نقوشِ محبت (دوسری قسط)
(Roshan Khattak, Peshawar)
لکھا تھا․․․․․․․․پیارے
اجنبی․․!
بے حدشوق سے، بے حد شوق سے․․مجھے دیکھ لیں۔میں آج شام ہی یہ موقعہ آپ کو
فراہم کر دوں گی،ہمارے کیچن کی ایک کھڑکی سڑک کی طرف کھلتی ہے آپ ٹھیک نو
بجے رات سڑک کی طرف سے آکر مجھے جی بھر کر دیکھ لیں،اور پھر فیصلہ کر لیں
․․․․․میں آپکے لا ئق ہوں یا نہیں؟
․․․․اگر فیصلہ میرے حق میں ہوا، تو میں آپ کے خط کا انتظار کروں گی․․․․!
خط کو جیب میں ڈال کر بیرک روانہ ہوا، اب شام ہونے کا انتظار تھا․․․․․یہ
عجیب تھا ․․․․بہت ہی عجیب تھا․․․ایک کرنل کی لڑکی ایک تیسرے درجہ کے
عہدیدار کے لئے تڑپ رہی تھی․․․․میں نے سوچا کہ جنس اور محبت میں ساری
کلاسیں ختم ہو جاتی ہیں ․․․سارے طبقے ایک ہو جاتے ہیں، یعنی انسان کی سچی
پہچان جنس اور محبت سے ہو تی ہے ․․․․․․․․!
شام ہو گئی، اندھیرا پھیل گیا، نو بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ․․․․․میں
بنگلے کے پشت کی طرف سڑک پر پہنچ گیا․․․․․․انتظار․․․․․․․․․
کچن کی کھڑکی کھلی تھی․․․․․جالی میں سے روشنی چھن چھن کر روشنی با ہر آ رہی
تھی․․․․․․․میں ایسے زاویے پر کھڑا ہو گیا کہ اندر کی روشنی مجھ پر نہ پڑے
مگر اگلے ہی لمحے میں ششدر رہ گیا․․․․․․․․․․․․․میں نے نارنجی کلر کی قمیص،
سفید شلوار اور سفید دوپٹہ میں ایک ایسا معصوم سا چہرہ دیکھا․․․
جوخط کے مضمون سے بالکل مختلف تھا․․․․․․یقین نہ آیا کہ یہ حورِ فلک ہے یا
حورِ زمیں․․․․․․؟
میں دیوانہ وار اس ملیح و صبیح چہرے کو دیکھنے لگا جس پر ایک چھوٹا سا
مناسب ناک اوراورچھوٹے سے کھلے ہوئے گلاب کا سا دہانہ سج رہا تھا․․․․اس نے
باہر کی طرف دیکھا․․․․․․․مسکرائی․․․․․․․لمحہ بھر کھڑی رہی․․․․․․․ٹرے اس کے
ہاتھ میں تھی؛؛؛پھر باہر کی طرف دیکھا․․․․․
اس کے لب ہلے․․․شاید اس نے خدا حا فظ کہا ․․․․․․․․․․․
ٹک کی آواز آئی․․․․․بتی بجھ گئی․․․․کچن میں اندھیرا ہو گیا مگر میرا دل
روشن ہو چکا تھا․․․․․میرا من، میرا ضمیر،میرا انگ انگ جھلمل جھلمل کر رہے
تھے․․․․․․محبت کا اتنا بڑا خزانہ پا کر میں مالامال ہو گیا تھا۔خدا مجھ پر
کتنا مہربان تھا، فوج میں نہ آتا تو یہ خوشی مجھے کیسے نصیب ہو تی․․․․․․
نو شہرہ تبادلہ نہ ہوتا تو یہ پھول کیسے کھلتے․․․․․․سپلائی ڈپو میں ڈیوٹی
نہ لگتی تو یہ انمول ہیرا کیسے ہاتھ لگتا․․․․․․․میں سوچتا یہ مواقع کون
پیدا کر رہا ہے ؟․․․محبت کے اس پراسس میں سے گزرنے کا آخر مقصد کیا ہے ؟کیا
اس میں زندگی کا کو ئی خاص مفہوم پو شیدہ ہے ْ․․․․․․․کچھ تو ہے․․․․
میں اسے تقدیر کہوں یا تدبیر․․․․․․ بہر حال مجھے یہ احساس ایک بہتر مستقبل
کی نوید دے رہا تھا․․․․․․․․․․․․․․․!
دل و دما غ میں خوشی کی لہر لے کر میں اپنی بیرک پہنچا۔۔۔۔چارپائی پر نیم
دراز ہو گیا․․․․․․نیند اڑگئی تھی․․․․وہ خوب صورت دہانہ․․وہ
معصوم سا چہرہ دل میں نقش ہو گیا تھا․․․وہ مسکراہٹ․․․وہ متناسب جسم․․․وہ
ننھے منے سے خوبصورت ہاتھ․․․․․یہ تصور ہی عجیب تھا․․․․․․․․․․․․․․
قلم کاغذ اٹھایا․․․․․اسے خط لکھنے بیٹھ گیا․․․․․․میں نے اپنے زندگی کا اسے
ایک طویل خط لکھا جو پندرہ صفحے پر محیط تھا․․․․․میں نے اسے نظر ثانی کی
غرض سے پڑھا تو پہلی مرتبہ مجھے اپنی تحریر کی شو خی اور گداز کا احساس
ہوا․․․․․․․․․․․․․حسین تصورات ذہن میں سمو کر میں کچھ دیر کے لئے سو
گیا․․․․․․․․․․صبح ہو ئی۔۔حسبِ معمول ڈیوٹی کے لئے روانہ ہو۔۔ رات کا لکھا
ہو ا خط جیب میں ڈالا․․․․․․․․․شہشم کے درخت کے قریب رکھا․․․․وہ اسے اٹھا کر
چلی گئی․․․․․․․․میں سارا دن مضطرب رہا․․․․․․․․مجھے بے چینی سے جواب کا
انتظار تھا․․․ میں جاننا چا ہتا تھاکہ دونوں طرف سے تسلیم و رضا کے بعد اس
کا ردِ عمل کیا ہو گا ؟․․․․․ڈیوٹی سے واپس بوجھل قدموں سے کوٹھی کے قریب
پہنچا تو نظریں برآمدے میں لگے چک کے نچلے حصہ پر تھیں․․․․․․․․․اچانک سرخ
پائنچوں میں گورے گورے پاؤں نظر آگئے․․․دل کی دھڑکن اچانک تیز ہو گئی․․
چِک کے کنارے دھیرے سے کھل گئے اس کا ہنستا ہوا حسین چہرہ نظر آگیا․․اس نے
ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور پھر نیلا لفا فہ اڑتا ہوا میرے قدموں میں جا
پھینکا․․․․لفافہ بہت وزنی تھا․․․․․․․․یقینا آ ج کا سارا دن اس نے جواب
لکھنے میں صرف کیا ہو گا․․․․․!بیرک پہنچا ․․․․․․․
کمرہ بند کیا اور خط کھول کر پڑھنے لگا․․․․تقریبا بیس صفحات کا یہ خط پڑھ
کرمیں سرشار ہو گیا․․․․․․․․․․․سچ مچ نشہ سا ہو گیا․․․․․․․ایسی بے پایاں
خوشی مجھے پہلی بار ملی تھی گویا میں پہلی بار محبت کر رہا تھا، میں بیان
نہیں کر سکتا․․․․․․․الفاظ اس مسرت کا احاطہ نہیں کر سکتے․․․․․․․
وہ خوش تھی․․․․․․․․․․․ مجھ سے زیادہ خوش․․․․․․․․․اس نے لکھا تھا․․․․․․․․
باقی کے لئے اگلے قسط کا انتظار کیجئے
․․․․․روشن خٹک کے زیرِ تحریر ناول ’’نقوشِ محبت ‘‘ سے ماخوذ․․․․․․․․․․․
قا ر ئین ! پسند یا ناپسند کے متعلق اپنی کمنٹس ضرور لکھ دیجئے (شکریہ)
روشن خٹک، پشاور
|
|