وہ میری بچپن کی دوست تھی ہم
ساتھ ہی سکول جایا کرتے تھے۔اس کا نام کرن تھا۔وہ اپنے نام کی طرح بہت
خوبصورت تھی۔یہ بات سچ ہے کہ گزرا وقت کبھی واپس نہیں أتا ہے۔وہ دن بہت ہی
پیارے تھے جب ہم دونوں ساتھ سکول جایا کرتے تھے۔گھنٹوں بیٹھ کر ایک دوسرے
سے باتیں کیا کرتے تھے۔کرن پڑھائی میں بھی بہت ہونہار تھی کلاس میں فر سٹ
أیا کرتی تھی۔ہر ٹیچر کی پسندیدہ سٹوڈنٹس ہوا کرتی تھی۔لیکن کوئی نہیں
جانتا تھا کہ کرن کی قسمت ایسی ہوگی ۔کرن کے ابو ایک سکول ٹیچر تھے اور امی
ایک گھریلو خاتون تھی۔کرن اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ماں باپ کی بہت
لاڈلی تھی ۔بہت امیر نہیں لیکن اس کا باپ اس کو کی چیز کی کمی نہ أنے
دیتا۔نہ ہی کرن پر کبھی کی قسم کی کوئی پابندی تھی۔ اب ہم سب کا لج میں أ
گئے تھے ۔ کالج میں أنے کے بعد ویسے تو ہم سب ہی اچھے دوست تھے لیکن نائلہ
اس کی سب سے قریبی دوست تھی۔نائلہ نے ہم سب کو اپنی منگنی پر بلایا۔کیونکہ
نائلہ ایک امیر ماں باپ کی بیٹی تھی اس لئے اس کے گھر والے اس کی منگنی بھی
ایک شاندار گھر میں کررہے تھے۔ہم سب سہیلوں کو اسکے منگیتر اور سسرال والوں
کو دیکھنے کا بہت انتظار تھا۔کیونکہ نائلہ ہمیشہ ہی باتیں سنایا کرتی تھی
کہ میری جہاں پر شادی ہو گی وہ لوگ بہت ہی امیر ہیں میرا گھر بہت شاندار ہو
گا۔کرن کو اس کی ان باتوں میں خاص دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی وہ ایک بہت ہی
سنجیدہ مزاج کی لڑکی تھی۔اس لئے وہ کسی بھی لالچ کے بغیر اپنی دوستی کو
نبھا رہی تھی۔أخر کافی اتظار کے بعد وہ دن أ ہی گیا جس کا ہم سب سہیلیوں کو
انتظار تھا۔کرن نے گلابی رنگ کا فراک پہنا ہوا تھا ۔وہ اس دن بہت ہی
خوبصورت لگ رہی تھی۔۔اس کے لمبے بال , کانوں میں خوبصورت جھمکے کیا کمال لگ
رہے تھے ۔یوں لگ رہا تھا أج ہر نظر اس پر ہی رک جائے گی۔ کرن اپنے ابو کے
ہمراہ نائلہ کے گھر أئی ۔نائلہ کالج میں اس کے بہت قریب تھی کرن کے پہنچتے
ہی اس کی تو خوشی کی انتہا ہی نہ تھی۔اس نے ہم سب کو اپنے گھر والوں سے بھی
ملوایا۔ہم سب تو نائلہ کا عالی شان گھر دیکھ کر ہی دھنگ رہ گئی تھی۔بالکل
فلموں نظر أنے والا بنگلہ تھا۔سب لوگ نائلہ کی قسمت پر رشک کر رہے
تھے۔نائلہ کا منگیتر بھی کافی حسین و جمیل تھا۔کرن بہت زیادہ باتونی نہیں
تھی اور نہ ہی زیادہ شوخ مزاج وہ الگ ہی ایک کونے میں کھڑی نائلہ اور اس کے
منگیتر کو دیکھ رہی تھی۔اور ساتھ ہی ساتھ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ابو بھی أنے
والے ہیں ان کا فنکشن بھی ختم ہو گیاہے ۔اتنے میں ایک نوجوان لڑکا کرن کے
پاس أتا ہے اور بہت ہی بے تکلفی سے کرن کو کہتا ہے کہ ارے أپ یہاں کیوں
کھڑی ہیں وہ بھی اکیلی لگتا أپ کو یہاں أنا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔کرن بہت ہی
غصہ ہو کر أپ کی تعریف؟ اس نا چیز کو سعد کہتے ہیں میں نائلہ کا کزن ہوں
۔کچھ ہی دن پہلے لندن سے أیا ہوں۔نائلہ اکثر أپ کا ذکر کیا کرتی تھی۔کرن نے
بہت ہی بے رخی سے کہا جی مجھے اجنبیوں سے بات کرنا پسند نہیں ہے۔اتنے میں
کرن کے فون پر بل بجتی ہے۔کرن ایک سکون کی سانس لیتے ہوئے شکر ہے ابو أگئے
ورنہ اس فضول أدمی کی باتوں سے تو سر میں درد شروع ہو جاتا۔گھر أتے ہی کرن
نے کپڑے تبدیل کر نے سے پہلے خود کو أئینے میں دیکھا ۔پیچھے کھڑی کرن کی
امی نے مسکراتے ہوئے کہا میری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے۔امی أپ ایسے ہی نہ
میری تعریف کیا کریں بس رہنے دیں وہاں أج بہت خوبصورت خوبصورت لوگ تھے۔
اپنی امی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کرن نے کہا امی نائلہ تو بہت ہی خو
بصورت لگ رہی تھی اور اسکا جوڑا بھی قابل تعریف تھا۔کافی مہنگا لگ رہا
تھا۔میری بیٹی کا نصیب بھی بہت اچھا ہو گا۔اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے
کہا۔کرن بیٹا اب سو جاؤ صبح کالج بھی جانا ہے۔اپنے بالوں کو سمیٹتے ہوئے
کرن اپنے بیڈ پر لیٹ جاتی ہے۔ کل کا دن کالج میں بہت ہی اچھا تھا ہم نے خوب
گپیں لگائی اور نائلہ کی تقریب کی باتیں کی ۔ ۳ دن بعد نائلہ بھی کالج أئی
اپنی منگنی کی تصویروں کے بڑے بڑے البم اٹھائے ہوئے کلاس روم میں داخل ہوتی
ہے۔ہر کوئی تعریف کرنے مشغول ہے۔کرن کدھر ہے؟ ارے بھئی وہ أج صبح سے مس
صائمہ کے ساتھ رزلٹ تیار کروا رہی ہے۔چھٹی ٹائم نائلہ گیٹ پر ہی کرن کا
انتظار کر رہی تھی۔ دور سے اس کو کرن أتی دکھائی دی تو لپک کر کہا کہ کب سے
انتظار کر رہی ہوں کبھی تو مس کو انکار کر دیا کرو۔تم مس کو چھوڑو مجھے یہ
بتاؤں تصویریں کدھر ہیں؟ عالی جان أپ ہی کا انتظار کر رہی تھی۔کرن نے
مسکراتے ہوئے بہت نوازش أپ کی۔اچھا اب دیکھ لو میرا ڈرائیور بھی أ چکا ہے
مجھے جانا بھی ہے۔ارے بہت ہی پیاری تصویریں أئی ہیں ویسے میری دوست تو ہے
ہی پیاری ۔نائلہ بس رہنے دو اتنی جلدی کیوں واپس أئی تم ؟ ابو لینے أگئے
تھے نہ پھر کسی وقت تمہاری طرف أؤں گی وعدہ ۔ اچھا چلو معاف کیا۔ہا ہا ہا
ہا نائلہ نے قہقہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔نائلہ اور کرن چلتی چلتی گیٹ تک أتی
ہیں۔اور وہاں سے ایک دوسرے کو اﷲ حافظ کہتے ہوئے کہا کل ملتے ہیں۔نائلہ گھر
پہنچتے ہی میں بہت تھک گئی ہوں ۔ماما کھانا لگوا دیں۔اتنے نائلہ میں کا کزن
سیڑھیوں سے اترتا ہوا نیچے أتا ہے۔بلیک جینز اور سفید ٹی شرٹ پہنے , ارے
بھئی کوئی لفٹ ہی نہیں۔سعد بھائی أپ تو مصروف ہی بہت رہتے ہیں میں تایا ابا
سے شکایت کروں گی کہ ڈاکٹر تو کیا بنے ملتے بھی نہیں ہیں ۔ارے میں تو لندن
میں بھی تمہیں بہت یاد کرتا تھا۔جانے دیں۔نہیں سچ کہہ رہا ہوں۔نائلہ کندھے
اچکاتے ہوئے چلیں مان لیا۔ سعد اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ تمہاری
سہیلی کرن تو کافی پیاری ہے۔خبردار سعد بھائی میری دوست کے بارے میں کچھ
غلط کہا۔۔۔ او ہو سن تو لو پہلی ہی اپنا فلسفہ جھاڑنے لگ گئی۔۔ اچھا بتا
ئیں نہ اب۔۔۔ مجھے وہ بہت اچھی لگی میں اس سے بات کرنا چاپتا ہوں تم مدد کر
دو نہ۔۔ وہ ایسی ویسی لڑکی نہیں ہے۔کافی کوشش کے بعد سعد نے أخر نائلہ کو
منا ہی لیا۔میں بس ایک دفعہ بات کروں گی بار بار نہیں۔اچھا اچھا کرو تو
سہی۔کالج سے کل میں خود تمہیں لینے أؤں گا۔اوہودیوانگی تو دیکھو ذرا ۔ کالج
کا اگلا دن تھا ۔نائلہ پورا دن یہ ہی سوچتی رہی کہ کسطرح میں کرن سے بات
کروں کہیں وہ برا ہی نہ مان جائے۔أخر بریک ٹائم نائلہ نے ہمت کر کے کرن کو
کہہ ہی دیا کہ میرا کزن سعد تمہیں پسند کرتا ہے اور وہ تم سے بات کرنا
چاہتا ہے میری منگنی میں اس نے تمہیں دیکھاتھا پلیز کرن برا مت ما ننا پلیز
انہوں نے بہت اسرار کیا تھا۔سعد بھائی میرے چچا کے بیٹے ہیں اور بہت ہی
اچھے ہیں۔کرن اس کی باتو ں کو کافی حیرت سے سنتے ہوئے جواب دیتی ہے اچھا تو
یہ تمہارا کزن سعد ہے۔مجھے تمہاری منگنی پر بھی کافی تنگ کیا تھا ۔ارے نہیں
نہیں سعد بھائی ایسے تو نہیں۔کرن نے نائلہ کو کوئی جواب نہیں دیا اور کلاس
روم میں واپس چلی گئی ۔یہاں نائلہ یہی سوچتی رہی اب ہماری دوستی ختم۔کرن
پورا دن اس کشمکش میں رہی اتنا امیر لڑکا وہ بھی ڈاکٹر ۔۔ اس کے أگے پیچھے
ہزاروں لڑکیاں ہوں گی میرے ساتھ فلرٹ کرنا ہو گا نہ اس لئے پرپوزل بھیج دیا
یہ امیر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔خیر کرن نے نائلہ کے ساتھ کی قسم کی ناراضگی
کا اظہار نہ کیا ہمیشہ کی طرح دونوں گیٹ تک اکٹھی أئی۔نائلہ بہت شرمندہ تھی
کہ کرن میرے بارے میں غلط سوچ رہی ہو گی۔ اتنے میں نائلہ کی گاڑی أ جاتی ہے
اور وہ کرن کا ہاتھ زور سے دباتے ہوئے شرمندہ سی نظروں سے اس کو اﷲ حافظ
کہتی ہے۔اتنے میں کرن کی نظر اس کے کزن پر پڑتی ہے جو گاڑی میں بیٹھا اس کا
انتظار کر رہا ہوتا ہے۔جاؤ تم گھر اور پریشان مت ہو۔کرن عجیب سی نظروں سے
سعد کو دیکھتی ہے بلیک شلوار قمیض پہنے گاڑی میں بیٹھا وہ بہت ہی پیار سے
کرن کی طرف دیکھتا ہے۔اتنے میں نائلہ چلیں سعد بھائی۔ہاں ہاں أئس کریم کھاؤ
گی نہیں بھائی۔۔ گھر چلتے ہیں۔کرن نے کیا جواب دیا؟ نائلہ خاموشی سی بٹھی
رہی اور کسی بات کا جواب نہ دیا۔سعد زور سے کہنے لگا بولو بھی۔ نائلہ نے
خاموش نظروں سے کہا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں اب دوبارہ اس سے بات
بھی نہیں کرنی بس۔پلیز أپ بھی مجھے مت کہنا ۔سعد مایوس سا ہو کر اچھا ٹھیک
ہے تم پریشان مت ہو۔پریشانی کے انداز میں نہ جانے وہ میرے بارے میں کیا سوچ
رہی ہوگی؛ سعد چپ چاپ گاڑی چلانے میں مصروف تھا ۔اور سارے راستے یہ ہی
سوچتا رہا کہ أخر اس نے جواب کیوں نہیں دیا کیا میں اتنا برا انسان ہوں؟
وہاں کرن بھی خاموش تھی کالج سے جا کر کھانا بھی نہیں کھایا اور سو گئی
۔کرن اپنے ابو کے بہت قریب تھی انہوں نے کچھ محسوس کیا اور کرن کی امی سے
پوچھا کرن أج چپ چپ ہے پریشان سی لگ رہی ہے۔نہیں مجھے تو ایسا نہیں
لگا۔اچھا پھر شائید میں غلط سوچ رہا ہو ں گا۔أپ تو ایسے ہی پریشان ہوتے
رہتے ہیں۔کالج ختم ہونے والا ہے بس دوستوں سے الگ ہونے کو وجہ سے ہی پریشان
ہو گی۔چلو بھئی ٹھیک ہے۔چائے ملے گی یا نہیں ؟ لا رہی ہوں صبر بھی کریں
ماسٹر صاحب۔اتنے میں کرن اپنے کمرے سے باہر أتی ہے ابو أپ کب أئے میں تو
اسی ٹائم پر أیا البتہ أج میرا بچہ مصروف تھا بہت نہیں ابو بس تھک گئی تھی
تو سو گئی ۔چائے بنا دوں أپ کو ؟ ہاں بیٹا تم ہی بنا دو تمہاری ماں تو کب
سے بنا رہی ملی نہیں ۔اتنے میں کرن کی امی چائے لیکر أتی ہیں۔لو بھئی أ ہی
گئی چائے۔کرن نے مسکراتے ہوئے چائے کی ٹرے امی سے لی۔أئیں سب ساتھ میں پیتے
ہیں۔ہاں بیگم کبھی ہمارے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرو۔بس رہنے دیں أپ بھی عمر
دیکھیں بیٹی جوان ہو گئی ہے۔کافی دن گزر گئے نائلہ اور کرن ایک دوسرے سے
کچھ دور دور تھے۔فائنل امتحانات بھی بس شروع ہونے کو ہی تھی۔کالج کی پر
نسپل نے الوداعی پارٹی کا اعلان کر دیا۔دونوں دوستیں اس خبر کے بعد سہم سی
گئی کہ اب ہم جدا ہو جائیں گے۔باہر گراؤنڈ میں بیٹھے نائلہ کے أنسوں ہی
نہیں رک رہے تھے کرن مجھے معاف کر دو میں کسی غلط وجہ سے نہیں تمہیں کہا
تھا۔میں تم سے ناراض نہیں ہوں اب بس رونا بند کرو نہ۔اور بتاؤ کسطرح کے
کپڑے پہن کے أ رہی ہو پارٹی پر۔میں تو پرپل سوٹ پہنوں گی اور تم بھی اس رنگ
کا جوڑا پہنو گی بس نائلہ نے غصے سے کہا۔کرن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ٹھیک
ہے اب خوش ؟ہاں جی بہت خوش ۔کرن پرپل ڈریس میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔کالج
پہنچنے کے بعد سب لوگ الگ ہونے سے بہت اداس تھے۔پارٹی ختم ہوئی سب واپسی کے
لئے نکل رہے تھے۔اچانک کرن کے ابو کا فون أیا بیٹا میں ذرا مصروف ہوں تمہیں
لینے نہیں أ سکتا تم ایسا کرو رکشہ یا ٹیکسی سے گھر چلی جاؤ۔کرن تو ایک دم
پریشان ہو گئی۔نائلہ نے اس کا بازو زور سے پکڑتے ہوئے پوچھا کیا ہوا کس کا
فون تھا؟ یار ابو مجھے لینے نہیں أ رہے کوئی کام ہے ان کو کہہ رہے خود أ
جاؤ مجھے تو اکیلے جانے میں بہت گبھراہٹ ہو رہی ہے۔اف لڑکی تم میرے ساتھ
چلو میں خود گھر چھوڑ کر أؤں گی بس چلو میں ایک بات نہیں سننے والی۔کرن
پریشان تھی اورمان گئی۔سعد نائلہ کو لینے أیا تھا کرن بہت کنفویز ہو رہی
تھی دوپٹہ سر پر لے لیا۔ڈرتے ڈرتے گاڑی میں بیٹھ گئی۔سعد کی تو جیسے نظر ہی
رک گئی ہو۔اس کو دیکھنے کے بعد حیرانی سے چپ تھا اور سوچ رہا تھا کتنی
خوبصورت لگ رہی ہے۔پرپل رنگ تو جیسے اس کے لئے ہی بنا ہو۔پورے رستے اس سہمی
ہوئی أنکھوں کی خوبصورتی کو دیکھتا رہا۔أخر سعد نے ہمت کر کے کرن سے بات کر
ہی لی اور گاڑی سے اترتے ہوئے اس کو اپنا نمبر دے دیا۔اور کہا مجھے نہیں
پتہ أپ نے کیوں کوئی جواب نہیں دیا أپ کے فون کا اتظار کروں گا۔نائلہ
حیرانی سے دیکھتی رہی اور چپ رہی۔ کرن بھی خاموشی سے گھر أجاتی ہے۔ سعد بے
چینی سے اس کے فون کا انتظار کرتا رہا لیکن کرن کا فون نہیں أیا۔ امتحانات
ختم ہونے کے بعد اچانک اپنے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے سعد کا نمبر کرن کے
سامنے أتا ہے۔کافی سوچنے کے بعد کرن فون کرتی ہے سعد تو جیسے خوشی سے پاگل
ہی ہو گیا کرن تم نے مجھے فون کیا ۔مجھے تو یقین ہی نہیں أ رہا کچھ بولو نہ
میں تمہاری أواز سننا چاہتا ہوں۔اگلے ہی لمحے سعد نے کہا کرن میں ہسپتال سے
جاکر تم سے بات کرتا ہوں۔میرا فون اٹھالینا پلیز پہلے بہت اتظار کروا چکی
ہو۔کرن نے دھیمے لہجے میں کہا ٹھیک ہے۔گھر أتے ہی سعد نے کرن کو فون
کیا۔سعد اکیلا بھائی تھا اور اس کی ایک بہن تھی جو شادی شدہ تھی۔
ہیلو :
کرن تم کیسی ہو؟ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ أپ کیسے ہیں؟ میں اب تو بالکل ٹھیک ہو
جاؤں گا۔
کرن شرماتے ہوئے اچھا۔ اور نائلہ کیسی ہے؟ اک دم فٹ ہے شادی کی تیاریوں میں
مصروف تم تو أؤ گی نہ شادی میں ہاں ضرور اس نا چیز کو أپ کا انتظار رہے
گا۔کہتے ہوئے فون بند کر دیا سعد بہت خوش اور پرسکون تھا۔ اسکو کرن بہت
پسند تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔
سعد اور کرن ایک دوسرے کے کافی قریب أ چکے تھے کرن اب ایم بی اے کر رہی
تھی۔سعد اکثر یونیورسٹی سے اس کو گھر بھی چھوڑ جایا کرتا باہر گھومنا پھرنا
تو معمول ہی بن گیا تھا۔نائلہ کی شادی فکس ہو گئی تھی ۔سعد نے کرن سے خاص
طور پر کہا کہ تم بلیک ڈریس پہن کر أنا میں تمہیں اس رنگ میں دیکھنا چاہتا
ہوں۔اور گاڑی میں سے ایک شاپنگ بیگ نکال کے دیا اور کہا یہی والا ۔کرن اف
تم کب بدلو گے سعد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کبھی بھی نہیں۔مجھے چھوڑکے مت
جانا سعد میں بہت اکیلی ہو جاؤں گی تمہارے بغیر۔أنکھوں میں زارو قطار أنسوں
تھے۔تم پاگل تو نہیں ہو گئی تمہیں چھوڑکر میں خود کہاں جاؤں گا۔کرن تم
پریشان مت ہوا کرو میں ہو ں نہ بس تم خوش رہا کرو۔
نائلہ کی شادی والے دن تو سعد کی نظر جیسے کرن سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔مسلسل
اس کو دیکھتا رہا تعریف کرنے کو بے تاب تھا۔أج کرن کی سب سے اچھی دوست بھی
اپنے گھر کی ہو گئی تھی۔کرن نے رات کو بات کرتے ہوئے سعد سے کہا أپ أج اچھے
لگ رہے تھے بہت۔اور تم تو قیامت لگ رہی تھی۔کرن میں جلد ہی اپنے گھر والوں
کو رشتے کے لئے بھجنا چاہتاہوں۔ابھی تو ابو امی کو بی بتانا ہے بس تم جلدی
بتاؤ میری امی لندن سے أئی ہیں میں چاہتا ہوں وہ بات کر کے ہی جائیں۔وقت کب
بدل جائے کس کو کیا پتہ ہو۔ کرن کے ابو کی اچانک وفات ہو جاتی ہے۔کرن اور
اس کی ماں پر تو جیسے پریشانیوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔نہ سر پر چھت رہ اور نہ
پاؤں تلے زمین۔ان حالات میں کرن کو سعد کی بہت ضروت تھی۔کافی دن گزرنے کے
بعد کرن کی امی نے کرن سے کہا جب وہ یونیورسٹی واپس أتے ہی کہا کہ کرن بیٹا
کھانا کھا لو۔ امی بس أ رہی ہوں۔کرن کی پھوپھو بھی اس دن أ ئی ہوئی
تھی۔انہوں نے کرن کی امی کو کہا کے أپا اب أپ کرن کی شادی کر دیں۔جوان بیٹی
کی ذمہ داری کب تک دیں گی۔ہاں میں بھی عالیہ سوچ رہی ہوں کوئی اچھارشتہ ہو
اگر تو مجھے ضرور بتانا۔کیا پتہ زندگی کا میری بیٹی تو پہلے ہی اکیلی
ہے۔ارے أپا دل چھوٹا مت کریں۔کرن بہت پیاری اور ذہین ہے انشاﺀ اﷲ اچھا لڑکا
مل جائے گا۔اچھاکرن میں چلتی ہوں اپنی امی کا خیال رکھاکرو۔کرن نظرے جھکائے
ہوئے جی پھوپھو۔اچھا میں چلتی ہوں۔کرن کتاب ہاتھ میں لئے رات کو امی کے پاس
بیٹھے میں أپ سے بات کرنا چاہتی ہوں اگر أپ برا نہ مانیں۔ہاں بولو بیٹا۔امی
نائلہ کا کزن ہے سعد اور وہ ڈاکٹر ہے وہ مجھے پسند بھی کرتا ہے اپنے گھر
والوں کو رشتہ کے لئے بھیجنا چاہتا ہے۔اگر أپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔میں ابو
کی زندگی میں بات کرنا چاہتی تھی مگر میں اپنی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار
کر رہی تھی۔اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔أنکھیں نم تھیں اور لہجہ اس قد
پریشان کے شرم سے اپنی امی کی طرف دیکھ نہیں پارہی تھی۔کرن تمہارے ابو تو
اب رہے نہیں جو بھی کرنا ہے مجھے اکیلے ہی کرنا ہے۔تم بلا لو ان لوگوں کو
میں ملنا چاہتی ہوں۔کرن نے خوشی سے ماں کو زور سے پکڑا اور کہا ۔أپ میری
بہت اچھی امی ہیں۔کرن نے سعد کو فون کیا اور کہا کے تم بس میرے گھر أنے کی
تیاری کرو امی مان گئی ہیں۔سعد نے پریشان سے لہجے میں کہا میں تم سے بعد
میں بات کرتا ہوں۔کرن بہت خوش تھی اس نے کچھ محسوس نہیں کیا اور فون بند کر
دیا۔کرن کے ابو کے بعد سعد سے اس کو بہت سی امیدیں وابستہ تھی۔لیکن کون
جانتا تھا اس کی زندگی میں أنے والی خوشیاں پہلی ہی ختم ہو چکی تھی۔سعد کی
ماں ایک ماڈرن خاتون تھی اور بہت ہی تلخ مزاج بھی وہ ہمیشہ سعد کو اپنی
مرضی سے ہی رکھتی أرہی تھیں۔اور ہر بات میں یہ کہنا تو ان کا معمول تھا أج
تم جو کچھ بھی ہو میری وجہ سے ہو۔وہ اپنے گھر میں مکمل حکمران تھی۔اور
ہمیشہ سعد کو اس بات کا احساس دلواتی رہتی کہ تمہارے ابو کے مرنے کے بعد
میں نے بہت مشکلوں سے سب کچھ بنایا ہے۔اب جب شادی کی بات أئی تو انہوں نے
سعد کی کوئی بات نہیں سنی اور انکار کر دیا کہا کہ وہ ایک غریب ماسٹر کی
بیٹی میری بہو بنے گی تم پاگل تو نہیں ہو گئے۔بس میں نے کہہ دیا کہ تمہاری
شادی میری دوست کی بیٹی کے ساتھ ہو گی اور وہ بھی ڈاکٹر ہے انکا ایک سٹیٹس
ہے۔میرا یہ أخری فیصلہ ہے سعد۔وہاں کرن خوشی سے پاگل دوبارہ فون کرتی
ہے۔اور سعد سے پوچھتی ہے کب أئیں گی أنٹی؟ سعد بہت ہی مشکل سے کہتے ہوئے
کرن وہ ہمارے رشتے کے لئے نہیں مان رہی میری شادی کہیں اور کرنا چاہتی
ہیں۔کرن کے پاؤں تلے سے تو زمین ہی نکل گئی ہو جیسے۔تم یہ کیا کہہ رہے
ہو؟سعد بہت مجبور ہو چکا تھا اور اپنی ماں سے ضد نہیں کر رہا تھا۔کرن روتے
ہوئے لہجے میں تم کیوں أئے تھے میری زندگی میں میرا کیا قصور تھا میں امیر
نہیں ہوں اس لیے تم نے یہ سب کیا۔کرن ایک بار پھر بکھر گئی تھی ۔زندگی کس
طرف لے کر جارہی ہے کچھ پتہ نہیں تھا۔امی وہ لوگ نہیں أ رہے ہیں۔کیوں کرن؟
پریشان ہو کر پو چھا۔کیوں کہ ہم غریب ہیں۔ اسلیئے روتے ہوئے اپنے کمرے میں
چلی گئی۔سعد کی یادیں اس کو سکون نہیں لینے دے رہی تھی لیکن وہ بہت خودار
تھی شکوہ تک نہیں کیا اور أخری بار فون کیا اور کہا سعد تم خوش رہو میں
شاید تمہارے قابل ہی نہیں تھی۔سعد کی أنکھوں میں بھی أنسوں تھے ۔کرن میں
مجبور ہوں روتے ہوئے لڑکھڑاتی أواز میں سعد صاحب أپ بڑے لوگ ہیں ۔اور فون
بند کر دیا یہ ان کی أ خری بات تھی۔دن گزرتے گئے اور کرن کے حالات اور خراب
ہو گئے۔ماں بیمار رہنے لگ گئی کرن اب ایک پرائیوٹ بینک میں نوکری کرتی تھی
گھر کے اخراجات ماں کی بیماری نے اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کر یا تھا۔۵
سال گزرنے کے بعد کرن اب بہت تھک چکی تھی اور اب وہ بالکل اکیلی تھی۔کیونکہ
اس کی ماں اب اس دنیا میں نہیں تھی۔اب کرن گورنمنٹ کی ملازمت کرتی تھی۔اچھی
زندگی گزار رہی تھی لیکن وہ اس دنیا میں تنہا تھی غم بانٹنے کے لئے بھی
کوئی نہیں تھا۔اتنے عرصے کے بعد بھی وہ سعد کو نہیں بھول پائی تھی۔اس کی
یادیں أج بھی اس کے پاس زندگی گزارنے کا سہارا تھی۔ہر رات روتے روتے سو
جاتی اور ہمیشہ یہ ہی کہتی کے مجھ میں ہی کمی تھی۔تم تو بہت اچھے ہو اس لئے
أج بھی میرے پاس محفوظ ہو۔اب کرن اس طرح پیاری نہیں تھی ۔اور نہ ہی ماڈرن
تھی۔بس سادہ سی رہتی تھی۔ایک ملازمہ ہر وقت اس کے گھر میں رہا کرتی بس اس
سے ہی کبھی کبھار دل کی بات کر لیتی۔اک عرصہ گزرنے کے بعد کرن کے أفس میں
ایک أدمی أتا ہے۔أفس بوائے دروازہ کھولتا ہے میڈم أپ سے کوئی ملنا چاہتا
ہے۔کون ہے؟ پتہ نہیں کوئی صاحب ہیں ۔اچھابھیج دو۔أنکھوں پر چشمہ ۔اداس چہرہ
دیکھتے ہوئے وہ صاحب اندر أتے ہیں۔کرن اپنے کام میں مصروف تشریف رکھئے
۔شکریہ ۔کہتے ہوئے بیٹھ گئے۔کرن کو أج بھی یہ أواز یاد تھی۔وہ کیسے بھول
سکتی تھی اس شخص کو جو أج بھی اس کی سانسوں میں سمایاں تھا۔کرن کے أنسوں
تھے کہ رک ہی نہیں رہے تھے ۔بہت مشکل سے اس نے کہا سعد تم۔ ہاں میں اور ۶
سال کے بعد بھی تمہیں رلانے أ گیا۔نہیں نہیں۔ بس یوں ہی۔چائے تو تم پیتے ہی
نہیں کافی منگوا لوں ۔ تمہیں اب بھی یاد ہے ہاں شائید تمہیں بھولنا أسان
نہیں تھا۔میں بے وفا نہیں ہوں۔ تم بتاؤ تمہاری بیوی کیسی ہے؟ سعد نے بات کو
سن کے ان سنی کر دیا اور کہا تم ہو تو چھوٹی سی لیکن کام بہت بڑے بڑے کرنے
لگ گئی ہو۔سعد کرن کو دیکھ کر سوچنے لگا ۔میری کرن ایسی تو نہ تھی میں نے
کیا حال بنا دیا اس کا۔سعد جانتا تھا کہ کرن نے ابھی تک شادی نہیں کی۔کچھ
روز پہلے نائلہ نے اس کو ساری حقیقت بتا دی تھی۔سعد اور گھر میں سب کیسے
ہیں؟ کیا تم بہرے ہو؟ نہیں سن رہا ہوں۔سب ٹھیک ہیں۔تمہارے بچے بیوی لندن
میں ہی ہوں گے نہ۔سعد کرن کی باتوں کو سن رہا تھا لیکن اس کی وفا کو سمجھ
ہی نہیں پا رہا تھا کہ مجھ جیسے انسان کے لئے اس نے ۶ سال گزار دیئے۔وہ بھی
اکیلے۔میں نے اس کو کتنی بڑی سزا دی ہے۔اچانک سے کرن تم مجھ سے شادی کرو
گی؟ کرن تم پاگل ہو چکے ہو مجھے ان باتوں میں اب کوئی دلچسپی نہیں رہی۔اتنے
میں أفس بوائے کافی لے أتا ہے۔سعد کافی لو۔اور میں کسی کا بیٹا اور شوہر
چھیننا نہیں چاہتی تم کوئی اور بات کرو۔کرن میں نے شادی نہیں کی میں واپس
لندن چلا گیا تھا۔نائلہ نے تمہارا بتایا تو خود کو روک نہ پایا اور یہاں أ
گیا۔کرن میری امی بھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔میں بہت اکیلا ہوں تم مجھے
معاف نہیں کر سکتی؟ میں تمہارا قصور وار ہوں۔خود کو اور سزا مت دو پلیز
۔کرن کی أنکھوں سے أنسوں تھے رک ہی نہیں رہے تھے۔تم نے اتنی دیر کیوں
لگائی۔تمہارے جانے کے بعد میں بہت اکیلی تھی۔سعد تم اب دوبارہ مجھے چھوڑکے
مت جانا۔کرن کے لبوں پر پھیلتی ہوئی مدھم سی مسکراہٹ اس بات کا ثبوت تھی کہ
وہ اب سعد کے بعیر نامکمل ہے۔وہ ۔أج بھی اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ |