بیٹی اِس صدی میں بھی بوجھ؟؟؟؟؟
نام تو اُس کا سحر تھا مگر اِس میں دوسروں کو سحر زدہ کر دینے والی کوئی
بات نہ تھی ۔عام سے نین نقش ہی تو تھے ، اوپر سے اپنے گھر میں سب سے بڑی ،اور
بہن بھائیوں کی فوج ظفر موج ، اورسونے پر سُہاگہ گھر کی غربت ، جہاں ہر وقت
پیٹ بھرنے کے لالے پڑے ہوتے تو اُس پر یا اُس کی بات پر کوئی توجہ کیسے
دیتا ؟ کبھی کبھی دیر تک آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر سوچتی کہ پتہ نہیں
ماں باپ نے کیا سوچ کر یہ نام رکھا ہے ، خود پر دوسروں کی پڑنے والی نظریں
اتنی مضحکہ خیزہوتیں کہ اپنے آپ سے بھی ڈر لگنے لگتا ،پڑھنے کی بے حد شوقین
تھی اماّں نے جب قرآن پڑھانے بٹھایا تو چھوٹے حافظ جی ہمیشہ کہتے اماّں
بختن ! تیری دِھی بڑی ذہین ہے سبق بہت جلد یاد کر لیتی ہے۔ دیکھنا یہ قرآن
بھی جلدی ختم کر لے گی ، اور ہوا بھی یہ ہی ، مگر جس گھر میں صرف بیٹوں کے
ہی لاڈ اُٹھائے جاتے ہوں جہاں صرف اُن ہی کے لئے پڑھائی کے دروازے کُھلے
ہوں چاہے وہ کس قدر نکمےّ ہی کیوں نہ ہوں وہاں سحر جیسی لڑکیوں کی ذہانت
کون دیکھتا؟ کبھی کبھی دبے لفظوں میں اماّں سے قریبی اسکول میں داخلہ لینے
کا کہتی بھی تو اماّں جو اِس گھر کا بوجھ اُٹھا اُٹھا کر انتہائی چڑچڑی ہو
گئی تھی جھلاّ کر کہتی کہ تیرا دماغ خراب ہے ؟ پڑھ کر کیا کرے گی ؟ گھر کے
کام کاج سیکھ یہ ہی تیرے آگے کام آئیں گے تو وہ اکثر دِل مسوس کر رہ جاتی ۔
آج سحر بہت خوش تھی اِس کی پکّی سہیلی خیرن کی شادی جو تھی ،لال جوڑے میں
خیرن کتنی اچھی لگ رہی تھی وہ بھی عام نقوش کی مالک تھی اُس کی طرح مگر آج
اُس کو روپ دو آتشہ تھا وہ پلک جھپکائے بغیر بس ایک ٹِک اُس کو دیکھے گئی ،پھر
خیرن رخصت ہو گئی ،مگر جب بھی وہ اپنی ماں سے ملنے آتی سحر کے پاس ضرور آتی
، اُس کے کپڑے ،اُس کی ہنسی ،اُس کے چہرے کی آب و تاب سب اُسے کتنا اچھا
لگتا تھا وہ سوچتی کہ ایک دِن اِس کی بھی شادی ہو جائے گی وہ بھی ایسے ہی
خوش رہا کرے گی، آخر کار وہ دِن بھی آگیا کہ اُس کا رشتہ پکاّ ہو گیا شادی
والے دِن تو وہ جیسے خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کرتی ، کوئی تو ہے جس کو
اِس کی قدر ہے ، کوئی تو ہے جو اِس کو بہت چاہے گا ،جو کہے گی مانے گا ،آنے
والے خوبصورت دِنوں کے ڈھیروں سپنے اپنی آنکھوں میں سجاتی وہ بابُل کے گھر
سے پِیا دیس سدھار گئی ،شادی کے ابتدائی ایاّم تو خوشیوں کے ہنڈولے میں
جھولتے گُزرے،اور ایک ہی سال میں ایک ننھی پری اِس کی گود میں آ گئی ،وہ تو
جیسے پھولے نہ سما رہی تھی ،پا ؤں تھے کہ زمین پر ہی نہیں ٹِک رہے تھے ،ماں
بننے کا احساس کس قدر سحر انگیز ہوتا ہے اُسے آج پتہ چلا ،میں اپنی بیٹی کو
خوب پڑھاؤں گی ،ڈاکٹر بناؤں گی یہ وہ سب کام کرے گی جو میں نہ کر سکی ،مگر
اِس کے سسرال والوں اور شوہر کو تو بیٹی پسند ہی نہیں آئی ،ہمارے گھر میں
پہلی اولاد بیٹا ہوتا ہے ،شوہر نے انتہائی نخوت سے کہا اور بیٹی کی شکل
دیکھے بغیر ہی چلا گیا اپنی بیٹی کے بارے میں دیکھے گئے ہزاروں سپنے کانچ
کی کرچیوں کی طرح آنکھوں میں چبھنے لگے، اور آہستہ آہستہ بیٹے کی خواہش میں
چار بیٹیاں یکے بعد دیگر ے اُس کی گود میں آگئیں اِن کی قلقاریوں سے پورا
گھر گونجتا ،اور اِ ن پر پڑھنے والی پھٹکار سے اُس کا دِل کٹ کٹ جاتا-
اب مجھ سے اِن کا بوجھ نہیں اُٹھایا جاتا اِن کو ایدھی سینٹر میں ڈال دے
تاکہ اِن کا مستقبل سنور جائے ، اُس کے شوہر کے الفاظ تھے کہ پگھلا ہوا
سیسہ، وہ اپنی جگہ دم بخود رہ گئی ،نہیں نہیں ! یہ نہیں ہو سکتا یہ بوجھ
نہیں ہیں جیسے مجھے سمجھا گیا مگر اُس کی آوازحلق میں ہی گُھٹ کر رہ گئی ۔کم
عمری میں شادی ہونے کے باوجود وہ انتہائی عمر رسیدہ لگنے لگی تھی ، گھر کی
ذمہ داریاں ،مسئلے مسائل اور غربت سب نے مل کر اُس کی فکروں میں حد درجہ
اضافہ کر دیا ۔ اور پھر ایک دِن وہی ہوا جوکہ اکثر گھروں کا طریقہ ہے ،
بیٹے کی خواہش میں ساس نے اِس کے شوہر کی دوسری شادی کردی اور لڑکیوں کا
بوجھ نہ اُٹھانے کے لئے اُنھیں ایدھی سینٹر میں پھینک دیا گیا ،وہ چیختی
رہی، چلاّتی رہی ، بَین کرتی رہی مگر اِس کے آنسو اور اُجڑی گود دیکھنے
کوئی نہ آیا ۔فلک شگاف چیخیں اِس کی بے بسی اور لڑکی ہونے کی غماّزی کر رہی
تھیں ۔جب وہ چیختے چیختے چُپ نہ ہوئی تو شوہر اور ساس نے اُس کو پکڑ کر مٹی
کا تیل چھڑک کر آگ لگا دِی ۔اگلے دِن کے اخبار کے ایک کونے میں ایک چھوٹی
سی خبرتھی کہ:۔
چوُلھا پھٹنے سے ایک عورت جاں بحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
(روبینہ احسن۔ کراچی) |