ہمارے عنایت علی خاں

حیدرآباد محبتوں کا شہر ہے۔ اس شہر میں رہنے والے کہیں بھی ہوں ایک دوسرے سے جب بھی ملتے ہیں ۔ ٹوٹ کر ملتے ہیں۔ اکثر اس محبت اور ملنساری کو دیکھ کر لوگ ہمیں حیدرآباد مافیا کا خطاب دیتے ہیں۔ عنایت علی خاں ہمارے اسی شہر کے بزرگ ہیں۔ ان کی ایک حمد ونعت کے دو شعر ہیں۔

مجھے تو نے جو بھی ہنر دیا، بکمال حسن عطا دیا
میرے دل کو حب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دی، میرے لب کو ذوق نوا دیا

اس حمد نعت کا شعر آخری شعر ہے

کبھی اے عنایت کم نظر تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے بھلا دیا

اب اس حمد میں جو عنایت علی خاں نے پہلے شعر میں ہمارا نام اور دوسرے شعر میں ہمارا تخلص استعمال کیا ہے تو آپ اسے حیدرآباد نوازی نہ سمجھیے اور نہ ہی ہمارے اس مضموں کو حیدرآباد مافیا کی کاروائیوں میں شامل کیا جائے۔

سید ضمیر جعفری نے عنایت علی خاں کی مزاحیہ شاعری کو اسلامی دنیا کے بم سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے اصناف شاعری میں حمدو نعت، نظم وغزل، اور ظریفانہ شاعری جسے میدانوں میں شہسواری کی ہے۔ اور ہر سطح پر اپنا معیار اور آہنگ بلند رکھا ہے۔ خاں صاحب، صاحب علم ودانش ہیں۔ وہ معلم بھی ہیں، مدرس قراں بھی ہیں، سیاست دان بھی ہیں، شکاری بھی ہیں، عنایت صاحب کی شخصیت کے اتنے رخ ہیں کہ سب کا تعارف کرانا مشکل ہے۔ لیکن یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پیاز کی طرح ان کی کوئی بھی پھرت اترے، عنایت علی خاں ، سراپا عنایت ہی نظر آتے ہیں۔ان کا حلیہ اور ان کے فقرے ان کا آپ ہی تعارف کرادیتے ہیں۔ ان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ بادہ و ساغر والے ہمراقابوں میں بھی انہوں نے کبھی اپنی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آنے دیا۔

عنایت صاحب کی شخصیت بڑی طرح دار ہے۔ یوں بھی آپ ٹانک کے پٹھان ہیں۔ آپ کا ہر رنگ جاذب نظر اور دل کو لبھانے والا ہے۔ قوم کا درد رکھتے ہیں۔ بات کہنے سے کبھی نہیں چوکتے۔ اس صاف گوئی کے سبب ٹی وی چینل والے انہیں لائیو کاسٹ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ اپنے تعلق فکر پر فخر کرتے ہیں، شہید عبدالمالک پر ان کی نظم ۔۔۔۔۔ایسے ہی تعلق کی شہادت دیتی ہے۔
بار یابی جو تمہاری ہو حضور مالک
کہنا ساتھی میرے کچھ سوختہ جاں اور بھی ہیں
اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا
ایسے تمغوں کے طلبگار وہاں اور بھی ہیں

عنایت علی خاں ہر عمر کے لوگوں میں مقبول ہیں، ان کی شاعری کی مقبولیت نے انہیں انٹرنیشل بنا دیا ہے۔ اب وہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ ان کے مداحوں میں ادب سے تعلق رکھنے والے اور بے ادب سب شامل ہیں۔ سرکار والے اور اختلاف والے سب ان کی شاعری کے اسیر ہیں، ان سب میں کوئی قدر مشترک ہے تو وہ ہے ہنسنے ہنسانے کی لگن اور مسکرانے کا حوصلہ ہے۔ مذاق ہی مذاق میں وہ کیسی گہری باتیں کرتے ہیں۔
ہم ان کو لائے راہ پر مذاق ہی مذاق میں
بنے پھر ان کے ہمسفر مذاق ہی مذاق میں
پڑے رہے پھرا ن کے گھر مذاق ہی مذاق میں
مزے سے ہوگئی بسر مذاق ہی مذاق میں
ہوا ہے جدے میں جو اک مزاحیہ مشاعرہ
ہم آگئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں
لطیفہ گوئی کا جو رات چل پڑا تھا سلسلہ
ابل پڑے کئی گڑ مذاق ہی مذاق میں
اٹھو کہ اَب نمازِ فجر کے لئے وضو کریں
کہ رات تو گئی گزر مذاق ہی مذاق میں
یہاں عنایت آپ کو مشاعروں کی داد نے
چڑھا دیا ہے بانس پر مذاق ہی مذاق میں

عنایت علی خاں نے لوگوں میں خوشیاں بانٹی ہیں۔ آج کے دور میں جب ہر ایک پریشاں ہے۔ انہوں نے مسکرانے اور ہنسنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اور غلطیوں، خامیوں، کوتاہیوں کو ایسے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ پہلے ہم ان پر ہنستے ہیں اور پھر ہنستے ہنستے ہماری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔
وہ سورج تھا ستارہ ہوگیا ناں
جدائی کا اشارہ ہوگیا ناں
سکھایا تھا جسے دنیا میں جینا
وہی دنیا کو پیارا ہوگیا ناں
کہا بھی تھا محبت تم نہ کرنا
خسارہ ہی خسارہ ہوگیا ناں
بہت ہی دور اپنی دسترس سے
رفاقت کا کنارہ ہوگیا ناں
وہ اپنے گھر کا ہوگیا ناں
کلیجہ سب کا ٹھنڈا ہوگیا ناں
ہمارا حال پتلا ہے تو کیا غم
تیرا الو تو سیدھا ہوگیا ناں
لفافہ بھی ملا ہے داد کے ساتھ
چلو کچھ دال دلیا ہوگیا ناں

عنایت علی خاں کی شاعری پھلجڑی کی طرح چلتی ہے۔ اور پھر سارا ماحول اس کے سحر میں ڈوب جاتا ہے۔ ہنستے ہوئے چہرے مسکراتے ہوئے لوگ، مستقبل کے اندیشوں اور پریشانیوں سے بھنچے ہوئے ہونٹ، اور پتھر جیسے چہروں کے سامنے عنایت علی خان کا کلام اور نام آتا ہے تو پہلے چہروں کے عضلات نرم ہوتے ہیں، لب وا ہوتے ہیں، مسکراہٹ کا آغاز ہوتا ہے اور پھر لوگ ماحول سے بے پروا ہوجاتے ہیں۔ بے ساختہ قہقہے مارتے ہوئے لوگ اپنے منصب اور حیثیت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ بلکہ ان پریشانیوں اور دکھوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ جن کے جبر نے ان سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔ امریکہ اور یورپ والوں سے ان کی چھیڑ چھاڑ بھی جاری رہتی ہے۔ عنایت علی خان کا یہ قطعہ ملاحظہ ہو۔ کشش ہے کس بلا کی دیکھنا ، اس ملک میں یارو
جسے دیکھو، وہ کہتا ہے میں امریکہ جاتا ہوں
ادھر اک دلبرانہ شان سے امریکہ کہتا ہے
کہ صاحب آپ کیوں زحمت کریں، میں خود ہی آتا ہوں۔

سخاوت میں بھلا امریکیوں کا کون ثانی ہے
جو بوٹی مانگئیے تو مرغ سالم بھیج دیتے ہیں
پھر اپنے ملک پر تو ان کی اس درجہ عنایت ہے
کہ صاحب ایڈ کے پیکج میں حاکم بھیج دیتے ہیں

ان کا وہ معرکتہ الاآرا شعر تو اب بھی زباں زد عام ہے کہ
قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا لندن میں ہے

تشویش و اضطراب میں کہتا تھا اک کسان
امریکی سنڈیاں میرے کھیتوں میں آ گئیں
میں نے کہا میاں تجھے فکر کھیتوں کی ہے
امریکی سنڈیاں تو تیرا ملک کھا گئیں

کبھی دیکھتے تھے جو تفسیر قرآن
وہ اب دورِ نو کی پھبن دیکھتے ہیں
لگائی ہے لو جب سے امریکیوں سے
سنن کی جگہ سی این این دیکھتے ہیں

ان کا یہ شعر بھی اب حسب حال ہے کہ

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

کراچی میں ہونے والے مہاجر پٹھان فسادات کی یاد آج بھی اس شعر سے ہوجاتی ہے کہ
خود ہی خنجر بدست ہوں ہر دم
اور خود ہی لہو لہان بھی ہوں
میری مشکل عجیب مشکل ہے
میں مہاجر بھی ہوں پٹھان بھی ہوں

ایک سکہ بند شاعر کے مجموعے پر ان کی یہ پھبتی خوب جچتی ہے
پانچویں شعر پر جاناں نے یہ جھلا کے کہا
یہ کیا بکواس لگا رکھی ہے جاناں جاناں
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 388133 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More