بیل ایک جانور ہے،عقل وشعورسے
نابلد اسے کولہو پہ باندھ دیں تووہ آنکھوں پہ پٹی بندھے ہونے کے باوجودراہٹ
چلانے کے لئے دائرے میں گھومتا رہتا ہے،اپنے مدار سے ہٹتا نہیں ،وہ جگہ
تومحدودہوتی ہے،مگر وہ مسلسل گھومتا ہے،اس کے قدم اپنے مدار سے ڈگمگانے
لگیں تومالک کی طرف سے ایک صدا پہ چوکنا ہوجاتا ہے،مگرانسان اشرف المخلوقات
ہونے کے باوجود اپنی حدنہیں پہچان سکا،جانورجب کوئی ایسی ویسی حرکت کرتا ہے
تومالک کی ایک صدا اسے مجبورکردیتی ہے،اوروہ بازآجاتا ہے،مگرانسان ایسا
بھٹکا ہے کہ باربار صدادینے پہ بھی نہیں پلٹا ،سرکشی پہ باضد ہے،کتا جب دور
جانے لگے اور مالک اسے صدا دے تووہ بھاگ کے مالک کے پاؤں سے لپٹتا ہے اسکے
تلوے چاٹتا ہے،ایک جانور کوبھی مالک کی پہچان ہے وہ اسکا وفادار ہے مگر
انسان عقل وشعور ہونے کے باوجود اپنے اصلی مالک کوبھلا بیٹھا ہے ،اس سے بے
وفائی کررہا ہے،اس کے باربار پکارنے پہ بھی پلٹنا اسے گوارا نہیں،اصلی مالک
کون ہے ؟،(اﷲ رب العزت )جوتمام جہانوں کا رب ہے جو خالق کائنات ہے،جس نے
انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ،وہ اﷲ جو مالک بھی ہے ،خالق بھی
ہے،رحمن بھی ہے،اور رحیم بھی ہے،ایک ماں جو نو ماہ اپنے پیٹ میں ایک بچہ کو
رکھتی ہے پھرموت وحیات کی کشمکش سے گزرنے کے بعد اسے جنم دیتی ہے،اور پھر
جنم سے لے کر موت کی وادی میں اترجانے کے بعد تک بھی وہ اپنے بچے کے لئے
شفیق ہوتی ہے،بچے کو ٹھوکر لگے ،گرجائے،یا کوئی تکلیف ہوتو ما ں بلبلا
اٹھتی ہے،اور جب بچہ ڈگمگانے لگے توماں بڑھ کر تھام لیتی ہے،ماں کی سب
محبتیں ،سب چاہتیں اﷲ رب العزت کی چاہت کا ایک روپ ہیں،اﷲ تعالیٰ ماں کی
محبت سے سترگنا ذیادہ محبت کرتا ہے،اور اس کا بندہ ڈگمگانے لگے تووہ اسے
راہ ہدائت دکھاتا ہے،مگر بندہ اس رب کا شکر ادا نہیں کرتا اور اس کی پکار
نہیں سنتا اور اس کی پکارکا جواب بھی نہیں دیتا،طلوع سحر سے رات کی تاریکی
چھا جانے تک دنیا کے کونے کونے سے صدا بلندہوتی ہے،
اﷲ اکبر،اﷲ اکبر حئی علی الصلوۃ،حئی علی الفلاح
اور یہ صدا دن میں پانچ مرتبہ انسان سنتا ہے،مگر اس کی اس صدا پہ غورنہیں
کرتا ،اس کا جواب نہیں دیتا ،اور پلٹتا نہیں ہے،انسان اپنے مالک کا کس قدر
نافرمان ہے،کہ مالک اسے فلاح کی طرف بلاتا ہے،کامیابی کی طرف بلاتا ہے،مگر
انسان اس پر غور کرتا ہی نہیں ،اپنے مالک کی صدا سنتا ہی نہیں،اﷲ تعالیٰ
انسان کو باربار موقع دیتا ہے،تب ہی تو اﷲ تعالی ٰ کرہ عرض پر چوبیس گھنٹوں
میں پانچ مرتبہ اپنے درپہ حاضری کا موقع دیتا ہے،مگر نادان انسان کہتا ہے ،بہت
مصروف تھا اس لئے نمازقضا ہوگئی ہے،نمازتوادا کی نہیں ،اذان غور سے سننے کی
فرصت نہیں،جواب دینا تو بہت دور کی بات ہے،آج ہم بڑے فخر کے طور پر دوسروں
کے سامنے اپنے معصوم بچے سے کہتے ہیں،کہ ہمیں انگلش میں (POEM)سنائیں اور
جب بچہ لہک لہک کر سناتا ہے تو اسکو فخر سے داد دیتے ہیں،ہم نے اپنے بچوں
کو باقی توسب کچھ سکھا دیا ہے ،مگر اسے یہ بتانا بھول گئے کہ اس کا مالک
کون ہے،اور اس کا کیا حکم ہے،کم از کم بچے کو سب سے پہلے اسلام کی بنیادی
چیزیں سکھانا ہمارا فرض ہے،اس کے بعد دنیاوی تعلیم دینا چاہیئے،حضرت بلال ؓ
جب اذان دیتے تھے تو جن وانس ٹھہر جاتے تھے،وہ حضرت بلال ؓ جن کو یہ شرف
حاصل تھا کہ وہ چلتے زمین پرتھے اور ان کے قدموں کی آہٹ عرش پہ سنائی دیتی
تھی،وہ جب اذان دیتے توچرندپرند اڑنا بھول جاتے اور اذان سنتے تھے،مگر
انسان آج کل کتنا غافل ہوچکا ہے،کہ ہر طرف اذان کی صدا بلند ہوتی ہے مگر
انسان ٹس سے مس نہیں ہوتا اور اپنی کاروباری زندگی میں مگن ہوجاتا ہے،اپنے
مالک حقیقی کی صدا سننے کی فرصت نہیں،ارے اے بدبخت انسان توکچھ بھی نہ تھا
اس ذات نے تجھے گندے خون سے وجود بخشا ،جب تجھے دنیا میں بھیجا گیا توہر
مراحل سے گزارتے ہوئے تیری ضرورت کے مطابق تجھے بن مانگے سب کچھ دیا،وہ اﷲ
جو تجھ سے سترماؤں سے زیادہ پیارکرتا ہے،وہ اﷲ جوتیری شاہ رگ سے بھی زیادہ
قریب ہے،تیری ناشکریوں کے باوجود بھی وہ تجھے سب کچھ دے رہا ہے،اس کی ایک
ایک نعمت پر ذرا غورتو کر ،کہ اگر وہ اک نعمت تم سے چھین لے تو ہے کوئی
دنیا کی طاقت جو واپس دلوا سکے،اے انسان اپنے اصلی مالک کو پہچان اور اس کے
ہرحکم پہ قربان ہوجا،اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو،آمین ثم آمین۔ |