چھوٹی غلطی پر بڑی گرفت نہیں ہونی چاہیے!

ملک کی راجدھانی دہلی فی الوقت سیاسی پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کا اکھاڑہ بنی ہوئی ہے۔چہار جانب شور شرابہ ،جلسے،جلوس،تقریریں اور اعلانات ہیں کہ جنہوں نے دہلی میں ایک عجیب و غریب ماحول پیداکر دیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ دہلی میں پہلی مرتبہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔اس کے باوجودملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں،ملک میں اہل اقتدار بی جے پی اور سابقہ پندرہ سال دہلی میں برسر اقتدار کانگریس،دونوں ہی کچھ پریشان پریشان دکھ رہی ہیں۔اور ان دوسب سے بڑی سیاسی جماعتوں کی پریشانی دہلی والے واقعی پہلی مرتبہ محسوس کررہے ہیں۔اس پس منظر میں اگر سابقہ الیکشن سال 2013کو یاد کیا جائے ،تو اُس وقت بھی دہلی میں سیاسی بساطبچھائی گئی تھی، اوریہی سیاسی جماعتیں اس وقت بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں۔اس کے باوجود نہ اس وقت اس قدرپریشانی دکھائی دیتی تھی اور نہ ہی اتنا شور شرابہ۔پھر ایسا کیا ہوا کہ چند ماہ کے بعد اُسی شہر دہلی میں جہاں ایک طویل عرصہ سے کانگریس اور بی جے پی ادلا بدلی کا کھیل کھلیتی آئیں تھیں،وہ آج ایک دوسرا کا سہارا بنتی دکھ رہی ہیں۔نہ کانگریس بی جے پی کے کھلاف بہت کھل کر سامنے آرہی ہے اور نہ ہی بی جے پی 'کانگریس مکت دہلی'کا نعرہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔دہلی وہی،دہلی والے وہی،اس کے باوجود ایک بڑی تبدیلی ہے،جو قریب سے بھی اور دور سے بھی بہ خوبی سب کو نظر آرہی ہے۔وجہ؟ جگ ظاہر ہے۔2013ء میں ایک نئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی الیکشن میں حصہ لیا۔ اس وقت نہ لوگوں کو گمان تھا، نہ بی جے پی کو،نہ کانگریس کو اور نہ ہی خود اُس پارٹی اور اس کے نمائندوں و لیڈران کو ،کہ وہ دہلی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن جائیں گے۔لہذا اُس وقت ماحول پرسکون تھا،کانگریس اپنے حصے سے زیادہ حکومت کر چکی تھی، اس لیے اسے کوئی خاص فکر نہیں تھی۔بی جے پی اپنی باری لینے کے لیے تیار اور پر عزم تھی۔لیکن پریشانی اس وقت پیدا ہوئی،جب کانگریس کو امید سے بے انتہاکم اور بی جے پی کو اپنی باری کے آنے میں ،عام آدمی پارٹی کے کامیاب امیدواروں کی شکل میں ،مسائل کھل کر سامنے آگئے۔پھر کیا تھاراز فاش ہو گیا ۔ اہل دہلی تبدیلی کے خواہاں ہیں،وہ نہ کانگریس پر ہی اندھا یقین رکھتے ہیں اور نہ بی جے پی سے کوئی خاص تعلق ۔اور اب چونکہ حریف کھل کر سامنے آچکا ہے،تو کیوں نہ جمہوری نـظام میں قوت،طاقت، دولت، وسائل اور کیڈر ،جوکچھ بھی ہو وہ سب داؤ پر لگا دیا جائے!

جمہوریت کی بہت سی خوبیاں ہیں اور انہیں خوبیوں میں یہ بھی ہے کہ عوامی نمائندہ جو عوام کے ذریعہ منتخب کیے جاتے ہیں،وہ چاہے کتنے ہی داغدار کیوں نہ ہوں،عوا م ان کے حق میں اور ان کے خلاف فیصلہ کرنے کے حقدار ہیں۔لیکن تصور کریں ایک ایسی جمہوریت کی جہاں ہر سطح پر یا بڑی تعداد میں جرائم پیشہ اور داغدار امیدوار موجود ہوں۔ ایسے موقع پر عوام کس کو پسند اور کس کو ناپسند کریں گے؟ممکن ہے کبھی عوام یہ دیکھیں کہ کم داغدار کون ہے تو کبھی علاقہ اور ذات پات کی بنیادوں پر پسند و ناپسندکیے جائیں۔تو یہ بھی ممکن ہے کہ پسند کوئی ہو ہی نہیں،چندنوٹ اور چند شراب کی بوتلیں،امیدوار کی کامیابی کا ذریعہ بن جائیں۔امید وار کی کامیابی کی وجہ کوئی بھی ہو،لیکن یہ جمہوریت ہی کی خوبی ہے کہ وہ ریاست کو ایک 'مستحکم حکومت 'فراہم کرتی ہے۔ٹھیک اسی پس منظر آیئے دیکھیں دہلی اسمبلی انتخابات کے نمائندوں کی پروفائل کیا کہتی ہے؟دہلی الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم نے اسمبلی انتخابات میں اترے 673؍امیدواروں کے ذریعہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے دوران دیئے گئے حلف ناموں کی بنیاد پر تیار رپورٹ جاری کی ہے۔جس میں امیدواروں کی مالی ،فوجداری اور دیگر تفصیلات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والے کل 673؍امیدواروں میں سے 117؍ایسے ہیں جن کے خلاف الگ الگ تھانے میں مجرمانہ معاملے درج ہیں۔74؍امیدواروں کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملے درج ہیں۔8؍امیدواروں نے اپنے اوپر خواتین پر ظلم ڈھانے سے متعلق کیس کی معلومات حلف نامہ میں دی ہے۔ایک امید وار نے اپنے اوپر قتل اور 5؍امیدواروں نے اپنے اوپر قتل کی کوشش سے متعلق معاملے درج ہونے کا اعلان کیا ہے۔وہیں دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو، بی جے پی کے کل 69؍امیدواروں میں سے 27کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں۔جن میں سے 17؍امیدوار ایسے ہیں جن کے خلاف سنگین معاملے درج ہیں۔عام آدمی پارٹی کے کل 70؍امیدواروں میں سے 23؍کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں،جن میں سے 14؍امیدوار ایسے ہیں جن کے خلاف سنگین دفعات کے تحت معاملے درج ہیں۔کانگریس کے کل 70؍میں سے 21؍کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں،جن میں 11؍امید وار ایسے ہیں جن کے خلاف سنگین معاملات درج ہیں۔یہ وہ صورتحال ہے جس کے ہوتے ہوئے ہم اپنا نمائندہ 'اپنی پسندسے'طے کریں گے،اور یہی خوبی جمہوریت کی بقا کیغماز بھی ہے۔

دہلی اسمبلی کے حالیہ الیکشن ہی کے پس منظر میں چند خبریں،جو حالیہ چند دنوں میں واقع ہوئی ہیں،ان پر بھی نظر ڈالتے چلئے،تاکہ اپنی پسند کی حکومت اور اپنی پسند کا نمائندہ طے کرتے ہوئے آسانی ہو۔پہلی خبرجو دراصل لالو پرساد یادو کی طرف سے کیا جانے والا طنز ہے۔لالو یادو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھتے ہیں:ملک کو 100؍روپے کی گنجی-لنگی والا لیڈر چاہیے یا 10؍لاکھ روپے کا سوٹ پہننے والا؟شناخت کپڑوں سے نہیں بلکہ کام سے ہوتی ہے صاحب۔اس کے ساتھ ہی لالونے وزیر اعظم مودی اور اپنی تین تصویریں بھی اپ لوڈ کی ہیں۔وزیر اعظم مودی کی تینوں تصویریں ان کے نام لکھے ہوئے سوٹ میں ہیں۔دوسری خبر مایاوتی سے متعلق ہے۔جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نریندر مودی خواب دکھارہے ہیں،انتخابات سے قبل بدعنوانی مٹانے ،بیروں ملک سے ملک کا کالا دھن واپس لانے ،اورہر غریب خاندان کے اکاؤنٹ میں 15-15لاکھ روپے ڈالنے کی بات کہی تھی۔لیکن آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی نہ تو کالا دھن واپس آیا، اورنہ ہی غیریبوں کو روپے ملے اور دیگر وعدے بھی پورے نہیں کیے۔تیسری خبریوم جمہوریہ کے اشتہار میں لفظ'سیکولر'اور'سوشلسٹ'کا ہے۔ساتھ ہی راجیہ سبھا کیلنڈر سے بھی ان الفاظ کے غائب ہونے کی خبر ہے۔حکومت کی جانب سے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ ہاتھ سے بنایا گیا دستاویز ہے۔جس میں یہ دونوں لفظ شامل نہیں ہیں۔ اور اسی طرح 1950ء میں بھی ،آئین میں یہ دونوں الفاظ نہیں تھے،اسے 42؍ترتیم کے ذریعہ ایمرجنسی کے وقت شامل کیا گیا تھا۔اور آخری خبر یہ کہ جن لوک پال بل کے لیے ملک گیر سطح پر تحریک چلانے والے بزرگ و سماجی کارکن انا ہزارے، کانگریس پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے لیڈراروند کیجریو ال کا مذاق اڑانے والا اشتہار بی جے پی کے ذریعہ شائع کیا گیا۔اشتہار میں نعرہ لکھا گیا ہے:اقتدار کے لیے بچوں کی جھوٹی قسم تک کھاؤنگا اور رات دن ایمانداری کا ڈنکا بجاؤں گا۔اس پر عام آدمی پارٹی نے سخت اعتراض کیا ۔سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بی جے پی کے اشتہار پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو مارا تھا اور بی جے پی نے انا ہزارے کو ماردیا۔دہلی کی موجودہ سیاست کے پس منظر میں یہ چند جھلکیاں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات کیا نتائج دیتے ہیں۔نتائج جو بھی ہوں لیکن یہ بات طے ہے کہ دہلی کے انتخابات اوریہاں کی کامیابی و ناکامی کے اثرات آئندہ دنوں ریاست بہار اور اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف برسر اقتدار بی جے پی اپنی پوری طاقت لگائے ہوئے کہ کسی طرح دہلی میں وہ اکثریت حاصل کر لے تو وہیں عام آدمی پارٹی بھی اپنی سعی و جہد میں مصروف ہے۔کانگریس کو امید ہے کہ سابقہ کے مقابلے اس مرتبہ اس کی ایک دو سیٹیں بڑھ کر آئیں گی۔اس سب کے باوجود سیاسی جماعتوں کے کیڈر کے علاوہ عام شہری کنفیوژ ہیں کہ ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے کس کو اکثرت اور کس کو اقلیت میں رکھا جائے۔اس موقع پر یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت چاہے کسی کی بھی بنے لیکن اپوزیشن بھی مضبوط ہونا چاہیے۔تاکہ مفاد عامہ کے خلاف لیے جانے والے فیصلوں پر گرفت کی جا سکے۔کہیں پارلیمانی انتخابات کی طرح اپوزیشن کا خاتمہ ہی نہ ہو جائے،کہ جس کے بعدملک انتشار میں مبتلا ہو۔وہیں دوسری طرف اگر ایسا ہو جائے کہ ایک نئی طرز حکومت کا وعدہ کرنے والے ،ریاست دہلی کی باگ دوڑ پورے پانچ سال سنبھا لیں،تو کھل کر انہیں بھی جانچنے اور پرکھنے کا موقع مل جائے گا۔کیونکہ وہ لوگ جو کل ہی سیاست میں آئے ہیں، ان کی غلطیوں پر بڑی گرفت نہیں ہونی چاہیے۔گرفت تو ان کی ہونی چاہیے جو ایک طویل عرصہ سے سیاسی میدان میں خدمات انجام دیتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے کام انجام دیں یا نہ دیں،اس کے باوجود وہ کبھی بھی اپنی دنیا سنوارنے سے نہیں چوکے!
Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 146342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.