عالم اسلام ایک عظیم مدبر سے محروم

مملکت سعودیہ العربیہ کے فرمانروا و خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود طویل علالت کے باعث جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب قضائے الہیٰ سے انتقال فرما کرگئے، مرحوم شاہ عبداللہ یکم اگست 1924 کو ریاض میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم شاہی محل میں حاصل کی شاہ عبداللہ کو شاہ عبدالعزیز کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے ان کے مذہب، تاریخ اور عرب ثقافت کے لیئے گہرا احترام پیدا ہوا، بدوی قبائل کے ساتھ گزرے طویل مدت کے دوران انہیں ان کے رسوم و رواج، سادگی، سخاوت اور شجاعت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کے دل میں عوام کی ترقی و مدد کی خواہش پیدا ہوئی۔

1953 میں شاہ عبدالعزیز کی وفات سے لے کر اب تک ان کے 36 بیٹوں میں سے صرف پانچ ہی تخت نشین ہوسکے جن میں شاہ سعود، شاہ خالد، شاہ فھد ، شاہ عبداللہ اور شاہ مقرن شامل ہیں۔

مرحوم شاہ عبد اللہ کا شمار سعودی عرب کے ان حکمرنوں میں ہوتا ہے جن کے دور حکومت میں مملکت سعودی عرب نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی ترقی اور خوشحالی کے نئے باب رقم کیئے گئے ان کی کامیابیوں کا سلسلہ کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں ہے معیشیت، تعلیم، صحت، بجلی، پانی، زراعت، سوشل ویلفیئر، نقل و حمل، مواصلات، صنعت، تعمیرات غرض کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے ماضی کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ بنادیا۔

2005 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے ترقی کو اپنے عہد کا نصب العین قرار دیا اور بہت سے اپنے اقتصادی، معاشرتی، تعلیمی، اور صحت کے منصوبے شروع کیئے جن سے پوری مملکت سعودی عرب میں ایک تبدیلی آئی انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شرفین کی توسیع کے منصوبے شروع کیئے 19 اگست 2011 کو مسجد الحرام کے ایک عظیم الشان تاریخی توسیع پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جس کی تعمیر کے بعد اس عمارت میں 25 لاکھ نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوئی اس منصوبے پر 80بلین سعودی ریال خرچ ہوئے اس عمارت کے مرکزی دروازہ کانام باب شاہ عبداللہ ہوگا۔ جس پر دو بڑے مینار بنائے جائیں گے یوں حرم شریف کے کل میناروں کی تعداد 11 ہو جائے گی یہ توصیع منصوبہ مسجد الحرام کے شمال اور مغرب میں واقع چار لاکھ مربع میٹر اراضی پر محیط ہوگا اس میں مطاف کی توسیع بھی شامل ہے۔

شاہ عبداللہ نے مسجد نبوی کی توسیع کے احکامات بھی صادر فرمائے جس سے مسجد نبوی میں مزید 16 لاکھ نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوسکے گی مسجد نبوی کی یہ توسیع حجاج کرام اور زائرین کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے کی جارہی ہے تاکہ وہ مزید آرام اور سہولت کے ساتھ مسجد اور اس کے گرد و نواح میں آسکیں، مسجد نبوی کی یہ توسیع شاہ عبداللہ کی ان کاوشوں کا تسلسل ہے جو وہ اسلام و مسلمانوں کی خدمت کے لیئے سرانجام دیتے رہتے ہیں توسیع کا یہ منصوبہ تین مراحل میں انجام پذیر ہوگا۔

شاہ عبداللہ نے ترقی یافتہ پذیر ممالک کی امداد کے لیئے سعودی ترقیاتی فنڈ کے عمل کو بھی مزید مضبوط کیا اور ان کے دور میں مملکت سعودی عرب ان ممالک کی امداد میں پیشن پیش رہی جنہیں قدرتی آفات یا داخلی جنگوں کا سامنا رہا ہے شاہ عبداللہ کے اور بھی بہت سے منصوبے جات اور اہم ترین کامیابیاں ہیں جن کی وجہ سے تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

شاہ عبداللہ تقریباً دس سال ملک کے سربراہ رہے ان کا یہ دور ملک کی ترقی کا ایک اہم باب تھا حرمین شریفین کی جدید توسیع، جامع اور تیز ترین تعلیمی و معاشی اصلاحات اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، شاہ عبداللہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ملکی ترقی کا اصل راز پڑھے لکھے عوام ہیں، صرف 2013 میں سعودی عرب نے تعلیم کے شعبے میں 70 ارب ڈالرز خرچ کیئے جو کل حکومتی اخراجات کا 25 فیصد جبکہ ملک کے جی ڈی پی کا دس فیصد بنتا ہے، اب سالانہ تقریباً 13 ہزار سعودی طلباءتعلیم حاصل کرنے امریکا جاتے ہیں، خواتین کو قومی دھارے میں لانے کے لیئے شاہ عبداللہ نے کئی اصلاحات متعارف کروائیں 2011 میں انہوں نے خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔

چنانچہ رواں سال منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پہلی دفعہ سعودی خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گی، اسی طرح 2010 میں انہوں نے پہلی دفعہ سعودی روایات توڑتے ہوئے دو سعودی خواتین کو اولمپکس میں حصہ لینے کی اجازت دی انہی کے دور میں پہلی دفعہ کسی اخبار کی ایڈیٹرانچیف ایک خاتون مقرر ہوئیں۔

شاہ عبداللہ کے تخت نشین ہونے کے بعد ان اخراجات میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہوتا رہا جبکہ 2005 میں سعودی دفاعی اخراجات 33 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے تھے، 2009 میں 43 ارب ڈالرز، 2010 میں 45ارب ڈالرز ہوگئے لیکن خطے کی سیکورٹی کی صورتحال اور عرب اسپرنگ کے خطرات اور ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے خطے میں بڑھتے اثر و نفوذ کے تدارک کے لیئے 2012 میں سعودی عرب نے اپنے دفاعی اخراجات میں حیران کن طور پر 15 ارب ڈالرز کا اضافہ کیا جس کے بعد سعودی دفاعی بجٹ 60 ارب ڈالرز ہوگیا اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب پوری دنیا میں دفاع پر خرچ کرنے والا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے اس فہرست میں پہلے نمبر پر امریکہ، دوسرے پر چین اور تیسرے نمبر پر روس ہے۔

الحرمین شریفین شاہ عبداللہ نے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو اپنے تخت کا دوسرا وارث یعنی ولی عہد ثانی بنانے کا اعلان کیا جس نے ملک اور بیرون ملک لوگوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا کیونکہ اس سے قبل سعودی عرب میں یہ روایات نہیں رہی تھی کہ بادشاہ وقت نے ولی عہد اول کے ساتھ ولی عہد ثانی کو بھی نامزد کیا ہو ان کے اس فیصلے سے اس وقت ملک میں انتقال اقتدار کے لیئے نامزدگی کا مرحلہ بغیر کسی نزاع کے پورا ہوگیا تھا اور اب شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز ملک کے نئے فرمانرواں بن گئے ہیں اور شہزادہ مقرن ولی عہد مقرر ہوگئے ہیں، نئے سعودی فرمانرواں شاہ سلمان کی جانب سے شہزادہ محمد بن نائف کی بطور نائب ولی عہد نامزدگی نے بہت سے خدشات کو دور کردیا ہے خاص طور پر کچھ عرصے سے ملک اور بیرون ملک یہ بات تواتر سے کہی اور سنی جارہی تھی کہ سعودی عرب میں بوڑھوں کی حکمرانی ہے رواں سال 23جنوری کو وہ ملک کے نئے فرمانرواں مقرر ہوئے اور اسی دن انہوں نے محمد بن نائف کو نائب ولی عہد مقرر کرکے تیسری نسل کی جانشینی کے حوالے سے جاری مختلف قیاس آرائیوں کو ختم کردیا کیونکہ پرنس مقرن بن عبدالعزیز ممکنہ طور پر آل سعود کی دوسری نسل کے آخری حکمران ہونگے تیسری نسل کی جانشینی کے حوالے سے مختلف خدشات تھے شاہ سلمان کی جانب سے محمد بن نائف کو نائب ولی عہد مقرر کرنے کے بعد اب تیسری نسل کے حوالے سے ایک راہ ہموار ہوگئی ہے۔

2012 میں انہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروایا تاکہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے عالمی سطح خادم الحرمین شریفین کی بین الاقوامی سفارتی کوششیں اسلامی دنیا کے مفادات کے دفاع اور عالمی سطح پر امن، سلفی اور استحکام لانے کیلئے سعودی قیادت کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔ شاہ عبداللہ پاکستان کے بہترین اور مخلص دوست تھے پاک سعودی تعلقات ابتدا سے ہی خوشگوار رہے ہیں، شاہ فیصل کے دور میں یہ تعلق اپنے عروج پر پہنچا تاہم ان کی وفات کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہا کہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
2005 میں آزادکشمیر، سرحد کے خوفناک زلزلے اور 2010 کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردار سے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے اور اس کے لیئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں وطن عزیز پاکستان اﷲتعالی ٰکے فضل کرم سے ایٹمی قوت ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ یورپ سمیت پوری دنیا کا دباؤتھاکہ پاکستانی حکومت ایٹمی دھماکوں سے باز رہے اس مقصد کے تحت دھمکیاں بھی دی گئیں اور لالچ بھی دیئے جاتے رہے یہ انتہائی مشکل ترین صورت حال تھی مگر ان حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
امید ہے کہ شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد نئے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورحکومت میں بھی پاک سعودی تعلقات اسی طرح مضبو ط اور مستحکم رہیں گے دعا ہے کہ اﷲتعالیٰ پاکستان اور سعودی عوام و حکمرانوں کے مابین محبتوں کے یہ سلسلے اسی طرح قائم ودائم رکھے۔
M.Imran Ferozi
About the Author: M.Imran Ferozi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.