اگر ہم سے کوئی یہ پوچھے
کہ مسلمانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں تو وہ صرف یہی نہیں کہ خدا پر ، اس کے
فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لانا
ہی کافی نہیں یا پھر اتنی ہی نہیں نماز پڑھیں ، روزہ رکھیں ، زاکوٰۃ دیں ،
حج اد ا کریں یا اس سے بڑھ کر نکاح ، طلاق ،وراثت وغیرہ میں اسلام کے مقرر
کردہ قوانین اور حدود پر عمل درآمد کرنا ہی ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے
بعد ہم خود کو بری الذمہ سمجھیں اور جو چاہیں کرتے پھریں لیکن معاملہ اس کے
برعکس ہے وہ یہ کہ ہم پران قوانین کے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری
بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم تمام دنیاکے سامنے اس حق کے گواہ بھی بن کر کھڑے
ہوجائیں جس ہر ہمارا ایمان ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مسلمان کے نام
پر ایک امت بنانے کی واحد وجہ جو قرآن میں بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ
تمام بندگان خدا پر شہادت حق کی حجت تمام کردی جائے ۔قرآن مجید کی سورۃ
النور کی آیت نمبر 143میں ارشاد ہواکہ ً اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک امت
وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے تمام لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ
ہو ۔ ً
یعنی شہادت امت مسلمہ کا عین مقصد وجود ہے جسے اگر ہم نے پورا نہ کیا تو
یوں سمجھئے کہ ہم نے اپنی پوری زندگی اکارت کردی کیونکہ یہ ہم مسلمانوں پر
خدا کی جانب سے اہم ذمہ داری ہے ۔ سورۃ مائد میں میں آواز دی گئی کہ ً اے
لوگوجو ایمان لائے ہو ! خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی گواہی
دینے والے بنو۔ ً یہ صرف حکم ہی نہیں بلکہ تاکید بھی ہے ۔ کیونکہ اﷲ تعالی
ٰ نے سورۃ النور کی آیت نمبر 140 میں فرمایاکہ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون
ہوگاجس کے پاس اﷲ کی جانب سے ایک گواہی آئے اور وہ اسے چھپائے ۔ پھر اﷲ نے
مسلمانوں کو بتایاکہ اس فرض کے انجام نہ دینے والوں کا نتیجہ بنا۔ مسلمانوں
سے قبل یہ ذمہ داری دی گئی مگر انہوں نے کچھ حق چھپایا اور کچھ کے خلاف
گواہی دی یعنی وہ فی زمانہ حق کی بجائے باطل کو گواہ بناکر رہ گئے جس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ اﷲ نے انہیں دھتکار دیا اور پھر وہ پھٹکار پری کہ ذلت و
خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اﷲ کے عذاب میں گھر گئے ۔
یہ شہادت جس کی ذمہ داری ہم پر یعنی مسلمانوں پر ڈالی گئی ہے اس سے مراد یہ
ہے کہ جو حق ہمارے پاس آیا اور جو صداقت ہم پر آشکار ہوئی ہے ہم دنیا کے
سامنے اس حق اور صداقت ہونے کی براہ راست گواہی دیں ۔ ایسی گواہی جو اس کے
حق اور راست ہونے کو واضح کردے اور دنیا بھر کے لوگوں پر دین کی حجت تمام
کردے ۔ اسی شہادت کیلئے انبیاء کرام ؑ دنیا میں بھیجے گئے جس کا ادا کرنا
ان پر فرض تھا ۔ پھر یہی شہادت حق انبیاء کے بعد ان کی امتوں پر ہوتا رہا
اور اب خاتم المرسلین ؐ کے بعد امت مسلمہ پر بھی اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس
طرح آپ ؐ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا ۔ اس گوایہ کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوع انسانی کیلئے اﷲ تعالیٰ نے باز
پرس اور سزا و جزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد ہی اسی گواہی
پر ہے ۔ اﷲ تعالیٰ حکیم و رحیم اور قائم بالقسط ہے اس کی حکمت و رحمت اس کے
انصاف سے یہ بعید نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کی مرضی معلوم نہ ہو اور وہ انہیں
اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کی خلاف چلیں ۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہ
راست کیا ہے اور وہ ان کی کج روی پر ان سے مواخذہ کرے ۔ لوگ اس سے بے خبر
ہوں کہ ان سے کس چیز کی باز پرس ہونی ہے اوروہ انجانی چیز کی باز پرس کرے
اسی لئے اﷲ نے آفرنش کی ابتداء ہی ایک پیغمبر سے کی اور وقتاً فوقتاً بے
شمار پیغمبر بھیجے تاکہ وہ نوع انسانی کو باخبر کردیں کہ تمہارے معاملے میں
تمہارے رب کی کیا مرضی ہے ، تمہارے لئے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا کیا
طریقہ ہے جس سے تم اپنے رب کی رضا کو پہنچ سکتے ہو اور وہ کیا کام ہیں جن
کو کرنا ہے اوروہ کیاکام ہیں جس سے تم نے بچنا ہے گویا وہ تمام امور جن سے
دنیا کے لوگوں سے باز پرس کی جائے گی ان تمام سے آگاہ کردیا گیا۔اﷲ رب
العزت نے جو شہادت اپنے پیغمبروں سے دلوائی اس کے حوالے سے قرآن مجید میں
واضح بتادیا کہ لوگوں پر اﷲ کی حجت قائم کرنے کا کوئی موقع باقی نہ رہے کہ
ہم بے خبر تھے جو پکڑے گئے یا یہ کہ ہم تک خبردار کرنے کیلئے کوئی پہنچ
نہیں سکا ۔ سورۃ النسا ء کی آیت نمبر 165میں اسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
گیا کہ ً سارے رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکر بھیجے گئے تاکہ
ان کے مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اﷲ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے
۔ ًیعنی اﷲ رب کائنات نے لوگوں کی حجت اپنے اوپر سے اتارکر پیغمبروں پر ڈال
دی اور اس اہم ذمہ داری کے منصب پر کھڑے کردئے گئے کہ اگر وہ شہادت حق کا
ٹھیک ٹھیک حق ادا کردیں تو لوگ اپنے ایمان پر خود باز پرس کرپاتے اور ان کی
جانب سے سے شہادت کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتو لوگوں کی گمراہی کا مواخذہ
پیغمبروں سے کیا جائے باالفاظ دیگر پیغمبروں کی نذاکت یہ تھی کہ یا تو وہ
حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کریں اور لوگوں پر حجت قائم کردیں بصورت دیگر
لوگوں کی حجت ان پر قائم ہوجاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں نے اپنے اوپر اس
ذمہ داری کو شدت سے محسوس کیا اور اپنی جانب سے بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے
لوگوں پر حجت تمام کرنے کیلئے جان توڑ کوششیں کیں ۔ پھر ابنیاء کے ذریعہ
جنہوں نے حق کا علم بلند کی اور ہدایت کا راستہ پایا وہی منصب شہادت کے ذمہ
دار قرار پائے جس کا بار انبیاء کرام پر ڈالا گیا تھا۔مطلب شہادت ایک ایسی
اہم ذمہ داری ہے جو اس وقت امت مسلمہ پر عائد ہوچکی ہے جن کے پاس اﷲ کی
آخری اور مفصل کتاب اور نبی آخرالزمان کی جانب سے ہدایات پہنچ چکی ہیں ۔
شہادت کے حوالے سے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس کی دو اقسام ہیں ، ایک کو ہم
قولی کہتے ہیں جبکہ دوسری عملی شہادت کہلاتی ہے ۔ قولی شہادت میں ہم زبان
اور قلم سے دنیا بھر میں ان تعلیمات اور حق کا ابلاغ کرتے ہیں جو انبیاء
کرام کی جانب سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ ہم اس کیلئے سمجھانے کے تمام دلنشین
طریقے استعمال کرسکتے ہیں جن کے ذریعے تبلیغ ، دعوت کااہتما م کرسکتے ہیں
۔موجودہ دور انفارمیشن اور ٹیکنالوجی یعنی ابلاغ عامہ کا دور ہے جس کے
ذریعہ باطل ایک عام تاثر کو حقیقت بنانے کیلئے تمام تر ذرائع بروئے کار لا
رہا ہے ایسے میں ہم نشرواشاعت کے ذریعہ دنیا کو اس دین کی تعلیمات سے
روشناس کراسکتے ہیں جو خالق کائنات نے اپنی مخلوق کیلئے مقررکی ہیں ۔ فکر و
اعتقاد میں ، اخلاق و سیرت میں ، تمدن و معاشرت میں ، کسب معاش اور لین دین
میں، قانون و نظم عدالت میں، سیاست و تدبیر مملکت میں اور بین الاقوامی
معاملات کے تمام پہلوؤں میں دین نے انسان کی رہنمائی کیلئے جو کچھ پیش کیا
ہے اسے کھول کھول کر بیان کیا جاسکتا ہے ۔ ہم دلائل و شواہد سے اس حق کا
ہونا ثابت کردیں اور جو اس کیخلاف ہے اس پر معقول تنقید کرکے بتادیں کہ
حقیقت کیا ہے اور خرابی کسے کہتے ہیں جبکہ عملی شہادت کا مطلب اپنی زندگی
میں ان اصولوں کا عملی مظاہرہ ہے جسے ہم حق کہتے ہیں ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے
کہ دنیا میں صرف زبان سے صداقت کا ذکر سن کر کوئی بھی کسی کی خوبیوں کا
اندازہ نہیں کرسکتا اس کیلئے برتاؤ ، طور طریقہ اور رویہ سب سے زیادہ اہمیت
کا حامل ہوتا ہے ۔ ہمیں حق کی گواہی دینے کیلئے دنیا کو دکھا نا ہوگا کہ
اچھا انسان کیسے بنتا ہے ، ایک عادل معاشرہ کس طرح تشکیل دیا جاتا ہے جس سے
صالح اور دیانت دار لوگ تیار ہوتے ہیں ، علوم و فنون اور آداب کی نشوونما
ہوتی ہے ، انفرادی اور اجتماعی زندگی کو کس طرح سدھارا اور سنوارا جاتا ہے
۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح اداکیا جاسکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً اور قومی
حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں اور ہمارے افراد
کا کردار اس کی صداقت سے ۔ ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اس کی خوبیوں کی
سند ب جائے ۔ ہماری قومی پالیسی اور اجمتماعی جدوجہد اس کے برحق ہونے کی
دلیل ہو یعنی ہمارا انفرادی اورا جتماعی کردار اس با ت کا ثبوت ہو کہ ہم جن
اصولوں کو حق کا نام دیتے ہیں وہ واقعی حق ہیں ۔
نبی ؐ کی بعثت سے قبل دنیا نے ہر بار اپنے زمانے کے نبی یا پیغمبر کو
جھٹلادیا اور حق کے سامنے تاویلیں دیں جس کے باعث بردبادی اور تباہی ان کا
مقدر ٹہری ۔ جہالت عام تھی ، طاقت ور کے آگے کمزور کی ایک نہ چلتی تھی ،
بادشاہت اور حکمرانی کا حق صرف زور آور افراد کے پاس تھا جو اپنی ذاتی
خواہشات کی تکمیل کیلئے معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو نظرانداز کررہے تھے
۔رشتے ناطے صر ف فرضی حیثیت میں تبدیل ہوچکے تھے ۔ باطل کی پیروی کے باعث
حق کے بنیادی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہن چکا تھا جس سے معاشرے میں
حق وسچ کا قحط پڑ گیا تھا ۔ رحمت العالمین ؐ کی بعث نے ایک بار حق کو بلند
کیا اور باطل کو مٹادیا ، مخلوق خدا کو ایک مرتبہ پھر تحفظ کا احساس ملا ۔
آپؐ کے وصال کے بعد خلفائے رشدین ؓ نے بغیر کسی لالچ کے حق کی گواہی کیلئے
اپنے دن رات ایک کردئے لیکن ان کے بعد حق کو زیر کرنے والی قوتوں نے
سراٹھانا شروع کردیا یہاں تک کہ معرکہ کربلا برپا ہوا جس نے اﷲ کے وعدے کے
مطابق حق کو غلاب اور باطل کو مٹادیا ۔
حق دراصل اﷲ کی جانب سے ایک نعمت ہے جس کے ہونے سے عدم تحفظ کے خدشات کا
خاتمہ ہوتا ہے جسے دنیا کے ہر کونے میں تبلیغ کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر
عائد کی گئی ہے ۔ 711ء میں سندھ سے الامان کی صد ا بلند ہوئی جو حجاز تک
سنائی دی گئی اور ایک نو عمر مسلمان سپہ سالار نے سندھ کی دھرتی کو اسلام
کی تعلیمات سے بہرور کیا اور یوں دنیا کے دیگر مقامات کی طرح برصغیر بھی
شہادت حق سے روشناس ہوا اور لوگ جوق در جوق اس کے ثمرات سے مستفید ہونے لگے
۔ یہی وہ حق تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں عرصہ دراز حکمرانی بھی لیکن اس کی
قدر نہ کرنے کی وجہ سے پستی کا شکار ہوئے ۔ 14 اگست 1947ء میں پھر مسلمان
بیدار ہوئے اور جذبہ ایمانی کے باعث ایک مملکت خداد کے حصول میں کامیاب
ہوئے لیکن اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں نہ تو اسے حقیقی جمہوریت نصیب
ہوئی اور نہ ہی جمہوریت پسند لوگ میسر آئے جبکہ حقیقی آمروں کا بھی اس ملک
میں فقدان رہا ہے ۔ آمروں نے خودکو جمہوریت پسند ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ
جمہوریت کے دعویدارآمر بن بیٹھے اس کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی جماعتوں نے نام
نہاد حق گوئی کا راستہ صرف اس لئے اختیا ر کیا کیونکہ ان کا مطمع نظر
اقتدار کا حصول تھاجس کی وجہ سے سچ کی آواز ہمیشہ دبی اور حق کی بجائے باطل
نے معاشرے کو یرغمال بنا دیا اور لوگوں کومادہ پرستی کے باعث راست بازی کی
کوئی سدھ بدھ ہی نہ رہی ۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان میاں نوا ز شریف کے
ذاتی دوست کی حیثیت سے پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے اپنے عہدے سے
استعفیٰ دیدیا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے کے نہ صرف برطانیہ کی سیاسے سے
کنارہ کش ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے وہاں کی شہریت بھی ترک کردی تھی ۔ چوہدری
سرور کے مسعفی ہونے کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن انہوں نیجو اہم بات کی
وہ ہمارے لئے بحیثیت مسلمان ہونے کے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ۔ وہ ہمارے
معاشرے میں سچ کا قحط دیکھتے ہیں اسی وجہ سے وہ اس عہدے کیلئے خود کو موزوں
نہیں سمجھتے ۔ وہ برطانیہ کو حق گوئی کے حوالے سے سندقرار دیتے ہیں جہاں ہر
فرد حق گوئی میں مکمل آزاد ہے ۔ ان کی پہلی بات سے ملک کا کوئی باشعور فرد
انکار نہیں کرسکتا کیونکہ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں حق اور
باطل میں کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے ۔ اکثریت اس سے لاعلم ہے جبکہ بعض اس
پر عمل پیرا اور اس کے ابلاغ کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں روک دیا جاتا ہے جس
سے حقیقت معاشرے پر حقیقت منکشف نہیں ہوپارہی ۔ ذرائع ابلا غ کے ذریعہ باطل
کو حق بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے اور لوگوں کو اس چیز کی فکر
میں ڈال دیا گیا ہے جو اﷲ کی طر ف سے دی گئی اور وہ اسے کسی وقت بغیر بتائے
لے سکتا ہے ۔ جہاد کو دہشت گردی جبکہ مدارس جو دین اسلام اور حق کی گواہی
کا موثر ذریعہ ہیں انہیں دہشت گردی کے ٹریننگ سینٹرز سے تعبیر کیا جارہا ہے
۔ ہمیں ہر صورت یاد رکھنا چاہئے کہ بہرحال غالب حق ہی نے آنا ہے تو ہمیں
شہادت حق کیلئے ہر اس اقدام کو کر جانے کی ضرورت ہے جس سے نا صرف ہماری
بقاء کا انحصار ہے بلکہ اس کی بدولت دنیا میں امن بھی قائم ہوسکتا ہے ۔
دہشت گردی کا اسلام سے پہلے کبھی کوئی تعلق تھا اور نہ اب ہے اور نہ ہی
کبھی رہے گا ۔ اسلام نے کبھی بھی کسی مذہب یا کسی پیغمبر کی تضحیک کی ہے
اور نہ ہی یہ قابل برداشت ہے کہ کوئی اس قسم کی حرکت کرے ۔ ہماری اصل ذمہ
داری ہے کہ ہم حق کا ابلاغ کرنے کیلئے تمام رکاوٹوں اور مصلحتوں کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر متحد ہوجائیں اور دنیا کو باور کروادیں کہ و ہ
جس حق اور سچ کے گھمنڈ میں ہے وہ درحقیقت ایک سراب ہے جبکہ اصل حق وہ ہے جو
اسلام کی تعلیمات او ر نبی ؐ کی بدولت دنیا میں آیا ہے - |