یہ زمانہ موبائلوں ،لیپ ٹاپوں،میسجوں ،کالوں اور میلوں کا
ہے ۔یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جتنا میل اس زمانے میں ہوا ہے پہلے
کبھی نہ تھا۔اور آنے واکے زمانے میں اس سے بھی زیادہ ہو گا۔کیوں کہ ترقی
ابھی شروع ہوئی ہے: آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
دین و دنیا ایک دوسرے کے لئے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں۔حتیٰ
کہ ایک دوسرے کی سمجھ بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ایک کو سمجھنے کے واسطے دوسرا
ضروری ہے۔ویسے کو خدائی باتیں انسان کے ادراک سے بالا تر ہیں لیکن انسان کی
معلومات سے انطباق کر کے اس کو خدائی باتیں سمجھائی جاتی ہیں۔جیسے زمیں کا
مردہ ہو کر پھر سے سر سبز و شاداب ہو جانا، بیج سے پودے کا اور پھر اس کا
اور زیادہ نشوو نما پانا،اور ایسے ہی انسان کی نیکیوں کا پھلنا پھولنا۔بے
شمار مثالیں موجود ہیں۔
موجودہ انسانی دنیا نت نئی سائنسی دریافتوں اور ایجادوں سے لبریز ہو گئی ہے
کہ کبھی کبھی خیال عجیب ہو جاتا ہے کہ اتنی بڑی سائنسی دنیا سے منتقل ہونے
والا انسان اس دنیا میں کیسے سکون پائے گا،کیا وہاں بھی وہ ساری سہولتیں
اور آسائشیں ہوں گی جن کو انسان اس دارِ فانی میں چھوڑکر جائے گا۔وہاں یہ
ساری سہولتیں کیسے ملیں گی ؟کیا وہاں کے کارکن ان ساری سائنسوں سے واقف ہو
گئے ہوں گے جو آج کے انسان کا دل بہلانا اور اسے مصروف رکھنے کے لئے ضروری
قرار پا چکی ہیں۔اگر ملائک یہ سب کچھ کر چکے ہیں تو آفرین ہے کہ ملائک ہوتے
ہوئے بھی انسانوں والے کام کر لئے۔اور اگر وہاں ابھی ان تمام سہولتوں کی
انسٹالیشن ابھی باقی ہے تو بیچارے انسان کو خود ہی سارا کچھ بنانا اور
لگانا پڑے گا۔کیونکہ یہ ساری ایجادیں ملائک کے بس کی بات نہیں۔
ملائک کا ذکر آتے ہی ایک اور ہستی کا ذکر دل میں خود ہی آجاتا ہے۔اور ہستی
ہے ’حور‘۔جنت کی حوریں ہمارے لئے ایک حسین خواب کا درجہ رکھتی ہیں۔اکثر لوگ
بیویوں کے ہاتھوں ہونے والے سلوک سے تنگ آکر جہنم کی راہ اختیار کرنے پر
مجبور ہوجاتے ہیں اور گھر سے باہر جاتے ہوئے جل کر کہہ اٹھتے ہیں: جہنم جا
رہا ہوں۔لیکن جنت کی ایک مخلوق اسے ایسا کرنے سے روک لیتی ہے۔اور یہ مخلوق
جنت کی شہزادی جنت کی ’حور‘ہے۔اس کا خیال آتے ہی انسان کے اندر ایک خوش بو
سی سرایت کر جاتی ہے۔اور انسان نیکی کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ویسے بھی عورت
کی موجودگی مرد کو تہذیب سکھاتی ہے۔ورنہ یہ بدتمیز کبھی بندہ نہ بن
پاتا۔حور کے تو کیا کہنے۔وہ تو بڑے بڑوں کا دل لبھا لیتی ہے:
امید ِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادھے ،بھولے بھالے ہوتے ہیں
چلیں کوئی کسی بہانے ہی اچھا ہو سکے اچھا ہے۔
موجودہ سائنسی ترقی نے یہ تو ممکن بنا دیا ہے کہ انسان دنیا کے کسی بھی حصے
سے میسج یا کال کسی بھی حصے میں بھیج سکتا ہے۔یہ سائنسی کمال ہے۔انٹرنٹ نے
انسان کی دوری کو نزدیکی میں بدل دیا ہے۔اب انسان جان کے کسی سے دور رہنا
چاہے تو یہ اور بات ہے کسی سے ملنا چاہے تو راہ میں کوئی پہاڑ یا کہکشاں
عبور کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔بس انسان کے پاس وقت اور کریڈت ہونا
چاہئے۔باقی یہ ملاقات کرنا چنداں مشکل نہیں رہا۔
یہ دنیا تو ہمارے تصورِ جہاں کی زد میں آ ہی چکی ہے۔اب ہم پرانے زمانے کے
انسان کی طرح بعدِ مشرقین اور مغربین کا شکوہ نہیں کر سکتے۔اب تو ہم ایک
دوسرے سے اتنے نزدیک ہیں جتنے کو ہو سکتے ہیں: تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہو تا
بعض سائنسی ایجادیں ہمیں جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہیں۔اور ہم انگشت بہ دنداں
سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔جیسا کہ ایکسرے اور سی ٹی سکین ہیں ۔ہم یہ سوچنے پر
مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر ایکسرے میں دل کے جذبات اور سی ٹی سکین میں ذہنی
خیالات آنے شروع ہو گئے تو ہمارا کیا بنے گا ہم تو اکثر لوگوں سے متعلق
اچھا سوچتے ہی نہیں اور نہ ہی ان سے متعلق اچھی خواہشات رکھتے ہیں۔اگر
سائنسی ایجادوں نے یہاں تک رسائی حاصل کر لی تو کیا بنے گا۔کتنے رشتے برباد
ہو جائیں گے اور کتنے لوگ اپنی دکان داری سے محروم ہو جائیں گے۔محبت،دوستی
،ہمسائیگی اور رشتہ داری کا پاس کیسے رکھا جائے گا۔یہ سب کچھ سوچ کر یہی
دعا نکلتی ہے کہ سائنس تو یہ توفیق نہ ہی ملے تو اچھا ہے۔لیکن ایک بات
سائنس اپنے جیتے جی ضرور کر جائے بعد میں کیا پتہ کیسے دن اور کیسے لوگ
آئیں۔وہ بات یہ ہے کہ ایسی سمیں اور موبائل ضرور معرضِ وجود میں آ جائیں جو
اگلی دنیا سے لنک رکھتے ہوں۔ایسا کریڈٹ اور ایسی سم جو انسان کو اس جہان سے
منسلک کر دے اگر سائنسی ایجادوں کی فہرست میں شامل ہو جائے تو کیا ہی بات
ہو!
اگلی دنیا سے ربط کا ہمیں اتنا زیادہ بھی شوق نہیں کہ ہم اس کے بغیر جیسے
جی نہ پا رہے ہوں۔نہیں اتنا تو بالکل نہیں۔ہاں مگر اتنا سا ضرور ہے کہ کسی
نو جوان سی حور سے دوستی ہو جائے۔اس کے میسج آنے شروع ہو جائیں اور اس کی
طرف ہمارے میسج جانے شروع ہو جائیں۔ ہم ہیں تو ویسے بہت شریف لیکن مشہورِ
زمانہ شریفوں سے ہمارا کوئی واسطہ بھی نہیں کیونکہ ہم خود ساختہ شریف ہیں
لوگوں کے بنائے ہوئے شریف نہیں۔چلیں یہ علیحدہ بات ہے۔بس کسی حور کا میسج
لانے والی سم ہاتھ لگ جائے۔ویسے تو ہمیں کبھی کسی مغربی خاتون کا بھی میسج
یا کال نصیب نہیں ہوئی لیکن حور کی خواہش تو بہت ہی نا ممکن سی بات ہے۔مگر
چاہنے اور مانگنے میں کیا جاتا ہے ۔زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ میسج نہ آئے
گا پہلے بھی کون سا آتا ہے۔ہم کون سے مرے یا مری جا رہے ہیں۔اب بھی یہیم ہو
گا کہ نہ آئے گا۔اور کیا ہو گا۔یہ تو ہمیں پہلے بھی پتہ ہو کہ ہماری
خواہشات اکثر نا مکمل ہی رہنی ہوتی ہیں ایک یہ بھی رہ جائے گی تو کون سی
قیامت برپا ہو جائے گی،خواہشات اور خیالات آتے اور جاتے ہی رہتے ہیں۔ہمارا
یہ خیال بھی اب جانا شروع ہو گیا ہے،کیونکہ ہمیں لگ رہاہے کہ ہماری سپر
وائزر آنے والی ہے وہ اپنے کا م سے فارغ ہو چکی ہیں۔اب ہمیں حور کے میسج کی
خواہش پھر کسی فارغ وقت میں ہو گی۔
ہم ہر رات اپنا موبائل ’خاموش‘ کر کے اس امید کے ساتھ سو جاتے ہیں کہ شاید
کسی حور کو بھی رات کو نیند نہ آرہی ہو اور وہ اچانک سے ہمیں میسج کر دے
۔لیکن ساری رات نہ تو حور کا خواب آتا ہے اور نہ صبح موبائل کی سکرین کسی
نا معلوم نمبر کا کوئی میسج شو کر رہی ہوتی ہے۔بس ہم اپنا سا منہ لے کے رہ
جاتے ہیں اور اس منہ کی شیو کرنے لگتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ چلیں کل
نہیں تو آج ہی سہی۔ویسے بھی ہماری قوم کے حکیم نے ہمیں امید کا دامن ہاتھ
سے نہ چھوڑنے کا سبق دیا ہے:
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
امید برقرار رکھنے سے صحت اچھی رہتی ہے۔امید بہار کو کسی اور امید سے بھی
بدلا جا سکتا ہے اور بہار کے حوالے سے تو قریب ترین ہستی ’حور‘ ہی سمجھ میں
آتی ہے۔ویسے بھی امیدِ حور انسان کی اخلاقی اصلاح کے لئے ضروری ہے۔
لیکن یہ بات بھی منہ پے کہہ دینا مناسب ہے کہ جس دن حور کا میسج آگیا اس دن
ہم آپ کو بتائیں گے نہیں۔شایدہم خوش ہی اتنے ہوں کہ ہم بول ہی نہ سکیں۔ویسے
بھی راز کی بات راز میں رہنی چاہئے۔
یہ تو ہماری سیکرٹ بات ہو گی لیکن سم والوں کو پتہ چلنے کا امکان بہت ہو
گا۔اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ خفیہ والے ہمارے تعاقبِ لا حاصل میں نہ لگ
جائیں ،خود بھی کھپیں اور ہمیں بھی کھپائیں اور کچھ نہ پائیں۔
ویسے آخرت کا اصول تو اعمال کی جزا پر مبنی ہے۔اور اعمال کا دارومدار نیتوں
پر ہے۔ہمارے پاس دونوں ہی اچھی حالت میں نہیں ہیں۔اس صورت میں اگر ہم کسی
حور کے میسج کا انتظار فرمائیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کی کسی بد روح
کی کال ہی نہ آ جاتی ہے۔اوے ہوے! یہ تو کبھی سوچا ہی نہ تھا۔جو چیز اجر میں
جتنی اچھی ہوتی ہے ،قہر میں اتنی بڑی بھی ہو جاتی ہے۔سوچیں اگر حور کے چکر
میں کہیں جہنم رسید نہ ہو جاتے ہوں۔بہتر نہیں نہ ہم حور کے اس چکر سے اپنے
آپ کو دور ہی رکھیں۔ویسے آپ کیا فری مشورہ دیں گے؟ خدشات کا سامنا کئے بغیر
تو ساحلِ مراد کسی کو ملا ہی نہیں۔اور ہم ہیں کہ خدشات پر ہی اپنا قبلہ
درست کر لینا چاہتے ہیں۔یہ بھی مشورہ ہو سکتا ہے کہ حور کے میسج کا انتظار
جا ری رکھا جائے۔اورساتھ ساتھ استغفار کا ورد بھی کرتے رہیں۔آگے جو اﷲ کو
منظور! |