عمران خان ،بیرسٹر سلطان ۔۔۔۔اندر کی بات

شیخ شر ف الدین سعدی شیرازی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ وقت کے ایک بادشاہ کو حاتم طائی کی شہرت سے حسد ہوا اور اس نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور ایک آدمی کو پیسے دے کر قتل کرنے بھیجا وہ تیر کمان اور تلوار لے کر حاتم طائی کے گھر کی طرف روانہ ہوا راستے میں اسے ایک آدمی ملا اس آدمی نے جب مسافر کی بُری حالت دیکھی تو پہلے اسے سائے میں بٹھایا اور پھر اسے اپنے گھر لے گیا اس کی خوب خدمت کی اور اپنی میٹھی باتوں سے اس کا دل موہ لیا ۔مسافر اس سے بڑا خو ش ہوا دوسرے روز مسافر کہنے لگا اب مجھے جانا ہو گا مجھے بہت ضروری کام ہے اس خدمت گار آدمی نے رہنے پر اسرار کیا تو مسافر کہنے لگا کہ میں واپسی پر ضرور آؤ گا خدمت گار کہنے لگا آپ مجھے اپنے کام کے بارے میں بتائیں شاید میں آپ کی مدد کر سکو مسافر پہلے ہی اس آدمی کا گرویدہ ہو چکا تھا اور اس پر اعتماد کرنے لگا تھا اس نے بتایا کہ مجھے فلاں بادشاہ نے حاتم طائی کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے آپ اگر مجھے اس کا پتہ بتا دیں تو میں اس کا سر قلم کر کے لے جاؤ اور انعام وصول کروں یہ سنتے ہی خدمت گار آدمی نے اپنا سر جھکا دیا اور بولا لیجئے جناب سر قلم کر دیں حاتم طائی کا سر حاضر ہے قاتل یہ سن کر حیران ہو گیا اور حاتم طائی کے قدموں میں گر کر معافیاں مانگنے لگا اور رونے لگا اس نے کہا کہ میں تم جیسے فرشتہ صفت انسان کو قتل کر کے ذلیل و خوار نہیں ہونا چاہتا قاتل اس کے بعد وقت کے بادشاہ کے پاس واپس گیا اور دربا رپہنچ کر اس نے کہا کہ اس انسان کا قتل کرنا انسانیت کا قتل ہو گا اور سارا واقعہ سنا کر حاتم طائی کی خوب تعریفیں کی ۔بادشاہ بھی قائل ہو گیا کہ واقعی حاتم طائی سے بڑا سخی کوئی نہیں ہو سکتا ۔

قارئین 2015کا سال جونہی شروع ہوا ہے پاکستان اور آزادکشمیر بہت سے واقعات اور حادثا ت دیکھ چکے ہیں اور ابھی بہت سی ایسی باتیں ہونگی کہ جن کے متعلق سوچنا بھی محال ہے آرمی پبلک سکول پشاور میں 16دسمبر سال2014میں جو قیامت ڈھائی گئی اس نے پاکستان کی داخلہ پالیسی مکمل طور پر تبدیل کر دی گڈ اینڈ بیڈ طالبان کا فرق ختم ہو گیا عمران خان تحریک انصاف کے قائد نے اپنا طویل دھرنا ضرب عضب کے باوجود تو ختم نہ کیا لیکن پشاور سانحے کی تپش اتنی زیادہ تھی کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر کئی ماہ پر محیط یہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا پاکستان کی تمام سیاسی قیادت اکٹھی ہوئی اور اکیسویں ترمیم کے نام سے نئے قوانین مرتب کیے گئے گزشتہ 7سال سے سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے عمل کو ختم کر کے سزائے موت سنائے گئے مجرموں کو پھانسیاں دینا شروع کر دی گئیں فیصل آباد ،لاہور سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں پھانسی پانے والے مجرموں کی اکثریت ان کی تھی جو سابق صدر جنرل مشرف کے قتل کی سازش میں ملوث تھے جب اکیسویں ترمیم کامسودہ اسمبلی میں پیش کیا گیا تو بوجوہ مولانا فضل الرحمن اور مذہبی جماعتوں کی غالب اکثریت نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے بائیکاٹ کر دیا اور اس ترمیم میں صرف مذہبی دہشت گردی کے لفظ کو مدارس اور مذہبی طبقے کو ٹارگٹ کرنے کے مترادف قراردیا میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق مولانا فضل الرحمن کا اصرار تھا کہ دہشت گردی کے حوالے سے سیاسی ،صوبائی عصبیت ،علاقائیت ،زبان ،رنگ ،نسل سمیت ہر نوعیت کی منافرت کو شامل کیا جائے اور صرف مذہبی اختلاف کو دہشت گردی قرار دے کر ملک کے مدرسوں کو ٹارگٹ نہ کیا جائے ان کا یہ موقف بہت حد تک جائز اور اصول پر مبنی دکھائی دیتا ہے اس وقت پاکستان اور آزادکشمیر کے ہزاروں مدرسوں میں دس لاکھ سے زائد طلباء و طالبات مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اکثر مدرسے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق گریجویشن ،ماسٹرز ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی کروا رہے ہیں یہاں یہ امر سوچنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اگر کراچی میں ہزاروں انسانوں کو ٹارگٹ کلینگ کا نشانہ بنایا جاتاہے ،بھتہ نہ دینے پر بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں تین سو کے قریب مزدوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور برطانیہ میں اپنی ہی پارٹی کے بانی رہنما عمران فاروق کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس پر نہ تو ریاست حرکت میں آتی ہے اور نہ ہی ان حرکتوں کو دہشت گردی کا نام دے کر مقررہ دفعہ نافذ کی جاتی ہے اور قانون عائد کیا جاتا ہے جبکہ محض مذہبی وابستگی کو بنیاد بنا کر لاکھوں غریب بچوں کو اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کی تعلیمات سکھانے والے مدارس کو مشکوک خانے میں رکھ دیا جاتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے ۔

قارئین یہاں ہم آزادکشمیر کی کچھ اہم پیش رفت سے اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ کرتے چلیں ۔آزادکشمیر میں اچانک تحریک انصاف ایک بہت بڑی طاقت کے طو رپر وجود میں آچکی ہے اور ہماری معلومات کے مطابق ہمارے Sourceنے ہمیں انتہائی ٹھوس بنیادوں پر تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران آزادکشمیر کی تمام سیاست کا رخ بدل سکتا ہے آزادکشمیر کی واحد اہم ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعظم ماضی اور حال میں ملٹری ڈیموکریسی کی بات کھل کر کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں سردار عتیق احمد خان سے ہم نے اس حوالے سے ایک خصوصی نشست رکھی ۔جس میں انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو کرپشن کا گڑھ قرار دیا اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی طرف سے تحریک انصاف میں شمولیت پر تبصر ہ کرتے ہوئے یہ الفاظ اداکیے کہ ’’بنی گالہ کا رخ کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ لاڑکانہ اور رائے ونڈکا طواف کرنے والوں کے انجام سے سبق سیکھیں ‘‘
بقول چچا غالب ہم یہاں یہ کہتے چلیں
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بھو ں پاس آنکھ قبلہ حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصور ی
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ؟
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
ہے رنگِ لالہ وگل و نسرین جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگام بے خودی
روسو ئے قبلہ وقت مناجات چاہیے
یعنی بہ حسب گردش پیمانہ صفات
عارف ہمیشہ مست مے ء ذات چاہیے
نشوونما ہے اصل سے غالب فروغ کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

قارئین اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادکشمیر اس وقت ایک کھچڑی جیسی کیفیت میں مبتلا ہو چکا ہے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 26جون 2011کے انتخابات کے بعد نئی بننے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کی کرپشن کی باتیں کھل کر کرتے رہے اور ان کے دست و بازو برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تا حیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد بھی دستاویزی ثبوت لے کر موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف تک گئے اسے میثاق جمہوریت کا پھل کہیے یا اسے کچھ اور نام دے لیجئے نظریہ ضرورت کی وجہ سے جس تبدیلی کے بیرسٹر سلطان متمنی تھے وہ تبدیلی نہ آ سکی اور انہیں اپنے ہی راستے بدلنے پڑے یہاں ہم چند پیشگوئیاں کرتے چلیں ۔میاں نواز شریف نے پاکستان میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد انتہائی سنگین غلطیاں کی ہیں اور داخلہ اور خارجہ پالیسی اپنی سیاسی طاقت کے زعم میں بنانے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی عسکری قوت کو نظر اندا زکیا اور انہیں وہ اہمیت نہ دی جو انہیں دینی چاہیے تھی سابق صدر جنرل مشرف کے احتساب کی بات کرتے کرتے ان کے بعض وزراء نے اس حد تک زبان کھولی کہ پاکستان کے آرمی چیف کو کہنا پڑا کہ آرمی اپنے وقار کا تحفظ کرنا جانتی ہے عمران خان کا دھرنا او ر اس سے بھی پہلے غور سے دیکھئے کہ کس طریقے سے پاکستان آرمی چیف نے ناصرف مسلم لیگ نون کے وزراء کو شٹ اپ کال دی اور اس کے بعد جب حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو میڈیا کے دو حصے کر کے مختلف مستفیدین کے چہرے عوام کے سامنے بے نقاب کیے گئے ہیں۔ اب بھی قومی سلامتی کے ادارے اور پاکستان آرمی مسلم لیگ ن اور میاں محمدنواز شریف کی غلطیوں کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کراچی میں بلدیہ فیکٹری میں 250سے زائد مزدوروں کو زندہ جلانے کا واقعہ ثابت ہو رہا ہے کہ ایم کیو ایم کی کارستانی ہے اس پر عمران خان نے حال ہی میں الطاف حسین کو اس وقت آڑے ہاتھوں لے لیا جب الطاف حسین نے نئے تعینات ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر ، آئی ایس آئی اور فوج کے مختلف اداروں پر انتہائی فضول اور نازیبا قسم کی تنقید کی جب عمران خان نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا کچا چٹھا عوام کے سامنے رکھا اور تمام میڈیا نے اس کو کوریج دی تو 12گھنٹے کے اندر الطاف بھائی نے آرمی سے معذرت طلب کر لی اور اپنے غیر محتاط الفاظ پر معافی مانگی ۔ آزاد کشمیر میں اگرچہ چوہدری عبدالمجید کی حکومت بظاہر مستحکم دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے پیندے میں بہت بڑا شگاف بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی شکل میں ڈال دیا گیا ہے ،بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی میں جاکر ناصرف اعلیٰ درجے کی اپوزیشن کر سکتے ہیں بلکہ آزاد کشمیر کے تمام حلقوں میں ان کے چاہنے والوں کا ایک ووٹ بینک موجود ہے ۔ تحریک انصاف کو بیرسٹر سلطان محمود کی شکل میں ایک زبردست کپتان ملا ہے جو آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو متاثر کر سکتا ہے ۔2016ء انتخابات کی تیاریوں کے سلسلہ میں بیرسٹرسلطان محمود چوہدری سرگرم ہو چکے ہیں بظاہر میرپور میں ضمنی انتخاب کی تیاریاں بھی شرو ع ہو چکی ہیں اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے بڑے پیمانے پر جوڑ توڑ بھی شروع کر دیا ہے ۔ آئندہ چند ہفتوں کے دوران مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے چند ہیوی ویٹ سیاستدان بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو جوائن کرنے والے ہیں یہ سب منظر نامہ بتا رہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے کام کرنے والے ادارے پاکستان میں عمران خان اور آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان چوہدری کو کلین چٹ دے چکے ہیں اور اب محض ضابطے کی کارروائی ہونا باقی ہے ۔آج کا کالم ہم یہیں پر ناتمام چھوڑے جا رہے ہیں ہیں اگلے کالم میں چند مزید اندر کی باتیں اپنے قارئین کی نذر کرینگے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سردار جی نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے کسی سے پوچھا۔’’بتاؤ ہم کسی پر بیٹھے ہیں ‘‘
مخاطب پریشان ہو کر کہنے لگا
’’سردار جی گھوڑے پر کیا آپ کو پتہ نہیں ‘‘
سردار جی نے مسکرا کر جواب دیا ۔
’’پتہ تو ہے پھر بھی چیک کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘‘

قارئین ! کھچڑی جیسے اس منظر نامے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو پتہ چل چکا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ آتے جاتے مختلف لوگوں سے وہ پوچھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اﷲ غریب عوام کے حال پر رحم فرمائے-
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374312 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More