دہلی اسمبلی میں بی جے پی اور کانگریس کی
شرمناک کی شکست کو تجزیہ کار اپنے اپنے نظریے اور حساب سے تجزیہ کر رہے ہیں
۔ لیکن میں اسے بی جے پی کی شرمناک شکست نہیں مانتا۔زیادہ سیٹیں نہیں آئی
ہیں لیکن بی جے پی کے ووٹ فیصد پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ لوک سبھا
انتخابات اور اس کے بعد چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیں تو اس
بات میں دم نظر آتی ہے۔ کیوں کہ لوک سبھا میں بی جے پی کو 31فیصد کے آس پاس
اور ہریانہ، مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر اور پھر دہلی میں ووٹوں
کی فیصد پر نظر ڈالیں تو یہ 31سے 35 کے درمیان فیصد پائیں گے۔ جو لوگ یہ
کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کو ووٹ نہیں ملا یہ غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسے
32.2 فیصد ووٹ نہیں ملتا جو گزشتہ 2013کے اسمبلی انتخاب سے محض ایک فیصد
ووٹ کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر دہلی میں اتنی کم سیٹیں کیوں آئیں تو اس کا
جواب یہ ہے کہ دہلی میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوئی۔ اس لئے یہاں بی
جے پی کا یہ حال ہوا۔ اگر ہریانہ ،مہاراشٹر ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر
میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوتی تو شائد کسی بھی جگہ بی جے پی کی
حکومت نہیں بنتی۔ لوک سبھا سے ریاستی اسمبلی انتخابات تک میں بی جے پی کا
جلوہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم میں نظر آرہا ہے۔ اگرتصور کریں کہ مہاراشٹر میں
کانگریس اور این سی پی، جھارکھنڈ میں جے ایم ایم اور کانگریس، جموں و کشمیر
میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اور ہریانہ میں انڈین لوک دل اور کانگریس
ایک ساتھ مل کر انتخاب لڑتی تو کیا ان میں سے کسی بھی ریاست میں بی جے پی
کی حکومت بن پاتی؟ دہلی میں بی جے پی کی شکست وجہ سے تمام سیکولر ووٹوں کا
کیجریوال کی طرف منتقل ہونا ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کا یکطرفہ طور پر
عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینا بھی ہے۔ مسلمانوں نے دہلی کے مصطفی آباد میں
تھوڑی سی نادانی کی تو وہاں سے بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوا۔ اس کی یہ
کامیابی سیکولر ووٹ کی تقسیم کے نتیجے میں ہوئی۔بی جے پی کو صرف ان لوگوں
نے ووٹ نہیں دیا جو روایتی کانگریس کے ووٹر تھے جو عام آدمی پارٹی کی طرف
منتقل ہوگئے۔ اس لئے ایسا ہوا کہ انہیں معلوم تھا کہ دہلی کانگریس کہیں بھی
مقابلے میں نہیں ہے۔کانگریس کو ووٹ دینابی جے پی کو ووٹ دینا ہے۔ اسی لئے
تمام لوگوں نے کیجریوال کے نام پر ووٹ دیا۔ کیوں کہ دہلی کے عوام کیجریوال
کو پانچ سالہ حکومت سونپ کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے کئے گئے وعدے پورے
کرپاتے ہیں یا نہیں۔ صحیح معنوں میں اسے مکمل جمہوری انتخاب کہا جاسکتا ہے
کیوں کہ عام آدمی پارٹی نے 54فیصد حاصل کرکے جمہوریت کے ایک سنگ میل کو
عبور کیا ہے۔ ورنہ یہاں 31فیصد ووٹوں کے سہارے واضح اکثریت کے ساتھ حکومت
کی جاتی ہے۔ یہ جمہوریت کا مذاق نہیں تو کیا ہے۔ایسی کسی پارٹی کو حکومت
کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہونا چاہئے جسے 51فیصد سے کم ووٹ حاصل ہو۔ نشستوں
کے حساب سے اسمبلی انتخابات کے نتائج اگرچہ بی جے پی کے لئے بے حد خراب ہیں،
مگر صاف طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ووٹر اس سے دور ہوئے ہیں۔ اس بار بی
جے پی کو 32.2 فیصد ووٹ ملے ہیں، جو گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں 1
صرف فیصد کم ہیں۔ 2013 میں اسمبلی انتخابات بی جے پی کا ووٹ شیئر 33.03
فیصد تھا۔سال 1993 سے لے کر اب تک ہونے والے لوک سبھا، اسمبلی اور بلدیاتی
انتخابات میں بی جے پی کا زیادہ سے زیادہ ووٹ شیئر 51 فیصد (1998 لوک سبھا
انتخابات) اور کم از کم 30 فیصد (2002 میونسپل کارپوریشن انتخابات) رہا تھا۔
صرف اسمبلی انتخابات کی بات کریں توبی جے پی نے اس سے پہلے سال 2013 میں سب
سے کم 33 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، مگر اس بار ووٹ شیئر اور بھی کم رہا۔ اس
طرح سے اس بار اسمبلی انتخابات میں یہ اس کی سب سے خراب کارکردگی ہے۔اس بار
کے ووٹ شیئر کا مقابلہ اگر 2013 کے اسمبلی انتخابات کے ووٹ شےئر سے کیا
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کانگریس اور دیگر سے ووٹر بڑی تعداد میں دور ہوئے
ہیں، جبکہ عام آدمی پارٹی کو بھاری فائدہ ہوا ہے۔ اس بار عام آدمی پارٹی نے
54.2 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں، جو گزشتہ انتخابات میں 29.49 فیصد تھے۔ یعنی
اس بار عام آدمی پارٹی کو 24.71 فیصد ووٹوں کا فائدہ ہوا ہے جو سیٹوں کے
طور پر بھی نظر آ رہا ہے۔کانگریس کی حالت اس معاملے میں بے حد خراب ہے۔
گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 24.55 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن اس بار
اسے 9.7 فیصد ووٹ ہی ملے۔اس طرح سے کانگریس کو 14.85 فیصد ووٹ کا نقصان
اٹھانا پڑا ۔ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ کانگریس اپنا اکاؤنٹ بھی نہیں کھول
پائی۔بی جے پی کو اس وقت نقصان نظر آتا ہے، جب اس بار کے ووٹ شیئر کے
مقابلے گزشتہ سال ہوئے لوک سبھا انتخابات سے کی جائے۔گزشتہ سال بی جے پی کو
47 فیصد، عام آدمی پارٹی کو 33 فیصد اور کانگریس کو 15 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اس طرح دیکھیں تو اس وقت بی جے پی کو 2013 اسمبلی انتخابات کے مقابلے 14
فیصد زیادہ ووٹ ملے تھے اور اس اسمبلی انتخابات میں لوک سبھا انتخابات کے
مقابلے 15 فیصد کم ووٹ ملے ہیں۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج نے نہ صرف
اس شہر کی حکومت کا فیصلہ کیا ہے، بلکہ اس میں بی جے پی صدر امت شاہ کی
حکمت عملی بھی مکمل طور پر فلاپ ثابت ہوئی ہے۔دہلی بی جے پی کے ہاتھ سے
سلائڈنگ کا اثر نہ صرف پورے ملک کے جذبات پر پڑے گا، نریندر مودی اور امت
شاہ کی حکمت عملی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔اب تک امت شاہ کو اب تک چانکیہ
کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، لیکن دہلی کی شکست سے یہ بھی سوال اٹھنے
لگیں گے کہ رہنماؤں کی پوری فوج اور کمانڈر کے طور پر نریندر مودی کو
جھونکنے کے باوجود اگر پارٹی کو کامیابی نہیں ملی تو ظاہر ہے کہ پارٹی کی
حکمت عملی ہی فیل ہو گئی۔پہلی غلطی تو یہی کی گئی کہ لوک سبھا انتخابات کے
بعد اروند کیجریوال کو پھر سے اپنا نیٹ ورک کھڑا کرنے کا موقع دیا گیا۔ اگر
اسی لہر کے وقت دہلی میں انتخابات کرائے جاتے تو بی جے پی شاید ہی اتنی بڑی
مشکل سے دوچار ہوتی۔ چار ریاستوں میں تو انتخابات ہوئے، لیکن دہلی کو لے کر
بی جے پی ہمت نہیں کرسکی اور بار بار اسے ٹالتی گئی۔دوسری سب سے بڑی غلطی
پارٹی اور خود نریندر مودی کی سطح پر ہوئی۔پہلے پارٹی کے لیڈر ہرش وردھن کی
وزارت بدل کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ قابل نہیں ہیں۔ اس سے ہرش
وردھن کی صلاحیت پر خود پارٹی نے سوال کھڑے کر دیے۔ اگر ہرش وردھن کو سی
ایم کے طور پرپروجیکٹ کیا جاتا تو دہلی میں پارٹی کے لئے کیجریوال کا سامنا
کرنا نسبتاً آسان ہوتا۔تیسری بڑی غلطی تب کی، جب کسی کو بھی وزیر اعلی کا
امیدوار نہ بنانے کا فیصلہ کو بدل دیا۔سی ایم کنڈیڈیٹ بھی پارٹی کے اندر کی
بجائے کرن بیدی کو بنایا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ لیڈران ناراض ہوگئے۔ ’’آپ‘‘
گزشتہ ایک سال سے انتخابات کی تیاری کر رہی تھی، جبکہ گزشتہ چھ ماہ میں چار
ریاستوں میں انتخاب لڑ نے والی بی جے پی پست دکھائی دے رہی تھی۔’’آپ‘‘ کی
منصوبہ بند اور جارحانہ تشہیر کے سامنے پوری انتخابی مہم کے دوران بی جے پی
مایوس نظر آئی اور دہلی میں ایسے بیرونی لیڈروں کو لگایا گیا جنہیں یہاں کی
سمجھ نہیں تھی۔ اس سے زمینی کارکنوں میں بھاری ناراضگی تھی۔ دہلی اسمبلی کا
انتخاب غیر معمولی انتخاب تھا۔ پوری دنیا کی نگاہیں اس پر لگی ہوئی تھیں۔
یہی وجہ ہے غیر ملکی میڈیا نے اپنے اپنے ڈھنگ سے مودی (بی جے پی) کی شکست
پر اپنی رائے ظاہر کی۔نیویارک ٹائمز نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی
جیت کے ایک سال سے بھی کم وقت میں دارالحکومت میں ہونے والے شکست کو ایک
’چھوٹا سیاسی زلزلے‘ قرار دیا ہے۔ اخبار نے لکھا، ’’نریندر مودی کی تاریخی
جیت کے ساتھ ملک کا نیا وزیر اعظم بننے کے ایک سال سے کم وقت میں دس فروری
کو دارالحکومت میں ایک چھوٹا سیاسی زلزلہ آیا۔انتخابات کے نتائج سے ظاہر
ہوتا ہے کہ مودی کی حکمران پارٹی کو مقامی انتخابات میں ایک نوجوان سیاسی
پارٹی نے بری طرح شکست دی، جس کی قیادت ایک بدعنوانی کی مخالفت کرنے والے
لیڈر (اروند کیجریوال) کرتے ہیں۔اخبار نے لکھا ہے، ’’انتخابات کو مودی کے
سیاسی دبدبے کی پیمائش کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ پچھلی مئی میں مودی کے
وزیر اعظم بننے کے بعد سے ان کی پارٹی بی جے پی کو یہ پہلا سیاسی جھٹکا لگا
ہے۔مودی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے دم پر بی جے پی نے حالیہ مہینوں
میں کئی ریاستوں میں انتخابات جیتے تھے اور انہیں دس فروری کو اپنی کامیابی
دہرانے کی امید تھی ۔لیکن دہلی نے ثابت کر دیا کہ کیجریوال کے کرشمے سے بی
جے پی کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔امریکہ کے نیوز چینل سی این این نے آئی جیک
نیوٹن کے فزکس کے اصول کا ذکر کرتے ہوئے مودی پر طنز کرتے کرتے ہوئے
کہا،’فروری کے دوسرے ہفتے نئی دہلی ایک مختلف سائنسی موضوع فزکس پر بحث کرے
گی۔فزکس کے مطابق جو اوپر اٹھتا ہے اسے نیچے بھی آنا چاہئے۔ پچھلی مئی میں
پارلیمانی انتخابات میں بڑی جیت درج کرنے اور پھر ملک کے کچھ ریاستوں میں
اسمبلی انتخابات میں اس کی کارکردگی کو دہرانے کے بعد حکمراں بی جے پی کو
دہلی کے انتخابات میں زبردست جھٹکا لگا ہے۔بی بی سی نے بھی اس ہار کو وزیر
اعظم مودی کے لئے گزشتہ سال مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پہلا بڑا
دھکا بتایا۔برطانیہ کے اخبار ’دی ٹیلگراف‘ نے دہلی اسمبلی انتخابات میں بی
جے پی کی شکست کو شرمناک قرار دیا، جبکہ گارجین نے اس چونکانے والے نتائج
کو مودی کے لئے چوٹ بتایا۔ اپنے 49 دن میں کرپشن سے پاک حکومت چلانے والی
عام آدمی پارٹی نے اس بار بھی انتخابات میں بدعنوانی کو اہم مسئلہ
بنایا۔’آپ‘ کے کارکن اسی معاملے پر دہلی کے لوگوں کے درمیان حمایت حاصل
کرنے کی مہم میں لگے رہے۔ اپنے گزشتہ دور حکومت میں غریبوں نے سی ایم اروند
کیجریوال کے 49 دنوں کو مفت پانی، گھٹے ہوئے بجلی بل اور سرکاری بابوؤں کے
بدعنوانی میں کمی کے طور پر یاد کیا۔ اسی وجہ سے ’آپ‘نے دہلی کے کاروباری
لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے گھر، تعلیم اور یہاں تک کہ ملازمتوں
کا وعدہ کیا۔جس طرح پی ایم مودی کی کشش نے دہلی کے نوجوانوں کو پارٹی کے حق
ووٹ ڈالنے کے لئے مجبور کیا تھا اسی طرح کیجریوال حالیہ اسمبلی میں اپنے حق
میں راغب کرنے میں کامیاب رہے۔ کالج کے اسٹوڈنٹس سے لے کر نئے نوکری پیشہ
اور پروفیشنل تک نے بھی آپ کی حمایت کی۔اس کے علاوہ اس بار عام آدمی پارٹی
نے دلتوں اور مسلمانوں کے درمیان اپنا رسوخ بنانے میں بے پناہ کامیابی حاصل
کی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے یکطرفہ طور پر عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔
رپورٹ کے مطابق اس بار دہلی کے دلت اور مسلمان ووٹروں نے عام آدمی پارٹی کے
حق میں ووٹ دیا ہے۔ مسلم ووٹروں کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح بی جے پی کو
جیت سے روکا جائے ۔ووٹروں کو پتہ چل چکا تھا کہ کانگریس کی اس انتخابات میں
شکست طے ہے، اس لئے انہوں نے ’آپ‘ میں اعتماد ظاہر کیا ۔میڈیا کی طرف سے
عام آدمی پارٹی کے خلاف اپنائے جانے والے مخالفانہ رخ نے بھی آپ کو آگے
بڑھنے کا موقع دیا۔ جب انتخابات کا اعلان ہوا تب بیشتر نیوز چینل ’آپ‘
کوانتخابی اندازوں میں برتری کو دکھانے لگے۔ اس برتری کا مخالف پارٹیوں نے
منفی طریقوں سے مخالفت کی جو آپ کے حق میں گیا۔ بی جے پی کی منفی مہم نے
بھی آپ کو کامیاب کرنے میں سب سے بڑا رول ادا کیا۔عام آدمی پارٹی سے گزشتہ
دور حکومت میں سب سے زیادہ فائدہ غریبوں کو ملاتھا۔ انہیں نہ تو پولیس نے
تنگ کیا اور نہ ہی سرکاری بابوؤں کی ہٹلری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا راست
فائدہ عام آدمی پارٹی کو ملا۔ حالانکہ اس غریب طبقے کو لبھانے کے لئے
کانگریس اور بی جے پی نے بھرپور کوشش کی اور کوشش کی اور اس سے خوشنما وعدے
بھی کئے لیکن اس کا اعتماد آپ میں ہی نظر آیا۔ آپ کی کامیابی میں ہریانہ،
مہاراشٹر، جھارکھنڈ او رکشمیر میں پیر نہ پھلانا بھی اہم کردار ادا کیاکیوں
کہ اس نے لوک سبھا انتخابات سے سبق لیتے ہوئے اپنی ساری توجہ دہلی پرمرکوز
کی تھی۔اسی کے ساتھ اس پارٹی کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پرپوری توجہ مرکوز
کی۔ اس پر جہاں اس پارٹی کے کارنامے بیان کئے گئے اور اپنے 49دن کی حکومت
میں وعدے پورا کرنے کو بتایا وہیں مودی حکومت کی وعدہ خلافی، خواتین پرظلم
و ستم، ان کی آبروریزی،اقلیتوں کے خلاف جارحانہ مہم، چار بچے پیدا کرنے،
رام زادوں اور حرام زادوں والی باتوں کی سوشل میڈیا کے ذریعہ جم کر تشہیر
کی گئی۔ اسی کے ساتھ آپ حامی ڈانس گروپ ’’ڈانس فور ڈیموکریسی‘‘ نے بھی رائے
دہندگان کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی۔ بی جے پی کی ناکامی میں جہاں ان کی
فرقہ پرستانہ سوچ، اقلیتوں کے خلاف جارحانہ مہم، اشتعال انگیز بیان، مودی
کے دس لاکھ کا سو ٹ اور نو مہینے کے دوران ایک بھی وعدہ کا پورا نہ
کرناوہیں فرقہ وارانہ فسادات ، بی جے پی لیڈروں کی اشتعال انگیزی ، تہذیب
کے تمام دائرے کو پار کرنا، بدتمیزی کا طوفان کھڑا کرنا، لڑکیوں کے ساتھ
بدتمیزی اور ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے پر مودی کی مکمل خاموشی
نے نہ صرف ملک میں امن پسند طبقہ کو پریشان کیا بلکہ بیرون ممالک بھی
ہندوستان کی شبیہہ داغدار ہوئی۔ نیویارک ٹائمس کا اداریہ اس کا ثبوت ہے۔ بی
جے پی کی شکست میں مودی کے بڑھ بولے پن نے بھی اہم رول ادا کیا ہے جو انہوں
نے دہلی کی انتخابی ریلیوں میں کیجریوال پر طنز کیا تھا۔ انہوں نے دوارکا
کی انتخابی ریلی ۔ \'\' جن لوگوں کو صرف ٹی وی پر آنے کا شوق ہے، وہ حکومت
نہیں چلا سکتے‘‘۔ اسی ریلی میں ’’دلی میں ایسی حکومت چاہئے، جو مودی سے ڈرے،
ہندوستانی حکومت سے ڈرے، جس کو مرکز کی پرواہ نہیں، وہ کیا حکومت چلائے گا؟
‘‘ اسی ریلی میں ’’میری حکومت بنتے ہی، ملک میں پٹرول ڈیزل کے دام گر
گئے۔لوگ کہتے ہیں یہ تو مودی کا نصیب ہے، اس میں برا کیا ہے؟‘‘شاہدرہ کی
انتخابی ریلی میں’’گزشتہ سال آپ نے جس کو ووٹ دیا، اس نے آپ کی پیٹھ میں
چھورا گھونپا اور آپ کے خواب چور چور ہو گئے۔ دہلی دھوکے بازوں کو ووٹ نہیں
دے گی‘‘۔ رام لیلا میدان ’’ہمیں یہاں ترقی چاہئے، افراتفری نہیں، ان کی
ماسٹری دھرنا کرنے میں ہے۔ سروے پر ’’ہندوستان میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے
لئے کیسی کیسی سازش کی جاتی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران سینہ تان
کر کچھ بازارو لوگ سروے کرتے تھے اور 50 سیٹ دے دی تھی، اخبار نکال کر
دیکھو اور ثبوت مل جائے گا۔جب نتیجہ آئے تو وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر
بھی نہیں آ پائے تھے۔‘‘ انتخابی فنڈنگ پر مسٹر مودی نے کہا تھا کہ مجھے تو
اس بات کا تعجب ہے کہ انہیں مہاتما گاندھی اور براک اوباما تک نے چندہ دیا
ہے! بی جے پی اور نریندر مودی کی منفی مہم نے عام آدمی کے تئیں ہمدردی میں
اضافہ کیا۔ لوگوں کے دماغ میں یہ بات گھرکر گئی کہ جو نو مہینے کا حساب
نہیں دے رہا ہے وہ 49دن کا حساب کیسے مانگ سکتا ہے۔ مسلمان عام آدمی پارٹی
کی کامیابی سے آپے سے ہاہر ہورہے ہیں۔ یہ وقت غور فکر کرنے کا ہے۔اپنی حکمت
عملی طے کرنے کا وقت ہے وہ کیجریوال حکومت سے اپنا کیاکیا کام کرواسکتے ہیں۔
مسلم علاقوں میں جو سہولت کا فقدان ہے اسے کیسے حاصل کی جائے۔ دہلی میں
اردو میڈیم سرکاری اسکولوں اور دیگر سرکاری اسکولوں میں اردو ٹیچروں کی
ہزاروں آسامیاں خالی ہیں اسے کیسے پر کیا جائے، وقف املاک پر قبضہ برقرار
ہے اسے واگزار کیا جائے۔ دہلی کے مختلف محکموں میں اردو کی کئی جگہیں خالی
ہیں اسے پر کروایا جائے۔ خود رو پودے کی طرح کئی لوگ میدان میں آگئے ہیں جو
اپنی ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے عام آدمی پارٹی کے حامی بن گئے ہیں۔
مسلمانوں کو پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرناہوگا اس کے بعد ہی کام کروانے کے
بارے سوچیں۔مسائل حل کی تجویز کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کریں۔ اگر مسلم
رہنماؤں نے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اس سمت میں کام کیا تو
یقیناًبہت حد ان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ |