وہ وہیں بیٹھا کافی دیر روتا رہا
تہجد کے بعد نماز فجر بھی گزر گئی مگر وی اسی ترح لکڑی کے دروازے کے ساتھ
لگے روتا رہا اس کا معمول تھا کہ وہ تھجد کی نماز ادا کرتے ہی وہاں سے نکل
جاتا اور پھر سیدھے دربار پہ پہنچتا جہاں وہ فجر کی نماز ادا کرتا اور فجر
کی ازان سے کچھ دیر پہلے بابا جی کے پاس بیٹھ کر ان سے کلام سنتا رہتا ۔۔۔۔اسے
انس کلام سے بہت سکون ملتا اور وہ تمام رات اسی سکون کی تلاش میں بٹھکتا
رہتا ۔۔۔
مگر سکون شاید اس کی زندگی سے بہت پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا یا کھبہ سکون
ملا ہی نہ تھا ۔۔۔۔
وہ فجر کی ازان سنتے ہی خود کو بمشکل سنمھالتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
اسے دن نکلنے سے پہلے ےہاں سے جانا تھا ۔۔۔
اور پھر وہ اٹھا ۔۔۔۔تو اسے لگا اس کے جسم سے جان نکال لی گئی ہو ۔۔۔وہ
زمین پہ اپنا ہاتھ رکھے زمین کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔اتنا نڈھال تو وہ
کھبی نہ ہوا تھا ۔۔۔۔
وہ زخم جن سے وہ خود کو بھگائے پھر رہا تھا ۔۔۔۔
وہ زخم جو ناسور بن چکے تھے
وہ زخم جو اسے دن رات کچوک لگاتے تھے ۔۔۔
آج ان زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا تھا ۔۔۔
اور
یہ زخم تازہ کرنے والی جگن تھی ۔۔۔
جو آج اسے اس کی پہچان
اس کی اوقات
اس کا اصل بتا گئی تھی
وہ حقیقت
جس سے وہ نظریں چرائے ۔۔۔
لا پراوہ
اور بیگانہ۔ رہنے کی کوشش کرتا ۔۔۔
آج وہ حقہقت اسے باور کروا گئی تھی ۔۔۔۔
آہستہ آہستہ خالی اور ویران سڑک پہ چلتے ہوئے جگن کے کہے گئے الفاظ اس کے
کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔
تم بھی اسی گندی نالی کے کیڑے ہو ۔۔‘‘
نہ تم جانتے ہو تمھارہ باپ کون ہے ‘‘
نہ تم جانتے ہو تمھارہ باپ کون ہے ‘‘
نہ تم ۔۔۔۔نہ تم ۔۔۔۔
اسے اپنے کانوں میں جگن کے کہے گئے الفاظ کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔۔۔
وہ وہیں بیش سڑک گر گیا اب اس سے چلنا مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔اس کا سر درد سے
پھٹ رہا تھا ۔۔۔۔
اس نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے اسے لگا جگن اب بھی اس کے آس پاس بول رہی
ہے
تم ناپاک ۔۔۔
تم ناپاک
اس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں
پہ پھیل رہے تھے وہ زمین پہ بیٹھا ہچکیاں لیتے ہوئے اونچی آواز میں رونے
لگا ۔۔۔۔اس کے دل کا درد بڑھ رہا تھا ۔۔۔وہ بچوں کی طرح ڈھاریں مار مار کر
رونے لگا ۔۔۔۔
پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اس لمحے اس کا رونا صرف آسمان والا ہی سن رہا
تھا ۔۔۔۔۔
یا اللہ ۔۔۔۔یا اللہ ۔۔۔میں کیا کروں ؟۔‘‘
آپ ہی بتائیں ۔۔۔‘‘ میں کہاں چھپ جاؤی ‘‘
یااللہ ۔۔۔میرا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔۔۔۔‘‘
اب اس میں اور درد سمانے کی جگہ نہیں ہے ‘‘
یا اللہ‘‘ یا تو میرے اندر کا یہ درد یہ پیاس ختم کر دے یا مجھے اٹھا لے ‘‘
نہیں سہا جاتا مجھ سے یہ درد ۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔۔‘‘
میں اس طرح روز روز نہیں مر سکتا ‘‘
وہ آسمان کی طرف سر اٹھائے درد بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
پھر اس نے سر جھکا لیا ۔۔۔۔اور اپنے دونون ہاتھوں سے اپنے چہرے پہ پھلے
آنسوؤں کو بے دردی سے مسل ڈالا ۔۔۔۔
اور اٹھ کر چلتے لگا
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
رقص کرتی جگن کا چہرہ پسنے سے تر تھا ۔۔۔اس کے گالوں پہ میک اپ کے باوجود
بھی ہلکے ہلکے نشانات تھے ۔۔۔۔
ان تھپڑوں کے جو کچھ دیر پہلے اس کو مارے گئے تھے ۔۔۔۔اس کوٹھے کی تمام
لّکیاں جانتی تھیں کہ وہ رات کے اس پہر محکے شروّ ہونے سے پہلے کہاں جاتی
تھی ۔۔۔۔
جگن اس کوتھے کی مالکن ستارہ بائی کی بیٹی تھی ۔۔۔۔
مگر اسے بتایا گیا تھا اس کا باپ کوئی سیٹھ تھا۔۔۔۔جو جگن کے جنم کے بعد
واپس نہ پلٹا ۔۔۔اور اس کی ماں نے کھبی انتظار بھی نہ کیا کہ کوٹھے پہ آنے
والے ان سیٹھ لوگوں کا کیا اّتبار اور انتظار ۔۔۔۔جو کھبی پلٹ کر نہیں آیئں
گے ۔۔۔مگر وہ کافی پیسہ ستارہ بائی کو دے طکا تھا ۔۔۔جس کی وجہ سے ستارہ
بائی اپنی دنیا میں خوش تھی ۔۔۔۔
مختلف طریقں سے اس تک لڑکیاں پہنچائی جاتی تھیں ۔۔۔
اور کچھ اغواٰء کی گئیں تھیں ۔۔۔۔
کچھ لڑکیوں کو لوگ مہنگے داموں خرید کر لے جاتے تھے ۔۔۔مگر جگن کو یہ سب نہ
پسند تھا ۔۔۔جگن چونکہ ستارہ بائی کی اپنی بیٹی تھی اس لیے ۔۔۔۔وہ صرف رقص
کی محفل کے لیے ہی راضی تھی ۔۔۔۔۔بہت سے مرد جو اس کوٹھے پہ آتے جگن کی
خوبصورتی اور اس کا رقص دیکھ کر اس کو خریدنا چاہتے ۔۔۔
ایک دو بار جگن کی ماں نے جگن کو ان کے ساتھ کچھ عرصے کت لیے بھیجنا چاہا
مگر جگن نے اس بات سے سختی سے انکار کر دیا ۔۔۔۔اسے ان لڑکیوں پہ بہت ترس
آتا جنہیں لوگ خرید کر لے جاتے ۔۔۔۔
آج کی محفل کا مہمان خصوصی بھی ۔۔۔ایک امیر ترین شخص جعفر تھا ۔۔۔جو کہ
پچاس سال کے لگ بھگ تھا ۔۔۔۔اور خوش شکل تھا ۔۔۔جعفر کا بے خودی مٰن ارد
گرد سے بے نیاز انتہائی خوبصورتی سے رقص کری جگن پہ دل آ گیا تھا ۔۔کاپٹ پہ
گری جگن کا چہرہ ھاتھوں میں لیتے ہوئے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
اس کی آنکھیں شیطانیت سے چمکنے لگیں ۔۔۔۔تھوڑی دور بیھٹی ستارہ بائی
گھبراتے ہوئے اٹھی اور جگن کی طرف بڑھی
مگر وہ ارد گرد سے بے نیاز بے ہوش پڑی تھی ۔۔۔
آپ زرا پیچھے ہو جائیں ‘‘ شاید اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اندر لے جاتے ہیں
‘‘ستارہ بائی چہرے پہ مصنوئی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی ۔۔۔
سیٹھ جعفر اسے وہیں چھوڑ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔اس کی نظریں ابھی تک جگن پہ
جمی ہوئیں تھیں ۔۔۔
پھر ستارہ بائی کے اشارے پہ تین لڑکیاں آئیں اور اسے بمشکل اندر کی طرف لے
گئیں ۔۔۔۔جعفر کی نظروں نے دور تک جگن کا توقب کیا ۔
یہ ۔۔۔‘‘جعفر نے جگن کے بارے میں ستارہ بائی سے بات کرنا چاہی ۔۔۔وہ اس کے
لیے بے شین ہو رہا تھا ۔۔۔
ستارہ بائی نے مسکرانے کی کوشش کی ۔۔۔
جی وہ شایگ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔‘‘ مگر آپ تشریف رکھیں ‘‘
ستارہ بائی جعفر کی نظر اس کی بات کا مطلب سمجھ چکی تھی مگر اس نے بات
بدلنا چاہی ۔۔۔
اگر یہ لڑکی ۔۔۔‘‘
آپ ابھی تشریف رکھیئے میں آپ کے لیے اور انتظم کرواتی ہوں ‘‘ پھر اس بارے
میں بات کرتے ہیں ۔۔۔۔‘‘ستارہ بائی نے آہستہ آواز میں کہا کہ پاس بیٹھے
دوسرے مرد سن نہ سکیں ۔۔۔۔وہ جعفر کے یوں بے چین ہو جانے پہ گھبرا گئی تھی
۔۔۔۔وہ کھڑے کھڑے ابھی سارے معاملات تہہ کر لینا چاہتا تھا ۔۔۔۔
نہیں اب میں شلتا ہوں پھر آؤں گا ۔۔۔‘‘ امید ہے تب تک آپ فیصلہ کر چکی ہوں
گی ۔۔۔‘‘
اور ‘‘ ہاں یاد رہے کہ یہ فیصلہ میرے ہی حق میں ہو ‘‘اس نے مسکراتے ہوئے
کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا ۔۔۔اس کے ساتھ آیے ہویے تین گن مین بھی اس کے
پیچھے ہو لیے ۔۔۔جو دروازے میں کھڑے تھے ۔۔۔۔ستارہ بائی نے ماتھے پہ آیا
پسینہ صاف کیا ۔۔
وہ پریشان ہو گئیں تھیں ۔۔۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
اس کی طبیعت ذرا سنبھلی توہ گھر سے نکل آیا ۔۔۔اس نے یہ ہی بتایا کہ وہ
محلے کے دوستوں کے پاس جا رہا ہے ۔۔۔
سلنان پتر تیری تبعیط ابھی ٹھیک نہیں ‘‘ تو ابھی گھر بیٹھ ‘‘ بعد میں مل
لینا اپنے دوستوں کو ‘‘ اماں نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر اس نے ان سنی کر
دی اور وہہھر سے باہر نکل آیا ۔۔۔
اس کے قدم بے اختیار فرح کے گھر کی ترف اٹھنے لگے ۔۔۔۔اور وہ تیز تیز قدم
اٹھاتا چلا جا رہا تھا
فرح کا گھر ان کے گھر سے پانچ منٹ کے فاصلے پہ تھا ۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا
اسے لگا
وہ فرح کے گھر پہنچے گای تو فرح کسی کمرے سے بھاگتی ہوئی اس کے سامنے آکھڑی
ہو گی
اور پھر قہقہہ لگاتے ہوئے اس کا مزاق اڑائے گی ۔۔۔
پھر کہے گی
ارے میں تو گھر میں ہی چھپی ہوئی تھی ۔۔۔۔‘‘
مجھے پتہ تھا تم مجھے باہر ڈھونڈ رہے ہو گے‘‘ اور دیکھو‘‘ تم نے گھر میں
دیکھا ہی نہی ‘‘
میں تو یہئں چھپی بیٹھی تھی ‘‘
ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا تھا کھیلتے کھلیلتے وہ گھر چھپ جاتی
پھر سلمان اور صائمہ اسے سارے محلے میں ڈھونڈتے رہتے ۔۔۔۔
وہ اسی سوچ کو لیے پر امید
ارد گرد سے بے نیاز چل رہا تھا
جب گلی کے کونے پہ بیٹھے لڑکوں میں سے ایک کی آواز نے
اس کے پاؤں جکڑ لیے ۔۔۔
ارے ‘‘ دیکھو وہ جا رہا ہے مجنوں ‘‘
جس کی لیلٰہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ‘‘
جاری ہے ۔۔ |