کڑوا سچ

سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کے لئے تو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ایک حسین تحفہ ہے وہ اس لئے کہ منقسم ریاست کے تینوں حصوں کے لوگوں کو دوہری چوہری حدبندیوں میں مقید رکھا گیا اور ظلم کے خلاف ان کی آواز ہند و پاک کی جانب سے کھڑی کی گئی متعدد آہنی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آجاتی تھی،اس آواز کا اقوام عالم تک پہنچنا ناممکن تھا اور ان تینوں حصوں میں الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا چاہیے وہ کشمیر کے نام سے ہو یا نہ ہو وہ کشمیر کا نمائندہ کبھی نہیں ہو تااور اس میڈیا نے ہمیشہ دہلی و اسلام آباد کے حاشیہ برداروں کو ہی کشمیر کا نام نہاد نمائندہ بنا کر عوام کے سامنے لایا اور بد قسمتی سے ہر وہ کشمیری جو اس شعبہ میں آیا اس نے بھی کشمیراور تحریک آزادی کے نام پر پیسے کمانے کو ترجیح دی اور غیر ملکی پالیسی کو ہی آگے بڑھایا تو ان حالات میں سوشل میڈیا بہر صورت ریاست جموں کشمیر کے پسے ہوئے محکوم و اپنی شاندار تاریخ سے ناآشنا عوام کے لئے ہوا کا تازہ جھونکا ہے اﷲ کی نعمت ہے ،اس لئے تمام محب وطن و آزادی پسند لوگوں کو چاہیے کہ اس میڈیم کو سطحی و فروہی اور زاتی اناد و مخالفت سے بالا ہو کر عظیم تر قومی مفاد میں استعمال کر کے اﷲ کی اس نعمت کا حق ادا کریں ۔

سوشل میڈیا پہ ہی ایک احباب سے گفتگو ہونے لگی جو بحرین میں ہیں تو انہوں نے ایک دلچسپ واقع سنایا کہ ان کی کمپنی میں ان کے گاؤں سے ایک لڑکا آیاتھا ۔جو بڑا محنتی ودیانتدار و باخلاق تھا ۔وہاں اس کی ملاقات لبریشن فرنٹ کے چند دوستوں سے ہوئی تعلقات بن گئے اور انہوں نے ناجانے اس کے زہن میں کیا ڈال دیا کیا پڑھایا سکھایا کہ اچانک اس میں کچھ غیر معمولی تبدیلیاں نظر آنے لگیں وہ ہم سب سے خفا خفا رہنے لگا اور ہمیشہ شکوہ شکائت کرتا رہتا کہ آپ سب کشمیری ہونے کے باوجود وطن کی آزادی کے لئے کچھ نہیں سوچتے ۔۔۔ایسے ہی وہ سالانہ چھٹی پہ گھر چلا گیا ۔تو گھر خوشی و مسرت کے بجائے سوگوارورہنے لگا اس لئے کے بہن بھاؤں اور والدین سے اس کا رویہ قطعی نامناسب ہو گیا وہ اتنا چڑچڑھا ہو گیا کہ سب اس سے پریشان رہنے لگے ،اس کا سب سے یہ گلہ رہا کہ آپ سب لوگ اس ملک کے باسی ہو جب کہ یہ غلام ہے اس کے تمام وسائل غیروں کے کنٹرول میں ہیں جس کے باعث ہمیں نسل در نسل ملکوں ملکوں زلیل و رسوا ہونا پڑھتا ہے لیکن ان حالات کے خلاف آپ لوگوں کی زندگی میں ایک ذرہ بھی ناراضی نظر نہیں آتی ،آپ کو پرواہ تک نہیں آپ اس غلامی کو محسوس تک نہیں کرتے ۔

وہ جوبات کہہ رہا تھا اس غلامی زدہ خاندان کے سر سے گزر جاتی ۔انہیں کیا معلوم یہ کیا کہہ رہا ہے ۔۔۔وہ تو غلامی کو ہی آزادی سمجھنے والے لوگ تھے ۔اب ان کے جھگڑے و سیاپے گھر کی حدود کراس کر کے محلے تک پہنچ گئے اور اس طرح اس کے گھر والوں کو اب محلے سے بھی شکایات موصول ہونے لگیں تو وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکال سکیں ۔ایک نے کہا کہ اس کا ایک ہسپتال میں ڈاکٹر صاحب دوست ہیں ان سے مشورہ کروں گا شائد کوئی حل نکل آئے ۔وہ اسے ہسپتال لے گئے اور اس کے ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ یہ مریض بے خوابی کا شکار ہے انہیں آرام، کی ضرورت ہے اور اسے کچھ ایسے انجکشن دئیے اور دوائیں کھلائیں کہ اسے دس بارہ دن تک مسلسل سلائے رکھا اور پھر اس محلے میں امن بحال ہوا ۔

قارئن کرام ریاست جموں کشمیر عجیب سیاسی واقعات کی سر زمین ہے ،یہاں غلامی کا سبق دینے والوں کو محب وطن اور آزادی وخوداری کا رستہ دکھانے والے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں ہم لائن آف کنٹرول کے اس پار کی قیادت کو قریب سے نہیں جانتے لیکن گلگت بلتستان و نام نہاد آزادکشمیر کی اکثر قیادت کا کردار کچھ ایسا رہا ہے کہ وہ سٹیج پر تو آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن نجی محفلوں اور غیر رسمی تقریبات میں ببھانگ دھل ایک تسلسل کے ساتھ آر پار اور گلگت کے لوگوں کے درمیاں نفرت اور تعصباتی تفریق کی ا یک مہیم چلائے ہوئے ہیں یہ لوگ دلائل کے ساتھ نوجوان نسل کو یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ وادی کے لوگ آپ کو ریاست کا حصہ ہی نہیں مانتے اور یہ کہ وہ متکبر ہیں خود کو سب سے برتر سمجھتے ہیں جب کہ گلگت والے بھی آقا کی خوشنودی کی خاطر اپنی جواں نسل سے کشمیر کی تاریخ اور گلگت کے کشمیر سے تعلق کو جھٹلاتے ہیں اوراس کے باوجود وہ صاحب تکریم ہیں ۔

ایک ایسی منقسم قوم جہاں کی تین اسمبلیوں میں براجمان لوگ غیر ملکی اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے ہوں اور قابضین سے حاصل کردہ تمام وسائل کو اسے غیر ملکی قبضے کے دوام کیلئے استعمال کر رہے ہوں اور اس قوم کو غلامانہ نیند میں سلانے کے لئے روزافزوں نئے طرز کی لوریاں سناتے ہوں آزادی پسندوں کو دیوانہ پاگل قومی دشمن کہتے ہوں اور جہاں عام غلامی پسند لوگ آزادی کے سبق سے بے بہرہ غلامی کے عشق میں گم اس حد تک گر جائیں کہ آزادی پسندو بیدار جوانوں کو جو غلامی کی خوفناک نیند سے قوم کو بیدار کرنے کے لئے فکر مند ہوں کو جبراً انجکشن لگوا کر سلانے لگیں تو اس قوم کی آزادی کے لئے کس طرح کی کٹھن جدوجہد کی ضرورت ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔
 
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 75541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.