( پہلے کا تیسرا)
سوال ٢ :
میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد میں دوسرے سوالوں پر توجہ کرسکتا ہو۔ ایک سوال
حروف مقطعات کے متعلق ہے۔ یعنی قرآن مجید میں بعض جگہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ
حروف ہیں مثلاً الم، حم، عسق، وغیرہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے خود ان الفاظ کی کبھی تشریح نہیں فرمائی۔ اگر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تشریح فرما دی ہوتی تو بعد میں کسی کو جرات نہ
ہوتی کہ اس کے خلاف کوئی رائے دے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر
آراء پائی جاتی ہیں۔ الف صاحب یہ بیان کرتے ہیں۔ ب صاحب وہ بیان کرتے ہیں
اور یہ چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ اس کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی
لوگ نئی نئی رائے دے رہے ہیں۔ لطیفے کے طور پر میں عرض کرتا ہوں۔ 1933ء کی
بات ہے۔ میں پیرس یونیورسٹی میں تھا، تو ایک عیسائی ہم جماعت نے ایک دن مجھ
سے کہا کہ مسلمان ابھی تک حروف مقطعات کو نہیں سمجھ سکے۔ میں بتاتا ہوں کہ
یہ کیا چیز ہے؟ وہ موسیقی کا ماہر تھا، کہنے لگا کہ یہ گانے کی جو لے اور
دھن وغیرہ ہوتی ہے ان کی طرف اشارہ ہے۔ کہنے کا منشا یہ ہے کہ لوگ حروف
مقطعات کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اپنی حد تک میں کہہ
سکتا ہوں مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ سوائے ایک چیز کے اور وہ یہ
ہے کہ ایک حدیث میں کچھ اشارہ ملتا ہے کہ ایک دن کچھ یہودی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور پوچھا کہ تمہارا دین کب تک رہے
گا؟ کم وبیش اسی مفہوم کے الفاظ انہوں نے ادا کیے تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؟ "الم" تو انہوں نے کہا اچھا تمہارا دین الف (١)
ل(٣۰) اور م(٤۰) یعنی اکہتر سال رہے گا الحمدللہ اکہتر سال بعد تمہارا دین
ختم ہوجائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر "الر"
اور "المر" بھی نازل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا الر ٢٣١ سال المرا ٢٧ سال۔ پھر
آپ نے فرمایا کہ مجھ پر فلاں فلاں لفظ بھی نازل ہوا ہے مثلاً لحم عسق وغیرہ۔
یہاں تک کہ یہودیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا اور چلے گئے ہوسکتا
ہے کہ انہیں پریشان کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا
جواب دیا ہو۔ لیکن اس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ حروف کی گویا
عددی قیمت ہے۔ جس طرح لوگ واقف ہیں کہ الف کے ایک، ب کے دو، ج کے تین اور د
کے چار عدد مقرر ہیں اسی طرح عربی زبان میں اٹھائیس حروف ہیں۔ ان سے بہت ہی
مکمل طریقے سے ایک ہزارتک لکھ سکتے ہیں تاکہ ہندسہ لکھنے میں اگر کوئی غلط
فہمی پیدا ہو تو حروف کے ذریعے اسے دور کیا جاسکے۔ میں نے سنا ہے کہ سنسکرت
میں بھی یہ طریقہ موجود ہے لیکن سنسکرت میں حروف تہجی ٢٨ سے کہیں زیادہ ہیں
اور اس میں ایک سو مہاسنکھ تک لکھ سکتے ہیں۔ بہرحال ایک ہزار ہماری ضرورتوں
کے لیے کافی ہے۔ یہ تھا حروف مقطعات کے متعلق میری معلومات کا خلاصہ۔ میں
معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ میں آپ کو کوئی معلومات فراہم نہیں کرسکتا۔
سوال ٣:
ایک اور سوال ہے۔ اچھا ہوتا اگر وہ نہ کیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگوں
کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ قرآن مجید حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے اس میں مسلمانوں کے لیے زیادہ فخر کی بات
ہے وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پڑھے لکھے انسان تھے۔
جواب:
جیسا کہ میں نے عرض کیا اگر یہ سوال نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اگر پڑھے لکھے ہوتے تو کیا آپ کی عزت بڑھ جاتی؟ یا امی
تھے تو کیا آپ کی عزت گھٹ گئی؟ باقی خود قرآن کریم کہتا ہے کہ میں کسی
انسان کی تصنیف نہیں ہوں، میں خدا کا کلام ہوں۔ فرشتے اس کے شاہد ہیں۔ خدا
شہادت دیتا ہے کہ خدا کا کلام ہے (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ علا من خلفہ
٤٢:٤١) خود رسول بھی اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ترمیم کرسکتا
ہے۔ قرآن نے ایک چیلنج بھی دیا ہے جو میری دانست میں اس کے کلام الٰہی ہونے
کا ثبوت ہے۔ وہ چیلنج یہ ہے کہ قرآن جیسی ایک سورت یعنی کم از کم تین آیتیں
لکھنے کی کوشش کرو۔ دنیا کے سارے انسانوں، سارے جنات کی مدد سے بھی تم نہیں
لکھ سکو گے۔ یہ قرآن کا چیلنج تھا۔ اس قرآن کے چیلنج کو آج چودہ سو سال کے
بعد بھی کسی نے کوئی ایسا جواب نہیں دیا، جسے لوگ قبول کرسکیں۔ میں سمجھتا
ہوں کہ ان حالات میں یہ کہنا کہ اگر قرآن مجید کسی انسان کی تصنیف ہو تو اس
کی عزت بڑھ جائے گی، میرے نزدیک کوئی یقینی بات نہیں۔ شخصی طور پر مجھے اس
سے اتفاق نہیں ہے۔
سوال٤:
ایک اور سوال ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی آیت قرآن مجید سے نکال لی
جائے تو کوئی حرج واقع نہیں ہوگا کہ اس قسم کی دوسری آیات موجود ہیں۔ جس سے
اس کا مفہوم ادا ہوسکتا ہے۔ اس کمی بیشی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟
جواب:
اپنے مفہوم کو میں نے شاید ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا یا شاید آپ نے اس کو
پوری طرح سمجھا نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ قرآن مجید کی کچھ آیتیں نکال لی
جائیں۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ قرآن مجید کی جن دو آیتوں کے متعلق یہ
روایت آتی ہے کہ وہ دونوں تحریری صورتوں میں نہیں ملیں، ان میں حقیقتاً
کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے کہ اگر وہ اتفاقاً نکل بھی جائیں تو اس سے قرآن
مجید کی تعلیم متاثر ہو۔ مثلاً صرف ایک آیت میں یہ ذکر ہو کہ اللہ کے سوا
کوئی معبود نہیں۔ فرض کیجئے یہ آیت نہ رہے تو اس کا امکان تھا کہ اسلام
صحیح صورت میں باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جن آیتوں کی
طرف مذکورہ روایت میں اشارہ ہوا ہے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں مثلاً یہ
عبارت کہ (لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم
بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تو لو افقل حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت
وھو رب العرش العظیم ١٢٨:١٩ تا ١٢٩) اس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسے نبی ہیں جن کو اپنی امت کے ساتھ بڑی شفقت ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کی چیز تو ہے
لیکن اس میں کوئ ایسی بات نہیں کہ یہ عبارت نہ ہوتی تو اسلام باقی نہ رہ
سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ قرآن مجید کی آیتوں کے حذف
کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ویسے میں آپ سے عرض کروں گا کہ قرآن کی بعض
آیتیں مکرر ہیں۔ ایک ہی آیت بار بار آتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ان میں سے ایک
حذف کردی جائے تو ظاہر ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
مثلاً سورۂ رحمان میں فبای الاء ربکما تکذبان کوئی پندرہ بیس مرتبہ آیا ہے۔
ان میں سے اگر ایک جگہ حذف کرکے دو آیتوں کو ایک آیت بنادیا جائے تو قرآن
مجید میں جو چیزیں انسان کی تعلیم کے لیے آئی ہیں ان میں عملاً کوئی کمی
نہیں آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کا امکان ہے یا یہ مناسب ہے۔ میں یہ بالکل نہیں
کہہ رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ قرآن مجید کی جس آیت کے
متعلق حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کی ضرورت پیش آئی تھی
اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اسلام کی تعلیم پر مؤثر ہو۔ اس میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی تعریف میں اور آیتیں بھی موجود ہیں۔ یہ تو دراصل نمونہ ہے اس
بات کا کہ قرآن کی تدوین میں کتنی عرق ریزی کی گئ ہے۔ یہ تھا میرا منشا۔
ابھی جاری ہے |