نقو شِ محبت (تیسری قسط)

 قارئین سے معذرت(قسط کی ترتیب میں غلطی کے لئے معذرت خواہ ہوں)

․․اس نے لکھا تھا․․․․․آج میں نے روئے زمین کی ساری خو شیاں سمیٹ لی ہیں․․․․․یہ سب کچھ کتناانوکھا ہے․․․․․․کتنا عجیب، یہ جانے بغیر کہ آپ کون ہیں ، کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، کیا عادات ہیں․․کیسی فطرت ہے․․․․․․میں نے خود کو آپ کی محبت کی نذر کر دیا ․․․․․․دراصل مجھے یہ سب کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ․․․․میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں․․بے حد اچھے․․․شاید محبت میں یہی ہوتا ہے اگر یہی ہوتا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔میں نے سب کچھ داوٗ پر لگا دیا ہے، نہ مجھے خاندانی وجاہت کی پروا ہے نہ مال و دولت کی․․․میں صرف محبت کے لئے جینا چا ہتی ہوں، آپ کی قربت زندگی ہے․․․آپ کی گود میں جینا مرنا زندگی ہے۔۔۔۔․․․․․․

مزید لکھا تھا․․․․․․․․․آپ کتنا خوبصورت خط لکھتے ہیں․․․آپ کی تحریر میں جادو ہے․․․․آپ تو افسانہ نگار ہیں․․․․․آپ کے خیالات کتنے اچھے ․․․․․․کتنے پیارے ہیں․․․․․میں نے جس صورت کو دیکھ کر پیار کیا تھا، اس کے اندر کتنی خوبصورت روح بستی ہے․․․یہ میری تقدیر ہے نا ! کہ جواء کھیلا اور جیت گئی․․․․․․․!

یہ میری پہلی اور آخری جیت ہے اب میں جواء نہیں کھیلوں گی بلکہ جو جیت لیا ہے اس کی حفاظت کروں گی۔میں سچ کہتی ہوں․․آپ دیکھ لیں گے کہ میں آپ کے ساتھ کہاں تک جا سکتی ہوں․․․․․․میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں گی․․․․․․․․․․

جوں جوں میں خط پڑھتا گیا، توں توں تغیر آتے گئے،کبھی میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا اور اڑنے کو جی مچلتا․․․․کبھی ایسا گھمبیر ہو جاتا کہ آنسو نکل آتے․․․․․․بعض جملے بار بار پڑھتا اور ہر بار نئی لذت سے آ شنا ہو تا․․․خط کیا تھا ؛؛روح کو گداز کرنے والا نسخہ تھا․․․․․․․․․․
رات کو سب سپاہی سو گئے تو میں نے اسے خط لکھنا شروع کیا،اس کا خط سامنے کھلا پڑا تھا․․․میں ایک ایک جملہ پڑھتا اور جواب میں کئی جملے لکھ دیتا․․․ایسی آمد․․خیالات کا ایسا تانتا․․کہ لہر در لہر آتے اور صفحہ قرطاس پر بکھر جاتے․․․خط پڑھتے ہو ئے جتنی خوشی محسوس ہو تی تھی،

خط لکھتے ہوئے بھی ایسی ہی مسرت سے دوچار ہو رہا تھا․․․․․․․․․․․․

اب ہم روزانہ ایک دوسرے کو خط لکھتے اور شام کی ملاقات پر خطوط کا تبادلہ ہو تا یہ خطوط پندرہ بیس صفحات سے کم نہ ہوتے۔۔سوچتے․․․

سب کچھ تو لکھ دیا، کل کے لئے کیا باقی رہ گیا․لیکن جب کل آتا تو ایک نیا خط لکھا جاتا اور صفحات کی تعداد بھی اتنی ہی ہو تی․․․․․․․

مسلسل چار پانچ ماہ تک یہی ہو تا رہا ، اس سارے سلسلے میں ایسا لطف اور ایسی چاشنی تھی کہ بیان نہیں کر سکتا․․کھانا کھاتا تو ذہن میں فریحہ،

بازار جاتا تو آنکھوں کے سامنے فریحہ،بیرک میں ہوتا تو دل میں فریحہ،ڈپو میں ہوتا تو فہمیدہ اور اس کی دل لبھا دینے والی تحریریں․․․․․․․․

ایک خواہش․․شدید خواہش جو دل میں بار بار سر اٹھاتا ․․․․یہ تھا کہ وہ اکیلے میں ایسی جگہ مجھ سے ملے جہاں میں اسے چھو سکوں،پیار کر سکوں

کوٹھی سے تقریبا پچاس گز کے فاصلے پر سرونٹ کوارٹر تھے جو عموما خالی رہتے تھے میں اسے کئی دنوں سے مجبور کر رہا تھا کہ وہ کسی رات وہاں آئے تاکہ ہم جی بھر کر باتیں کر سکیں مگر وہ ہنس کر ٹالتی رہی جب میں نے ناراضگی کی حد تک مجبور کیا تو وہ راضی ہو گئی اور․․․․․․․․․․․․․․․․

آخر وہ تاریخی رات آگئی․․․․․․․․․․․

یہ شدید یخ اور تاریک رات تھی․․گیارہ بجنے میں دو منٹ باقی تھے وہ گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہن کر آئی تھے اور تھر تھر کانپ رہی تھی․․

یہ کانپنا سردی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ گھر سے پہلی بار نکلنے کا خوف تھا۔ میں نے اس کے نازک اور خوب صورت ہاتھوں، اس کے بالوں، اس کر رخسار، اس کے گردن، اس کی آنکھوں اور اس کے ہو نٹوں پر بو سوں کی بارش شروع کردی، کافی دیر تک دیوانوں کی طرح اسے چو متا رہا، اس کا خوف کسی قدر کم ہوا تو ہولے سے بولی․․․․․․․․․․․

آپ کی ضد پوری ہو گئی۔اب مجھے اجازت دیجئے۔‘‘

’’ ہر گز نہیں ۔‘‘ میں نے اسے پیار سے چپت مارتے ہو ئے کہا․․․․․آج تو آپ میرے رحم و کرم پر ہیں۔مرغ کی بانگ سے پہلے جانے نہیں دوں گا ۔۔‘‘

اس نے میرا ہاتھ اٹھایا اور ہو نٹوں سے لگایا․․․اس رات ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں․․․․․مستقبل کے منصوبے نبائے۔اسی رات یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا باپ احمدی ہے اور اس کی ماں شیعہ ہے مگر خود فریحہ کا عقیدہ وہی رہے گا جو میرا ہے اس عمر میں جب مذہب کے ساتھ گہری شیفتگی ہو تی ہے ، فریحہ کا مذہب صرف محبت تھا․․․․․․

فریحہ کا خیال تھا کہ رضا و رغبت سے ہماری شادی نہ ہو سکے گی اور اس کے لئے کو شش کرنا بے کا ر ہے۔وہ میرے ساتھ جانے کے لئے تیار تھی۔عدالت میں بیان دینے کے لئے بھی تیار تھی مگر ابھی اس کی عمر قانونی بلوغت سے چند ماہ کم تھی۔وہ میری چھاتی سے لگی ہو ئی بیٹھی تھی۔ہر چند کہ میں اپنے آپ پر قابو پانے کی کو شش کر رہا تھا لیکن باتوں کے ریلے کے بعد اب جذبات کا طو فان امنڈ پڑا تھا ْوہ میری دست درازی پر چڑنے کی بجائے تحمل سے بو لی․․․․․

خٹک صاحب ․․! اگر آپ مجھے شر مدہ کرنا چاہتے ہیں تو میں منع نہیں کروں گی۔میں آج بھی آپ کی ہوں اور کل بھی آپ کی رہوں گی․ میرا جسم اور روح سب آپ کے لئے ہیں، پھر عصمت بچا کر میں کیا کروں گی ْبس مجھے ایک احساس ہے کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ․․․․آپ میرے اس احساس کو زندہ رہنے دیجئےْ‘‘

فریحہ کے اس خوبصورت انکار سے مجھ پر بالکل اوس پڑ گئی۔میرے ہاتھ جو اس کے جسم کو ٹٹول رہے تھے، ڈھیلے پڑ گئے، محرومی اور سرد مہری کی ایک لہر سارے جسم میں دوڑ گئی اور میں نادم ہو کر ہونٹ چبانے لگ گیا۔جسموں کے کے باہمی رابطہ اور اتصال کے خلوص کا جام ٹوٹ گیا تو فریحہ نے چونک کر میری طرف دیکھا․․․․․․․․ ’’کیوں ۔۔ آپ ناراض ہو گئے․․․، چلئے ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، جو جی میں آئے کر ڈالئے․․‘‘․․

اس کا یہ لہجہ میرے دل میں کھب کر رہ گیا، اس کا گول حسین چہرہ تاریکی میں بھی دمک رہا تھاْمین نے اس کاچہرہ دونوں ہا تھوں میں میں لے کر ما تھا چو ما اور بے اختیار گلے لگا کر زار و قطار رو پڑا․․․․․․․․․
یہ عجیب رونا تھا․․․․․․․․․․․بے بسی کا ،، ندامت کا․․․ سب کچھ میرے اختیار میں تھا اور پھر بھی اختیار میں کچھ نہیں تھا․․․․․․․․․․․․․․․

روشن خٹک کے ناول ’’ نقوشِ محبت ‘‘ سے ماخوذ ( باقی اگلی قسط میں پڑھیئے)

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315452 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More