پکوان تیار ہونے کو ہے

سابق صدر و آرمی چیف جنرل مشرف ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔وہ آج کل مختلف روایتی سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں عمومی طور پر خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں کوئی اہم سیاسی کردار ادا کرنے جا رہے ہیں ۔دوسری طرف حکمرانوں کا خیال ہے کہ جنرل مشرف کا اب پاکستانی سیاست میں کوئی کردار باقی نہیں ہے قوم نے انھیں بھلا دیا ہے ۔موجودہ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں مضبوط سیاسی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے درحقیقت یہی بات ان کی تباہی کا سبب بنتی جا رہی ہے اور وہ ہر قسم کا غیر آئینی کام تسلسل کے ساتھ کرتے جا رہے ہیں مثال کے طور پر حالیہ پٹرولیم مصنوعات پر لگایا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس بھی غیر آئینی طریقے سے لگا یا گیا ہے ایسا ٹیکس لگانے کے لیے پارلیمنٹ سے بِل کے ذریعے منظوری لینا لازمی ہے مگر حکومت نے ایسا کوئی فنانس بِل پارلیمنٹ سے منظور نہیں کروایا ہے اور موجودہ اپوزیشن نے اس پر کوئی ردِ عمل بھی نہیں دیا اور نہ ہی اسمبلی میں اس پر آواز اُٹھائی ہے اس سے حکومت اور اپوزیشن کی ملی بھگت کا علم بخوبی ہوتا ہے ۔قومی سلامتی کے مسلے پر سیاسی حکومت پہلے ہی تمام تر معاملات سے باہر ہے اور فوج نے اس سے متعلق تمام امور اپنے ذمہ لے رکھے ہیں اکیسویں ترمیم کو جس طرح مقتدرہ کی خواہش پر عجلت اور جلد بازی میں منظور کروایا گیا وہ سب کے سامنے ہیں۔ ملکی معاملات میں فوج کا بڑھتاہوا اثر رسوخ اب کسی سے پو شیدہ نہیں رہا ہے ۔وزیر اعظم بھی اس تاثر کو زائل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں کہ خارجہ اور دفاعی پالیسی پارلیمنٹ کی بجاے کسی اور جگہ بنتی اور پھر نافذ ہوتی ہے ۔6فروری کو راحیل شریف نے وزیر اعظم سے ملاقات میں پولیس،انٹیلیجنس اور سول اداروں کے اہلکاروں کی نااہلی کی شکایت کی ہے اور ان کی استعداد کار کو بڑھانے کا کہا ہے ۔دفاع،خارجہ اور قومی سلامتی کے امور سے آگے نکل کر فوج اب دیگر شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواناچاہا رہی ہے گذشتہ دنوں ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم ہاکی کے کھیل میں کھویا ہو مقام قوم کو دوبارہ دلوائیں گے ۔درست جب ملک کے سول ادارے کرپشن کی دلدل میں دھنس چکے ہوں اور بد دیانتی و نااہلی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہو تو کسی نے یہ کام کرنے ہیں ۔ہمارے سیاستدانوں کا مقصد حیات صرف اپنی دولت میں اضافے تک محدود ہو چکا ہے وہ اس سے آگے سوچنے سے قاصر ہیں ۔قوم کی تربیت،اس کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل اور حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے ان کے پاس نہ ہی کوئی سوچ ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام ہے ۔پارلیمنٹ کسی بھی مسلے پر بحث کرتی ہے مسائل کا ہر طرح سے جائزہ لیتی ہے ان کے تمام پہلووں کو مدِنظر رکھ کر واضح قانون سازی کرتی ہے ایک ایک لفظ کی تعریف کی جاتی ہے اور تمام ابہام کو ختم کیا جاتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ مکمل طور پر بے اثر ہو کر رہ گئی ہے ۔کور کمانڈر کانفرنس میں اس بات کا عزم کیا گیا کہ ملک سے انتہا پسندی ۔دہشت گردی اور فرقہ واریت کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ان تینوں الفاظ کا از سر نو جائزہ لے ان کی نئی تعریف وضح کرے ۔قوم کو بتاے کہ انتہا پسندی،دہشت گردی اور فرقہ واریت کسے کہا جاتا ہے۔ اب فرقہ واریت کے نام پر لوگوں کی مذہبی آزادی کو غصب کیا جا رہا ہے ۔آزادی رائے پر قدغنیں لگ رہی ہیں اختلاف رائے کو انتہا پسندی کا نام دیا جانے لگا ہے ۔عجلت میں کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے حصول علم اور تحقیق کے کام پر قفل لگائے جا رہے ہیں ۔جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو اب یہ خبر ہو جانی چاہیے کہ ان کی اس گیت سنگیت کی محفل الٹنے کا وقت قریب ہے معاملات ان کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں ملک میں ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور بڑی صفائی کے ساتھ اس کی دیواریں بلند کی جارہی ہیں اور اس کو خوبصورت بنانے کے لیے تمام تر نمائشی اشیاء کو اکٹھا کیا جا رہا ہے ۔نئی عمارت کے مکمل ہونے پر کھانے کی دعوت تو لازمی ہو گی چوہدری شجاعت نے اس پکوان کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو تیار ہونے کو ہے ۔مشرف ملک کے سنجیدہ اور روایتی سیاست دانوں سے رابطہ کر رہے ہیں ۔امین فہیم،پیر پگاڑہ،چوہدری شجاعت سمیت ایک بڑی تعداد ان سے رابطے میں ہے نئے نظام کے معماروں نے انہیں اشارے دے رکھے ہیں حکمران کہتے ہیں کوئی کھچڑی پک رہی ہے مگر چوہدری شجاعت نے نئے پکوان کی نوید سنائی ہے جس کی خوشبو اب سب کو محسوس ہو رہی ہے ۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61646 views i am columnist and write on national and international issues... View More