پیسٹری

ممتاز کالم نگار اور پروفیسر ڈاکٹر اجمل نیازی فرماتے ہیں کہ بڑھاپے میں بیوی نرس اور کچھ کچھ ماں کا روپ دھار جاتی ہے کیونکہ بچوں کی ماں ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے شوہر کو بھی ممتاکا احساس دلانا شروع کردیتی ہے بلکہ جس طرح بچپن میں ماں بچے کا خیال رکھتی ہے اتنا ہی خیال بڑھاپے میں بیوی اپنے شوہر کا کرتی ہے ۔ کچھ دوست تو یہ بھی کہتے سنے جاتے ہیں کہ بڑھاپے میں میاں اور بیوی کی شکل اس قدر ملنے لگتی ہیں بہرکیف جتنے منہ اتنی باتیں۔وہی بیوی جسے شادی کے ابتدائی سالوں میں انسان پاؤں کی جوتی تصور کرکے زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن جب انسانی اعضا باری باری ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں تو قدم سے قدم ملا کر ساتھ چلنے والی بیوی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔میرے گھر میں بھی بیوی کا روپ دھارے ایک نیک سیرت اور سلیقہ شعار خاتون( عابدہ اسلم ) گزشتہ 36 سال سے موجود ہے ۔چونکہ اس کی محبتوں کا واحد مرکز میں ہوں اور اس کی آنکھوں میں میری ہی تصویر ہر لمحے دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ اولاد جوان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شادیاں بھی ہوچکی ہیں اور گھر میں پوتے پوتیوں اور نواسوں کی رونق بھی لگ چکی ہے تو بیگم کی توجہ کچھ تقسیم ہو تی جارہی ہے جس کا احساس مجھے کبھی کبھار بہت شدت سے ہونے لگتا ہے ۔

میں نے 60 سال کی عمر تک بھرپور طریقے سے دو ٗ دو اور تین تین ملازمتیں بھی اپنا گھر بنانے کے لیے کیں۔ اس لیے میری زندگی کا بیشتر حصہ ایک مشین کی مانند زندگی کی شاہراہ پر ربوٹ بن کر چلتا رہا۔کبھی زندگی میں سکون کے ساتھ بات کرنے کا وقت ہی نہیں ملا ۔ صبح آنکھ کھلتی تھی تو تیار ہوکر دوڑا دوڑا بنک پہنچ جاتا تھا پھر شام ڈھلے تھکا ماندہ گھر پہنچتا تو کھانا کھانے اور نماز کی ادائیگی کے نیند غالب آجاتی تھی گویا 60 سال کی عمر تک میں ایک مشین کی مانند زندگی بسر کرتا رہا۔ پھر جب بنک آف پنجاب سے ریٹائر منٹ ( 3 دسمبر 2014ء )کا وقت آیا تو سوچا کہ اب شاید بیگم سے دل کی بات کرنے کا وقت مل جائے گا ۔ اس کے باوجود کہ مالی پریشانیوں میں الجھا ہوا انسان ہوں ۔دنیاوی اور گھریلو مالی ضرورتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ میں کہیں نہ کہیں ملازمت اختیار کرلوں ایک دو ایڈورٹائزئنگ ایجنسیوں میں ملازمت کی آفر بھی ہوئی لیکن اب صبح سے رات گئے تک کام کرنے کی نہ تو ہمت ہے اور نہ ہی جسم میں طاقت ۔ اس لیے میں نے شکریے کے ساتھ ملازمت کی پیشکش کو واپس کردیا ۔ ہاں سک نہر میں ایک بٹوے بنانے والی فیکٹری میری نظر میں ہے جس کے مینجنگ ڈائریکٹر محمد صدیق خان میرے عزیز ہی ہیں ۔میں نے سوچا ہے کہ اگر مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں ملازمت ہی کرنی ہے تو بٹوے بنانے والی فیکٹری سے زیادہ اچھی ملازمت کہیں او رنہیں مل سکتی ۔ کیونکہ مجھے اب کام کرنے کی بجائے صرف تنخواہ لینے میں زیادہ دلچسپی ہے اور بغیر کام کیے تنخواہ صرف محمد صدیق خان کی فیکٹری کے علاوہ اور کہیں سے نہیں مل سکتی ۔ میں نے ان کی بیٹی رضوانہ زاہد کو سفارش کے لیے آمادہ کررکھا ہے جس نے مجھے یقین دہانی کروادی ہے کہ جب بھی بٹوے والی فیکٹری ملازمت کرنا چاہیں بس آپ درخواست دیں اور اگلے دن آپ فیکٹری میں ملازم ہوجائیں گے کیونکہ اس کے ابا جان (محمدصدیق خان ) اپنی بیٹی رضوانہ کی سفارش کے علاوہ اور کسی کی بات نہیں مانتے ۔میں نے رضوانہ کو بتا دیا ہے کہ میں تو صرف ریلوے کی طرح ٹوکن اٹھانے جاؤں گا پھر مہینے بعد تنخواہ لینے ۔ بس اس کے علاوہ اور کچھ مجھے کرنا نہیں آتا ۔ بٹوے صدیق
صاحب ہی بنائیں گے ۔

حسن اتفاق سے رضوانہ میری بہو ہے اور بہو کے روپ میں وہ میرے گھر کی عزت اور شان بھی ہے ۔ وہ جب سے میرے گھر میں آئی ہے اس نے گھر کو اپنی بہترین خدمات اور اچھے حسن اخلاق سے جنت کا روپ دے رکھا ہے ۔ اس کے باوجود کہ اس کے پاؤں کی ہڈی میں معمولی سا فریکچرہو چکا ہے لیکن وہ اپنے دکھ اور تکلیف کو بھول کر صبح سے رات گئے تک ہماری خدمت اور گھر کو جنت بنانے میں اپنا کردار نہایت کامیابی سے انجام دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔جس پر میں اس کا اور اپنی بڑی بہو ( تحسین شاہد )دونوں کا سپاس گزار ہوں ۔ گھر اینٹوں اور سیمنٹ سے نہیں بنتے بلکہ انسانی رویوں سے تخلیق پاتے ہیں ۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری دونوں بہوئیں ٗ نیک سیرتی ٗ بہترین اخلاق ٗ گھر گرہستی اور سلیقہ شعاری میں سب سے اول اور نمایاں دکھائی دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے بہترین رویے سے گھر ایک جنت کا روپ دھار چکا ہے ۔

نئے گھر( قادری کالونی والے گھر) میں منتقل ہونے کے بعد دو مرتبہ آپریشن کے مراحل سے گزرنا پڑا ۔ جب اﷲ نے صحت عطا فرمائی تو صبح کی سیر کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہم دونوں میاں بیوی لبرٹی پارک ( جام شیریں پارک ) جانے لگے۔ وہاں میں ایکسرسائز کرکے کچھ واک کرلیتا تھا جبکہ بیگم صاحبہ لبرٹی پارک کاایک چکر ( پیدل ہی ) لگا لیتی تھی اس طرح اپنی ڈھلتی عمر اور کھوئی ہوئی جسمانی طاقت کو تقویت دینے کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ پھر جب سردی میں کچھ اضافہ ہوا تو سوچا کہ صبح سیر کی بجائے نماز عصر کے بعد خالد مسجد کیولر ی گراؤنڈ والٹن کینٹ میں کچھ واک کرلی جائے ۔چنانچہ ہم چند ایک دن وہاں بھی گئے لیکن جونہی موسم کی شدت میں اضافہ ہوا اور سخت سردی نے
ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیا تو کیولری گراؤنڈ جانا بھی چھوٹ گیا ۔

ڈاکٹر اصرار کرتے ہیں کہ اگر صحت مند زندگی گزارنی ہے اور وہ بھی بطور خاص 60 سال کے بعد تو پھر صبح یا شام سیر ضرور کریں ۔ دائیں گھٹنے کا آپریشن کروا لیا تھا وہ تو پیدل چلنے میں آسانی پیدا کرتا ہے لیکن اب بایاں گھنٹہ جواب دیتا جارہا ہے ۔بہت مشکل سے میں نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد ( اﷲ کی رحمت پیر کالونی کی گلی نمبر 1)میں پہنچتا ہوں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد امام مسجد اور خطیب قاری محمد اقبال عارف سے دم کروا کر میں ایک ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چلنے کے قابل ہوجاتا ہوں۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ قاری صاحب قرآن حافظ بھی ہیں اور صاحب کرامت بھی ۔ وہ ایک سچے انسان ہیں ٗ انہوں نے اپنی زندگی کو قرآن و سنت کی سربلندی اور دین اسلام کی ترویج کے لیے وقف کررکھاہے بظاہر تو وہ ہم جیسے انسان ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی زندگی ایک مضبوط حصار میں بند دکھائی دیتی ہے وہ اپنی گھریلو اور خاندانی ذمہ داریوں کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ ہر نماز کی امامت کرنا اپنا اولین فرض تصور کرتے ہیں ۔انسان ہونے کے ناطے مسائل ان کو بھی درپیش رہتے ہیں لیکن اﷲ کی ذات پر ان کا کامل ایمان ہے یہ اﷲ کریسی کا ہی کمال ہے کہ وہ ہر آنے والے مسائل سے ایسے بچ کر نکلتے ہیں جیسے دودھ میں سے بال نکال لیا جاتا ہے ۔ بہرکیف رزق ہلا ل کھانے ٗقرآن پاک کی تلاوت کرنے ٗ اپنی زندگی کو سنت رسول ﷺ کے مطابق ڈھالنے اور سچ بولنے کی بنا پر اﷲ تعالی نے ان کی زبان میں اتنی تاثیر پیدا کررکھی ہے کہ مجھ جیسا انسان جو نماز فجر کے لیے بہت مشکل سے مسجد تک پہنچتا ہے وہ نماز کے بعد جب واپس گھرلوٹتا ہے تو دور تک پیدل چلنے کی ہمت اس میں پیدا ہوجاتی ہے ۔یہ ان کی کرامت بھی ہے اور صاحب کرامت ہونے کی دلیل بھی ۔ وہ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ میری کامیابیوں کے پیچھے میری ماں کی دعاؤں کا اثر موجودہے میں جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو ماں ہاتھ اٹھائے بغیر میرے لیے دل سے دعا کرتی ہے اور یہ دعا مجھے ہر دنیاوی خرافات اور پریشانیوں سے ہر قدم پر محفوظ رکھتی ہے ۔جبکہ بیوی کی خدمات کااعتراف بھی ان کی زبان سے اکثر سننے کو ملتا ہے ۔ بے شک اچھی بیویاں اپنے خوشدلانہ رویوں سے جنت میں حوروں کی سردار بھی تو بنتی ہیں نا ۔ میں سمجھتا ہوں وہ مرد دنیا میں کبھی ناکام نہیں ہوسکتے جن کے پیچھے ان کی ماں کی دعائیں اور بیوی کی جفائیں ہوتی ہیں ۔ حسن اتفاق سے قاری صاحب کو یہ دونوں نعمتیں حاصل ہیں اور وہ سخت ترین ماحول اور تنگ ترین شیڈول میں بھی اپنی تمام تر دینی اور دنیاوی ذمہ داریوں کو کماحقہ پورا کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ۔

مجھے یاد ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ایک پیر سپاہی بہت مشہور ہوا کرتا تھا اس کی پھونک سے جب کچھ لوگوں کو شفا ملی تو دنیا بھر میں اسے ایسی شہرت ملی کہ جب وہ ملتان ( اپنے آبائی شہر) سے لاہور آیا کرتا تھا تو لاہور ائیرپورٹ ہزاروں مردو خواتین دم کروانے کے لیے جمع ہوجایا کرتے تھے وہ پانی سے بھری ہوئی کھلے ڈھکن والی بوتلوں کو سپیکر میں پھونک مارا کرتا تھا اور لوگ وہ پانی پی کر بیماریوں سے شفا یاب بھی ہوجایا کرتے تھے ۔بظاہر تو وہ پنجاب پولیس میں ایک کانسٹیبل ( سپاہی ) تھا لیکن اپنے دم کی وجہ سے پیر سپاہی مشہورہوا ۔اس مناسبت سے میں اکثر قاری صاحب کو کہتا ہوں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب آپ کے ارد گرد تین چار بابوں کی بجائے مسجد کے باہر تک لوگ آپ سے دم کروانے آیا کریں گے اور من کی مرادیں پاکر واپس لوٹا کریں گے ۔ اگر آپ سپیکر پر پھونک ماریں گے تو پورے محلے سے بیماریوں اور نحوست کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔میری اس بات پر وہ تبسم فرما کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ بظاہران کی عمر توزیادہ نہیں ہے لیکن علم اور برد باری کے اعتبار سے وہ ہم سے کہیں بڑے اور معاملہ فہم دکھائی دیتے ہیں ۔

بات کچھ لمبی ہے۔قاری صاحب سے دم کروا کرمسجد سے نکل کر گھر پہنچتا ہوں جہاں بیگم میری منتظر دکھائی دیتی ہے ہم ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنی ہی گلی میں قابل احترام بزرگ اور دو خوبصورت اور فرماں بردار شہزادوں کے والد ابو الحسن صاحب کے گھر کی جانب چل پڑتے ہیں ۔ابتدائی طور پر تو اسی گلی کا ایک چکر لگا کر ہم واپس آجاتے تھے پھر نئے راستوں اور نئی دنیا کی تلاش کا شوق ہمیں ساتھ والی گلی میں بھی لے گیا ۔ ہم اپنی گلی سے نکل کر دوسری گلی سے واپس آنے لگے ۔ بڑھاپے میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے بیگم ہر صبح کسی بھی دوکاندار سے دو انڈے خرید لیا کرتی تھی گھر پہنچ کر ان انڈوں کو ابا ل کر ایک خود کھا لیتی اور ایک مجھے کھلا دیتی۔ بے شک اس کا یہ عمل میرے لیے خوشی کا باعث تھا کیونکہ بزرگ کے بقول سنا کرتے ہیں کہ ماں بچے کو کھلاتی ہے یا بیوی ۔ ماں تو اپنے ہاتھوں سے دیسی گھی میں شکر ڈال کر چوری بنا کر مجھے کھلایا کرتی تھی جس کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی سات سال ہوچکے ہیں لیکن اب مجھے کھلاکر طاقت ور بنانے کی ذمہ داری بیگم نے سنبھال رکھی ہے ۔میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جوانی میں جب خوراک انسانی جسم کے لیے لازم ہوتی ہے اس وقت توہم نے گھر بنانے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا جسمانی طاقت کے اضافے کے لیے کوئی خوراک یا پھل نہ کھا سکے لیکن اب جبکہ انڈہ مع زردی کھانے سے بلڈ پریشر ہوجاتا ہے تو اب جسم میں کیا طاقت آئے گی ۔ پھر یہ سوچ کر ہم انڈا کھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ چلو کچھ نہ کچھ تو بہترہوگا۔نا۔

اب تو انڈہ بھی دس روپے کا ایک ہو چکا ہے ساتھ والی گلی میں ٗ جس میں بہت نیک سیرت نوجوان محمد سلیمان رہتا ہے مجھے وہ اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ ایک طرف تو وہ پکا نمازی ہے پھر جب بھی میں نے اسے اپنی مدد کے لیے بلایا وہ اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دوڑا چلا آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں اسے اپنا ایک قابل اعتماد دوست تصور کرتا ہوں۔ اس گلی میں میں ایک دکان جٹ جی کی بھی ہے جس نے اپنی تصویر دکان پر پینٹ کروا رکھی ہے اس نے گھر میں بنائی ہوئی چھوٹی سی دکان میں ہی سبزی ٗ پھل ٗ کریانہ سمیت سب کچھ جمع کررکھا ہے ۔ بیگم جب وہاں سے خریداری کرتی ہے تو میں ساتھ ہی پڑے ہوئے لکڑی کے تخت پوش پر کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ جاتا ہوں سردی کی وجہ سے گرم چادر جسم پر لپیٹ لیتا ہوں اور سر پر بھی گرم ٹوپی پہنی ہوتی ہے اس لیے وہ دکاندار ( جٹ جی) میری شکل تو پوری طرح دیکھ نہیں سکتا لیکن اسے یہ تجسس ضرور ہوتا ہے کہ ایک خاتون گاہک کی صورت میں اس کی دکان پر آتی ہے جس کے ساتھ ایک بابا بھی ہوتا ہے وہ بچوں کی طرح کبھی کیک رس کی فرمائش کرتا ہے تو کبھی بسکٹ کی۔ گرم چادر میں چہرہ لپیٹے ہوئے وہ بابا اپنی بیگم کے ساتھ چلتا ہوا بچوں کی طرح میٹھی چیز کھا نے مصروف ہو جاتا ہے ۔کئی بار بیگم نے اصرار بھی کیا کہ یہ گلی بہت گندی ہے جہاں جگہ جگہ گندگی کی ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی کھڑا رہتا ہے۔ مین سڑک اس سے کہیں زیادہ صاف ستھری اور کشادہ بھی ہے اگر ہم وہاں سیر کرلیا کریں تو زیادہ اچھا ماحول میسر آسکتا ہے ۔ میں بیگم کی بات یہ کہہ کر مسترد کردیا کرتا تھا کہ میرا دل اسی گلی میں چہل قدمی کرنے کو کرتا ہے کسی اور طرف قدم اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ چنانچہ ہم دسمبر اور جنوری کے ابتدائی دنوں میں اپنی اور ساتھ والی گلی میں ہی سیر کرتے رہے ۔

اب ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ اچانک بیگم کی بائیں ٹانگ میں شدید درد ہونے لگا ہے میں تو قاری صاحب کی پھونک سے کچھ چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتا ہوں لیکن ڈاکٹر سے دوائی دلوانے کے باوجود بیگم کی ٹانگ میں درد کم نہیں ہوا ۔ اس بات کا ذکر جب میں نے قاری صاحب سے کیا تو انہوں نے مجھے وہ قرآنی آیت بتائی جسے وہ پڑھ کر ہمیں دم کیا کرتے ہیں اور فرمایا کہ اس قرآنی آیت کو پڑھ کر بیگم کو پھونک ماریں گے تو ان کا درد ٹھیک ہوجائے گا ۔میں نے ایک دو دن یہ کام کیالیکن درد میں کوئی آفاقہ نہیں ہوا ۔ میں نے قاری صاحب سے کہا جناب اب آپ کی زبان میں جو اثر ہے وہ ہماری زبان میں کہاں ہوسکتا ہے۔ آپ ہی میرے گھر کے رخ کا تعین کرکے غائبانہ پھونک مار دیں ہوسکتا ہے آپ کی پھونک سے میری بیگم کا دردکچھ کم ہوجائے ۔بہرکیف قاری صاحب نے رخ کا تعین کرکے پھونک تو ماری لیکن ان کی پھونک میرے گھر تک نہیں پہنچ سکی ۔ ہڈیوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر آفاق کو چیک کروایا تو اس نے بتایا کہ ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ٹانگ میں درد ہو رہاہے ۔

ایک عمررسیدہ شخص جو اپنی شکل و صورت سے تو بزرگ ہی دکھائی دے رہا تھا لیکن اس کے کام جوانوں والے ہیں وہ کبھی قاری صاحب کے کندھے دبانے لگتا ہے تو کبھی سرکی مالش شروع کردیتاہے ۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں ۔ پتلے دبلے اس شخص نے ایک صبح قاری صاحب سے شکایت کی کہ میری بیگم مجھ سے ناراض ہے آپ پانی پر دم کردیں تاکہ میں دم کیا ہوا پانی پلا کر اسے بات کرنے پر آمادہ کرلوں ۔قاری صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا جاؤ پانی لے آؤ ۔ اس نے کالے شاپر میں مسجد کے نلکے سے ہی پانی ڈالا اور قاری صاحب کے پاس آگیا ۔اسے یہ کام کرتے ہوئے دیکھ کر ابوالحسن صاحب بھی مسکرادیئے۔ہم اس لیے حیران تھے کہ قاری کی پھونک گھٹنے اور ٹخنوں کو تو کسی حد ٹھیک کرلیتی ہے لیکن جب کسی کامحبوب ناراض ہوجائے تو قاری صاحب کی پھونک سے کیا وہ بھی صلح پر آمادہ ہوسکتا ہے ۔یہی تجسس یقینا ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہا۔ اگلے دن وہ بابا ایک بار پھر قاری صاحب کے نزدیک ہوکر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا کل آپ جس مقصد کے لیے پانی دم کروا کر گئے تھے کیا وہ مقصد پورا ہوگیا ہے کہ نہیں ۔ میری بات سنتے ہی وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔ اس نے کہا ہاں جی جیسے وہ دم والا پانی بیگم کے گلے سے نیچے اترا تو نہ صرف بیگم کی ناراضگی ختم ہوگئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ خوش اخلاق ہوگئی ہے ۔میں نے سرگوشی کے انداز میں قاری صاحب کو کہا اخبارات میں تو ہم عاملوں کے یہ اشتہار اکثر پڑہا کرتے تھے کہ "محبوب آپ کے قدموں میں" آج ہم نے اپنی آنکھوں سے محبوب کو بابا جی کے قدموں میں گرتے ہوئے دیکھ لیا ہے ۔جب یہ باتیں ہم کررہے تھے تو کچھ ہی فاصلے پر ایک بزرگ بیٹھے ہماری باتیں بہت غور سے سن کر مسکرا بھی رہے تھے جن کا نام خورشید ملک ہے وہ میرے گھر کے بالکل سامنے رہتے ہیں گویا انہیں بھی ان باتوں میں دلچسپی تھی لیکن کوئی حجاب آڑے آ رہا تھاکہ انہوں نے اپنے دل کی بات قاری صاحب سے نہیں کی ۔ میرے استفسار سے پرقاری صاحب نے بتایا کہ یہ تو خود پیر صاحب ہیں اور دم بھی کرتے ہیں پھر مجھے یاد آیا کہ ایک دن میری بیگم نے بتایا تھا کہ سامنے والی بابا جی بچوں کو دم کرتے ہیں بیگم کو یہ بات اس کی بہو نے بتائی تھی ۔ میرا پوتا محمد عمر ٗ ان دنوں بطور خاص رات کے وقت بہت روتا تھا چنانچہ بیگم اسے لے کر سامنے والے بابا جی ( خورشید ملک) کے پاس دم کروانے کے لیے چلی گئی ۔ لیکن بچے کے رونے میں کوئی فرق نہیں پڑا وہ آج بھی رات کے وقت ضرورت سے زیادہ رو کر اپنی ماں کو پریشان کرتا ہے۔

بہرکیف گھر واپسی کے بعد جب میں نے اپنی بیگم سے آج کے واقعے کا ذکر کیا تو بیگم نے بتایا کہ سامنے والے بابا جی کی تو اپنی بیگم ان سے ناراض ہے اور بات تک نہیں کرتی ۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی کہ جو بابا جی لوگوں کو دم کرتے ہیں ان کی اپنی بیگم قابوسے باہر ہوچکی ہے اور وہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ دل تو ان کا بھی کرتا تھا کہ وہ بھی پانی لے کر قاری صاحب سے دم کروا کر اپنی بیگم کو چوری چھپے پلا دیتے لیکن خود پیر کہلوانے والے بابا جی کو اس کی ہمت نہیں ہوئی ۔چنانچہ ندی کے دو کناروں کی طرح وہ ایک ہی کمرے میں الگ الگ زندگی گزار رہے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے میری بیگم بھی ناراض ہوگئی تھی جس پر میں نے ایک مضمون "روٹھے پیا کو مناؤں کیسے ؟" لکھا تھا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا تھا۔درحقیقت عورت ٗ مرد کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس لیے جہاں پھول ہوتے ہیں وہاں کانٹے بھی ہوتے ہیں ۔ انسانی رویوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آنا فطری امر ہوتا ہے پھر مدت دراز سے ایک ساتھ رہتے ہوئے جہاں والہانہ محبت پیدا ہوتی ہے وہاں کچھ بیزاری کا عنصر بھی غالب آجاتاہے کیونکہ انسان ایک ہی ہنڈیا میں کھا کھا کر بور ہوجاتا ہے وہ نئی کائنات کی تلاش میں نئی سے نئی صورتیں دیکھنا پسند کرتا ہے ۔کچھ یہی عالم بیگمات کا بھی ہے ۔ گھر کی تمام پریشانیاں ان کے تعاقب ہوتی ہیں انہیں مردوں سے زیادہ بیماریوں اور قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ایک گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے اور ایک ہی پرانے اور بوڑھے شخص کی شکل دیکھ دیکھ کر وہ بھی تنگ آجاتی ہیں پھر مردوں کا رویہ ہمیشہ اچھا نہیں رہتا وہ غصہ اور رعب عورت پر جھاڑنا اپنا ازلی حق تصور کرتے ہیں۔ اﷲ نے مرد کو اول اور عورت کو ثانوی درجہ عطا فرمایا ہے اس کے باوجود کہ دونوں لازم و ملزوم تصور کیے جاتے ہیں اور ان دونوں کے بغیر گھر مکمل نہیں ہوتا پھر بھی کہیں نہ کہیں ٹکراؤ تو ہو ہی جاتا ہے ۔کبھی کسی پہئے میں ہوا کم ہوجاتی ہے تو کبھی دوسرے پہیہ چلنے سے انکا رکردیتا ہے ۔ زندگی اسی کا نام ہے ۔جہاں اختلاف نہیں ہوتا یا کسی بات پر جھگڑا نہیں ہوتا میری نظر میں وہ گھر نہیں قبرستان ہے ۔ اخبار میں ایک خبر چھپی کہ ایک عورت نے عدالت میں طلاق کا مقدمہ دائر کردیا ۔ جج نے وجہ پوچھی تو عورت نے کہا جناب میں جو کہتی ہوں میرا شوہر وہ مان لیتا ہے زندگی کے جتنے سال بھی ہم نے اکٹھے گزارے ہیں میرے شوہر نے کبھی میری حکم عدولی نہیں کی ۔ میں اس بے مزا زندگی سے تنگ آگئی ہوں ۔میں جب لوگوں کے گھر وں میں جھگڑے کے بارے میں سنتی ہوں تو رشک کرتی ہوں کہ زندگی کا حسن ٗاختلاف رائے میں ہے۔ کبھی کبھار تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے گھر میں مرد نہیں ایک ربوٹ رہتا ہے میں اسے جو حکم دیتی ہوں وہ سر جھکا کر مان لیتا ہے ۔ اس مقدمے کا کیا فیصلہ ہوا پتہ نہیں چلا لیکن زندگی میں جب تک لڑائی جھگڑے نہ ہوں تو وہ بے مزا سی ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں دن میں کتنی مرتبہ اپنی بیگم سے جہاد تصور کرکے ضرور لڑتا ہوں تاکہ وہ مجھے ربوٹ نہ سمجھ لے۔ ہماری یہ لڑائی چند گھنٹوں بعد ایک بار پھر شدید محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے کیونکہ نہ وہ میرے بغیر رہ سکتی ہے اور نہ ہی میں اس کے بغیر زندگی کا تصور کرسکتا ہوں ۔مجھے دنیا کی رنگنیاں اور رونقیں بہت اچھی لگتی ہیں لیکن اس وقت جب بیگم میرے ساتھ ہوتی ہیں اس کو نفی کرکے دنیا میرے لیے ایک ویرانے کی صورت دھار لیتی ہے اور یہ ویرانہ میری شخصیت کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے ۔ اﷲ میری بیگم کو سلامت رکھے لڑائی اس لیے ضرور ہونی چاہیئے کہ لڑائی کے بعد محبت میں اور بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے ۔

ایک رات بارش کی بوندا باندی ہوئی تو ہماری گلی برساتی پانی سے خراب ہوگئی۔ جس میں بطور خاص میرے لیے چلنا پھرنا مشکل تھا لیکن قاری صاحب نے مجھے دم کرکے ایک بار پھر جوان اور تازہ دم کردیا تھا میں نے پہلے مسجد والی گلی میں ہی دو تین چکر لگائے پھر مین سڑک پر دور تک چلتا چلا گیا ۔ اس کے بعد بیگم نے بھی نئے روٹ پر میرے ساتھ چلنے میں خوشی محسوس کی۔ جسمانی طاقت کو بڑھانے کے لیے انڈے تو وہ ہر صبح خریدتی تھی لیکن ایک صبح اس نے ایک پیسٹری بھی خرید کر مجھے کھانے کے لیے دے دی۔ میں بہت حیران تھا کہ اس وقت جبکہ گھر کے اخراجات پورے کرنا بھی محال ہوتا جارہا ہے یک دم 20 روپے کی پیسٹری بیگم نے دل بڑا کرکے کیسے خرید لی ۔ درحقیقت بیگم کو اس بات کا علم تھاکہ پیسٹری اور کریم رول مجھے حد پسند ہیں ۔ میں جب بھی بازار سے گزرتا ہوں تو مجھے کہیں نہ کہیں پیسٹری فروخت کرنے والا نظر آجاتا ہے جو اچھا تو لگتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ شیشے کے جار میں رکھی ہوئی ساری پیسٹری اٹھا کر بھاگ جاؤں لیکن جب اس کی قیمت پوچھتا ہوں تو 20روپے قیمت کی وجہ سے اپنی خواہش کو دبا کر وہاں سے آگے نکل جاتا ہوں ہاں اگر یہ پیسٹری 10 روپے کی ہوتی تومیں روزانہ کھاتا لیکن 20 روپے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ بیگم نے جب مجھے 20 روپے کی پیسٹری خرید کر دی تو نہ صرف اس کے لیے بے حد دعائیں دل سے نکلیں بلکہ میں اپنے بچپن کی جانب لوٹ گیا ۔

وہ بھی کیا وقت تھا جب میں واں رادھا رام ( حبیب آباد) کے ریلوے پھاٹک پر سکول سے واپسی کے بعد سگریٹ بیچا کرتا تھا دوپہر سے شام تک روزانہ کا یہ معمول تھا وہاں میرے بڑے دونوں بھائی بھی مالٹے ٗ جامن اور آم فروخت کیا کرتے تھے اس سے جو تھوڑ ے بہت پیسے بچتے اس سے تعلیمی اخراجات پورے ہوجاتے ۔ مجھے یاد ہے کہ بند ریلوے پھاٹک پر ایک کار آ کر رکی ۔اس کار میں ایک پاکستانی میم ( یعنی کوئی امیر زادی ) بیٹھی ہوئی تھی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میں اسے اچھا لگا اس نے اشارے سے مجھے بلا یا ۔ اس وقت میری عمر بمشکل آٹھ دس سال ہوگی۔ اتفاق سے ان دنوں بچے اغوا کرنے والے پٹھانوں کی کہانیاں زبان زدعام تھیں ۔اس امیرزادی نے جب اشارے سے مجھے بلایا تو میں خوفزدہ ہوگیا اور بھاگ کر اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ کر انہیں بتایا کہ کار میں بیٹھی ہوئی میم مجھے مسلسل گھور رہی ہے لگتاہے کہ وہ مجھے اغوا کرنا چاہتی ہے ۔بھائیوں نے مجھے دلاسہ دیا کہ تم پریشان نہ ہو۔ ہم اسے دیکھ لیتے ہیں ۔اسی اثنا ء میں اس عورت نے کسی بڑے چھابڑی فروش کو بلا کر کہا کہ مجھے وہ بچہ اپنے بچوں کی طرح پیارا لگ رہاہے میں اسے اپنے سامنے کریم رول کھلانا چاہتی ہوں ۔اس چھابڑی فروش نہیں کہا میم صاحب آپ ہمیں کریم رول دے دیں ہم اسے کھلا دیں گے اصرار کے باوجود اس عورت نے کریم رول کسی کونہ دیئے اور پھاٹک کھلنے کے باوجود اس نے اپنی کار ایک جانب کھڑی کرلی اور میرے پاس خود چل کر آگئی ۔اس لمحے سب چھابڑی فروشوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا تاکہ وہ مجھے لے کر کہیں فرار ہی نہ ہوجائے ۔ بہرکیف اس کے اصرار پر میں اس کی کار تک گیا اس نے مجھے کار میں بیٹھنے کے لیے کہا ۔کار کو بھی تماشہ دیکھنے والوں نے چاروں اطراف سے گھیر رکھا تھا۔ بھائی کے کہنے پر میں کار میں ڈرتا ڈرتا بیٹھ بھی گیا اس عورت نے ایک بڑا سا لفافہ مجھے دیا جس میں چالیس پچاس کریم رول ہوں گے ۔میں جب وہ لفافہ لے کر کار سے اترنے لگا تو اس نے کہا بیٹا ایک کریم رول اگر تم میرے سامنے بیٹھ کر کھا لو تو میرے دل کو سکون مل جائے گا ۔ اس کے اصرار پر میں نے ایک کریم رول کھانا شروع کردیا ۔وہ کریم رول اس قدر مزیدار تھا دوبارہ وہ مزا زندگی بھر نصیب نہیں ہوا ۔ غربت کی وجہ سے ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں ہوتے تھے کہ ہم دو آنے کا کریم رول خرید کرکھائیں ۔ اس عورت نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور کریم رول سے بھرا ہوا لفافہ میرے سپرد کرکے چلی گئی ۔ وہ لفافہ لے کر مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے پوری کائنات مجھے مل گئی ہے ۔میں نے سگریٹ کا کھوکھا وہیں چھوڑا اور بھاگتا ہوا اپنی ماں کے پاس آگیا ماں میرے ہاتھ لفافہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کریم رول کسی امیر زادی  نے مجھے مفت دیئے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہاء نہ رہی پھر ہم سب نے خوب مزے سے کھائے ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب دو آنے کلو آلو فروخت ہواکرتے تھے اور آٹھ آنے کلو گوشت ہوا کرتا تھا۔

بیگم نے 50 سال بعد پورے 20 روپے پیسٹری مجھے دلوا کر بچپن کی میم یاد دلا دی ہے جن نے بہت پیار سے مجھے کریم رول کھانے کے لیے دیئے تھے۔اس کے باوجود کہ اب میں 20 روپے کی پیسٹری اپنی جیب سے بھی خرید کر بھی کھا سکتاہوں لیکن یہ تصور کرکے نہیں کھاتا کہ چلو یہ پیسے کسی اور کام آجائیں گے ۔اب جب صبح ہم دونوں سیر کے لیے نکلتے ہیں تو میں بچہ بن کر اور بیگم ٗ " سیٹھ عابدہ" بن کرمیرے ساتھ چلتی ہے واپسی پر وہ المدنیہ جنرل سٹور پر رکتی ہے اور اپنے بٹوے میں پیسے نکال کرمیرے لیے انڈے ایک پیسٹری اور اپنے لیے چند بسکٹ خرید تی ہے پھر ہم دونوں پیسٹری اور بسکٹ کھاتے کھاتے اپنے گھر واپس لوٹ آتے ہیں۔مجھے ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے جو مجھے پیسٹری ٗ کیک ( وہ بھی گورمے کا فروٹ کیک) اور کھوئے والا پیڑاکھلاتا ہے ۔ لیکن ابھی تک یہ کام صرف میری بیگم نے سنبھال رکھا ہے اس لیے بیگم کی یہ عادت بہت اچھی لگتی ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.