حادثہ

 سال کی آخری رات تھی اس کے ساتھ ہی ہر چہرے پر نئے برس دو ہزار پندرہ کی آمد کی خوشی دیدنی تھی۔ شہر کی ایک کچی آبادی کے ایک گم نام کوچے میں مقیم ناصف بقال پر یہ رات بہت بھاری تھی۔اس کی عمر ستر سال ہو چکی تھی اور اس کے اعضا مضمحل ہوچکے تھے اور عناصر میں اعتدال عنقا تھا ۔ اس کے خرابات آرزو پر حسرت و یاس کا بادل ٹُوٹ کر برس گیا۔ ایک عادی دروغ گو،قحبہ خانہ ،چنڈو خانہ اور کسینو کے مالک، منشیات کے تاجر ،سمگلر ،پیمان شکن ،محسن کش اور ابن الوقت درندے کی حیثیت سے ناصف بقال کی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت نہ تھی۔وہ غمِ جہاں کا حساب کرنے میں خجل ہورہا تھا کہ اسے ماضی کے کئی دیرینہ رفیق بے حساب یاد آئے۔اس عالم پیری میں جب جانگسل تنہائیوں کا زہر اس کے ریشے ریشے میں سرایت کر گیا تو وہ ثباتی،ظلی ، شعاع ،تمنا،زادو لُدھیک ،اکی ،عارواور رنگو کو یاد کرکے آہیں بھرنے لگا۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے وہ سوچنے لگا کہ عیش و طرب اور وصل کے برس تو گھڑیوں کے مانند بیت گئے مگر تنہائیوں کی گھڑیاں تو اب برسوں پر محیط دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی آنکھوں کی نیند اُڑ چکی تھی اور دل کی تاریکی اس کے مقدر کی سیاہی کے مانند اس کی رُ و سیاہی بنتی چلی گئی۔اس کی بُوم جیسی آنکھیں لُٹی محفلوں کی دُھول سے اٹ گئی تھیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں وہ واقعی سٹھیا گیا تھا اوراس کی عقل پر ایسے پتھر پڑ گئے تھے کہ اس نے ہیرا منڈی کی رذیل اور جسم فروش نو جوان طوائفوں ثباتی اور ظلی سے ٹُوٹ کر محبت کی۔زادو لُدھیک اپنی داشتہ ظلی کو سیڑھی بناکر ناصف بقال سے مالی مفادات حاصل کرتا رہا اور اپنی تجوری مسلسل بھرتا رہا۔ رنگو نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے اپنی اہلیہ ثباتی کو ناصف بقال کی خدمت پر مامور کر دیا جوہر وقت ناصف بقال کی محبت کادم بھرتی اور ساتھ ہی اپنی جمع پونجی میں اضافہ کر کے اسے کر گس کی طرح نو چتی رہتی ۔ناصف بقال ہمہ وقت حسین و جمیل طوائفوں کے جُھرمٹ میں راجا اِندر بن جاتا ،دادِ عیش دیتا ، خوب ہنہناتااور اپنے جنسی جنون کی تسکین کا ہر قبیح حربہ استعما ل کرتا۔حقائق سے شپرانہ چشم پوشی اس شُوم کا وتیرہ بن چکا تھا۔بیتے دنوں کو یادکر کے وہ اس قدر رویا کہ روتے روتے فرط غم سے وہ نڈھال ہو گیا اور آنے والے وقت کے متوقع عذاب کے تصور سے اس کی گھگھی بندھ گئی۔اپنی پتھرائی آنکھوں سے وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگا لیکن اب یہاں کسی کی آمد متوقع نہ تھی۔ اس کے پروردہ تمام بھوکے فصلی بٹیرے اورسب چڑیاں دانے چُگ کر لمبی اُڑان بھر گئیں ۔ اس کے ساتا روہن کا بھی کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔

وہ مسلسل اپنی گدھے کے بالوں سے بنی ہوئی وِگ کو کھجلا رہا تھا اور اپنے ہاتھ کی اُنگلی میں ٹھنسی ہوئی عقیق کے بڑے نگینے والی چاندی کی انگوٹھی کو ہلا رہا تھا ۔لنڈے کا تھری پیس سوٹ پہنے یہ کلین شیو خضاب آلودہ بُڈھا کھوسٹ اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ گیا تھا۔وہ اپنی خمیدہ کمرپرہاتھ رکھ کر اپنے شکنوں سے بھرے بستر سے اُٹھا،موٹے شیشوں والی نظر کی عینک اُتاری اور شپر جیسی بندآنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار کر ان کے گدلے پن کی صفائی کی کوشش کرنے لگا۔حرام کا مال کھا کھاکر وہ پُھول کر کُپاہو گیا تھا۔ اس کے منہ کا ذائقہ بدل چکا تھا اورزبان کی کڑواہٹ کا اثر لہجے کی تلخی ،بے ہود ہ گوئی،خلجان اور ہذیان کی صورت میں سامنے آیا۔اب اسے ثباتی اور ظلی کے ہاتھ سے تیار کیا ہوا کھانا میسر نہ تھا بل کہ ریڑھی سے نان حلیم خرید کر زہر مارکرتا تھا ۔سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ اس کی اپنی اہلیہ نے بھی اپنی بیٹیوں کو ساتھ لیا اور شاہی محلے میں اپنے آبائی کوٹھے میں بسیرا کرلیا۔ اس جگہ خوب سے خوب ترکی جستجو کا سلسلہ جاری تھا اوریہاں ان کی پانچوں گھی میں تھیں ۔اپنی ناک میں اُنگلیاں ٹھونستے ہوئے لڑ کھڑاتا ہوا یہ چکنا گھڑا با ہر نکلا۔سڑک پر ایک جگہ لکھا تھا ’’نیا سال مبارک ‘‘۔جب اس نے یہ تحریر پڑھی تو وہ مگر مچھ کے آنسو بہانے لگا۔بے وفا ساتھیوں نے اس کی زندگی اجیرن کردی تھی اور اس کے لیے تو ایک ایک لمحہ بلائے جان بن گیا تھا ۔اس کی زندگی کے تمام موسم خزاں کی زد میں تھے۔اب تو اس کی حیات کے لرزہ خیز اوراعصاب شکن افسانوی ماحول میں ہر طرف ذلت ،تخریب،نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی،بے ضمیری ،بے غیرتی ،بے حیائی ،بے حسی اور بد بختی کے کتبے آویزاں ہو چکے تھے۔وہ دبے پاؤں واپس اپنے کمرے میں آ گیااور اپنے ماضی کے حالات کے بارے میں سوچنے لگا۔ہر طر ف ہو کا عالم تھا ،اس کے کمرے کی ایک کھڑکی کھلی تھی جس سے باہر کا سارا منظر صاف دکھائی دیتاتھا ۔ ممبئی کے نوجوان نئے سال کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔اس کے لیے تو یہ تیاریاں دل آزاریوں کے سوا کچھ نہ تھیں۔ ہمیشہ کی طرح وہسر شام نشے کی بڑی مقدار استعمال کر کے بے سدھ ہو گیا تھا۔اب اس کا نشہ ٹُو ٹنے لگا تھا۔ مسموم حالات کی حدت کے باعث اس کا دماغ تو پہلے ہی طویل رخصت پر تھااب دل و جگر کی آگ بجھانے کی خاطراس نے برف میں لگی صراحیء مے اپنے حلق میں اُنڈیلی اور پھر سے وادیء خیال کو مستانہ وار طے کرنے کی ٹھان لی۔

اسی اثنا میں اس نے حکیم سیالوی کو دیکھاجو اسے دلاسا دے رہے تھے۔اسے وہ دن یاد آ گئے جب اس نے عالم شباب میں داد عیش دینے اور شراب و شباب کے ساتھ ہمہ وقت سنگت کاآغاز کیاتو اس کی اخلاق با ختگی ،جنسی جنون اور بے راہ روی کی نفرت انگیز داستانیں ہر شخص کی زبان پر تھیں۔منشیات کے بے تحاشا استعمال سے وہ نشاط اور بے خودی کے عالم میں ہر ناصح کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اوران کی نصیحت کو سنی ان سنی کر دیتا۔حکیم سیالوی نے اُسے بہت سمجھایا کہ منشیات کے استعمال سے انسان موت کی جانب تیزی سے بڑھنے لگتا ہے ۔ منشیات فروش پرجب سب بلائیں تمام ہو جاتی ہیں تو مرگ نا گہانی اسے دبوچ لیتی ہے ۔سب ناصح اسے سمجھاتے رہے لیکن اس کے دماغ میں تو خناس سما گیا تھاکہ وہ راجا اندر ہے اوراسے پریوں کا اکھاڑاسجانے کااختیار ہے۔وقت پر لگا کراُڑتا رہا اس کی کتاب زیست سے شباب کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔اس کے بعد مختلف بیماریوں نے اسے اپنے نرغے میں لے لیا۔پہلے ایک گردے میں پتھری کا آپریشن ہوا پھر دوسرے گردے میں پتھری کی تشخیص ہوئی۔اس کے بعد پِتے اور معدے میں پتھری اور ساتھ ہی مثانے میں غدود اور پتھری سے وہ زندہ در گور ہو گیا۔اس کی تمام جمع پونجی ان بیماریوں کے علاج معالجے اور پیچیدہ نوعیت کے آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئی۔جان لیوا دکھوں ،لرزہ خیزاوراعصاب شکن حالات اور جا نگسل تنہائیوں میں اس کے احباب ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔جب اس کی امیدوں کے پھول کھلنے کی توقع تھی تو ہوس پرستوں نے انھیں کا نٹوں سے فگار کر دیا ۔جن لوگوں کی رفاقت کو اس نے چراغ راہ سمجھا تھا وہی اسی کا گھر پھونک کر تماشا دیکھتے رہے۔اس دنیا کے آئینہ خانے میں دکھوں کا جال بچھا کر سب ساتھی اسے تماشا بنا کر چلتے بنے۔وہ زندگی بھر رنگ ،خوشبو اور حُسن و خوبی کے استعاروں سے مزین گُل ہائے رنگ رنگ کی تمنا میں سر گرداں رہا۔اب اس کی شامت اعمال نے یہ دن دکھائے کہ عالم پیری میں اس کی آنکھوں میں کالا مو تیا اُتر آیا ۔اب شدید ضعف بصارت کی ماری اس کی پتھرائی ہوئی کرگسی آنکھوں میں لُٹی محفلوں کی دُھول اُڑتی رہتی تھی۔حالات اسے اس موڑ پرلے آئے کہ اگرچہ اس کی یادداشت بُری طرح متاثر ہو چُکی تھی لیکن اُسے نہ صرف چھٹی کا دودھ یاد آگیا بل کہ نانی کی یاد بھی ستانے لگی ۔جس کے پاس ہر چیز کی فراوانی ہوتی تھی اس کو بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ جس گھر میں پہلے حسین و جمیل مغنیاؤں کے پُرسوز نغمے گُو نجتے تھے اب اس گھر میں ہر طرف اُلّو بولتے تھے۔

حکیم سیالوی کو دیکھتے ہی ناصف بقال کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں اور اس نے اپنی داستان غم بیان کی اور گردوں ،پتے ،مثانے اورمعدے کی پتھری اور آپریشن کے عذاب کا احوال بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ جسم کے تمام بڑے اعضا میں بڑی بڑی پتھریوں کا بن جانا معالجوں کے لیے بھی ناقابل فہم تھا۔سب حکیم اور ڈاکٹر اس انتہائی پیچیدہ ،جان لیوا اور تکلیف دہ روگ کو ایک عذاب سے تعبیر کرتے تھے ۔ان پتھریوں کے علاج نے اسے مفلس و قلاش کر دیا اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔یہ سنتے ہی حکیم سیالوی صاحب نے اپنے دبنگ لہجے میں کہا کہ ایک راندہ ء درگاہ زانی اور شرابی کو دنیا والے تو سنگسار نہ کر سکے لیکن فطرت کی تعزیریں تمھیں اندرونی طور پر رفتہ رفتہ سنگسار کرتی جا رہی ہیں ۔میں نے تمھیں بہت سمجھایا تھا لیکن تمھاری عقل پر تو پتھر پڑ گئے تھے۔وہ دن دور نہیں جب حالات یہ رخ اختیار کریں گے کہ فطرت کی سنگساری کا یہ سلسلہ تمھیں مکمل طور پر منہدم کر دے گا۔ تمھاری شامتِ اعمال کے باعث ہونے والی تمھاری اس سنگساری کے نتیجے میں تم زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اُتر جاؤگے زمین کا بوجھ قدرے کم ہو جائے گااور ہر شخص یہ کہے گا کہ خس کم ہونے سے گلشنِ ہستی کی پاکیزگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ناصف بقال ،رنگو ،اکی،زادو لُدھیک عارو اورتارو سب کے سب رسوائے زمانہ بد معاش تھے۔ ان اُجرتی بد معاشوں اور پیشہ ورلُٹیروں نے قتل وغارت کا جو بازار گرم کر رکھا تھا اس کے باعث زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئی تھیں ۔ ممبئی کے قحبہ خانوں میں ان کی پروردہ جسم فروش رذیل طوائفوں ثباتی،ظلی،شعاع اور تمنا نے بے حیائی اور فحاشی کی انتہا کر دی تھی۔ منشیات کے کالے دھن اور خرچی کی آمدنی نے ان عقل کے اندھوں کو انسان دشمنی کے مکرہ جرائم میں مبتلا کر دیا۔زاد ولُدھیک اور ناصف بقال نے اپنی بد اعمالیوں سے زندگی کو پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچا دیا۔ وقت کے اس سانحہ کو کیا نام دیاجائے کہ یہ جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان موذی و مکار بگلا بھگت جنونیوں اور خون آشام دہشت گردوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں کے باعث کئی گھر بے چراغ ہو گئے ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری ان ننگ انسانیت درندوں کا وتیرہ تھا ۔ان مخبوط الحواس ،فاتر العقل اور جنسی جنونی درندوں نے ہمیشہ خو دکو کہکشاں کا مکیں سمجھااور مظلوم انسانیت کو راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اسے زد جاروب کھانے پر مجبور کر دیا۔ناصف بقال نے اگرچہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا تھالیکن اس کے دل سے کبھی کبھی ایک ہوک سی اُٹھتی کہ اس کی ذلت، رُو سیاہی ،تباہی اور جگ ہنسائی میں زادو لُدھیک،تارو، عارو،رنگو ، اکی ،ظلی اورثباتی کاقبیح کردا ر شامل ہے۔ معاشرے میں ان کو کالی بھیڑیں ،گندے انڈے ،سفید کوے اور عفونت زدہ غلیظ مچھلیاں سمجھا جاتا تھا اور یہ سب مردود خلائق تھے ۔یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ناصف بقال اپنے ان قریبی احباب کے خلاف کچھ نہ کر سکا اور ایک خارش زدہ سگ راہ کے مانند ان کے تلوے چاٹتا رہتا۔کُوڑے کے ڈھیر سے ذاتی مفادات کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے کی کر یہہ عادت اسے ورثے میں ملی تھی۔ بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ زادو لدھیک اور ناصف بقال کے آباکاگھاس کھودنے اور کتے گھسیٹنے پر مدار تھا ۔یہ بھی سننے میں آیا کہ سو پُشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری ، منشیات فروشی رہزنی اور لوٹ مارتھا۔ان کے گھروں کی عورتیں قحبہ خانے کی زینت بن کر خرچی کے ذریعے زرو مال سمیٹ لیتیں اور اپنے مردوں کے لیے عیاشی کا سامان فراہم کرتیں ۔ناصف بقال اور زادو لُدھیک کے سبز قدم جہاں بھی پڑتے وہاں ویرانی ڈیرے ڈال لیتی۔ان کی صرف زبان ہی کالی نہیں تھی بل کہ بد اعمالیوں کے باعث ان کی رو سیاہی کی داستانیں بھی زبان زد عام تھیں۔ اس کے سارے ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھی اب اس سے نفرت کرتے تھے ۔ان موقع پرست فصلی بٹیروں نے ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔وہ جانتاتھا کہ یہ سب طوطا چشم اور مارِ آستین ہیں اور ان کے ساتھ ربط رکھنادہکتے ہوئے انگاروں سے کھیلنے کے مترادف تھا۔اس کے باوجود وہ راجا اِندر بنا پریوں کے اکھاڑے میں دادِ عیش دیتا رہا۔اپنی طویل زندگی میں اس نے آدمی کے لاکھوں رُوپ دیکھے،ہر وضع اور ہرقماش کے آدمی سے اُس کا پالا پڑا ،چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہو تی رہیں لیکن وہ کسی ایک بھی معتبر انسان کو تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جو اس کا محرم راز بن سکے۔ اب وہ جان گیا تھاکہ وہ زندگی کے حقیقی شعور سے یکسر بے بہرہ ہے ۔اپنے شام و سحر کی کشتیوں کو سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں کے باعث گرداب میں غرقاب ہوتا دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتا۔اب وہ دشتِ جنوں میں تنہا بھٹک رہا تھااور سرابوں کے عذابوں میں کوئی اس کا پُرسانِ حال نہ تھا۔اب اسے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔اب تو سفر کی دُھول ہی اس کا پیرہن بن گیا تھا۔

اس کی زندگی میں ہمیشہ نئی سے نئی ابتلا کا طوفان بپا رہا لیکن وہ ابتدا کی فکر و احتیاط اور انتہاکے کرب یا صدمات سے بے نیازعشق و جنوں کے سرابوں میں سر گرداں رہا۔اب اسے قضاکے ہاتھوں زندگی کا دریچہ بند ہوتا محسوس ہو رہا تھااور خورشید محشر کی تیز شعاعوں نے اس کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا۔وہ بار بار یہ سوچتا کہ وہم و گماں کے موسم میں اس کی ناکام زندگی اس طرح بکھر گئی جیسے خزاں کے مسموم ماحول میں بُور لدے چھتناروں کے خشک پتے ہر سُو بکھر جاتے ہیں اس کے قریہء جاں میں اعصاب شکن سناٹوں،جان لیوا تنہائیوں،غیر مختتم رسوائیوں ،جگ ہنسائیوں، رُو سیاہیوں،مسموم ہواؤں ،موہوم تمناؤں اور تلخ یادوں کی خزاؤں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔اب تو جگر کی آگ بجھانے والی مے انگبین اور ما اللحم سہ آتشہ اسے میسر نہ تھا۔ اس تشنگی اور جنسی بھوک سے اس کے اعصاب شل ہو چکے تھے اور وہ بہت خجل ہو رہا تھا۔یاس و ہراس پر مبنی سوچییں اُ س کے لیے سوہان روح بن چکی تھیں۔اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایام گزشتہ کی یہ لرزہ خیز یادیں ہی اس کی روح قبض کر لیں گی۔وہ ان خیالوں میں گم تھا کہ اچانک اس کے سامنے چڑیلیں ،ڈائنیں اور پچھل پیریاں گھومنے لگیں۔ان کے ساتھ دیو ،بھوت اور آدم خور بھی تھے۔اس نے غور سے دیکھا تو مافوق الفطرت عناصر کے ہجوم میں اسے کچھ پرانے آشنا چہرے بھی دکھائی دئیے ان میں ظلی،ثباتی،تمنا ،رنگو،زادو لُدھیک،اکی ،عارو اورتاروبھی شامل تھے۔اپنے حقیقی رُوپ میں یہ ننگ انسانیت درندے بہت خوف ناک دکھائی دے رہے تھے۔ اکثر غارت گر بندِ قبا اور لباس کے تکلف سے بے نیاز ،شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے رقص کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پیمان وفا باندھ رہے تھے۔ اس نے انھیں متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے اس کی آہ و فغاں پر دھیان نہ دیا۔چور محل میں جنم لینے والے مشکوک نسب کے سانپ تلے کے یہ بچھواس کے لیے مارِ آستین ثابت ہوئے۔جنسی جنون ،ہوس،کالے دھن اور عشق لا حاصل کے اندھے سفر میں وہ محرومیوں ،مایوسیوں ،ناکامیوں ،نا مرادیوں اور بر بادیوں کے ابتلا میں صحرا کے ایک تنہا شجر کے مانند تھا جسے سمے کی دیمک نے چُپکے چُپکے اندر سے کھا کر کھوکھلا کر دیا تھااور اب اس میں کسی غنچے کے کِھلنے کی توقع نہ تھی۔ ا س کی زندگی کے خزاں رسیدہ بوسیدہ شجرپربُوم ،شپر،کرگس اور زاغ و زغن کا بسیرا تھا۔

ابھی وہ پریشانی کے عالم میں یہ سب مناظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ دور کھڑے الم نصیبوں اور جگر فگاروں پر پڑی۔اس نے ان سب کہ پہچان لیا یہ سب وہی مجبور لوگ تھے جنھیں اس نے زندگی بھربے پناہ اذیت اور عقوبت میں مبتلا رکھا۔وہ اپنے دِل کو سِل بنا چُکا تھااور اس کے غیظ و غضب سے دُکھی انسانیت پر جوکوہِ ستم ٹُوٹااس کے باعث ان مظلوموں کی ر وح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہوگیا ۔اس کے بے رحمانہ انتقام اور شقاوت آمیز نا انصافیوں نے ان مجبوروں کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان مظلوموں کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی گئی۔ان کی گریہ و زاری کو دیکھ کر وہ جان گیا کہ اس کے بہیمانہ سلوک کی وجہ سے گلستان میں جو بادِ صر صر چلی اس نے گلشنِ زیست کی کلیوں اور غنچوں کو جُھلسا دیا۔اس کے جبر نے مجبوروں کی آہ و فغاں کو اس طرح مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا کہ ان کے ہونٹوں کی مسکان تک چھین لی۔ بے وفائی اورپیمان شکنی سے لذتِ ایذا حاصل کرنا اس کا وتیرہ تھا یوں وہ جس شہر میں بھی گیا اسے مانندِ کُوفہ بنا دیا۔اس کی خود غرضی اور ابن الوقتی ضرب المثل تھی یہاں تک کہ قیس جیسے رمیدہ ہجر گزیدہ کو بھی اس کے دست جفا کار نے بدن دریدہ بنا دیا۔وہ سو چنے لگا کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے درد سے چکیدہ بے بس انسانیت اس کی ہوس ناکی کے باعث مکمل انہدام کے قریب پہنچ گئی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں بار بار اس کے دل میں یہ خیال آتا کہ اس نے ہوس ،جنسی جنون ،حُسن ورومان،منشیات فروشی،چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کے گورکھ دھندوں بے حسی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔اس نے قبضہ مافیا سے مل کر یتیموں،بیواؤں ،بے نواؤں اور مظلوموں کی املاک پر ہاتھ صاف کیا۔زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں اس کے قبیح کردار کو ہرشخص نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ سب لوگ اسے موذی ومکار فرعون قرار دیتے تھے ۔اس نے کِشتِ دہقاں اور مفلوک الحال لوگوں کی عزت و آبرو لوٹ لی۔وہ سوچنے لگاکہ اس کے بُغض و کینہ کے باعث لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔اس نے بے شمار لوگوں کی آرزوؤں کا خون کیا۔ وہ زندگی بھر ان قسمت سے محروم لوگوں کی شہ رگ کا خون پیتا رہا اوریہ جگر فگار لوگ لبِ اظہار پر تالے لگا کرخون تھوکتے رہے اور سد اخون کے آنسو پیتے رہے۔اگرچہ ان مصیبت زدوں کے رفو گر ان کے چاک گریباں سیتے رہے لیکن اس نے ہمیشہ ان کے گریباں کو تار تار کیا اور ان کو معاشرتی زندگی میں زبون و خوار کیا ۔ان غریبوں کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستی رہیں مگر اس قدر بے حسی کا شکار تھا کہ کبھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ان میں کئی لوگ ایسے بھی تھے جو پنی فگار انگلیوں سے کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کر کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے لیکن جبر کی اندھی قوت کو استعمال کرکے وہ ان ناتوانوں سے بھی بھتہ وصول کر کے اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرتا رہا۔ اس نے بشیر ،منیراور کئی ستم زدوں کو دیکھا جو اس کی نا انصافیوں اور مظالم کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے اور عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ملک کے تمام اُجرتی قاتلوں اور پیشہ ور بد معاشوں کے ساتھ اس کے قریبی مراسم تھے۔وہ سب کے ساتھ شریکِ جرم رہااور خوب گلچھرے اُڑائے یہ سب درندے اسے تنہا چھوڑ کر نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ،کسی نے اس کے شکستہ دل کا حال کبھی نہ پُوچھا۔اس نے مظلوم لوگوں کو پُکار ا مگر سب نے نفرت سے اسے دیکھا اپنا دامن جھاڑا،آسمان کی طرف نگا ہ کی اور اپنی اپنی راہ لی۔ سب سوچ رہے تھے کہ خالق خا ئنات نے اب تک اس نمرود کے عرصہء حیات کو کیوں بڑھا رکھا ہے ۔ ایسے جو فروش گندم نمابُزِ اخفش کو تو اب تک مر جانا چاہیے ۔وہ یہ سوچ کو آہیں بھرنے لگا کہ اس کی زندگی اسی سمت جا رہی ہے جیسے شام ڈھلے طیور اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔اپنی زندگی کی شام کے وقت وہ موت کی آہٹ کو محسوس کر رہا تھا۔ جا نگسل تنہائیوں اور تاریک شب و روز کے بھیانک سناٹوں نے اُسے زندہ در گور کر دیا تھا۔اب نہ تو اس کی کوئی امید بر آتی اور نہ ہی اسے مسموم حالات کے مہیب بگولوں سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی تھی۔

اب اس کی پرورش کرنے والے اس کے والدین اس کے سامنے تھے ۔انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس نو عمر لڑکے کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے حقیقی والدین کا کسی کو علم نہیں۔یہ بہت پُرانی بات ہے کہ سال ۱۹۴۶میں ممبئی کے ایک جاروب کش چنگڑوکو کوڑے کے ڈھیر سے چادر میں لپٹا ایک نو مولود بچہ ملا۔ممبئی کے متمول اور معمر تاجر جوڑے روپن مل اور اس کی بیوی کا منی نے اسے گود لے لیا ۔ گرد و نواح کے سب لوگ کہتے تھے کہ سانپوں کے بچے کبھی وفا نہیں کرتے خواہ انھیں اپنے ہاتھ کی چُلّی میں دودھ پلایا جائے اسی طرح انگور کی نرم و نازک بیل کو اگر کیکر پر چڑھا دیا جائے توخار ِمغیلاں کی نشتر زنی سے انگور کا ہر خوشہ چھلنی ہو جاتا ہے۔جب وہ جوان ہوا تو اس نے روپن مل اور کامنی کو ہلاک کر دیا اوران کی لاشیں جلا دیں ۔ اس نے سب کو یہ بتایا کہ یہ اموات چو لھا پھٹ جانے کے باعث ہوئیں۔ ان کی ساری جائیداد اب اس کی ملکیت تھی۔ اس نے اپنے محسنوں کو سوخٖتہ بدنوں کے ساتھ دیکھا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ان کا بے بسی کے عالم میں جل کر راکھ ہو جانا وہ کبھی بھلانہ پایا ۔کامنی اور روپن مل نے اس کے سامنے رو رو کر جان بخشی کی التجا کی لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔وہ بھی آج اس کی طرف دیکھ کر نفرت سے منہ موڑ کر چلے گئے۔

اچانک ناصف بقال نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک پر اسرار شخص کھڑا ہے ۔اس نے کھا جانے والی نگاہوں سے اس شخص کو دیکھا۔اس شخص نے بھی قہر بھری نگاہوں سے ناصف بقال کو گھورا اور نفرت کا اظہارکیا۔کئی جوتشی، رمال اور نجومی اُسے بتا چکے تھے کہ ایک بھوت اور آسیب مسلسل اس کے تعاقب میں رہتا ہے۔اس بھوت نے ناصف بقال کی زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے۔کئی مندروں کی یاترا کرنے ،مورتیوں کے سامنے سر جھکانے ،صدقہ خیرات کرنے اورگنگا نہانے کے با وجود ناصف بقال اس بھوت اور آسیب سے چُھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آج اس کے سامنے یہ بھوت اپنے چہرے پر بھبھوت مل کر جس ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کر رہا تھا وہ اس کے لیے تشویش اور اضطراب کا باعث تھا۔ناصف بقال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہو نہ ہو یہی وہ بھوت ہے جس نے اس کی زندگی کو غم کا فسانہ بنا کر اسے دنیا کے آئینہ خانے میں تماشا بنا دیا ہے۔ا س بھوت کی کا رستانی کی وجہ سے وہ نہ تو تین میں رہا اور نہ ہی تیرہ میں۔ اسے یقین ہو گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بھوت کی سفاکی نے اسے جس اذیت اورعقوبت میں مبتلا کر رکھا ہے،اس کا انتقام لیا جائے۔ وہ عجیب الخلقت اور پُر اسرار بھوت ایک ناگہانی آفت کے مانند ناصف بقال کو مسلسل گُھور رہا تھا اور مسلسل اس کا منہ چِڑا رہاتھا ۔اس کے جواب میں ناصف بقال بھی اسے غیظ و غضب اور قہر بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔اب ناصف بقال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ جسمانی کمزوری اور شدید ذہنی دباؤ کے باوجود اس نے سمجھا کہ اب فیصلے کی گھڑ ی آ گئی ہے اور اس بُھوت کو منہ توڑ جواب دینا بہت ضروری ہے۔ یقیناًیہی وہ بھوت ہے جس کے بارے میں گزشتہ کئی برسوں سے نجومی ،جوتشی اوررمال اسے متنبہ کرتے چلے آئے ہیں۔اس نے اپنی پوری قوت کو مجتمع کیا، ایک لمبی جست لگائی اور ایک زور دار مکہ سامنے کھڑے بت کی گردن پر رسید کیا ۔ایک زور دار آواز سے سامنے دیوارپر لگا بہت بڑاقد آدم آئینہ ٹُوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔نشے میں دھت ناصف بقال منہ کے بل آئینے کی کرچیوں کے ڈھیر پر جا گرا۔شکستہ آئینے کی ایک لمبی اور تلوار کی طرح تیز کرچی اس بھیڑئیے کی شہ رگ پر پھر گئی۔ کمرے کے فرش پر عفونت زدہ سیاہ خون ہر طرف بہہ رہا تھا۔وہ درندہ جو آتشِ سیّال سے زندگی بھر گرم رہا اب ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 611798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.