مدرسہ / اسکول
(Zulfiqar Ali Ahsan, Karachi)
مدرسہ اور اسکول کسی بھی معاشرے
میں اسپتال کے مانند ہے جو لوگوں کا علاج کرتا ہے بدقسمتی سے کافی عرصے سے
ہمارے معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑہ رہی ہے کہ مدرسوں سے صرف انسان دشمن
عناصر اور دہشت گرد ہی فروغ تحصیل ہو رہے ہیے جب کہ دوسری طرف اسکولوں سے
انسان دوست اور بہترین انسان اور معاشرے کے کار آمد لوگ فارخ تحصیل ہو رہے
ہے جب کے حقیقت اس کے مختلف ہے اگر ہم عالم اسلام ہر نظر ڈالے تو ہمیں
معلوم ہوگا کہ مدرسوں کے فروغ تحصیل بھی دنیا کے بہترین کارآمد لوگ ہے بجز
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کچہ لوگ جو ہہ سب کچہ اسلام کے
نام پر کر رہے وہ بھی مدرسے کے ہی فروغ تحصیل ہے سانحہ پشاور کے بعد صرف
اسکولوں کی سیکورٹی میں اضافے کے بعد اس بات کو مزید تقویت ملی ہے کہ جو
دہشت گردی ہو رہی ہے وہ مدرسے والے ہی کر رہے ہے ان تمام صورت حال کے نتیجے
میں ہماری نوجوان نسل بہت الجھن میں مبتلا ہے کہ کچہ لوگ جو کے بہت ہی کم
تعداد میں موجود ہے اس طرح کے حملوں کے حمایت میں نظر آتے ہے جو کہ بہت کم
ہی کھل کر اپنے اس حمایت کا اظہار کرتے ہے اور بہت سارے لوگ اس کے مخالفت
کر رہے ہے اس تمام صورت حال کے زمیدار ہم ہی لوگ ہے جو شعوری اور غیر شعوری
طور پر ان لوگوں کی مدد کر رہے ہے جو اسلام کا نام لے کر یہ انسانیت سوز
واقعایات کر رہے ہے جب تک ہم کسی بھی شخص کے قتل کو کسی مخصوص فرقے یا گروہ
کے قتل کے بجائے چاہے وہ قتل کراچی سے لے گلگت بلتستان تک کہ کسی بھی انسان
کا ہو خواہ وہ کسی بھی رنگ،نسل،مذہب کا ہو اس کے قتل کو پاکستان کے سلامیت
کے خلاف تصور نہیں کرۓ گے تب تک ہہ مسلئہ اسی طرح جاری رہے گا اور جب تک ہر
سطح پر ایسے لوگوں کی سرکوبی اور کھل کر ان لوگوں کو سب کے سامنے ننگ و عار
نہیں کرۓ گے جو اسلام کا نام لے کر سب غیر اسلامی کام کرہیے ہے جن کا اسلام
سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے اور بلخصوص ایسے لوگوں کا جو میڈیا پر آ
کے اور اپنے جلسوں میں کھلے عام دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہے ان لوگوں کی
بھی سرکوبی نہیں کرۓ گے تب تک ہماری نوجوان نسل اپنے آپ کو اس الجھن سے
نہیں نکال پاۓ گی ورنہ وہ دن دور نہیں ہے کہ نوجوان نسل اسلام کے اصولوں کو
چھوڑ کر لادنیات کی طرف راغب ہو جاۓ۔ |
|