بدلتے تناظر
(Prof. Niamat Ali Murtazai, Karachi)
یہ دنیا تبدیلی کا تھیٹر ہے یہاں
ہر لمحے تبدیلی اپنے کرتب دکھاتی ہے۔ آتے جاتے مہینے، سال، صدیاں نا جانے
کتنے واقعات، یادیں، دوستیاں، رشتے،انسان، ہر چیز اپنے ساتھ لاتے اور لے
جاتے ہیں۔ نہیں بدلتا تو آسمان کا نقشہ ہی نہیں بدلتا، نہیں رہتا تو زمین
کا نقشہ ہی ایک جیسا نہیں رہتا۔اور پھر زمین کی کوئی چیز ایک جیسی نہیں
رہتی۔تبدیلی کے تھپیڑے ہر چیز کو بدل کے یوں رکھ دیتے ہیں کہ آنکھیں بچاری
دیکھتی رہ جاتی ہیں، اور ذہن سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا
ہے۔پھولوں کو شرما دینے والے خوب رو یوں جھریوں سے بھر جاتے ہیں جیسے وقت
نے اپنے پاؤں تلے ان کو روند ڈالا ہو۔وقت نہ کوئی شریر دیکھتا ہے،نہ شریف؛
نہ مکیں دیکھتا ہے، نہ مسافر؛ نہ آزاد دیکھتا ہے ،نہ قیدی؛نہ عالم نہ ظالم،
نہ اپنا نہ بیگانہ۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اس کی دوستی اگر کسی سے ہے
تو وہ ہے تبدیلی۔تبدیلی کو وقت ہمیشہ ہی خوش آمدید کہتا ہے۔
وقت اور تبدیلی کے تناظر میں لکھنے والے کئی ایک کتب بھی وجود میں لا سکتے
ہیں لیکن فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست، ہم اپنی بساط کے مطابق ایک آرٹیکل ہی
لکھ سکیں تو ہماری تسکینِ قلب کے لئے کافی ہے۔
یہ عالمگیر سچائی ہے کہ تبدیلی ہر دور میں آئی ہے اور آتی رہے گی۔ ہر زمانے
کے لکھنے والے اپنے وقت کے نقوش الفاظ میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے رہیں
گے۔ ایک وقت کے جذبات و احساسات کو آنے والے وقت کے لئے محفوظ کرنا ہی تو
اہلِ ادب کی ذمہ واری یا پیشہ یا کمال ہے۔کوئی شاعر بنے یا نثار بنے بات
ایک ہی ہوتی ہے اور وہ بات وقت کو الفاظ کا مسالہ لگا کر ممی کی طرح آنے
والوں کے لئے محفوظ کر لینا۔اگر کوئی ایسا نہیں کرتا ، یا ایسا نہیں
سمجھتاتو اس کی مرضی، لیکن اصل بات یہی ہے کیونکہ انسان اپنے نہ وجود سے
باہر نکل سکتا ہے اور نہ اپنے زمانے کے اثرات سے دامن بچا سکتا ہے۔ وقت
شعوری یا لا شعوری طور پر ہر انسان کو متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ ہر آرٹسٹ اپنے
وقت کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ آرٹسٹوں کی کینوس، اور انداز میں ضرور فرق
ہوتا ہے لیکن بات کی تہہ ایک ہی ہوتی ہے۔
کبھی انسان کی رفتار کی طرح وقت یا تبدیلی کی رفتار بھی آہستہ تھی۔ لیکن
جیسے جیسے انسان تیز رفتار ہوا، وقت کو بھی تیزی سوجھی۔ جب انسان نے کھڑاؤں
پہنی،وقت نے بھی جوگر پہن لئے۔انسان کو پہیہ ملا تو وقت بھی انجن والی گاڑی
میں سوار ہو گیا، انسان کو گاڑی ملی تو وقت جہاز میں جا بیٹھا، انسان کو
جہاز نصیب ہوا تو وقت راکٹ میں سوار ہو کر چاند پر جا بیٹھا، انسان اسے
پانے چاند پر گیا تو وہ مریخ پر براجمان ہو گیا، لہٰذا اب انسان وقت سے
ملنے مریخ جانے کا سوچ رہا ہے۔لیکن ایک بات طے ہے کہ وقت نے انسان کے ہاتھ
کبھی نہیں آنا۔وقت انسان سے ہمیشہ تیز رفتار رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ماضی میں تبدیلی بڑی آہستہ آیا کرتی تھی ۔کبھی انسان پیدل اور وقت پہیوں
والی رتھ پر بیٹھا کرتا تھا۔ اس وقت تبدیلی بڑے عرصے بعد نمودار ہوا کرتی
تھی۔صدیاں گذر جاتیں تبدیلی کو آتے آتے۔آپ تصور کریں انسان جب آوارہ گردی
کے زمانے سے تنگ آکر دریاؤں کے کنارے آباد ہونا شروع ہوا ہو گا، تو دریاؤں
کے کنارے شہر آباد کرتے کرتے کتنے زمانے بیت گئے ہوں گے۔کتنی صدیوں تک
انسان اورحیوان نے ایک گھاٹ پر پانی پیا ہو گا،کب جا کے انسان نے اپنے آپ
کو حیوان سے علیٰحدہ کرنے کی سوچ کو فروغ دیا ہو گا،انسانی تہذیب دریاؤں
اور ساحلوں سے کتنے زمانوں تک منسلک رہی ہو گی۔کتنے زمانوں بعد انسان کو
کنویں کا تصور ملا ہو گا۔ اور انسان دریاؤں اور ساحلوں سے پیچھے ہٹا ہو گا،
اس وقت تک انسان کی کتنی نسلیں دریائی اور سمندری سیلابوں اور طوفانوں کا
لقمہ بن چکی ہو گی۔کنوؤں سے پانی نکالتے نکالتے کتنے زمانے بیتے ہوں
گے،انسان کی کتنی نسلیں کنوؤں سے پانی نکا ل نکال کے پیتی رہی ہوں گی۔ یہ
کنویں تو ہمارے بچپن اور جوانی تک آئے پھر ہینڈپمپ اور پھر جلد ہی موٹر اور
سرکاری پانی کا زمانہ آگیا۔ یہ بات نہ اتنی سادہ اور نہ اتنی چھوٹی ہے جتنے
آرام سے کہی یا سنی جا سکتی ہے۔ اتنی چھوٹی سی بات کے پیچھے پوری انسانیت
کی نے شمار صدیاں اور نا معلوم زمانوں کی انگنت کہانیاں، داستانیں، اور
افسانے بکھرے پڑے ہیں۔انسانوں نے بے شمار باتیں لکھی ہیں لیکن ان سے کئی
گنا زیادہ باتیں انسانی معاملات میں واقع بھی ہو چکی ہیں۔انسان جتنا کچھ
لکھ پاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ واقع ہو جاتا ہے۔لیکن یہ ایک دوڑ ہے انسان
اور وقت کی جس میں ویسے تو ہمیشہ وقت ہی جیتا ہے لیکن مقابلہ تو دلِ ناتواں
خوب کرتا ہے۔
انسان جب زمیں پر تشریف لایا تو اس کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہ تھا،
کپڑا بنانے کے لئے سوت نہ تھا، سوت بنانے واسطے روئی نہ تھی، روئی واسطے
کپاس نہ تھی، یہ سب کچھ آتے آتے کتنے دور گذر گئے، پھران سب کے آنے سے لے
کر کھڈی آنے تک کتنی صدیاں بیت گئی ہوں گی، کون قیاس کے گھوڑے دوڑا سکتا ہے
کہ قیاس بھی تو مشاہدے سے جنم لیتا ہے، اور وقت کی ریل پے چلنے والی گاڑی
ابھی کسی کی عقل شریف میں بن نہیں پائی۔آج ہمارے پاس جو کچھ ہے اس کے پیچھے
کیا کچھ ہے ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا۔کیونکہ انسان کی نظر کچھ دور جا کر
دھندلا جاتی ہے۔اور آگے واﷲ عالم ہو جاتا ہے۔
انسان آج اپنی بینائی کی کمی بیشی دور کرنے کے واسطے چشمہ لگا لیتا ہے اور
اسے کسی قسم کی اہمیت دینے کا خیال بھی اس کے ذہنِ مقدس سے نہیں نکلتا۔ اس
چشمے تک آنے سے پہلے پہلے کتنی آنکھیں ان چشموں کی راہ تکتے تکتے ملکِ عدم
کی رہی بن گئیں۔آج انسان کے پاس لکھنے لئی بہترین قلم ہیں ، کبھی انسان
لکھنا ہی نہیں جانتا تھا، حروف ابھی وقت کی کوکھ سے باہر آنے سے کترا رہے
تھے۔ پھر انسان نے جرئات کی اور حروف کو اپنے تصور سے نقشی شکل میں مقید کر
لیا، پھر ان نقوش کو مذید تراش خراش کر کے بہتر انداز میں پیش کیا، پھر شاخ
اور رنگ سے کہیں ان نقوش کو ثبت کرنے کی کوشش فرماتا رہا، کتنے زمانوں بعد
کاغذ کی پیدائش ہوئی اور قلم نے سکھ کا سانس لیا،قلم کو اس کا بہت پیارا
محبوب جو مل گیا۔پھر قلم اور دوات کے سلسلے کئی زمانوں کا سفر طے کرتے رہے،
انسان نے ترقی کی منازل طے کیں اور قلم اور دوات کا قدیم رشتہ ایک فاؤنٹن
پن میں اکٹھا کر دیا گیا۔ پھر اس پن کو اور بہتر بناتے ہوئے بال پوائنٹ کی
شکل میں ڈھا ل دیا گیا کہ محترم انسان کے پاس قلم میں روشنائی فل کرنے کا
وقت نہ رہا تھا۔اور آج کل تو مسٹر انسان نے اس بال پوائنٹ سے بھی پیچھا
چھڑا لیا ہے اور وہ اپنی بیشتر تحریر لیپ ٹاپ پر ہی لکھ لیتا ہے۔ لیکن لیپ
ٹاپ کی دکان کھلنے سے پہلے کتنے دوکاندار اس دارِ فانی سے رخصت لے چکے
ہیں۔یہ سوچنا آج کے انسان کی ذمہ واری ہے لیکن آج کے بیچارے انسان کے پاس
سوچنے کے لئے بھلا وقت کہاں ہے۔
ہم نے اپنی پُر تقصیر آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کالج اساتذہ سائیکلوں پر کالج
آیا کرتے تھے۔ اور ان میں سے اکثر کی سائیکلیں اتنی اچھی بھی نہ ہوتی تھیں
، خود ہمارے رفقائے کار بھی سائیکلوں پر کالج آتے رہے ہیں۔یہ ابھی کل ہی کی
بات ہے۔لیکن انسان کے سائیکل پر بیٹھنے سے پہلے کتنے زمانے ٹانگوں پر چلنے
میں گذرے ہیں۔ کب سے انسان اس سر زمینِ دنیا پر تشریف لایا اور ابھی کل وہ
سائیکل پر سوار ہو سکا تھا۔ ابھی سائیکل پر سوار ہوا ہی تھا کہ پیچھے سے
ٹیں ٹیں کرتی موٹر سائیکل نے شور مچانا شروع کردیا۔ اور اگلی نسل جلدی سے
سائیکل سے اتر کر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر’ گیں! گیں! ‘کرنے لگی۔
انسان نے کبھی خواب بھی نہ دیکھے تھے کہ ریڈیو اور ٹی وی بھی کچھ ہوتے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ریڈیو ، ایک طلسماتی صندوق کی شکل میں معرضِ وجود میں
آیا،لیکن ٹی وی کو ریڈیو کی مقبولیت ایک نظر نہ بھائی اور جلد ہی اپنے چہرے
پر سکرین سجائے دنیا کی نظروں کو اپنی طرف مبذول کرانے میں ایسا کامیاب ہوا
کہ انسان نے مڑ کر ریڈیو کی طرف آج تک نہیں دیکھا۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ
محلے میں ایک دو ٹیلی ویژن سیٹوں سے زیادہ سہولت دستیاب نہ تھی گلی محلے کے
سارے بچے اپنی اپنی گلی میں ایک دو ٹی وی والوں کے گھروں میں بلا امتیاز
اکٹھے ہو جاتے اور ٹی وی کے پروگرام دیکھا کرتے۔ اور ٹی وی چینلز بھی کتنے
ہوا کرتے۔۔۔۔۔ صرف دو: ایک پاکستانی اور دوسرا انڈین۔ پاکستانی ڈرامے اور
انڈین فلمیں اور پھر اتوار کو لگنے والی پاکستانی اردو اور پنجابی فلمیں
کیا مزا دیا کرتیں۔ وہ ہمسایوں کے گھروں میں کبھی زمین اور کبھی چارپایوں
پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کا کیا مزا ہوتا تھا۔ اس کو آج کے بچے کبھی محسوس
نہیں کر سکیں گے جن کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ان کے کمروں میں پچاس سے
زیادہ چینلز والی کیبلیں ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔اور مزے کی بات کی
اکثرو بیشتر ٹی وی بھی بلیک اینڈ وائٹ ہی ہوتے۔ آج کی آنکھیں ایسے ٹی وی
دیکھنے سے بھی محروم رہیں گی۔آج تو شاید ہی کوئی گھر ہو جس میں ایک ٹی وی،
اکثر گھروں میں کئی ایک ٹی وی ہیں۔اور وہ بھی رنگین ہیں اور ان پر پچاس سے
زیادہ چینلز بھی آتے ہیں۔
ابھی کل کی تو بات ہے کہ محلے میں ایک دو سے زیادہ ٹیلی فون نہیں ہوتے تھے۔
اور جن کے گھروں میں ٹیلی فون ہوتے تھے ان کا بڑا ’ ٹور‘ ہوتا تھا۔ محلے
داروں کو ان سے بنا کر رکھنی پڑتی تھی۔ان کا احسان مند رہنا ایک عام رویا
ہوا کرتا تھا۔ ان کی رضا مندی سے ان کا نمبر دور دراز کے رشتہ داروں کو بتا
یا جاتا تھا کہ کبھی کوئی ایمر جنسی ہو تو اس نمبر پر انہیں اطلاع کر دی
جائے۔مہینے میں ایک آدھ بار کسی دور کے یا دور گئے پیارے کا فون آنا ہوتا۔
سارا دن انتظار رہتا اور کبھی کبھی ان فون والے گھر سے پوچھنا بھی پڑتا کہ
ہمارے بندے کا فون تو نہیں آیا۔اور فون آنے پر اس گھر والوں کا بے حد ممنون
ہونا لازمی ہوتا۔چار نمبر والے فون سے ڈیجیٹل فون زیادہ پسند کئے جانے لگے۔
ان کی تفصیل بھی بل پر پرنٹ ہو کر آیا کرتی۔ لیکن محکمہ ٹیلی فون سے لوگوں
کی شکایتوں کا کبھی ازالہ نہ ہوتا۔ ہر کوئی سراپا احتجاج ہوتا کہ اسے بے جا
بل آتا ہے۔ لوگ محکمہ والوں کو بہت برا بھلا کہا کرتے۔ اور ٹیلی فون کو ایک
نعمت اور اس کی سروس لینا کو زحمت سمجھا کرتے۔ کئی لوگوں کے فون کئی کئی
مہینے بند رہتے لیکن بل انہیں ہر ماہ آیا کرتے اور کئی گنا زیادہ ہو کر۔
ٹیلی فون نے لوگوں کو اجیرن کر رکھا تھا سوائے چند لوگوں کے جن کو معاشرے
میں نمایاں حیثیت حاصل ہوتی۔یا محکمے کے اپنے رشتہ دار۔موبائل فون کی
پیدائش سے ٹیلی فون کی اذیت ناک داستانیں اپنے اختتام کو پہنچیں۔آج بچے بچے
کے ہاتھ میں موبائل فون اس بات کو غلط سا ثابت کرتا ہے کہ ابھی دس پندرہ
سال پہلے کی کمیونیکیشن کی حالت کیا تھی ۔لیکن چونکہ وہ حالت ہم نے اپنی
آنکھوں سے بذاتِ خود ملاحظہ فرمائی ہے اس لئے ہم حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ
کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وقت کا تناظر اتنی جلد بدل جائے گا۔
کل کے بچوں کی کھیلیں آج کے بچوں کی کھیلوں سے مختلف تھیں۔ ابھی کل کی بات
ہے کہ محلے کے بچے گلیوں اور قریب کی کھلی جگہوں پر کھیلا کرتے تھے: گلی
ڈنڈا، ونج وڑیکا، پٹھو گرم، پھڑن پھڑائی، لکن میٹی، برف جام ، کھتی رکھنا،
کَلی جوٹا، چور سپائی،دوڑ لگانا، سر م سلائی،کمس گھڑی،گولہ باری،اڈی
ڈیفا،یسو پنجو ، لٹو چلانا،بانٹے،۔۔۔۔۔کتنی کھلیں دیکھتے ہی دیکھتے نظروں
سے اوجھل ہو گئیں۔ اور پھر گلی کوچوں اور ان کے قریب قریب جگہوں پر مکانوں
نے ملیں مار لیں اور بچوں کا معصوم بچپن سکرین کی نظر ہو گیا۔اب بچے کھیلنے
کہاں جائیں۔گھر تقسیم در تقسیم سے گھروندوں کی شکل اختیار کرتے گئے۔ بچوں
کی کتابوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ اور گلی کوچوں کی رونقیں ماند پڑتی
گئیں۔ہمارے بچپن کی کھلیں ان وقت کی گردو غبار میں کہیں کھو گئیں۔نہیں
معلوم کہ ان کھیلوں کو اب کوئی کھیلنے والے بچپن آئیں گے۔یقین میں بدلتا
ہواخیال تو یہی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔کیونکہ اب بچوں کے پاس کھیلنے کے لئے
موبائل کی گیمیں کچھ کم نہیں ہیں۔ انہیں سکرین سے فرصت ملے گی تو وہ گلی
کوچوں میں کھیلنے کے لئے نکلیں گے۔وہ کاغذ کے جہاز اور کشتیاں بنانا اور
ہوا اور بارش میں ان کو چلانا اب کم ہی ملے گا۔
ابھی کل کی بات تو ہے کہ گھروں میں درخت ہوا کرتے تھے۔ خود ہمارے گھر میں’
بیری ‘ کا ایک کافی بڑا درخت تھا۔ آس پاس کے گھروں میں بھی کوئی چار بیری
کے درخت ہوا کرتے تھے۔ گلی میں اور بھی درخت تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے پتہ
نہیں کہا چلے گئے۔ ہواؤں سے ان کی دشمنی ہو گئی یا سورج کی کرنیں انہیں
روشنی دینے سے انکاری ہو گئیں۔نا جانے کیا ہوا۔ درختوں کو کس کی نظر لگ گئی
اور کتنے ہی معصوم پرندے بے گھر ہو گئے۔ ان درختوں پر صبح سویرے اور شام کو
پرندوں کا وہ شور برپا ہوتا کہ زندگی کے زندہ ہونے کا یقین آ جاتا۔ان
درختوں پر طوطے، شارکیں، کوے، چیلیں، ابابیل، بلبلیں ، کالی چڑیا، اور بعض
اوقات فاختائیں بھی آکر بیٹھتیں۔حشرات کی تو بات ہی نہ کریں۔تتلی، بھڑ، شہد
کی مکھی،کیڑے، سونڈیاں،۔۔۔ کیا کیا ان درختوں پر آیا کرتا۔ سب سے بڑھ کر
بھڑ جنہیں پکڑنا ایک مہم طے کرنے سے کم نہ ہوتا تھا۔مومی کاغذ ان پر ڈال کر
جلدی سے ہاتھ کو پیچھے ہٹانا،اور اس کاغذ کے اندر اسے پکڑ لینا، پھر آہستہ
آہستہ اس کا ڈنگ کسی سخت تیلے کی مدد سے نکالنا، پھر اس کی ٹانگ سے دھاگہ
باندھنا اور اسے اڑنے کے لئے چھوڑ دینا۔ اور کبھی کبھی اس کی کسی کیڑے سے
لڑائی کروا دینی۔اور اس سارے کام کے دوران بڑوں کا جھڑکیاں دینا اور ہمارا
ان جھڑکیوں پر کان کہ دھرنا۔
ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ لوگ تصویر بنوانے کو برا جانتے تھے؛خاص طور پر
اپنی خواتین کی تصویر کو کوئی برداشت نہ کرتا تھا۔ہمارے محلے کے ایک نوجوان
کے ایک اور نوجوان کو قتل کر دیا تھا اس بنا پر کہ اس نوجوان کی ہمشیرہ کی
تصویر اس کے دوست نوجوان کے پاس تھی جو اسے واپس کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔
بلکہ اکثر شادیوں کے مواقع پر آدمی تصویر اتارنے والوں سے دست و گریباں ہو
جایا کرتے تھے کہ ان کی خواتین کی تصویر کیوں اتاری گئی۔ اور آج ہر شادی پر
مردوں اور عورتوں کی بھر پور ویڈیو بنتی ہے اور کسی کو برا محسوس ہی نہیں
ہوتا۔اپنی نئی نویلی دلہن جس کی منہ دکھائی لی جایا کرتی تھی اب کیمرے کے
آگے ایسی چلتی ہے جیسے کوئی مذہبی رسم کی ادائیگی ہو رہی ہو۔کیمرہ اور
سکرین ہمارے رگ و ریشے میں سرایت کر گئے ہیں اور ہم ان کو ذرا بھی نا پسند
کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔شادیوں کی تصویریں ادھر ادھر دکھانا ایک رواج
اورمعاشرتی عادت بن گئی ہے اور اس میں کوئی قد غن لگانے کی کسی کے بس میں
نہیں۔آج کل سنجیدہ یا غیر سنجیدہ کوئی کام تصویر کے بغیر ہوتا ہی نہیں۔اب
تصویر سے متعلق لوگوں کے نظریات میں ایک واضح تبدیلی آچکی ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق معاشرے کے رویئے میں بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ پندہ
بیس سال پہلے لڑکیوں کے لئے قرآن کا پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا تھا، لیکن آج
کل سکول اور کالج کی تعلیم شہری معاشرے میں بڑی حد تک لازمی ہو چکی ہے۔ ماں
باپ اپنی بچیوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ماں باپ اپنی
بچیوں کو کسی مرد ٹیچر کے پاس بھیجنے سے بھی گریز کرتے تھے، لیکن اب یہ
حالت ہے کہ اکثر اکیڈمیوں میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے اور انہیں پڑھانے
والے ٹیچر اکثر مرد ہیں یہ بات رویئے کی تبدیلی کا اظہار کرتی ہے۔آج کل تو
یہ بات بھی ہو چکی ہے کہ لڑکوں کے کالجوں میں جن کلاسوں میں لڑکیوں کے
داخلے کی اجازت ہے وہاں بھی کلاس کی اکثریت لڑکیوں پر مشتمل ہے۔یونی
ورسٹیوں میں بھی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے واضح فرق کے ساتھ زیادہ ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم گھروں میں لکڑی جلایا کرتے تھے۔ ’بالن‘ یعنی
ایندھن ایک بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ بارشوں اور شدید سردیوں میں ’بالن‘ کی
اہمیت دو چند ہو جایا کرتی ۔ لکڑیوں سے کوئلے حاصل کیے جاتے۔ ہمارے گھر میں
ماں جی سردیوں کے لئے کوئلے اکٹھے کیا کرتیں۔ ان کو پرانے گھڑوں، بوروں
وغیرہ میں ڈال کر سٹور کیا جاتا اور سردی شریف کے آنے پر ان کوئلوں سے
گرمائی اور سکون حاصل کیا جاتا۔ہم بچپن میں ’ڈچے‘ کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کے ماں
جی کو دیا کرتے کہ آگ جلانے میں آسانی ہو۔ سردیوں میں ’بالن‘ گیلا ہوتا اور
جلتے ہوئے کافی دھواں بھی چھوڑتا،آنکھوں کو خوب تکلیف ہوتی۔اور بندے کے
اپنے بھی جن نکل جاتے۔دھواں گھر کی دیواروں اور چھتوں پر کالا پینٹ بغیر
کسی خرچ کے کر دیا کرتا۔اور آج ہر گھر میں گیس کا راج ہے۔ ایندھن لانے اور
خشک کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔نئی نظریں دھویں سے نا واقف ہیں۔چند سال پہلے
ہر گھر میں پانی کے لئے گھڑا ہوا کرتا تھا۔گرمیوں میں گھڑے کی وقعت میں
اضافہ ہو جاتا۔ گرمیوں میں نئے گھڑے خریدے جاتے اور احتیاط سے رکھے
جاتے۔پھر کولر آگئے اور برف دکان سے لا کر کولروں کو بھر لیا جاتا اور صبح
سے شام تک گرمیوں میں ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھائی جاتی۔کولروں کی مارکیٹ
ٹھنڈی کرنے والی فریجوں کو بھی تیزی سوجھی اور وہ بھی بھاگتی ہوئیں گھروں
کے پر سکون کونوں میں قابض ہو گئیں۔گھڑے اور کولر دونوں کی عزت اس فریج نے
خاک میں ملا دی۔آج کل ہر گھر میں فریج کو نئی نویلی دلہن جیسی اہمیت حاصل
ہے۔محبت، تحفظ، سلیقہ ۔ آنے والی جنریشن کے ہاتھوں فریجوں کی بے حرمتی ہونے
کا ایسے ہی اندیشہ ہے جیسے نئی نسل بوڑھوں اور بوڑھیوں کی عزت سے ہاتھ دھو
بیٹھتی ہے۔
’سیاں جی ‘کے نام چٹھی لکھنے کے دن بھی پرانے ہو چکے ہیں۔ اب چٹھی لکھنے کی
بجائے میسج لکھے جاتے ہیں۔ میسج آتے ہیں، میسج جاتے ہیں۔ دن گذرتا ہے رات
گذرتی ہے۔ابھی کل کی بات ہے خطوں کا وقار برقرار تھا۔ سجناں دی چٹھی چوم
چوم کر دل سے لگائی جاتی تھی۔لیکن خطوں کے انتظار کا عذاب اب کیوں جھیلا
جائے جب ایک سیکنڈ سے پہلے میسج سجن کے موبائل پے دستک دے سکتا ہے۔
اب بہت کچھ ای میل کیا جاسکتا ہے۔کال کی جا سکتی ہے۔اب تو عید مبارک بھی
کارڈوں کی محتاج نہیں رہی۔ موبائل نے کئی ایک گھروں کا خانہ خراب کیا ہے
اکیلے ٹیلی فون کا نہیں۔
بارات کے لئے گھوڑی اور ڈولی لازمی سمجھی جاتی تھی۔ہم نے کئی ایک باراتوں
میں دلہے میاں کو گھوڑی کی سواری کرتے دیکھا ہے۔اس کے پیچھے اس کا ’سرِ
بالا‘ بیٹھا کرتا۔ ان دونوں پر گوٹا کناری لگی ایک دیدہ زیب چادر ڈالی
جاتی۔ اور ’ ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘ نا صرف گایا جاتا بلکہ دکھایا بھی
جاتا۔گھوڑی کی ’باگ پھڑائی‘ بہنوں کو دی جاتی۔پھر دلہن کو ڈولی جسے پالکی
اور بینس بھی کہتے ہیں میں بٹھایا جاتا۔ دلہن کا ماموں اسے ڈولی میں بٹھاتا
، اس کے بھائی اس ڈولی کو کندھا دیتے ’موڈھاڈولی نوں دے جاویں ویر وے‘ ولی
بات سچ کر دکھائی جاتی۔کبھی کبھی ایسا ہو جاتا کہ باجوں اور پٹاخوں کے شور
سے گھوڑی ڈر کر بھاگ اٹھتی اور دلہے میاں کو بھی ساتھ ہی بھگا لے جاتی اور
کبھی کبھی حادثات بھی ہو جاتے۔آج کل دلہا راجا باجوں کے شور میں گھوڑی
چڑھنے والے گیت گاتے ہوئے کار میں تشریف لاتا ہے۔ ادھر دلہن رانی بھی پالکی
میں بیٹھنے کی بجائے بڑے آرام سے کار میں پچھلی سیٹ پر تشریف فرما ہو جاتی
ہے۔ اخلاقی طور پر تو دونوں کو آگے یا دونوں کو پیچھے بیٹھنا چاہیے، لیکن
کار میں یہ مجبوری ہے۔پہلے ہی روز دلہن احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہے
کہ وہ دلہے سے کمتر ہے؛ورنہ دلہن آگے اور دلہا پیچھے بھی تو تشریف رکھ سکتا
ہے۔ہمیشہ دلہن ہی کیوں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ؟یہ ایک واضح فرق ہے جو ہمارے
جیسی ادھیڑ عمر آنکھیں اپنے آس پاس مشاہدہ کرتی ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ چھوٹی چھوٹی چڑیاں انسانوں کا ساتھ ان کے گھروں میں
بڑی اپنائیت سے رہا کرتی تھیں۔ان کے’ آلہنے‘ مکانوں کی چھتوں میں، دیواروں
میں، درختوں میں، روشن دانوں میں،وغیرہ جگہوں پر اکثر پائے جاتے تھے۔وہ صبح
سویرے ہی شور برپا کر دیتیں، گھر والوں کو جگا کے بٹھا دیتیں۔بچے کھچے روٹی
کے ٹکڑوں، یا ضائع کھانوں وغیرہ پر گذارہ کر لیتیں۔ سادہ پانی پی کے اپنے
سادگی پسند ہونے کا ثبوت دیتیں۔اب چھتیں لنٹر کی بنتی ہیں، دیواریں پلستر
ہوتی ہیں، گھروں سے درختوں کو دیس نکالا دیا جا چکا ہے، اور بچاری چڑیاں اب
گلی کوچوں کے درو دیوار سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں کیا کریں وہ اپنے آباؤ
اجداد کی یادوں سے لا تعلق نہیں ہو سکتیں، وہ انسان جیسی بے حس تو نہیں کہ
اپنی آسائش کی دھن میں سب کچھ بلڈوز کر کے رکھ دیں۔وہ تو یہ کہتی سنائی
دیتی ہیں:
جینا تر ی گلی میں ، مرنا تر ی گلی میں
مٹ جائے گی ہماری دنیا تری گلی میں
یہ بات کسی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ آنے والا انسان اتنا مہربان ہوگا
کہ ان بے دخل کئے گئے نے چارے پرندوں کو دوبارہ گھروں کے اندر آباد کاری کی
اجازت مرہمت فرما دے۔لیکن شاید انسان کو کبھی تنہائی محسوس ہو اور اسے اپنے
پرانے ساتھیوں کی یاد ستائے اور وہ پھر سے ان بے زبانوں سے قریبی تعلق
استوار کرنے کا ارادہ کر لے۔لیکن شاید اس وقت، وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو۔
میرج ہال خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح عام ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ابھی کل کی بات
ہے کہ ہم کبھی میرج ہال کا نام تک نہ سنتے تھے۔ بس سب لوگ اپنی اپنی
استعداد کے مطابق اپنے مہمانوں کو ٹھہرانے اور خاطر مدارات کر کی کوشش کیا
کرتے۔ٹینٹوں والوں کی خوب کمائی ہوتی۔لوگوں کی منت کرنی پڑتی کہ وہ چند
گھنٹوں کے لئے اپنا کھلا صحن ہمیں مستعار دے دیں۔یا گلی کے دونوں موڑوں پر
کناتیں لگا کر گلی بلاک کر دی جاتی، شادی والے گھر کو بھی دلہن یا دلہا کی
طرح سجایا جاتا۔آج کل دھڑا دھڑ شادی ہال تعمیر ہو رہے ہیں اور کچھ تو ابھی
پوری طرح عالمِ موجودات میں بھی جلوہ افروز نہیں ہوئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ
داریاں سنبھال لی ہیں اور دن رات شادیاں کروانے میں مصروفِ عمل ہیں۔شادی
گھروں ذیبو ذیبائش دیکھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم کا مستقبل بہت روشن
اور مضبوط ہے کیونکہ جہاں اتنے شاندار شادی ہال تعمیر ہوں گے وہاں شادیاں
بھی کتنی با وقار ہوں گی اور جہاں شادیاں با وقار ہوں وہاں ترقی کیوں نہ ہو
گی۔دلیلِ آفتاب آفتاب است۔ہم نے بچپن میں یہ کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ
ہمارے بوڑھے ہونے سے پہلے پہلے اتنی ساری تبدیلیاں ہمارے سامنے معرضِ وجود
میں آچکی ہو گی۔
ایک اور واضح تبدیلی ہمارے لباس میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ہمارے باپ دادا کی
عمر کے لوگ سر پر عام طور پر کوئی رومال یا پگڑی باندھا کرتے تھے، یا گھر
میں سر کو ہوا لگانے کے لئے ننگا چھوڑ دیتے تھے، لیکن باہر جاتے ہوئے سر کو
ڈھانپنا ایک عام عادت تھی۔وہ لوگ ہمارے جیسے عام بال بھی نہیں رکھا کرتے
تھے ، وہ اکثر ’ٹنڈ‘ کروایا کرتے اور اس پر رومال ، صا فہ یا پگڑی باندھا
کرتے۔قمیض بھی وہ بغیر کالر والا پہنتے،بازوؤں پر کفیں بھی نہ لگوایا کرتے،
اور ٹانگو ں پر دھوتی یعنی چادر باندھا کرتے۔اور جوتے بھی مقامی طور پر
ہاتھ سے بنے ہوئے پہنتے۔ہمارے باپ دادا کی عمر کا کوئی شخص مشکل ہی سے
شلوار پہنتا ہو گا۔ ورنہ سب کے سب چادر ہی باندھا کرتے۔سردیوں کی سفاکی سے
بچنے کے واسطے بوڑھے چادر سے نیچے کوئی پاجاما، وغیرہ پہن لیا کرتے لیکن وہ
جو کافی بوڑھے ہوتے، ہرکوئی نہیں۔مسجد میں ہمیں مشکل سے ہی کبھی کبھار کوئی
پینٹ شرٹ والا بابو نظر آیا کرتا ورنہ سب یا شلوار قمیض یا دھوتی قمیض۔آج
کل سر پر کپڑا رکھنے کا رواج دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ پینٹ کا رواج یورپ کی
طرح عام ہوگیا ہے، مسجد میں آدھے کے قریب نمازی پینٹ میں ہوتے ہیں۔ دھوتی
بالکل غائب ہو گئی ہے۔ اب بہت ٹانواں ٹانواں شخص ہی چادر باندھتا ہے۔اب تو
پینٹ کی پذیرائی کو دیکھ کر شلوار بھی کپکپی کا شکا ر ہو جاتی ہے۔ہمیں اپنی
ناقص نظر سے مستقبل صرف پینٹ کا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ اب تو پینٹ لڑکیوں کی
ٹانگوں کو بھی اپنے حصار میں لے چکی ہے۔ اور اس بات پر بھی لوگوں کو اتنا
اعتراض نہیں ہو رہا۔ ہم ہر بات یورپ کی طرح کسی کا ذاتی مسئلہ کہہ کر فارغ
ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کریں بھی کیا؟اس وقت کسی سرکاری یا پرائیویٹ سکول کی
یونیفار م میں لڑکوں کے لئے شلوار قمیض شامل نہیں ہے ۔ ہر طرف نئی نسل پینٹ
کی اسیری میں دکھائی دیتی ہے۔بال بھی یورپی سٹائل کے بن چکے ہیں۔شیو اور
کلین شیو بھی بہت عام ہو چکی ہے ، داڑھی تو اب بہت سے حفاظِ کرام بھی نہیں
رکھ رہے۔
ہمارے بچپن میں اکثر وبیشتر آبادیوں،محلوں اور کوٹوں کے گرد سر سبز کھیت
ہوا کرتے تھے یا ویران،بے آباد جگہوں کی کافیدستیابی تھی جہاں بچے،نوجوان
وغیرہ کوئی نہ کوئی کھیل کھیلا کرتے۔اب تو یہ عالم ہے کہ خود دیہاتوں کے
گرد کھیلنے کے لئے خالی جگہیں دستیاب نہیں ہیں۔آبادی کے تعمیری سیلاب نے اس
طرح خالی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے کہ زمین الامان!الامان!پکارتی
سنائی دیتی ہے۔مجھے یہ سوچ سوچ کے پریشانی ہوتی ہے کہاگر ایسا ہی سلسلہ
چلتا رہا تو ہمارے بچوں کے بچے کھیلنے کہاں جایا کریں گے۔آبادیوں سے قریب
جگہوں پر آبادیاں اپنے جھنڈے گاڑ ھ لیں گی اور آبادیوں سے دور جگہوں پر
قبرستان آباد ہو جائیں گے تو بچارے بچے گیند بلا لے کر کہاں جائیں گے۔ہم
بچوں سے متعلق بچپن ہی سے فکر مند ہیں،یہ علیحدہ بات ہے کہاس وقت اظہار کے
قابل نہ تھے۔اب ابھی صرف اظہار کر سکتے ہیں کچھ کروا نہیں سکتے کہ اربابِ
بسط و کشادکے کانوں پر اس طرح کی معصومانہ گزارشات کسی جوں کو رینگنے پر
مجبور نہیں کر سکتیں۔لیکن یہ بدلتے اوقات کا ایک بہت بڑا تناظر ہے۔کو ہماری
حساس توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہتاہے۔
وقت کی کوکھ ہمیشہ تبدیلیوں کو جنم دیتی رہی ہے اور دیتی ہی رہے گی۔اس دنیا
کے وجود کا جواز ہی تبدیلی ہے ۔اگر دنیا کی سٹیج پر تبدیلی کا ظہور نہیں
ہونا تو اس دنیا کے باقی رہنے اونئے سورج کے طلوع ہونے کا کیا جواز ہے۔یہ
تبدیلی ہی ہیجو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ دنیا میں ابھی بہت کچھ ہونا
باقی ہے۔اس زمانے اور ماضی کے زمانوں کا فرق یہ ہے کہ اس میں تبدیلی غیر
متوقع تیزی سے آ رہی ہے۔کچھ تبدیلی تو اچھی لگتی ہے جیسے خوبصورت،مضبوط اور
شاندار مکانات تعمیر ہو رہے ہیں اور کچھ تبدیلی دیکھ کے دل بڑا ہوتا ہے
جیسے پرندے اور جانور بے گھر اور بے سہارا ہو رہے ہیں۔
ہماری گورنمنٹ اور عوام سے پر زور دلی گذارش ہے کہ جتنی بھی سرکاری یا غیر
سرکاری عمارتیں تعمیر کی جائیں سب میں پرندوں کی محفوظ رہائش کا اہتمام کیا
جائے۔ایسا کرنا شاید عجیب اور مضحکہ خیز لگے لیکن ان بے چاروں اور بے
سہاروں کا بھی سوچنا چاہئے جن کو قدرت نے ہمارے حوالے کیا ہے۔ہمیں اتنے بھی
بے دل نہیں ہونا چاہئے۔ایسا بس تھوڑی سی احتیاط سے ہی ہو جائے گا۔جانوروں
کے لئے تو لوگ خود ہی اپنے مفاد کے لئے کچھ کر لیتے ہیں لیکن قدرت کے
سہاروں پر رہنے والے پرندوں کا ہمیں اپنائیت دینی چاہئے۔ہم نے ان کو گھروں
سے تو نکال باہر کیا ہے،لیکن ان کو اپنے نوکروں یا غلاموں کے ذمرے میں ہی
شمار کرتے ہوئے ان کے لئے حالات کے ان بدلتے تناظر میں کچھ کر لینا
چاہئے۔وہ اپنا دانہ دنکا تو خود ہی کھا آتے ہیں۔ ہم انہیں رات گذارنے کی پر
سکون جگہ دے دیں۔شاید وہ ہمارے پہلے ظلم و ستم ہمیں معاف کر دیں۔
ہم اس بدلتے تناظر کو خوش آمدید کہیں یا نہ کہیں اس نے بدل کے ہی رہنا
ہے۔ہمیں مثبت تبدیلیوں کو ویلکم کہنا چاہئے۔اور منفی تبدیلیوں کو رونما
ہونے سے اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ہمیں حالات کا گہرا اور غیر جانبدار
مطالعہ کرنا چاہئے۔اور ہمیشہ مثبت کی کوشش کرنی چاہئے۔ |
|