خانہ پرُی

کسی بھی معاشرے میں انتشار اس وقت پھیلتا ہے جب معاشرے میں معاشرتی ناہمواری ، انصاف کی عدم فراہمی ،ترقی کے مثاوی مواقع ،اور روزگار میں کمی ،مسائل کی بہتات ،اور شہریوں کے بنیادی حقوق ان کو نہ مل رہے ہوں۔ ملک میں اس وقت بیرونی دشمنوں کی کاروائیوں کی وجہ سے صورت حال کافی پریشان کن ہے قوم پاک فوج کی مدد سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے جبکہ سانحہ پشاور کے بعد ملک کے اند ر دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے پہلی بار سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں اور ملک میں پہلی بارتمام ملکی سیاسی قیادت ایک پیج پر کھڑی ہے جن کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ملک کو ان دہشت گردوں سے کیسے پاک کرنا ہے اس سلسلے میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں بنائی گئی جن کی پیش کی گئی سفارشات کی روشنی میں بہت سے مثبت اقدامات کیے گئے جن میں ان کیلئے فنڈز مہیا کرنے والوں کا محاسبہ ان کو پناہ دینے والوں کا محاسبہ ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنا عوام میں ان کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے غیر قانونی افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی کیمپوں میں واپسی جیسے احسن اقدامات اٹھائے گئے اس سب کاروائی میں سب سے بڑا اور اہم رول پولیس کو دیا گیا کیونکہ کسی بھی علاقے کی سب سے زیاہ جانکاری محکمہ پولیس کے پاس ہی ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہماری پولیس اس قابل ہے بھی کہ وہ ان عناصر کے خلاف موثر کاروائی کر سکے اس کے بارے میں ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم یکجا ہو کر ان دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور اس لڑائی میں دشمن کا کافی بھاری نقصان ہو رہا ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پولیس کی وجہ سے وہ سمت خدا نہ کرئے ہم سے دور ہو جائے جس پر چل کر ہم دشمن کا خاتمہ کر سکتے ہیں ۔پولیس کے بارے میں لوگوں کی ہمیشہ سے ہی رائے کچھ اچھی نہیں ہوتی اس کا مشاہدہ چند دن پہلے میں نے بھی کیا اور آپ دوستوں سے بھی شئیر کرنا چاہوں گا ہمارا علاقہ چونکہ اسلام آباد کا مضافاتی علاقہ اور اسلام آباد کا گیٹ وئے ہے وہاں پر بہت سے غیر مقامی افراد جن میں ہو سکتا ہے کہ کچھ غیر قانونی طور پر مقیم بھی ہوں گے بسلسہ روزگار مقیم ہیں چند دن پہلے جب میں اپنے آفس میں بیٹھا کسی کام میں مصروف تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے آفس کے باہر کوئی سو دو سو کے قریب پولیس والے لوگوں کو بنا پوچھے اپنی گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بنا جانچ پڑتال کیے ڈال رہے ہیں وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ کسی نے کچھ کیا بھی ہے کہ نہیں کسی کے پاس کوئی شناختی دستاویز ہے کہ نہیں کوئی پھٹان ہے یا پنجابی کوئی مقامی ہے یا غیر مقامی جب میں نے وہاں پر ان کو لیڈ کرنے والے آفیسر کو اپنا تعارف کرایا اور اسے یہ بتایا کہ انھوں نے میرے دو مقامی ملازم جن کے پاس ان کے شناختی کارڈ تک موجودہیں اپنی گاڑی میں بٹھا لئے ہیں تو ان صاحب کا کہنا تھا کہ صاحب آپ پریشان نہ ہوں ہم تو صرف خانہ پوری کر رہے ہیں آپ کے ملازموں کو ہم تھانے میں جا کر چھوڑ دیں گے یہ صرف اوپر سے آرڈر ہے اور ہم نے اوپر اپنی کارکردگی دیکھانے کے لئے سو دو سو بندے تھانے میں بند کرنے ہیں ہماری مجبوری کو سمجھیں آپ فکر نہ کریں اس کے الفاظ خانہ پُری آج بھی میرے دماغ میں گھونج رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب قوم اپنا تن من دھن لگا کر ایک ایسی جنگ لڑرہی ہے جس میں قوم کی عزت و بقاء کا سوال ہے محکمہ پولیس نمائشی کارکردگی دیکھانے اور خانہ پری میں لگی ہوئی ہے میراوزیر داخلہ صاحب سے سوال ہے کہ کیا اس طرح خانہ پری سے قوم یہ جنگ جیت سکتی ہے کیا محکمہ پولیس اس بات سے بے خبر ہے کہ غیر ریاستی عناصر کہاں پر مقیم ہیں وزیر داخلہ صاحب ایسا بلکل نہیں ہے مقامی تھانوں کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے مگر ان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے وہ عناصر ان پولیس والوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور ہماری پولیس کو چپ لگ جاتی ہے۔ اگر ایک ایس ایچ او کو یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ اس کے علاقے میں کس ،کس فرد کے پاس غیر قانونی پسٹل تک ہے اور کون غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے غیر قانونی کاموں کے اڈے کون چلا رہا ہے علاقے میں انتشار پھیلانے والے کہاں سے پیسے لاتے ہیں ۔وہ انھیں پکڑنے کے بجائے مقامی لوگوں کو پکڑ پکڑ کر تھانے لے کر جانا کیا علاقے میں انتشار پھیلانے کی مذموم کوشش نہیں ہے اس طرح تو علاقائی لوگ پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ اپنے تعاون سے ہاتھ کھینچ بھی سکتے ہیں جس سے اس جنگ کا جیتنا مشکل ہو سکتاہے کیونکہ کسی بھی بحران سے نکلنے کے لئے عوامی تعاون سب سے اہم ہوتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہ ہماری پولیس کو یہ تک معلوم نہیں کہ یہ جنگ کتنی اہم ہے محکمہ پولیس کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے ساتھ اس کو ایسی بوگس کاروائیوں سے بھی روکنا ہو گا جس سے علاقے میں بہتری کے بجائے انتشار کا خدشہ ہوکیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے بڑی مشکلوں سے پوری قوم کو متحد کیا گیا ہے کہیں ہمارے ہی کسی ادارے کی نا اہلی کی وجہ سے وہ جیت ہم سے دور نہ ہو جائے جو بہت قریب آ رہی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس کو یہ باور کراے جائے کہ صرف خانہ پوری اور اوپر والوں کو نمائشی کارکردگی دیکھانے کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں اور درست سمت کا انتخاب کیا جائے جس کے لئے مقامی صحافیوں، سول سو سائیٹی کے نمائیندوں اور علاقے کے بااثر سیاسی لوگوں کے ساتھ ملکر ایک ایسا مکینیزم بنایا جائے جو اس بات کی نشاندہی کر سکے کہ وطن دشمن ان کے علاقے میں کہاں کہاں پر موجود ہیں اور ان کے خلاف کیسے موثرکاروائی کی جا سکتی ہے کیونکہ ایک علاقائی صحافی ، اور لوکل کیمیونٹی کا نمائندہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی زیادہ پہچان رکھتا ہے اگر مقامی پولیس ان کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھائے تو ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشنز کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے اس سے مقامی لوگوں کو بھی پریشانی بھی نہیں ہو گی اور پولیس کی حقیقی کارکردگی بھی سامنے آئے گی ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227085 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More