ثناء ایک اچھے خاندان کی لڑکی
تھی۔ اس کے والد اسماعیل، تحصیلدار آفس میں کلرک تھے۔ بڑے ایماندار تھے۔
اخراجات اور آمدنی کی کھینچا تانی کے باوجود گھر گِرہستی اچھی طرح سے چلا
رہے تھے۔ایک لڑکا ، دو لڑکیاں، بیوی اور بوڑھی ماں کے علاوہ دو بیاہی بہنیں
بھی تھیں۔جو اکثر بھائی کے گھر آتی تھیں۔اور انہیں کچھ نہ کچھ دے کر ہی
سسرال بھیجنا پڑتا تھا۔ ثناء بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ چھوٹی بہن شائستہ
دسویں جماعت میں تھی اور بھائی وسیم آٹھویں جماعت میں۔ ماں باپ کو اعلیٰ
تعلیم دلانے کا شوق تھااور بچّے بھی بڑے ذہین تھے۔ ثناء نے کالیج میں داخلہ
لے لیا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ اُسکے ابّو کن مشکلات سے دو چار ہو کر اُسے
کالیج میں پڑھا رہے ہیں۔وہ اپنے ابّو کے خوبصورت چہرے پر پریشانیوں کے بل
ہمیشہ دیکھتی۔ امّی (زینت) کیا کرتی۔کم پڑھی لکھی تھی۔ پروین ہر وقت اپنے
ماں باپ کے بوجھ کو بانٹنے کی کوشش کرتی رہتی۔ اِسکا ارادہ تھا کے وہ بی۔
اے پاس کرکے سِول سروِس امتحان کی تیاری کرے اور افسر بنے۔
ایک دن پروین نے اپنے ابّو سے کہا۔
ثناء : ابّو ، آپ دیکھنا ایک دن میں سِول سروِس کی امتحان پاس کرکے افسر
بنوں گی۔
اسماعیل : بیٹی ، تم ضرور افسر بنو گی۔
ثناء : سنجیدہ ہو کر ، ابّو میں افسر بن کر آپ کا بوجھ ہلکا کروں گی۔
زینت : بوجھ تو بیٹے بانٹتے ہیں۔ بیٹیاں تو خود ماں باپ پر بوجھ ہوتی ہیں۔
ثناء : مُنہ پُھلا کر بولی ۔ غلط سوچ ہے آپکی ۔ آپ دیکھئے گا میں ابّو کا
بوجھ کیسے بانٹتی ہوں۔
اسماعیل : زینت سے مخاطب ہو کر ۔ میری بیٹی میرے لئے بوجھ نہیں ہے اور تم
آئندہ سے ایسی بات مت کرنا۔
زینت : کبھی نہیں کہوں گی۔
اسماعیل : ثناء کے سر پر شفقّت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ، میری بیٹی افسر بھی
بنے گی اور اپنے ابّو کا نام روشن کرے گی۔
( بس خدا ہی جانتاتھا کہ اسماعیل کی یہ آرزو پوری ہوگی یا نہیں۔ )
دن گذرتے گئے ثناء کی محنت جاری تھی ۔ بی ۔اے سالِ اوّل اور دوّم میں
ڈسٹنگشن Distinction کر کے بی۔اے سالِ سوّم کے امتحان کی تیاری کر رہی
تھی۔اسی دوران اُس کی قریبی سہیلی گلزار کی شادی تھی۔ اِس کا شادی پر جانا
ہی اِ سکے خواہشوں پر پانی پھیر گیا۔ سچ ہی کہتے ہیں ہر کسی کو مکمل جہاں
نہیں ملتا ، کسی کو زمیں تو کسی کو آسماں نہیں ملتا ، گلزار کے والد شہر کے
نامور امیروں میں سے تھے۔شادی کا انتظام بڑے ہو ٹل میں کیا تھا۔ شہر کی بڑی
بڑی ہستیاں وہاں موجود تھیں۔ثناء کو ان سب چیزوں سے کیا لینا دینا تھا۔ وہ
تو بس اپنی سہیلی کی شادی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ آگئی۔حُسن اُسنے ورثے
میں پایا تھا۔ذرا سا سج دھج جاتی تو سب کی آنکھوں کا نور بن جاتی۔ میک اپ
سے اِسے دلچسپی نہ تھی اور نہ دوسروں کی طرح جگمگاتے زیور ، آرٹیفیشل
جیولری Artificial Jewellary پہننے کا اِسے شوق تھا۔لیکن سب کچھ نہ ہوتے
ہوئے بھی اُسکی سادگی میں اتنا کچھ تھا کہ دولہے کے ساتھ آئے ہوئے اُسکے
عزیز دوست زاہد کی نظر اُس پر پڑگئی اور ایسی پڑی کہ واپس لوٹنا بھول گئی۔
زاہد ہوٹل مینیجمنٹ Hotel Management کا کورس مکمل کر کے دوبئی Dubai میں
ملازمت کر رہا تھا۔اچھی خاصی تنخواہ تھی۔ اس کے ساتھ اچھے عادات و اخلاق کا
مالک تھا۔ اسکا خاندان بھی شہر کے نامور گھرانوں میں ایک تھا۔ وہ دو سال کے
بعد دو مہینے کی چھٹی پر گھر آیا ہواتھا۔ اِسی دوران دوست کی شادی میں
اُسکا جانا ہوا۔
شادی میں بہت سی لڑکیاں میک اپ ، قیمتی جوڑوں میں آئی ہوئی تھیں مگر ثناء
کی خوبصورتی نے زاہد کو اُسکا دیوانہ بنا دیا۔وہ جتنی دیر وہاں رہا اُسے
صرف وہی نظر آئی۔ ثناء کو پتہ بھی نہ تھا کہ کوئی اُسکی زلف کا شکار ہو گیا
ہے۔
کہتے ہیں کہ اگر انسان کسی چیز کو سچّے دل سے چاہے تو کائنات کی ہر شئے
اُسے اُس سے ملانے کے لئے لگ جاتی ہے اور زاہد بھی ثناء سے سچّی اور پاک
محبت کرتا تھا۔ شادی کے کچھ دنوں بعد زید نے اپنے دوست آصف کے ذریعہ ثناء
کا پتہ لگا لیا۔زاہد ہوٹل میں آصف کا انتظار کر رہا تھا اتنے میں آصف
آپہنچا۔
زاہد : کتنی دیر لگادی بھائی تم نے؟
آصف : ( سانس پھولتے ہوئے ) ٹریفک میں پھنس گیا تھا اس لئے دیری ہوئی۔
زاہد : رہنے دو ! اُس لڑکی کے تعلق سے کچھ معلوم ہوا ؟
آصف : ہاں بھائی۔ لڑکی کا نام ثناء ہے۔ وہ بی۔اے کر رہی ہے۔
زاہد : ( جلدی میں ) فیملی بیک گراوئنڈ ؟
آصف : مِڈل کلاس فیملی ہے مالی طور پر تمہارے ہم پلّہ نہیں۔
زاہد : مجھے اُسکی دولت سے نہیں لڑکی سے شادی کرنی ہے۔
آصف : کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ لو۔
زاہد : وہ سب چھوڑو۔ لڑکی اور اُس کے خاندان والے کیسے ہیں ؟
آصف : لڑکی اور اُسکے گھر والوں کی شرافت ؟ یوں سمجھ لو محلّے میں اُن سے
زیادہ معزز کوئی نہیں۔
زاہد : پھر ٹھیک ہے۔ میں امّی سے بات کروں گا۔تمہارا بہت شکریہ۔
اتنا کہہ کر زاہد وہاں سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھر میں زید کی امّی
زُلیخا اور زاہد کی بڑی بہن عائشہ ، جنکی شادی پانچ سال پہلے ہوچُکی تھی
انہیں ایک بیٹا بھی تھا۔وہ زاہد کی اکیلی بہن تھیں اور زاہد بھی اپنی امّی
کا اکیلا لاڈلہ بیٹا تھا۔ عائشہ گورنمٹ ہائی سکول میں ٹیچر تھیں۔چائے پی
رہی تھیں اور اتفاق سے زاہد کی شادی کے تعلق سے شہر کے مالدار لڑکیوں کا
ذکر کر رہے تھے۔ زاہد بھی ان میں شامل ہو گیا۔تھوڑی دیر وہ سُنتا رہاپھر
ہمت جُٹائی اور بڑی بہن سے کہنے لگا۔
زاہد : آپا میں نے لڑکی دیکھ رکھی ہے۔
عائشہ : ( چونک کر ) کیا ؟ کسی سے محبت کرتے ہو ؟
زاہد : نہیں۔
عائشہ : پھر۔
زاہد : میرے دوست کی شادی میں دیکھا تھا۔ میں نے پتہ بھی لگا لیا۔ ہمارے
قریبی گاؤں ہی میں رہتے ہیں۔ لڑکی اچھے اخلاق کی مالک ہے اور لوگ اُنکے
خاندان کی بڑی عزت کرتے ہیں۔
عائشہ : واہ بھائی ! تم تو چھپے رُستم نکلے ۔لڑکی بھی دیکھ لی اور پتہ بھی
لگالیا۔
زُلیخا کو اِس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی پسند سے
کرنا چاہتی تھی۔ اور چاہتی تھی کے اُسکی شادی کسی مالدار گھرانے میں ہو۔
اُسے ایسی بہو چاہئے تھی جس کے شانداراور قیمتی جہیز کے چرچے لوگ برسوں
کریں۔ مگر یہاں تو بازی اُلٹ گئی تھی۔ زُلیخا نے بُرا سا چہرہ بنایا اور
خاموش رہی۔ کئی دن بحث چلی ۔ لیکن زاہد اپنی بات پر اڑا رہا ۔آخر کارگھر
والوں کو اس کی بات ماننی پڑی۔چنانچہ زُلیخا ، عائشہ اور اُسکے شوہر مل کر
ثناء کے گھر گئے۔گھر تو بہت چھوٹا تھا۔ فِکر میں تھے کے لڑکی کیسی ہوگی۔
اتنے میں ثناء کی پھوپھو اُسے باہر لے کر آئیں۔ثناء جو حُسن کی ملِکہ تھی
اُسمیں کیا نُقص نکالتی۔پہلی نظر میں تینوں نے اُسے پسند کر لیا۔مگر زُلیخا
کو اب بھی جہیز کی فِکرتھی۔ بہرِ کیف لڑکی پسند کرلی۔ثناء کے ابّو اور امّی
بہت خوش ہوئے۔ اپنی بیٹی کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔کیونکہ زاہد کے گھر والے
شہر کے بڑے امیروں میں سے تھے۔اور وہ بھی اچھی شخصیت کا مالک تھا۔پھر کیا
تھاشادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔رکھی رکھائی پونجی تو تھی نہیں۔ کچھ بینک سے
قرض لیا اور ایک عام سا جہیز تیار کیا جسمیں دو تولے کا نیکلیس ، دس جوڑے ،
فرنیچر وغیرہ شامل تھے۔
ثناء کی ایک ہمت والی، عقل مند لڑکی تھی۔ اُس میں وقت کے ساتھ چلنے کی
صلاحیت موجود تھی ۔ ایک طرف اُسکی پڑھائی روکنے کا افسوس تھا پر دوسری طرف
وہ اپنی قسمت پر جھوم اُٹھی۔ اتنا اچھا گھر ، ٹوٹ کر چاہنے والا شوہر ہر
کسی کو نہیں ملتا۔ لیکن خوشی کا یہ نشہ زیادہ دن نہ رہا۔معمولی جہیز کو
زاہد کی امّی کیسے بھُلا سکتی تھی وہ اندر ہی اندر بھڑاس نکالنے کی تلاش
میں تھی۔ زاہدکے گھر سے باہر نکلتے ہی ثناء پر ٹوٹ پڑتی، ہمیشہ اُسکے ماں
باپ کو بُرا بھلا کہتی۔ ثناء صبر کرتی۔ زاہدکی چھٹیاں ختم ہونے کو آئی
تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ جانے کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ اُس کے فلائٹ Flight
کی ٹکٹ بھی بن چُکی تھی۔ ثناء سمجھدار تھی۔ چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنا
درد اُس سے نہ کہتی۔ زاہد اُس سے بڑی محبت کرتا تھا۔ شوہر کی محبت سے ساس
کے زخمی نشانوں کو دھونے کی کوشش کرتی۔ مگر دن بدن معاملہ بڑھتا گیا۔ اب
اُس سے صبر نہ ہوتا۔ پھر ایک دن موقع دیکھ کر ثناء نے کچھ باتیں زاہد کو
بتائیں پر وہ چُپ ہوگیا ، کرتا بھی کیا ایک طرف ماں تو دوسری طرف بیوی۔
تھوڑی دیر بعد ثناء سے کہنے لگا تم ذرا ذرا سی بات کو دل پر مت لو۔ امّی دل
کی بُری نہیں ہیں۔ میں ہر وقت تمہارا ساتھ دوں گا ۔ تم ان باتوں کو ہنس کر
سہہ لیا کرو۔ میں موقع دیکھ کر امّی سے بات کروں گا۔
زاہد بھی اپنے ماں کی بہت عزّت کرتا تھا۔ والد صاحب ( غفّار ) کا انتقال
بھی پانچ سال پہلے ہو چکا تھا اب لے دے کر ایک ماں اور ایک بہن تھی ۔ ماں
سے زبان درازی کرنا اُس کے بس کی بات نہ تھی اُس نے ثناء کو دلاسہ دینے کے
لئے یہ بات کہی تھی۔ لمحے گذرتے گئے وقت قریب ہوتا گیا زاہد کی رُخصتی کا
پل آگیا۔ بہن ، بہنوئی بھی گھر آئے ہوئے تھے سب نے خوشی خوشی زاہد کو رُخصت
کیا۔ پر ثناء فکر مند تھی کیونکہ زاہداب دو سال تک آنے والا نہیں تھا۔
دن گذرتے گئے زُلیخا اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی۔ معصوم موم کی طرح نازل
دل رکھنے والی لڑکی پتھر کا کلیجہ کہاں سے لاتی۔ جو والدین کی بے حُرمتی
سہے جاتی۔ بس یہ حالات چل ہی رہے تھے کہ ثناء کے بی۔اے فائنل کے نتیجے
آگئے۔ جس میں اُس نے یونیورسٹی کو ٹاپ Top کیا تھااور وہ گولڈ میڈل Gold
Medal کی مستحق بن گئی تھی۔ یہ بات سُن کر ساس کو اور تکلیف ہوئی وہ بھلا
اُس کی خوشی کیسے دیکھ سکتی تھی۔ اُس نے اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے
ایک پلان Plan تیار کیا۔ وہ اس پلا ن کے ذریعے ایک تیر سے دو نشان لگانا
چاہتی تھی۔ پہلا تو یہ کہ کسی طرح ثناء کو بہلا پُھسلا کر آ گے پڑھنے کے
لئے تیار کرنا اور اس کے ماں کے گھر پڑھائی کا بہانہ بنا کر بھیج دینا ،
دوسرا زاہدکو غلط بات کہہ کر بھڑکانہ کے تیرے باہر ( دوبئی ) جاتے ہی اُس
نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور ماں کے گھر چلی گئی۔ اس پلان سے ثناء اور
زاہد دونوں جُدا ہوجاتے اور زُلیخا کا زیادہ جہیز کا سپنا زاہد کی دوسری
شادی کر کے پورا ہو جاتا۔
شام کے وقت ثناء اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی کسی کی آہٹ پاکر وہ اُٹھ
گئی دیکھا تو وہ زُلیخا تھی۔
ثناء : امّی جی۔ ( سر پر پلّو لیتے ہوئے )
زُلیخا : ہاں بیٹی ۔ تجھ سے کچھ بات کرنی تھی۔
ثناء : جی امّی کہئیے۔
زُلیخا : بیٹی تو اکیلی بیٹھی بیٹھی تھک جاتی ہے۔ کیوں نہ تم اپنے گھر چلی
جاؤ۔ وہاں رہ کر اپنی پڑھائی کرو اور تمہارا جو خواب ہے سِول سروس امتحان
پاس کرکے افسر بننے کا پورا کرو۔
ثناء : ( پہلے تو اسے اپنی ساس کی باتوں پر حیرانی ہوئی ) نہیں امّی جی۔
میں یہیں رہوں گی۔ اب پڑھائی کرنے کا میرا من بھی نہیں ہے۔ ( ساس کا دل
رکھنے کے لئے اس نے یوں کہا ورنہ وہ آگے پڑھنے کے لئے بے چین تھی ۔)
زُلیخا : تو زاہد کی فکر مت کر۔ میں اُسے سمجھا دوں گی۔ تو میری بات مان
چلی جا۔
آخر کار ثناء بات مان گئی۔ زُلیخا دل ہی دل میں خوش ہو نے لگی۔ اُسے یقین
تھا نہ تو یہ سِول سروس کا امتحان پاس کرے گی اور نہ افسر بنے گی دوسرا
میرے بیٹے کی زندگی سے میں اسے دور کردوں گی۔اب زُلیخا دیر کیوں کرتی۔
دوسرے ہی دن ثناء کو لے کر اس کے گھر چلی گئی ماں باپ کیا کرتے۔ بیٹی تو
انہیں بوجھ نہیں معلوم ہوتی اور ساس کی خواہش تھی کہ وہ آگے پڑھائی کرے او
ر زاہدبھی تو اب دو سال بعد آنے والا تھا۔ مان گئے۔
اس طرح زُلیخا اپنے پہلے پلان میں کامیاب ہوگئی اب اُسے زاہد کو بھڑکانہ
تھا۔ زاہد پہلے تو ماں کی باتوں میں نہیں آیا۔پھر زُلیخا نے بتایاکہ تیرے
جانے کے بعد وہ اندر ہی اندرناراض ہو رہی تھی اُسے پڑھائی کا شوق تھا شاید
ماں باپ نے زبردستی شادی کروائی تھی اور تو بھی چلا گیا اس وجہ سے وہ ہم سب
سے بیزار ہوکر اپنے سامان کے ساتھ مائکے چلی گئی۔ زاہد کو تھوڑا شک یہ ہو ا
کہ ہاں ! اُسے پڑھائی کا شوق تو تھا بس یہ شک اُس کے دماغ میں گھر کرنے لگا
اور سچ ہی ہے شک اگر زیادہ دن دماغ میں رہے تو یقین میں بدل جاتا ہے اور
ایسے ہی ہوازاہد کو یہ بھی نصیب نہ ہوا کہ ثناء سے بات کرکے سچائی معلوم
کرے۔
دوسری طرف ثناء ان سب باتوں سے انجان اپنی پڑھائی میں مصروف تھی۔ اپنے شوہر
کی محبت کو یاد کرتی اور اُمید کرتی کہ میں افسر بنوں گی اور شوہر کے ساتھ
اپنے ماں باپ کا نام بھی روشن کروں گی۔ اُگتے سورج کو بھلا کون روک سکتا
ہے۔ وقت گزرتا گیا ثناء کا حوصلہ بڑھتا گیا اس کی انتھک محنت منزل کو اُس
سے قریب کررہی تھی۔ آخر کار امتحان کا دن آگیا۔ ثناء نے صبح کی نماز ادا کی
ماں باپ کی دُعاؤں کے ساتھ شوہر کی محبت کو یاد کیا اور امتحان کے لئے
نکلی۔ ذہین بچوں کو امتحان دینے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ لہٰذا اس نے بھی
بھروسے Confidence کے ساتھ امتحان دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد امتحان کے نتیجے
آئے۔ نتائج سُن کر ثناء خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی کیونکہ وہ پوری
ریاست میں پہلے نمبر پر تھی۔ اُس کی اس قابلیت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اسے
تحصیلدار کا پوسٹ Post عطا کیا۔اسماعیل اپنی بیٹی کی اس کامیابی پر بہت خوش
ہوئے اُنکا سر آج فخر سے اونچا ہو گیا تھا۔ زینت کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بھائی بہن نے خوشی کا جشن منایا۔ مگر ثناء کو اندر ہی اندر اُس کے شوہر سے
دوری کی بات ستائے جا رہی تھی۔ ڈیڑھ سال گزرچکا تھا اب بھی چھے مہینے باقی
تھے۔ ساس اس دوران ایک مرتبہ بھی گھر نہیں آئی تھی۔زاہد کی بہن عائشہ ایک
مرتبہ حال دریافت کرکے چلی گئی پھر دوبارہ نہ آئی۔ اسماعیل اور زینت کو فکر
ہو نے لگی تب ثناء نے اپنی ساس کے بارے میں اُن کو بتلایا۔ اسماعیل نے اُسے
صبر کرنے کو کہا۔ جب تیرے شوہر آئینگے ہم بات کریں گے۔اُدھر زُلیخا امیر
لڑکیوں کی ایک فہرست بنا کر بیٹھی ہوئی تھی تاکہ بیٹے کے آتے ہی اُ س کی
دوسری شادی کردوں۔ ثناء ان سب جھمیلوں سے بے خبر تھی۔
زاہد کی آنے کی خبر سُن کرعائشہ گھر آئی ہوئی تھی۔عائشہ کو بیسٹ ٹیچر
ایوارڈ Best Teacher Award سے سرفراز کیا گیا تھا۔ جس کو لے کر شہر میں
ٹیچرس ایسوسی ایشن Teachers Association نے مل کر اُس کے اعزاز میں ایک
فنکشن منعقد کیا تھا۔ عائشہ نے مناسب سمجھ کر زاہد اور ماں کو فنکشن میں
آنے کی دعوت دے دی۔ بہن کی دعوت قبول کرتے ہوئے زاہد اور زُلیخا دوسرے دن
فنکشن جا پہنچے۔شہر کے بڑے تعلیم یافتہ لوگ آئے ہوئے تھے مجمع بہت بڑا تھا۔
سب لوگ چیف گیسٹ Chief Guest کے انتظار میں تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں چیف گیسٹ
کی کار آگئی۔ کار کے اوپر لال بتّی تھی لگتا تھا کہ کوئی گورنمنٹ کا اعلیٰ
افسر ہو گا۔ کار کا دروازہ جب کُھلا زاہد ، عائشہ اور خاص کر زُلیخا حیران
رہ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ افسر کوئی اور نہیں بلکہ اُن کی اپنی
ثناء تھی جو اب ضلع کی تحصیلدار بن چُکی تھی۔زُلیخا اپنی بہو کو اس حالت
میں دیکھ کر دنگ رہ گئی اُسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اُس نے اُس کو اُس
کے گھر پڑھائی کے لئے بھیج کر اچھا کیا یا خود کے پیر پر کُراڑھی مارلی۔
زُلیخا کا جہیز کا گھمنڈ چُور چُور ہو چُکا تھا۔پر زاہد دل ہی دل میں اپنی
بیوی کی کامیابی کو دیکھ کر فخر Proud محسوس کر رہا تھا۔ ثناء اپنے گھر کے
افراد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی پر موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ اسٹیج
کی طرف بڑھی۔چیف گیسٹ کی حیثیت بالکل آسمان میں چاند کی طرح ہوتی ہے اور
یہاں ثناء چاند سے بھی زیادہ چمک رہی تھی۔عوام الناس سے بات کب تلک چھُپ
سکتی ہے بات آگ کی طرح پھیل گئی کہ ثناء ، زاہد کی بیوی ، زُلیخا کی بہو
اور عائشہ کی بھابی ہے ۔ لوگ زاہد ، زُلیخا اور عائشہ کو مبارکباد دینے
لگے۔ثناء کے ہاتھوں عائشہ نے بیسٹ ٹیچر کاایوارڈ حاصل کیا۔ یہ دیکھ کر
زُلیخا کے آنکھ سے آنسو گرنے لگے۔ فنکشن ختم کر کے وہ گھر چلے گئے۔ زُلیخا
نے پوری سچائی کے ساتھ تمام احوال زاہد کو سُنائے۔ زاہد کو یہ سب سُن کر
اپنے اوپر شرم آنے لگی۔اس نے پاک دامن بیوی کا بھروسہ توڑ دیا تھا۔ سب کو
بہت افسوس ہوا۔
آخر کار زاہد، زُلیخا ،عائشہ اور اُس کے شوہر ، ثناء کے گھر گئے۔وہ اب
گورنمنٹ کواٹرس Govt Quaters میں رہ رہے تھے بہت بڑا بنگلہ تھا۔ ان سب کو
یہ احساس ہو چُکا تھاکہ ثناء کسی نگینے سے کم نہیں ۔ ثناء کے اندر اُس کے
ماں باپ نے اچھے اخلاق کوٹ کوٹ کر بھر دئے تھے وہ پرانی بیتی باتوں کو بھول
گئی ۔ اُس کی ساس اور شوہر کا مُرجھایا ہو اچہرہ اُسے اچھا نہیں لگ رہا تھا
اُس نے فوراً سب کو معاف کر دیا۔ زُلیخا نے اسماعیل سے سنجیدہ حالت میں
کہا۔ میں بے وقوف تھی جو دنیا کی دولت کو اہمیت دیتی تھی اصل دولت تو ہماری
نیک صالح اولاد ہے اور وہ علم جو ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں جو اُنہیں
اچھے اخلاق پیدا کرنے کے لئے فروغ دیتا ہے اور یہ اچھے اخلاق دنیا میں
انسانیت Humanity کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس کے بعد پورے جاہ و جلال کے ساتھ
وہ ثناء کو اپنے گھر لے گئے۔ |