داستاں کا حسن ٹھہرے داستاں ہونے کے بعد

میرے چہار جانب رونے دھونے کی آوازیں آ رہی تھی ۔میرا مردہ جسم گھر کے صحن میں لوگوں کے ایک ہجوم کے درمیان ایک چارپائی پر کفن میں لپٹا رکھا تھا ۔بین کرتی ، برسوں سے ناراض بہن ، بھیگی پلکیں اور اداس چہرہ لیے وہ بیٹے جنہوں نے کبھی خود سے میری خیریت دریافت کرنا پسند نہیں کیا تھا اور اگر میں ان کو فون کرتا تو وہ مجھ سے بات کرنا تک گوار ہ نہیں کرتے تھے ۔،میری بہو جو میرے کمرے کے باہر سے گزرتے ہوئے کمرے میں آ کر میرا حال پوچھنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ۔ اپنے بچوں تک کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہ دی اور جب میں جاں بلب تھا تو وہ بناؤ سنگھار میں مصروف رہی ۔تازہ مہندی سے رنگے بال لیے آ ج چیخ چیخ کر رو رہی تھی ۔میرا بڑا بیٹا جو مجھے اس لیے ملنا اس لیے گوارہ نہیں کرتا تھاکہ اسے محسوس ہوتا تھاکہ میں نے اس سے کوئی بھلائی نہیں کی آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو رومال سے بار بار صاف کر رہاتھا ۔ اور وہ جو میرا حقیقی وارث تھا میرا چھوٹا بیٹا ۔ نم آنکھیں ، سرخ چہرہ لیے ، ابان پر سورۃ یٰسین کا ورد کرتے ہوئے میرے آخری سفر کی تیاریوں میں مصروف تھا ۔وہ لوگ جنہوں نے مجھے دیکھا تک نہیں تھا وہ بھی رو رہے تھے ۔ کچھ لوگ اونچی آواز میں تلاوت کررہے تھے ۔میری بہن بین کرتے کرتے نڈھال ہو کر میرے مردہ جسم پر گر پڑی تھی ۔ اس کا بین صرف ایک جملے پر مشتمل تھا ۔ہائے میرا اکلوتا بھائی چلا گیا ۔

میں ان سب سے بے نیاز چہرے پر مسکان سجائے ، اس غم پر حیران انھیں دیکھ رہا تھا میں حیران تھا کہ ان سب کو بھلا اتنا غم کیونکر ہوا کہ وہ اس طرح رونے لگے ۔۔ کبھی میرے دل میں خیال آتا کہ ان سب سے پوچوں کہ اگر میں اتنا ہی اہم تھا تو میری زندگی میں پلٹ کر میرا حال تک کیوں نہیں پوچھا ۔ اگر یہ سب میری زندگی میں میر اخیال کرتے تو شاید میری زندگی میں کچھ دن اضافہ ہو جاتا ۔ لیکن اب یہ میری آواز سننے سے قاصر تھے ۔میں ان سب کو یوں روتے دیکھ کر بے زار ہونے لگا تھا ۔ میرے جسم کو قریبا دو گھنٹے تک اسی طرح رکھا گیا ۔

پھر چند منٹ کے بعد ایک مولوی ، گاؤں کے کچھ لوگ اور میرا سب سے چھوٹابیٹا ، جس نے آخر وقت تک میرا خیال رکھا تھاسرخ آنکھیں لیے ،میری چارپائی کے گرد اکٹھے ہو گئے ۔ کسی نے اونچی آواز میں کہا ، راستہ دیں میت کو غسل دینا ہے ۔

میری بہن کی آواز بلند ہونے لگی ۔مت لے کے جاؤ میرے بھائی کو ۔ وہ مسلسل بین کر رہی تھی۔ میری بیوی اٹھنے سے قاصر تھی بنا کچھ کہے ۔ میں اسے دیکھ کر مسکرایا ۔

میرا بیٹا اور گاؤں کا ایک اور لڑکا عورتوں کو پیچھے ہٹاتے میرے پاؤں کی جانب آ گئے ۔پھر سب نے مل کر میری چارپائی کو ایک الگ کمرے میں غسل کے لیے لے جانے کے لیے اٹھایا۔میری بہن نہ جانے کتنے ہی برسوں سے مجھ سے نہ ملی تھی ، میں اس کا چہرہ دیکھنے کوبہتترسا تھا ۔ آج جب میری چارپائی اٹھائی گئی تو وہ میرے چارپائی کے پائے کے ساتھ لپٹ گئی ، نہ دوپٹے کا ہوش نہ لباس کا خیال ۔ ایک لڑکاآگے بڑھا اور بولا خالہ جی جانے دیں آگے ہی بہت لیٹ ہو چکے ۔

چند لمحوں میں میرے جسم کو اٹھا کر ایک کمرے میں لے جایا گیا ۔ ایک نیاسفید لباس کفن کی صورت ، غسل کے لیے ایک نئی صابن کی ٹکیہ موجود تھی ۔میرا واحد لاڈلابیٹا ، جو بھائیوں میں سب سے چھوٹاتھا ، میرے جسم کو غسل دینے لگا ۔میرے جسم کو غسلا کر ایک نئی چارپائی پر رکھ کر اردگرد گلاب کی پتیاں ڈال دی گئی ۔ اور چارپائی پھر سے پنڈال کے بیچ میں لاکر رکھ دی گئی ۔میری چارپائی پھر سیصحن میں رکھے جانے کی دیر تھی کہ باتیں کرتی عورتیں پھر سے بین کرنے لگی ۔ میرا لاڈلا نواسا بھی میری چارپائی کے پاس آن کھڑا ہوا ۔ کبھی سر کی جانب سے ، کبھی پاؤں کی جانب سے میری چادر کو کھینچتا اور بار بار اپنی ماں سے کہے
ماما ! ۔۔نانا ابو اتنی دیر سے سو رہے ہیں کب اٹھیں گے ۔ پھر مجھے پکارے ۔نانا ابواٹھیں نا ۔ ماما !ناناابو کو جگائیں ناں ۔۔۔

میرا دل چاہا کہ اٹھوں اور ہمیشہ کی طرح اس ما منہ چوم لوں لیکن آج میں یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا ۔عورتیں اس کو پیچھے ہٹاتی اوربین کرتی رہتی رہی۔

اب یہاں میرا دم گھٹنے لگا تھا میرا دل چاہا کہ جلد از جلد میرے جسم کو ان دکھاواکرنے والے لوگوں کے بیچ سے اٹھا لیا جائے ۔ لیکن ساتھ ہیہی لوگوں کو ابھی بھی میرے اس بیٹے کا انتظار تھاجو ابھی تک نہیں پہنچ پایا تھا کہ شاید وہ میرا چہرہ دیکھنے ہی آ جائے۔ لوگ اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ جو کبھی میرے پاس اس لیے نہیں بیٹھا تھا کہ اسے مجھ سے بدبو آتی تھی ، دوائیوں کی ، الٹی کی اور بیماری کی وہ کس لیے میرے مردہچہرے کو دیکھنے آتا ۔ اور میری یہ خواہش تھی کہ وہ میرا چہرہ نہ دیکھ سکے مبادا اس کہ بدبو اسے تنگ کرے گی ۔ اور وہ آبھی نہیں پایا ۔

مولوی حضرات بار بار عورتوں کو میرے جسم سے دور ہٹنے کے لیے اونچی آواز میں منع کر رہے تھے ۔ اب میری نسل سورت یٰسن کی تلاوت کرنے لگی تھی ۔ ان کی بھیگی آواز مجھے حیرت میں مبتلا کر رہی تھی ۔میں اتنا اہم تو کبھی نہیں تھا کہ اس قدر غم زدہ ہوا جائے ۔ اب میں تھکنے لگا تھا ۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا ۔ ضنازے کا مقررہ وقت طویل سے طویل تر ہوتا جا رہاتھا چند لوگوں کے علاوہ ان ریاکاروں کے بیچ وقت گزرنا بے حد تکلیف دہ تھا ۔

بالآخر یہ وقت کٹتے کٹتے کٹ ہی گیا ۔ مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ اب چارپائی اٹھائی جائیگی ۔ میں مسکرانے لگا
آہ ! سکون ! ایک ابدی سکون !

میری بہن ، میری بہویں اونچی آوازمیں چلانے لگی اور میری بیٹیوں کو چیخ چیخ کر کہنے لگی کہ باپ کو روک لو ۔ میں حیران تھا کہ میرے مردہ جسم کی اب ان کو کیا ضرورت ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے ۔

چند لوگمیری چارپائی کو اٹھا کا کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جنازہ گاہ کی طرف چلے ۔ میری بہن جو مجھ سے کبھی ملنے کی روادار نہ تھی آج میری میت کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ کسی نے اسے پکڑ کر روکا ۔ وہ زمیں پر بیٹھتی چلی گئی ۔ساتھ ہی باقی عورتیں بھی روتے روتے چپ کر گئی اور میری بین کو دلاسا دینے لگی ۔

میری میت کو جب دفنانے کا وقت آیا تو صرف ایک بیٹے کہ جوکہ میرا حقیقی وارث تھا اس نے میرے جسم کو سہارہ دیا باقی بیٹے نہ جانے کہاں گئے ۔وہ میری لحد میں مجھ سے پہلے اترامیرے جسم کو سہارا دے کر مجھے میری ابدی آرامگاہ میں اتار دیا ۔

دن گزرتے گئے ۔ میری نسل کئی روز تک غریبوں میں کھانے کی دیگیں بانٹتے رہی ۔عورتیں روز رات کو آتی اور میر ی بیوی کے گلے لگ کر بہت سے دن روتی رہیں ۔میری بہوئیں تسیح ہاتھ میں لے کر روتی رہی لیکن ان کا یہ سوگ منانا ، رونا دھونا میری زندگی میں کئے گئے برے سلوک کا نعم البدل نہیں تھا ۔

آج میں اس تمام داستان کا مرکزی کردار تھا ۔ایک ایسا کردار جو اپنی ہی زندگی کی بازی اپنوں کے رویوں کی بدولت ہار گیا تھا ۔ میں داستاں کا حسن تو تھا مگر داستاں ہونے کے بعد
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164273 views i write what i feel .. View More