیا جائے اور مینجمنٹ کیڈر کو تدریسی شعبہ سے الگ کیا
جائے مگر بعض قوّتیں ایسا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ اس طرح اساتذہ پر سیاسی
اثر رسوخ ، تبدیلی کا خوف یا کنٹرول ختم ہو نے کا ڈر تھا ۔ لہذا نو سال تک
یہ معاملہ لٹکا رہا اور کسی نہ کسی بہانے اس کے لئے رولز ریگو لیشن بنانے
کے عمل کو ملتوی کیا جاتا رہا آخر 9ستمبر 2009 کو سکول مینجمنٹ کیڈر کی
تشکیل کے لئے قواعد و ضوابط کا اجراء کر دیا گیا اور تمام صوبوں کو ہدایت
کی گئی کہ وہ ایک ایسا مینجمنٹ کیڈر کا انتخاب عمل میں لائیں جو تدریسی
کیڈر سے الگ، سیاسی اثر رسوخ سے پاک اور آزادانہ کام کرنے کی اہل ہو۔اس وقت
خیبر پختونخوا میں اے این پی کی حکومت تھی جس نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کو
انتظامی افسران (گریڈ 16تا گریڈ 19) کے عہدوں کے لئے اہل افرد کے چناوء کی
ہدایت کی۔اگر چہ بعض قوتوں کے طرف سے اسے روکنے کی کو شش کی گئی ،معاملہ
سپریم کورٹ تک جا پہنچا مگر با الآخر فیصلہ مینجمنٹ کیڈر کے قیام پر منتج
ہوا اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ای ڈی اوز،ڈپٹی ڈی اوز اور ڈی اوز کا
چناو کیا گیا۔تقرری ہو نے کے بعد ان انتظامی افسران نے بہ احسنِ تقویم اپنے
فرائض سر انجام دینے شروع کئے اور سکولوں میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ۔
اب گذشتہ چند دنوں سے ہم اخبارات کے صفحات پر مینجمنٹ کیڈر کی طرف سے
احتجاج کی خبریں ملاحظہ کر رہے ہیں ۔جب ہم نے اس احتجاج کی کھوج لگائی تو
بڑے حیران کن معلومات ہم تک پہنچیں مثلا یہ کہ لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ
اور کلرکوں کو اَپ گریڈ کیا گیا ہے ان کے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا
گیا مگر مینجمنٹ کیڈر کے ملازمین کو نظر انداز کرتے ہو ئے اَپ گریڈ نہیں
کیا گیا جو تعداد میں صرف ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ ہیں ۔یقینا اس اقدام سے
مینجمنٹ کیڈر کے حوصلے پست ہو ں گے اور ان کے کام کرنے کی صلاحیّت بری طرح
متا ثر ہوگی جو پہلے سے کمزور اور قابلِ رحم تعلیمی نظام کو مزید کمزور اور
روبہ زوال کرے گی۔ لہذا ہماری گزارش ہے کہ بہتر اور معیاری نظامِ تعلیم کے
فروغ کے لئے مینجمنٹ کیڈر کی فریاد کو بھی سن لے اور محکمہ تعلیم میں موجود
دوسرے اہل کاروں کی طرح ان کے گریڈ بھی بڑھا دئیے جا یئں تاکہ وہ سکون و
اطمینان کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی سر انجام دے سکیں۔ |
|