رانگ کال

اتوار کا دن توبہ توبہ اتنا کام کرنا پڑتاہے کہ انسان اپنے آپ کو ہی بھول جاتا ہے ایک طرف کالج کا دیا ہوا ہوم ورک تو دوسری جانب گھر کے سبھی مرد چھٹی انجوائے کرنے کے لیے گھر پر شہزادوں کی طرح سامنے بیٹھے ہوئے ٹی وی پروگراموں سے انجوائے کر رہے ہوتے ہیں ۔اس لمحے ماں اکیلی کیا کیا کرے آخر مجھے بھی تو باورچی کھانے میں ہاتھ بٹانے کے لیے ماں کا ساتھ دینا پڑتا ہے کوئی ناشتہ مانگ رہا ہے تو کوئی گرما گرم کا تقاضا کررہا ہے ابھی میں بھائی کے سامنے چائے کا کپ رکھ کر فارغ بھی نہیں ہوئی کہ چھوٹے بھائی نے گھر کو آسمان پر اٹھا لیا میری جرابیں کہاں ہیں باجی جلدی کرو مجھے آج کرکٹ میچ کھیلنے جانا ہے سارے دوست میرا انتظار کررہے ہیں پلیز باجی تلاش کردو نا ۔ چھوٹے بھائی نعمان کی پکار پر میں بھاگی بھاگی اس کے کمرے میں پہنچی دیکھا تو رات کو اپنے ہی تکیے کے نیچے جرابیں رکھ کر موصو ف بھول گئے تھے ابھی وہاں سے نکلی ہی تھی کہ بڑے بھائی نے کہا شبنم جلد ی سے آنا میں میرے کپڑے تو استری کردیں میں نے آج اپنے دوستوں کے ساتھ چھانگا مانگا سیر کے لیے جانا ہے ۔ ایک اتوار کا دن ہی تو ہوتا ہے انجوائے کرنے کو ۔ اور وہ بھی آدھا دن ناشتے اور تیاری میں ہی گزر جاتا ہے میں کب جاؤں گا اور کب واپس آؤں گا ۔ امی کا یہ حکم بھی یاد ہے کہ شام ڈھلنے سے پہلے پہلے ہر حال میں مجھے اپنے گھر میں ہونا چاہیئے کیونکہ ابو پسند نہیں کرتے کہ ان کا کوئی بیٹا شام کے بعد گھر سے باہر رہے ۔توبہ توبہ اب مجھے کپڑے بھی استری کرنے پڑیں گے بجلی جانے میں بھی دس منٹ باقی ہے میں کیا کیا کروں ۔ اسی اثنا میں موبائل کی گھنٹی نے سب کی توجہ مرکوز کردی میں بھاگی بھاگی موبائل کے پاس پہنچی مجھے یقین تھا کہ یہ فون کال میری فرینڈ شرمین کی ہوگی کیونکہ کل وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ اتوار کا دن میرے لیے بہت بور گزرتا ہے دل چاہتا ہے کہ میں آپ کے گھر ہی آجاؤں دونوں ہوم ورک کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی کیا کریں گی ۔ شرمین کا گھر ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں تھا اس کے والد ایک معروف بزنس مین تھے اس لیے ان کے گھر میں سب کام کاج نوکرہی کیا کرتے تھے ۔ وہ شہزادیوں کی طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر رومانٹک ڈرامے فلمیں اور کرکٹ میچ سے انجوائے کیا کرتی تھی لیکن اگلی صبح پیر کے دن جب شرمین سے ملاقات ہوتی تو وہ مجھ سے پوچھتی کہ اتوار کیسا گزرا ۔ میں کہتی مردوں کے لیے تو اتوار سکون اور سکھ چین کادن ہے لیکن عورتوں کا کام تو تین گنا زیادہ بڑھ جاتاہے ۔جس کو دیکھو تو کوئی نہ کوئی فرمائش کرتا ہوا دکھائی دیتاہے ۔ توبہ توبہ اتوار نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔کیا ہم انسان نہیں ہیں کیا ہمارا دل نہیں کرتا کہ ہم بھی التی پالتی مار کر سکون سے ٹی وی ڈرامے دیکھیں ۔ابھی ان سوچوں میں گم شبنم موبائل تک پہنچی ہی تھی کہ دوسری جانب سے ایک مردانہ آواز سنائی دی ۔
شبنم : آپ کو کون اور کس سے بات کرنی ہے آپ نے
مرد : میں نے بات کو اپنے دوست فرقان سے کرنی تھی لیکن آپ کی آواز نے مجھے اس قدر خوش کردیا ہے کہ میں اب آپ سے ہی بات کرنا چاہتا ہوں ۔
شبنم : اے مسٹر ذرا دھیان سے ۔ میں کسی ایسے ویسے سے بات نہیں کرتی ۔ میں تو سمجھی تھی کہ میری سہیلی شرمین کی کال ہوگی ۔
مرد: پھر کیا ہوا ڈیئر اگر قدر ت نے ہمیں آپس میں بات کرنے کا موقع فراہم کر ہی دیا ہے تو اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے
شبنم : کونسا موقع اور کیسی بات ۔ میں سمجھی نہیں ۔
مرد : کیا میں آپ کانام پوچھ سکتا ہوں ۔
شبنم : تم اپنی بات کرو تمہیں نام سے کیا مطلب
مرد: نہیں جناب ۔ چلو میں پہلے بتائے دیتا ہوں میرا نام آصف ہے اور میں لاہور میں ایک پرائیویٹ میں اعلی عہدے پر فائز ہوں میرے پاس کوٹھی کار بنگلہ اور نوکر چاکر بھی ہیں ۔
شبنم : کچھ نرم لہجے میں بات کرتے ہوئے ۔ تو میں کیا کروں آپ اگر امیر ہوں گے تو اپنے گھر ہوں گے مجھے اس سے کیا مطلب ۔
آصف : پلیز اپنا نام بتادیں تاکہ میں آپ کو نام لے کر مخاطب کرنا چاہتا ہوں
شبنم : بہت ضدی لگتے ہو تم ....... چلو کیا یادکرو گے ...... میرا نام شبنم ہے ۔
آصف : آپ کیا کرتی ہیں اور کہاں رہتی ہیں ؟
شبنم : میں بی اے فائنل ائیر میں پڑھتی ہوں لاہور کالج برائے خواتین شادمان میں ۔ اور کچھ آصف رہتی کہاں ہیں ۔
شبنم : میں والٹن روڈ کی ایک آبادی میں رہتی ہوں ۔
آصف : آپ کے والد کیا کرتے ہیں ؟
شبنم : یہ بتانا ضروری نہیں ہے مسٹر آپ جو بات کرنا چاہتے ہیں وہ جلدی سے کرو کیونکہ مجھے اپنے بھائی کے کپڑے بھی استری کرنے ہیں ابھی .....
آصف : کیا یہ کام بھی آپ کو ہی کرنا پڑتا ہے ...... ہمدردانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے
شبنم : ہاں جی ...... گھر میں اتوار کے دن اتنے کام ہوتے ہیں کہ مجھے بھی امی کاہاتھ بٹانا پڑتا ہے ۔ مرد تو سب عیش کرتے ہیں ہم عورتوں کوہی گھر کے تمام کام کاج کرنے ہیں ۔آپ بھی مرد ہیں آپ کو اس تو مردوں سے ہی ہمدردی ہوگی نا .......
آصف : نہیں نہیں ڈیئر میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں ......میں سمجھتا ہوں کہ اگر عورتیں گھر میں نہ ہوں تو شاید مرد اپنا چہرہ بھی نہ دھو سکیں ۔
شبنم : (متاثر ہوتے ہوئے ) آپ نے ٹھیک کہا ...... او کے پھر بات ہوگی
آصف : کیا میں کل آپ سے اسی نمبر پر بات کرسکتا ہوں ........
شبنم : ضروری نہیں ہے ۔ میں بہت مصروف ہوتی ہوں
آصف : او کے میں آپ کو زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتا اگر چاہیں تو کل شام کو ہم بات کرلیں گے
شبنم : جب کل آئے گی تب دیکھا جائے گا ۔ او بائے
موبائل کال ختم ہوتے ہی شبنم آصف کی باتوں میں کھو گئی ۔ بڑا بھائی ندیم چلا چلا کر کہہ رہا تھا سارا وقت تم نے اپنی سہیلی سے بات کرنے میں گزار دیا ہے اگر اب بجلی بند ہوگئی تو کپڑے کیسے استری ہوں گے اور میں کیسے چھانگا مانگا جاؤں ۔ توبہ توبہ لڑکیوں کی تو باتیں ہی ختم نہیں ہوتیں ۔بات کا کوئی سرا مل جائے سہی ۔ پھر بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے ۔
شبنم .... بھائی کیوں چلاتے ہوئے میری بہت پرانی سہیلی نے آج بہت عرصے بعد فون کیا تھا کیا میں اس سے بات بھی نہیں کرسکتی ۔
دونوں میں چیخ و پکار اور تو تو میں میں سن کر ماں وہاں پہنچی ۔کیا ہوا کیوں دونوں تکرار کررہے ہو۔
ندیم : امی دیکھو ۔ آج دوستوں نے چھانگا مانگا جانے کا پروگرام بنارکھا ہے صبح دس بجے ہم نے لاہور سے روانہ ہونا تھا لیکن میرے کپڑے ابھی تک استری نہیں ہوئے اور
آپ کی شہزادی موبائل پر اپنی کسی سہیلی سے گپیں ہانک رہی تھی ۔ بجلی ہے کہ اب گئی اور ابھی گئی .......
ماں: بیٹا شبنم پر اتنا غصے کیوں ہوتے ہوں وہ تو صبح سے ہی میرے ساتھ گھر کی صفائی کررہی ہے پھر آپ سب کو ناشتہ کروایا ۔ ابھی چھوٹے بھائی کو تیار کرکے میچ کھیلنے ک یلیے
بھجوایا ہے کہ تم نے پریشان کرنا شروع کردیا ہے ۔اگر تم اپنے کپڑے خود استری کرلیتے تو کونسا حرج تھا ۔
ندیم : امی آپ بھی شبنم کی طرفداری ہی کرر ہی ہیں نا ......
ماں : نہیں میری جان ۔ بیٹیاں پرائے گھر کی ہوتی ہیں شادی کے بعد یہ پرایا گھر بن جاتا ہے اس پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ وہ پریشان ہو ۔ وہ کالج بھی جاتی ہے کالج کا ہوم ورک
بھی کرتی ہے پھر میرا ہاتھ بھی بٹاتی ہے ۔آخر وہ کیا بھی کیا کرے ۔
ندیم : اچھا امی چھوڑو یہ باتیں ..... میں خود ہی استری کرلیتا ہوں کپڑے ۔
شبنم : (کپڑے ہاتھ سے لیتے ہوئے )استری کرنا شروع کردیتی ہے لیکن اس کے دماغ کی وسعتوں میں اب بھی آصف سمایا ہوا ہے اس کے ذہن کی سکرین پر آصف کی
باتیں بار بار گونجتی ہیں ۔ کیا واقعی آصف اتنا اچھا ہے کیا واقعی وہ اتنا امیر ہے کہ اس کے پاس تمام نعمتیں موجود ہیں جس کو ہم زندگی بھر ترستے رہتے ہیں کیا آصف واقعی
مجھے پسند کرنے لگا ہے ۔ان باتوں میں وہ اس قدر کھو گئی تھی کہ بجلی غائب ہوگئی ۔
دوسرے کمرے سے آصف کی آوازیں آرہی ہیں وہی ہوا نا جس کی مجھے توقع تھی ۔ اب میں کیا کروں ۔
امی : ( دوڑتی ہوئی کمرے میں آئی )ندیم سے مخاطب ہوکر بیٹا ناراض کیوں ہوتے ہو ۔ کل تم نے جو کپڑے اتارے تھے آج وہی پہن جاؤ ابھی کل ہی تو تم نے چینج کیے تھے۔
ندیم اتارے ہوئے کپڑے پہن کر ہی گھر سے روانہ ہوجاتا ہے اور شبنم دوپہر کے لیے بریانی پکانے میں مصروف ہوجاتی ہے ۔
اگلے دن شبنم کالج جاتی ہے لیکن آصف کی باتیں اس کے ذہن میں بار بار گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔پتہ نہیں آج آصف کال کرے گا یا نہیں .....
انہی خیالوں میں گم شبنم کالج سے گھر واپس پہنچ جاتی ہے ۔کپڑے تبدیل کرکے کھانا کھاتی ہے پھر کچھ دیر سستانے کے لیے بیڈ پر دراز ہوجاتی ہے ۔ شام ہونے میں کتنا
وقت اور باقی ہے ۔پتہ نہیں کب شام ہو گی اور کب آصف کی کال دوبارہ آئے گی ۔ ( آصف اپنی چکنی چوپڑی باتوں سے شبنم کے دل میں اپنا مقام پیداکرچکا تھا۔ اس کے باوجود کہ ابھی دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن دل میں ایک انجانی سی کشش محسوس ہورہی تھی ۔ شبنم کو یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ جس منزل کی تلاش میں تھی وہ آصف کی صورت میں اسے مل گئی ہے ۔ یہ اس کا وہم تھا یا وسوسے لیکن وہ ان وسوسوں کو یقین میں بدلتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی ۔پانچ بجے کے قریب ایک بار موبائل پر رانگ کال موصو ل ہوئی ۔ شبنم نے کال اٹنڈ کی تو دوسری جانب آصف ہی بول رہا تھا ۔
آصف : ہیلو شبنم کیسی ہو اور کیا کررہی ہو ۔
شبنم : میں تو دو پہر کا کھانا کھا کر آرام کررہی تھی کہ تمہاری کال نے مجھے بے چین کردیا ۔
آصف : میں آپ کا مطلب نہیں سمجھ سکا کیا میں آپ کو ڈسٹرٹ کررہا ہوں ۔
شبنم : نہیں نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا پتہ نہیں آپ کی باتوں میں بلا کی کشش ہے کل سے میں آپ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ آخر تم ہو کون اور میرا نمبر تم نے ڈائل
کیوں کیا ۔ مجھے دیکھے بغیر ہی اظہار محبت بھی کردیا ۔ یا تو تم بہت سیدھے ہو یا تو بہت چالاک ہو ۔ کتنی اور لڑکیوں سے تمہاری دوستی ہے سچ بتاؤ
آصف: نہیں نہیں مائی ڈیئر۔ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں مجھے تو اپنے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی میں لڑکیوں سے دوستی کامشکل کام کیسے کرسکتا ہوں میرے دفتر میں کتنی ہی لڑکیاں
کام کرتی ہیں جو مجھ سے جونئیر ہیں تم میرے دفتر آکر دیکھنا میں مجھے سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی ۔پتہ نہیں کیونکہ مجھے آپ کی آواز اچھی لگی ہے جو مجھے آپ سے
بات کرنے پر مجبور کررہی ہے ۔ مجھے یہ بھی علم نہیں کہ تم دیکھنے میں کیسے ہو ۔
شبنم : ( ذرا حجاب دکھاتے ہوئے ) سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں لڑکیوں کو فریب دیکھنا ان کا بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے انہیں پتہ ہے کہ ذرا سی تعریف سے لڑکیاں پگھل
کر پانی بن جاتی ہیں تمہیں میری اسی مجبوری کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو ۔اچھا چھوڑ و کوئی اور بات کرو .......
آصف : (ڈرتے ڈرتے ہوئے ) کیا ہم اکٹھے کسی اچھے سے ہوٹل میں چائے پی سکتے ہیں ۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو ........
شبنم: اف ۔ دو کال کرنے کے بعد ہی ملاقات کا وقت مانگا جارہا ہے توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے اتنی بے تابی کیوں جی ..........
آصف : ایسی بات نہیں ہے شبنم۔میں اچھے دوستوں کی طرح آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں مجھے جس آواز نے مدہوش کیا ہے وہ آواز میں اپنے سامنے بٹھا کر تمہاری سننا چاہتا
ہو پلیز میری درخواست کو مسترد نہ کرو ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم کالج سے گھر کیسے آتی ہو ۔اگر میں تمہیں اپنی گاڑی پر چائے پینے کے بعدگھر چھوڑدوں تو تمہیں کوئی اعتراض تو
نہیں ہوگا ۔
شبنم : (للچاتے ہوئے ) میں بس میں کالج سے گھر آتی ہوں لیکن میں والدین کی مرضی کے بغیر کہیں اور ٹھہر نہیں سکتی اور نہ ہی میں والدین کی دی ہوئی آزادی کا ناجائز فائدہ
اٹھانا چاہتی ہوں ۔
آصف : کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کل تم امی سے یہ کہہ کر کالج پہنچو کہ تم نے اپنی سہیلی کے گھر نوٹس لینے جانا ہے کچھ دیر ہوجائے گی ۔ اگر ایسا ہوجائے تو ہم مل بھی سکتے ہیں اور اکٹھے
چائے بھی پی سکتے ہیں ۔سوچ کر مجھے جواب دو ......
شبنم : (آئیڈیا کو پسند کرتے ہوئے ) او کے میں امی سے بات کروں گی اگر انہوں نے اجازت دی تو پھر ٹھیک ہے ۔ تم کل صبح مجھے نو بجے کال کرلینا ۔
کال بند ہوتے ہی شبنم ایک با ر پھر تصورات کی دنیا میں کھو جاتی ہے ۔وہ اپنے کمرے میں بانہوں میں تکیہ لیے ہوئے مستقبل کے تانے بانے بننے لگتی ہے کیا میری زندگی میں کوئی ایسا شخص آسکتا ہے جو مجھے بے حد پیار کرنے والا بھی ہو جو میری عزت احترام بھی کرنا جانتا ہو جو مجھے سکھ چین دے سکتا ہو ۔ اس کی سوچوں کے تمام دھارے آصف کی طرف ہی بہنے لگتے ہیں کیونکہ ابھی اس کی زندگی میں کوئی اور مرد نہیں آیا تھا اور آصف بھی ایک رانگ کال کی صورت میں نہ جانے کیسے اس کی دنیا میں چپکے سے داخل ہوچکا تھا ۔شبنم اسے ایک اچھا دوست سمجھنے لگی تھی ۔ پھر اسے یہ خیالات گھیر لیتے کہ اگر میری اس دوستی کی خبر والدین اور بھائیوں تک پہنچی تو ان کا ردعمل بہت شدید ہوگا ۔نتیجے کے طور پر وہ مجھے کالج سے اٹھا کر گھر میں بند بھی کرسکتے ہیں ۔ کبھی اس کے ذہن میں بغاوت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ۔ کیا یہ ساری آزادی صرف مردوں کے لیے ہی ہے وہ جب چاہیں اور جسے چاہیں اس کے ساتھ ملتے رہیں اظہار محبت کریں یا شادی کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ۔ ایک لڑکی اگر اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ مل بھی نہیں سکتی تو یہ معاشرہ صرف مردوں کو ہی آزادی فراہم کرتا ہے جبکہ لڑکی کی حیثیت پنجرے میں بند ایک پنچھی کی طرح ہوتی ہے جب چاہا پنجرہ کھول دیا اور جب چاہا پنجرہ کا دروازہ بند کردیا ۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے .....
انہی سوچوں میں وہ نیند کی گہری وادی میں اتر گئی ۔
اگلی صبح کالج جانے کی تیاری کرکے امی کے پاس پہنچ کر کہا ۔
شبنم : امی جان میں نے آج کالج کے بعد اپنی سہیلی کے ساتھ اس کے ٹاؤن شپ جانا ہے کچھ دیر ہوجائے گی ذرا سنبھال لینا ۔
امی : بیٹا یاد رکھنا مجھ سے کوئی غلط بات نہ کہنا کہ مجھے تمہارے باپ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے اور جو اعتماد تم پر کیاگیا ہے اس کو ٹھیس نہ پہنچانا ۔
شبنم : امی ۔ آپ کیسے یہ سوچ سکتی ہیں کہ میں خاندان کی عزت کو داغدار کروں گی میں وعدہ کرتی ہوں کہ کوئی غلط اقدام نہیں اٹھاؤں گی اور سہیلی کے گھر سے فارغ ہوکر ابا کے
آنے سے پہلے پہلے سیدھی گھر پہنچ جاؤں گی ۔
امی : شاباش ۔مجھے تم سے یہی امید تھی ۔ جاؤ اﷲ تمہارا نگہبان ہو ......
کالج پہنچ کر شبنم پڑھائی میں مصروف ہوجاتی ہے لیکن اس کی سوچوں کے دھارے پھر اسے آصف کی طرف متوجہ کردیتے ہیں پتہ نہیں وہ کیسا ہو گا ۔ کیا وہ خوبصورت ہوگا یا نارمل ۔ کیا مجھے اس پر اعتبار کرنا چاہیئے یا نہیں ۔ کیا میرا اس کے ساتھ جانا میرے خاندان کے لیے بدنامی کا باعث تو نہیں بنے گا ۔ انہی سوچوں میں وہ ہر پریڈ میں ذہنی طور پر غیر حاضر رہتی ہے ۔چھٹی کاوقت ہوتے ہی تمام لڑکیاں گیٹ کی جانب دوڑتی ہیں تو شبنم بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھائے کالج گیٹ کی جانب بڑھتی ہے ۔ اس کا دل وسوسوں میں ڈوبا جاتا ہے پتہ نہیں وہ آئے گا بھی کہ نہیں ۔ اور اگر وہ آگیا تو مجھے اس کے ساتھ جاتا ہوا دیکھ کر سہلیاں کیا کہیں گی کہ یہ کون ہے ۔ انہی سوچوں میں گم وہ گیٹ کے باہر پہنچ جاتی ہے ۔ گیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا گاڑی میں ایک خوبصورت نوجوان بیٹھا ہوا کسی کا منتظر ہے ۔ پھر اچانک موبائل کی گھنٹی بجتی ہے شبنم اٹنڈ کرتی ہے تو دوسری جانب آصف بول رہا ہے ۔ میں سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا میں ہوں جو گیٹ کے پاس ہی کھڑی ہے آپ بھی یہاں ہی آجائیں ......
شبنم جب کار کے قریب پہنچتی ہے تو آصف کو دیکھ کر اپنا تن من دھن سب کچھ پہلی ہی نظر میں آصف پر قربان کر بیٹھتی ہے اس کے دل و دماغ سے بار بار آواز اٹھتی ہے شبنم تم جس شہزادے کے خواب دیکھا کرتی ہے قدرت نے وہ شہزادہ تمہارے قدموں میں لاکھڑ ا کیا ہے ۔ ڈرو مت گاڑی کادروازہ کھول کر بیٹھ جاؤ ۔ اگر تم نے یہ چانس مس کیا تو شاید پھر کوئی تمہاری زندگی میں ایسا چانس آئے یا نہ آئے ۔ اس چانس کو مس نہ کرو .......
شبنم کار کا دروازہ کھول کر بیٹھ جاتی ہے اور آصف اسے ویلکم کرتا ہے ۔ گاڑی چل پڑتی ہے ۔
آصف : کیا تم نے برا محسوس تو نہیں کیا کہ میں تمہارے کالج کیوں آگیا ۔
شبنم : برا تو لگتا ہے ایک اجنبی جس کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو وہ اچانک اتنا قریب آجائے تو عجیب سا تو لگتا ہے
آصف : دراصل شبنم ۔ کچھ فیصلے قدرت کی طرف سے بھی ہوتے ہیں ۔ رشتے آسمانوں پر طے ہوتے ہیں ۔ میرے والدین یورپ میں رہتے ہیں وہ کئی بار میری شادی کرنے کے لڑکیاں پسند کرچکے ہیں لیکن نہ جانے کیوں مجھے فیشن ایبل لڑکیوں سے نفرت ہے ۔ میں سادگی پسند ہوں اور مجھے تمہارے جیسی ہی لڑکی کی ضرورت ہے ۔
شبنم : ( شرماتے ہوئے ) پہلی ہی ملاقات میں شادی کا تصور عجیب سا نہیں لگتا ۔
آصف : مائی ڈیئر جب قدرت نے ہمیں ملا ہی دیا تو وقت ضائع کرنا بیوقوفی ہوگی ۔اگر تم چاہو تو میں کل ہی والدین سے بات کرلیتا ہوں پھر وہ تمہارے گھر آکر تمہارا رشتہ مانگ
لیں گے ۔
شبنم : اتنی بھی جلدی کیا ہے ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ہم اب کہاں جارہے ہیں ۔
آصف : تم بتاؤ .... تم میری مہمان ہو جہاں چاہو گی ہم وہاں ہی چلیں گے
شبنم: کسی فائیو سٹار ہوٹل چلتے ہیں سنا ہے وہاں کا ماحول پیار کرنے والوں کو بہت سوٹ کرتا ہے
آصف : او کے پھر ہم آوار ی ہوٹل چلتے ہیں جو مال روڈ پر ہے ۔ ویسے میں وہاں کبھی کبھی جاتا ہی رہتا ہوں اور ماحول بھی اچھا ہے ۔
چند منٹوں کی ڈرائیو کے بعد دونوں آواری ہوٹل پہنچ جاتے ہیں ۔ویٹر درواز ہ کھول کر استقبال کرتا ہے ۔ یہ دونوں ایک گول میز کے اردگرد رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں ویٹر آرڈر وصول کرنے کے لیے آتا ہے ۔آصف ٗ مینو کارڈ شبنم کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ شبنم جو کہتی ہے وہ چند لمحوں میں ان کے سامنے پہنچ جاتا ہے۔ اس قدر خوبصورت ماحول میں بیٹھ کر چائے پینے کا اتفاق شبنم کی زندگی کا انوکھا واقعہ بن جاتا ہے ۔آصف اس کو توقعات سے کہیں زیادہ پرکشش اور محبت کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔اگر قدرت نے ہمیں ملا ہی دیا تو کاش ہم عمر بھر کے ساتھی بھی بن جائیں ۔ ابھی یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ والدین اور بھائیوں کے ردعمل کا تصور کرکے شبنم پریشان ہوجاتی ہے ۔ چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر آصف وجہ دریافت کرتا ہے ۔
آصف : کیا ہوا شبنم تم بہت پریشان دکھائی دیتی ہو
شبنم: کچھ نہیں بس یونہی تصورات کی دنیا میں کھو گئی تھی ۔
آصف : اﷲ نے اگر چاہا تو تمہارے تمام تصورات میں حقیقت میں بدل دوں گا ۔ میں برا انسان نہیں ہوں اور نہ ہی لڑکیاں میری کمزوری ہیں ۔بے شمار لڑکیاں میری ذاتی زندگی
میں داخل ہونا چاہتی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسی لڑکیاں پسند نہیں ہیں ۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ میں نے اپنے دوست سے بات کرنے کے لیے کال کی تھی
جو آپ کو مل گئی ۔ میں آپ کو قدرت کا انعام تصور کرکے اپنا بنانا چاہتا ہوں ۔ کیا تم میرا ساتھ دو گی ۔
شبنم : (کچھ حجاب کے ساتھ ) آپ باتیں بہت اچھی کرلیتے ہیں آپ کی باتیں میرے ذہن میں ہر وقت گردش کرتی رہتی ہیں پتہ نہیں کیا جادو کردیا ہے آپ نے مجھ پر۔
گھر میں ہوتی ہوں تب بھی اور کالج میں ہوتی ہو ں تب بھی کھوئی کھوئی سی رہتی ہوں ۔
آصف : اس کا مطلب ہے کہ میرا تیر نشانے پر لگا ہے ۔ کیا میں کبھی آپ کے گھر جاسکتا ہوں آپ کے والدین سے ملنے کے لیے .....
شبنم : نہ ڈیئر نہ ۔ میرے والد تو غصے کے بہت تیز ہیں ان کو اگر ہماری دوستی کی خبر ہوگئی تو پھر میری خیر نہیں ہے ۔
آصف : چلو چھوڑو چائے پیتے ہیں پھر میں آپ کو آپ کے گھر والٹن روڈ پر ڈراپ کرکے ڈیفنس اپنے گھر چلا جاؤں گا ......
چائے پینے کے بعد دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گاڑی تک پہنچتے ہیں اور گاڑی چلنے لگتی ہے ۔مال روڈ سے ہوتی ہوئی گاڑی شامی روڈ پر پھر وہاں کیولری گراؤنڈ سے گزرتے ہوئے والٹن روڈ چلنے لگتی ہے ۔ قربان کالج کے قریب ہی شبنم گاڑی روکنے کے لیے کہتی ہے کیونکہ اس کا گھر کچھ ہی فاصلے پر ہوتا ہے ۔شبنم جب گاڑی سے اترنے لگتی ہے تو آصف بھی پیدل ہی ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے شبنم اس کو روکتی ہے کہ آپ میرے ساتھ نہ آئیں لیکن آصف گھر کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے ۔ دوسری جانب شبنم کے والدہ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوتی ہے اور دروازہ کھول کر شبنم سے پوچھتی ہے یہ کون ہیں جس کے ساتھ تم آئی ہو ۔ شبنم بات کو چھپاتے ہوئے امی جان یہ میری سہیلی کے بھائی ہیں جس کے گھر میں آج نوٹس لینے کے لیے گئی تھی چونکہ مجھے ٹاؤن شپ سے کئی بسیں تبدیل کرکے گھر پہنچانا پڑنا تھا اس لیے بہن کے کہنے پر یہ مجھے خود گھر تک چھوڑنے آگئے ہیں ۔امی نے تشکرانہ انداز میں آصف کو دیکھااور اسے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے لیے کہا ۔ ابھی شبنم کے والد دفتر سے واپس نہیں آئے تھے ۔ شبنم کی والدہ آصف سے باتیں کرنے لگیں اور شبنم چائے بنانے کے لیے باورچی کھانے پہنچ گئی لیکن اس کے کان ابھی ڈرائنگ روم کی جانب ہی لگے ہوئے تھے ۔
والدہ : بیٹا تمہارا نام کیا ہے اور تم کیا کرتے ہو اور تمہارے والد کیا کرتے ہیں۔
آصف : آنٹی میرا نام آصف ہے اور میں ایک پرائیویٹ میں فرم جنرل مینجر کے عہدے پر فائز ہوں ۔ میں اور میری بہن صفیہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں جبکہ والدین یورپ
میں عرصہ دراز سے قیام پذیر ہیں وہاں ان کا ذاتی بزنس ہے ۔
والد ہ: بہت اچھی بات ہے بیٹا ۔ ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ شبنم گریجویشن مکمل کرلے تو اس کے ہاتھ پیلے کرکے ذمہ داری سے عہدہ برا ہوجائیں پھر ہم عمرہ کرنے جائیں گے
جب تک بیٹی کی شادی نہیں ہوجاتی ہم عمرہ کرنے نہیں جاسکتے۔
آصف: آنٹی آپ نے شبنم کے لیے کوئی رشتہ دیکھا یا ابھی نہیں ۔
والدہ : رشتے تو کئی آچکے ہیں لیکن دل کونہیں لگتے ۔ کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے نہ جانے اس کے لیے کہاں سے شہزادہ آئے گا ۔ یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے نا ۔
آصف: آنٹی اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ایک بات کہوں ۔

والدہ : کہو بیٹا میں ناراض کیوں ہونے والی ۔
آصف : میں آپ کو کیسا لگتا ہوں ۔
والدہ : تم کس کی طرف اشارہ کررہے ہو بیٹا صاف بات کرو ۔ ہچکچاؤ مت ۔
آصف: آنٹی ۔ میں نے جب سے شبنم کو دیکھا ہے مجھے وہ بہت اچھی لگنے لگی ہے میرے والدین یورپ میں فیشن ایبل لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن مجھے جیسی لڑکی پسند ہے وہ تمام خوبیاں شبنم میں موجود ہیں اگر آپ مجھے اپنا بیٹا بنانے پر آمادہ ہوجائیں تو میں آج ہی والدین سے بات کرلیتا ہوں ۔
والدہ بیٹا اتنی جلدی رشتے تو طے نہیں ہوتے نا ۔ اگر تم واقعی چاہتے ہو تو میں شام کو شبنم کے والد سے بات کرلیتی ہوں اگر انہوں نے رضامندی ظاہر کی تو تم کل گھر آجانا۔
اسی اثنا میں شبنم چائے اور لوازمات لیے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور امی اور آصف کے سامنے چائے رکھ کر ایک جانب بیٹھ گئی ۔آصف چائے پینے کے بعد اجازت لے کر واپس چلا گیا لیکن اب اسے منزل قریب سے قریب تر آتی ہوئی دکھائی دی۔وہ آج بہت خوش تھا اس خوشی میں وہ اپنا بریف کیس بھی شبنم کے گھر میں ہی بھول گیا گھر پہنچ کر جب اسے بریف کیس کی ضرورت پڑی تو اسے واپس شبنم کے گھر دوبارہ آنا پڑا ۔ دروازے پر دستک دی تو شبنم کے والد نے دروازہ کھولا ۔ سلام کرنے کے بعد آصف نے آنے کامقصد بیان کیا اسی اثنا میں شبنم کی والدہ بھی وہاں پہنچ گئی اور آصف کا اپنے شوہر سے تعارف کرواتے ہوئے اندر لے آئیں ۔ اب ڈرائنگ میں ایک بار پھر آصف ٗ شبنم کی والدہ اور والد بیٹھ گئے ۔ شبنم کی والدہ نے اپنے شوہر سے مخاطب ہوتے ہوئے بتایا کہ یہ آصف ہیں جو شبنم کی سہیلی کے بھائی ہیں ۔ ان کے والدین یورپ میں رہتے ہیں جہاں ان کا کاروبار ہے یہ شبنم سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ یہ سن کر شبنم کے والد مرزا توفیق کے ماتھے پر کچھ شکن پیدا ہوئیں پھر خود کوکنٹرول کرنے کے بعد نارمل ہوئے اور آصف کاانٹرویو شروع کردیا ۔ آصف تمام سوالوں کو صحیح جواب دیتا جارہا تھا ۔جب بات پسندیدگی کی حدوں کو عبور کرگئی تو شبنم کے والد نے اپنی رضامندی کااظہار کردیا ۔ آصف خوشی خوشی بریف کیس لے کر اپنے گھر پہنچا ۔ وہ بہت خوش تھاکیونکہ اس کی منزل بہت قریب دکھائی دے رہی تھی ۔دوسری جانب شبنم کو والدین کی رضامندی کا پتہ چلا تو اسے بھی یوں محسوس ہوا جیسے ساری کائنات اس کے قدموں میں ڈھیر ہوچکی ہے وہ پہلی ہی ملاقات میں آصف کو دل سے چاہنے لگی تھی لیکن شرم اور حجاب نے دل کی بات زبان پر نہیں آنے دی ۔اگلی شام کو جب آصف ایک بار پھر شبنم کے گھر میں آپہنچا ۔ وہ شبنم کے والدین کے لیے بیش قیمت تحائف لے کر آیا تھا ایسے تحائف جو شبنم کے غریب والدین نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے ۔ رسمی انکار کے باوجود یہ تحائف قبول کرنے پڑے ۔ دوسرے لفظوں میں اب بات پکی ہوچکی تھی ۔اسی اثنا میں موبائل پر گھنٹی بجی آصف نے کال اٹنڈ کرتے ہی نہایت ادب کے ساتھ سلام کیا اور یہ کہہ کر موبائل فون شبنم کے والد کو تھما دیا کہ یہ میرے والد ہیں جو آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔مرزا توفیق نے موبائل پر کچھ دیر بات کی ۔ آصف کے والد کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے بہت کوشش کی ہے لیکن اسے کوئی لڑکی پسند ہی نہیں آتی نہ جانے کیسے اسے آپ کی بیٹی شبنم پسند آئی ہے اب وہ اصرار کررہاہے کہ جتنی جلد ی ممکن ہوسکے شادی کردی جائے ۔ کاروباری مصروفیت کی وجہ سے میں تو جلد ی پاکستان واپس نہیں آسکتا اگر ممکن ہوسکے تو آپ خود ہی بیٹی اور آصف کے والد بن کے شادی کااہتمام کردیں ۔ آصف کے والد کی باتوں میں اس قدر چاشنی تھی کہ مرزا توفیق انکار نہ کرسکے اور ایک ہفتے بعد شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی ۔ آصف کے پاس اﷲ کا دیا ہوا سب کچھ تھا جبکہ شبنم کے والدین نے بھی بہت مدت سے تیاری کررکھی تھی ۔پھر وہ وقت بھی آگیا جب آصف والٹن روڈ واقع شادی گھر "ڈولی" میں بارات لے کر پہنچ گیا ۔ شبنم خوب بن سنوار کر دولہن کا روپ دھار چکی تھی نکاح ہوا ۔ رخصتی ہوئی۔ شبنم اور آصف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہوگئے ۔
ڈیفنس میں عالیشان بنگلے میں شبنم کی حکمرانی تھی آصف اس کاہر طرح سے خیال رکھتا تھا ۔دونوں شام ڈھلے کسی بھی اچھے ہوٹل میں پہنچ کر من پسند کھانے کھاتے ٗ زندگی انجوائے کرتے اور رات گئے واپس اپنے بنگلے پر پہنچ جاتے ۔آصف کی بہن جو اس کے ساتھ رہتی تھی شادی کے بعد وہ بھی اپنے والدین کے پاس یورپ چلی گئی ۔ اﷲ تعالی نے انہیں یکے بعد دیگرے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی عطا کردی ۔ یہ خوشیوں بھری زندگی عروج پر تھی کہ اچانک ایک حادثے نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ۔
آصف ایک شام واپس گھر نہ پہنچا ۔ شبنم بہت پریشان تھی اس نے ہر جگہ ٹیلی فون کیا کوئی خبر نہ ملی والدین کواپنی تشویش سے آگاہ کیا تو والدین نے بھی ہر ممکن تلاش کی کوشش کی لیکن آصف کا کہیں پتہ نہ چلا اسے زمین کھا گئی ہے یا آسمان ۔ بعد میں پتہ چلاکہ وہ جس گھر میں رہتا تھا وہ بھی کرایے پر تھا اور جس ادارے میں کام کرنے کا بتاتا تھا وہاں اس نام کاکوئی شخص موجود نہیں تھا ۔ جب مالکان نے کئی مہینوں کا کرایہ مانگا تو شبنم کو مجبورا وہ گھر چھوڑ کر والدین کے گھر شفٹ ہونا پڑا ۔ آٹھ ماہ ہوچلے ہیں آصف منظر سے غائب ہے اب یہ نہیں پتہ کہ اس نے یہ سارا کھیل کس وجہ سے کھیلا تھا وہ حقیقت میں پیار کرنے والا انسان تھا یا کوئی فراڈیا ۔ جو موبائل کی رانگ کال کے ذریعے لڑکیوں کو ورغلا کر اور شادی کالالچ دے کر دھوکہ دیتے ہیں ۔ شبنم ایک ایسے دوراہے پر آکھڑی ہے جہاں نہ اسے زندگی کی امید ہے اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے لیے میں کچھ کہہ سکتی ہے ۔ایک رانگ کال نے اس کی دنیا میں جو خوشی بھری تھیں اب وہی رانگ کال اس کے مستقبل کو تاریک کرچکی ہے ۔ اب شبنم اس دوراہے پر کھڑ ی ہے جہاں سے نکلنے والا کوئی راستہ بھی اس کے روشن مستقبل کی ضمانت نہیں دیتا ۔ اب وہ لمحات اس کو سانپ بن کر ڈستے ہیں وہ اپنے آپ کو کوستی ہے کہ کاش میں نے وہ رانگ کال اٹنڈ نہ کی ہوتی اور نہ ہی میری زندگی اس طرح برباد ہوچکی ہوتی ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.