مشیت ایزدی انسانی خواہشوں اور
تمناوں کی طابع نہیں ہوتی ۔ یہ اپنے انوکھے اندازمیں سرگرم کار عمل رہتی ہے۔
نہ جانے کس جیوتش نے امیت شاہ کے بیٹے کی شادی کا مہورت ۱۰ فروری کو نکالا
جس دن دہلی میں امیت کی بربادی کا جشن منایا گیا اور امیت نے کس لئے ۱۵
فروری کو دہلی میں عشائیہ رکھا ممکن ہے اس دن کیجریوال کی حلف برداری ہو
جائے۔ ابن آدم اپنی لاکھ کوشش کے باوجود مشیت کے فیصلوں پر دست درازی
توکجاانکا ادراک تک نہیں کرسکتا۔ جس کو جتنی زور سے پٹخنا ہوتا ہے اسےپہلے
اسی قدر اوپر اٹھایا جاتا ہے اور پھر دھڑام سے اس کو زمین پر لے آیا جاتا
ہے۔ ایسا ہی کچھ مودی جی کے ساتھ ہوا کہ پہلے تو انہیں پارلیمانی انتخابات
میں غیر متوقع کامیابی مل گئی جس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ اس کے
بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں وہ کامیابی دوہرائی تو نہیں جاسکی
مگرناکامی ایسی تھی کہ جس کی کسی طرح پردہ پوشی ممکنہوگئی۔ مثلاً ضمنی
انتخابات میں ناکامی کو چھپانے کیلئے کہہ دیا گیا کہ اس کا قومی سیاست سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہریانہ میں مرتے پڑتے اکثریت مل گئی تو پہلی مرتبہ بی
جے پی سرکار کا نعرہ بلند کردیا گیا۔اس کے بعد مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں
اکثریت سے محرومی کو دیگر جماعتوں کی حمایت سے پورا کیا گیا۔ کشمیر کی وادی
کے تمام نشستوں پر ضمانت کی ضبطی کو جموںمیں حاصل ہونے والی کامیابی کی
خوشنما چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ بی جے پی کا یہ نام نہاد وجئے رتھ پنچر حالت
میں جب دہلی پہونچا تو کمان امیت کے ہاتھ میں تھی اور مودی سارتھی بنے ہوئے
تھے ۔ اس کے باوجوددہلی میں اس کے دونوں پہیوں کی ہوا نکل گئی ۔ اسرسواکن
ناکامی پر مودی جی کویہی کہنا پڑے گا کہ؎
زلف ہستی کو کئی بار سنوارہ ہم نے
اس کی فطرت ہے بکھرنا یہ بکھر جاتی
وزیر اعظم جملہ ۵ مرتبہ اپنی زلفیں سنوار کر خاص طور پر کارزارِ دہلی میں
اترے لیکن چاندی جیسی سفید زلفوں کو بکھرنا تھا سو بکھرکے ر ہی ۔بننے
سنورنے سے بے نیاز امیت شاہ اپنے حجرے میں بیٹھ کر نت نئی سازشوں کے جال
بنتے رہے اور ان میں پھنستے اور دھنستے رہے۔ ان کا ہر داوں الٹا پڑا
اوربالآخر کل یگ کے چانکیہ کی چوٹی ہستنا پور دہلی میں کٹ کرپتنگ ہو گئی ۔
مودی اور شاہ کاعبرتناک انجامبابل کےفرمانروانمرود کی یاد دلاتا ہے۔ جس کی
بابت ارشاد ربانی ہے ’’ بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے)
سبب سے کہ خدا اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں
جھگڑنے لگا جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا
ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں ‘‘ ایک روایت کے مطابق ۴۰۰
سال تک اقتدار پر فائز رہنے کےباعث اس میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی،
سرکشی اور تکبر، نخوت اور غروراس کی عادت بن گئی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑکو آگ
میں جھونکنے کی سفاکیت کا مظاہرہ اسی نےکیا تھا لیکن اللہ نے اس کو کیفر
کردار تک پہنچانے کیلئے ایک معمولی سے مچھر کو استعمال کیا جو نمرود کے
نتھنے میں گھس گیا اور عرصۂ دراز تک اس کا دماغ چاٹتا رہا۔ اس عذاب سے
نکلنے کیلئے وہ اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا، ہتھوڑوں سے
کچلواتا تھا۔ اس طرح دیگر انسانوں کو مچھر سے حقیر سمجھنے والے خودسر
فرمانروا کو مچھر کے ذریعہ ٹھکانے لگادیا گیا ۔
اروند کیجریوال کے چاہنے والوں سے معذرت کے ساتھ (جنپرمچھر کی مثال گراں
گزرے گی) حقیقت یہہے کہ ابھی ۸ ماہ قبل مودی نے کیجریوال کو وارانسی میں دو
لاکھ سے زیادہ ووٹ سے شکست د ی تھی ۔ مودی جی کی قیادت میں بی جے پی کو
تقریباً ۳۰ فیصد ووٹ ملے تھےجبکہ عآپ کو صرف ایک فیصد ۔ عآپ کے گڑھ دہلی
میں صورتحال یہ تھی کہ تمام نشستوں پر بی جے پی نے کامیابی درج کرائی تھی ۔
اسمبلی حلقوں پر اسے تقسیم کیا جائے تو ۶۰ میں بی جے پی کو فوقیت حاصل تھی
اور ۱۰ میں عآپ کو۔ یہ سب اس وقت ہو گیاتھا جب مودی جی کے سرپر دہلی کا
تاج نہیں تھا ۔ اب تو وہ دہلی کے تخت پر براجمان ہیں ۔ سرکاری مشنری ان کے
قبضۂ قدرت میں ہے ۔ دولت کی ایسی ریل پیل ہے کہ اڈانی اور امبانی ان کے
آگے پیچھے گھومتے ہیں۔ وہ دن میں چار مرتبہ کپڑے بدلتے ہیں جن میں دس لاکھ
کا کوٹ بھی ہوسکتا ہے۔ ۲۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے جلسہ عام میں ا ٓنے
کیلئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ذرائع ابلاغ میں
بنےرہنے کیلئے وہ امریکی صدراوبامہ تک کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں ۔
مودی جی کے دست راست شاہ جی کے بارے میں یہ افواہ اڑا دی گئی ہے کہ انہوں
نے اب تک جملہ۴۲ انتخابات لڑائے جن میں سے کسی میں انہیں ناکامی کا منہ
نہیں دیکھنا پڑا۔ شاہ جی نےدہلی انتخاب کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کرازخود
اپنا پول کھول دیا ۔ اوچھے اشتہارات کی بھرمار نے ان ذہنیت کا پتہ دے دیا۔
وزراء کے ساتھ ساتھ ۱۲۰ ارکان پارلیمان کےٹڈیّ دل کورن بھومی میں اتار کر
ان کی بھی مٹی پلید کرادی گئی۔ ہر دو دن میں ایک نئی حکمت عملی ان کے عدم
اعتماد کی چغلی کھانے لگی ۔ وہ کبھی عآپ کے رہنماوں کو توڑ کر اپنے ساتھ
ملاتےتو کبھی کانگریسیوں کو خرید تےایسے میں بیچارے بی ایس پی والوں کی کیا
بساط؟ شانتی بھوشن کے بیان سے خوش ہوکر ان کی جانب پینگیں بڑھائی گئیں اور
بالآخر کرن بیدی کو وزارت اعلیٰ کا لالچ دے کرانتخابی پرچم تھما دیا گیا ۔
کرن بیدی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنانا بقول امیت شاہ کےایک ماسٹر اسٹروک
تھا مگر اس کے اندر یہ اعتراف چھپا ہوا تھا کہ کیجریوال کو زیر کرنےکیلئے
اکیلے مودی کافی نہیں ہے اور پھر وقتِ ضرورت بیدی کو بلی کا بکرہ بھی بنا
یا جاسکتاہے ۔ جب شاہ جی نے دیکھا کہ بیدی نامی نائٹ واچ مین پہلی ہی گیند
پرہٹ وکٹ ہو کر پویلین میں لوٹ رہی ہیں تو مجبوراً مودی جی کو بلاّ تھما
دیا گیا لیکن مودی کا حال بیدی سے بھی بدتر ہوا۔ وہ تو ریٹایرڈ ہرٹ ہو کر
اسٹریچر پر پیولین میں واپس ہوئے۔مودی جی کواس حالتِ غیر پریہ شعرصادق آتا
ہے کہ ؎
تونے بیدی کا انتخاب کیا ٍ
خود کو بکرا بنا لیا میں نے
انتخابی نتائج سے ٹھیک ایک ماہ قبل مودی جی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ رام
لیلا میدان میں آئے لیکن بی جے پی کےداخلی انتشار نے کام گیلا کردیا۔ اس
جلسہ عام کی ناکامی کا غصہ مودی جی نے ڈی آر ڈی اوکے سربراہ سریش چندر پر
اتار اجو اگنی میزائل کے راجہ جنک سمجھے جاتے ہیں ان کو رسوا کر کے ہٹایا
گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ کسی نوجوان کو لانا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے
کہ کم عمر سربرا ہ آخرکیا کرے گا جبکہ اسرو کی ٹیم میں دس چوٹی کے
سائنسداں سریش چندر سے بھی عمر دراز ہیں اگر ڈی آر ڈی اور میں نئی روح
پھونکنی تھی تو ان کی بھی چھٹی کی جاتی لیکن اندھی نگری چوپٹ راج میں اس
طرح کے سوالات کا کون کرتا ہے؟ انتخاب سے قبل آخری ہفتے میں مودی جی نے
سجاتا سنگھ کا پتہ کاٹ دیا۔ اوبامہ کی تنبیہ یا نیویارک ٹائمز کی تنقیدکے
بعداگریہ اقدام کیا جاتا تب توکوئی بات بھی تھی لیکن اب اگر جلسوں میں لوگ
نہیں آرہے تو اس میں خارجہ سکریٹری کا کیا قصور؟ اس کے بعد جب دیکھا کہ بی
جے پی آپسی سرپھٹول ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تو ماتنگ سنگھ کے نام پر
داخلہ سکریٹری انل گوسوامی کی گھرواپسی کردی گئی۔مودی جی اور شاہ جی کی
تمام دھونس دھمکی کے باوجود بی جے پی کی دہلی شاخ کے باغیانہ تیور اور اس
کے عبرتناک انجام پر یہ شعر صادق آتا ہے
سیاست کا انجام کیا خوب ہے
اطاعت سے پہلے بغاوت کے بعد
اس مہم کے دوران بی جے پی سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے کہ جس نے چین کا
دل باغ باغ کردیا۔بی جے پی کےدہلی مینی فیسٹو میںشمال مشرقی ریاستوں
کےباشندوں کو غیر ملکی قراردے دیا گیا ۔ چین کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہاں
کے لوگوں چین میں داخل ہونے کیلئے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ ریاستی وزیر
داخلہ کرن رجیجو کا تعلق چین کی سرحدسے متصل اروناچل پردیش سے ہےاس لئے
ہونا تو یہ چاہئے تھا اس معاملے پر رجیجو سے استعفیٰ لیا جاتا لیکن بلی کا
بکرہ گوسوامی بنے۔دراصل مودی جی کو اب غیر متعلق لوگوں پر برسنے کے بجائے
ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہئے کہ آخر پانی کہاں مررہا ہے۔ کل تک جان چھڑکنے
والا ووٹر آخرکیوں بد ظن ہو گیا ہے؟ اچھے دن کے خواب کیوں چکنا چور ہوگئے؟
مودی جی اگر اس سوال پر جذباتیت کو بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی کے ساتھ غور
کریں تو ان کو پتہ چلے گا کہ انتخاب سے قبل جب انہوں نے اپنے آپ کو چائے
والا کہا تھا تو عام لوگوں کو لگا کہ یہ اپنا آدمی ہے وزیر اعظم بننے کے
بعد کچھ نہیں تو ایک کپ چائے ہی پلا دے گا لیکن اب جاکرپتہ چلا کہ یہ
اوبامہ کوتوچائے پلاتا ہےلیکن اپنی عوام کو پوچھ کر نہیں دیتا۔ شاہ جی نے
این ڈی ٹی وی پرلوگوں کویہ بھی بتایا کہ کالے دھن کوواپس لاکر انہیں دینے
کی باتںہ محاورتاً کہی گئی تھی حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ
ہے کہ دہلی میں امیروں نے تو بی جے پی کو ووٹ دیا لیکن غریب ان سے دور
ہوگیا۔ مودی جی نے انتخاب والے دن نوجوان رائے دہندگان سے خاص طور پر اپیل
کی کہ وہ ووٹ دینے کیلئے ضرور جائیں لیکن مودی جی کو نہیں معلوم تھاکہ ان ۸
مہینوں میں ملک کا نوجوان ان سے مایوس ہوچکا ہے اس نے ان کی ہدایت پر عمل
کرتے ہوئے ووٹ تو دیا لیکن کمل کے بجائے جھاڑو کے نشان پر مہر لگا کر لوٹ
آیا۔حکومت کےرویہ سےقوم کےنوجوانوں کواحساس ہو گیا ہے کہ ؎
ان درختوں سے ہمیں چھاؤں ملے گی کیسے
جن درختوں کے کسی شاخ پہ پتا ہی نہیں
نوبھارت ٹائمز کے مطابق پہلی بار ووٹ دینے والےرائے دہندگان میں سے ۵۲ فیصد
نے عآپ اور ۲۷ فیصد نے بی جے پی کے حق میں رائے دی ۔ ۲۲ سال تک نوجوانوں
میں۴۶ فیصد عآپ اور ۳۸ فیصد بی جے پی کے ساتھ تھے۔طلباء اور بیروزگاروں
میں سے بھی ۴۴ فیصد کی پسند عآپ اور ۴۱ کو بی جے پی راس آئی ۔یہی وجہ ہے
کہ شاہ جی نے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا تھاکہ کیجریوال میں ذرائع ابلاغ
کو متوجہ کرنے کی کشش زیادہ ہے۔ یہ کشش کس سے زیادہ ہے انہوں نے نہیں بتایا
مگر نتائج نے بتادیا کہ مودی سے زیادہ ہے۔ مودی نے بی جے پی کو ایسی ذلت
آمیز شکست سے دوچار کروایا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی ۔اس کی
ذمہ داری مودی سرکار پر آتی ہے نہ کہ کیجریوال کی انتخابی مہم پر بقول
شاعر؎
اس میں کچھ دوش مری جان ہوا کا ہی نہیں
وہ بھلا کیسے اڑے گا جو پرندہ ہی نہیں
ذرائع ابلاغ کاطوطا چشمی رویہ دیکھ کر بیربل کی مشہور کہانی یاد آتی ہے جس
میں ایک بندریہ کو تالاب کے درمیان میں بچے سمیت بٹھا کر سطح آب کو بلند
کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں بندریہ پہلے تو بچے کو سر کے اوپر اٹھا لیتی ہے
لیکن جب پانی اس کی ناک تک پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطربچے
پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس بارذرائع ابلاغ میں یہی ہوا ۔ سرکاری احسانات کے
بوجھ تلے دبا ہوا میڈیا پہلے تو بی جے پی کے حق میں جائزے شائع کرتا رہا
لیکن جب انتخاب سر پر آگئے اور ہوا رخ نہیں بدلا تو اپنی ساکھ بچانے کیلئے
اس نے اپنا رخ بدل دیا اور آخری ہفتہ میں تین معتبر ٹی وی چینلس اور
اخبارات مثلاً آج تک، اے بی پی اوراکونومکس ٹائمز نے عآپ کی بڑھت شائع
کردی ۔ اس کے بعد مودی جی نے اعلان کیا انتخابی جائزے روپیہ لے کر شائع کئے
جاتے ہیں۔ یہ بات ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے اس لئے کہ وہ خود یہ کھیل
کرتے رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد بی جے پی نے روپیہ دے کر انڈیا ٹی وی، زی ٹی
وی، آئی بی این اور دی ویک کا جائزہ شائع کروا دیا جس میں بی جے پی کو
کامیاب کیا گیا تھا مگر پولنگ کے بعد ایک کے علاوہ سب مکر گئے اور اس بات
پر اتفاق کرلیا کہ عآپ جیت رہی ہے اور بی جے پی ہار چکی ہے۔ ویسے تو
کیجریوال اب انتخاب جیت چکے ہیں اوراب وہ دہلی کی میونسپلٹی سے سنگھ کی بیخ
کنی کئے بغیر نہیں مانیں گے لیکن اگر وہ انتخاب ہار بھی جاتے تو سڑکوں
مظاہرے کرکرکے بی جے پی کی ناک میں دم کردیتے۔ کم از کم دہلی کی حد تک تو
مودی کیلئے اورند کیجریوال ایک مسلسل عذاب سے کم نہیں ہیں بقول شاعر ؎
نئی ایک الجھن نیا ایک غم
نئی اک مصیبت، مصیبت کے بعد
بی جے پی کی اس ناکامی میں صرف اس کا داخلی خلفشار، شاہ جی کی حماقتوں اور
مودی جی کی بدمزہ حکایتوں کا ہی دخل نہیں ہے بلکہ اروند کیجریوال اور عآپ
کے کارکنان کاسب سے بڑا حصہ ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے بعد عآپ نے اپنی
ناکامی کا جائزہ لیا اور اپنی غلطی کا برملا اعتراف کیا ۔ کیجریوال کا عوام
سے اپنے استعفیٰ پر معافی مانگنا ایک ایسا اقدام تھا جس نے ہوا کا رخ بدل
دیا۔ کیجریوال اور ان کی ٹیم نہ بی جے پی کی مانند بیجا خوداعتمادی کے نشے
میں چور ہوئی اور نہ کانگریس کی طرح مایوسی کا شکار رہی بلکہ گلی گلی محلہ
محلہ جاکر عوام سے رابطہ کیا اور اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا۔ ان کو
پتہ چل گیا تھا کہ جب تک بی جے پی کے ہاتھ میں اقتدار کی زمامِ کار ہے دہلی
کے امیر کبیر لوگ اس کے دامن سے لپٹے رہیں گے اس لئے اس نے اپنی ساری توجہ
غریب بستیوں کی جانب مبذول کردی۔ مسلمانوں کو جو بی جے پی کو ہر حال میں
سبق سکھانا چاہتے تھے یہ یقین دلایا گیاکہ بی جے پی کو شکست دینے صلاحیت
کانگریس میں نہیں بلکہ عآپ میں ہے۔ اروند کیجریوال کی للکار اس شعر کی
مصداق تھی کہ ؎
امیر شہر سے اونچے سروں میں بات کرو
امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
امیر شہر کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو
امیر شہر تو اندھا دکھائی دیتا ہے
دہلی انتخابات کے فوری اثرات تو جموں کشمیر اوربہار کی سیاست پر پڑیں گے
اور دیرپا اثر بی جے پی داخلی سیاست پر ہوگا۔ جس دن دہلی میں پولنگ ہوئی اس
کے دوسرے دن جموں کشمیر میں راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کے انتخابات ہوئے۔
ایوان بالا میں چونکہ بی جے پی اقلیت میں ہے اس لئے وہاں ایک ایک رکن بی جے
پی کیلئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اس کے علاوہ چونکہ راجیہ سبھا میں
کانگریس کے لیڈر غلام نبی آزاد اپنی قسمت آزما رہے تھے اس لئے یہ وقار کا
مسئلہ بھی بن گیا تھا۔ آزاد کو ہرانے کیلئے بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ
ساز باز کی تاکہ اس کے اور پی ڈی پی کے دودو امیدوار کامیاب ہو جائیں لیکن
اس کھیل میں اسے ناکامی ہوئی ۔ غلام نبی آزاد نے نیشنل کانفرنس اور آزاد
ارکان اسمبلی کی مدد سے بی جے پی کے چندر موہن شرما کو ہرا دیا۔ آزاد کے
علاوہ پی ڈی پی کے دونوں امیدوار فیاض احمد میر اور نذیر احمد لوئے بھی
کامیاب ہو گئے ۔ بی جے پی کو صرف شمشیر سنگھ پر اکتفا کرنا پڑا۔ شمشیر سنگھ
کو جتانے کیلئے بی جے پی کو پی ڈی پی کی ضرورت نہیں تھی اس طرح دوسروں کی
آنکھ میں دھول جھونکنے والی بی جے پی کشمیر کے اندرخود بے وقوف بن گئی اور
اس کا یہ دعویٰ بھی کھوکھلا ثابت ہوگیا کہ آزاد ارکان اسمبلی کی حمایت اسے
حاصل ہے۔
بہار کے اندر جنتادل(یو) کی سمجھ میں آگیا کہ آئے دن مودی کی تعریف کرنے
والے جتن رام مانجھی کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ مانجھی کسی بھی وقت اپنی کشتی
بیچ کر بھاجپ کےگندے تالاب میں کود سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے تجربہ نے
ثابت کردیا کہ وزارت اعلیٰ کا امیدوار رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بڑا
کردار ادا کرتا ہے۔ اگر بی جے پی نریندر مودی پر انحصار کرنے کے بجائے
سوشیل مودی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنادے تو مانجھی کیلئے اس کا مقابلہ
کرنا مشکل ہو جائیگاایسی صورتحال میں نتیش کمار جیسا گھاگ سیاستدان ہی نیاّ
پار لگا سکتا ہے ۔ اس لئے بجا طور پر مانجھی کو نتیش سے بدلنے کا فیصلہ کیا
گیا۔ اس فیصلے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ورنہ
اگر وہ انتخاب کے بعد جنتا دل (یو) کے کامیاب ارکان اسمبلی کو لے کر بی جے
پی میں چلے جاتے تو بڑا نقصان ہوتا لیکن بی جے پی نے کرن کی مانندمانجھی کی
حمایت کرنے کی تازہ حماقت کرڈالی لیکن بہار کی حماقت ان دونوں کو بہت مہنگی
پڑے گی لیکن اس سے بھی سنگین خطرہ اندرونِ جماعت ان مخالفین سے ہےجوپہ درپہ
کامیابیوں کے شور میں خاموش ہیں۔ دہلی کے بعد بہار میں ہاتھ آنے والی
ناکامی مخالفین کے حوصلے بلند کردے گی اور وہ لوگ ان دونوں کا بوریہ بستر
گول کرکے انہیں گجرات جانے والی سابرمتی ایکسپریس میں بٹھا دیں گے۔ اس وقت
ان کی حالت مجید امجد کے اس شعر کی مصداق ہو جائیگی؎
جہاں سے اڑے تھے، وہیں آ گئے
پرندے سبھی اک مسافت کے بعد
|