(ا) وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ
الْعَظِيم کا معنی
اِس کا لفظی معنی ہے : ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جو تمام
کائنات کا خالق ہے، تمام بزرگیوں اور عظمتوں کا مالک ہے، وہ اپنے فضل میں
بھی عظیم ہے۔ تمام فضل پر اسی کا تصرف اور اسی کی حکمرانی ہے۔ یہ انتہائی
معنی خیز بات ہے جسے سمجھنا ضروری ہے کہ وہ تمام فضل کا مالک کیسے ہے، وہ
خود فضل کیوں نہیں ہے؟ اس کی مثال اس طرح ہے کہ کسی مکان کے حوالے سے پوچھا
جائے کہ یہ مکان کس کا ہے تو کہنے والا کہے گا کہ یہ مکان فلاں صاحب کا ہے۔
اسی طرح جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرا تم پر احسان ہے
یعنی میں صاحبِ اِحسان ہوں۔ جب کہ زیادہ احسان کرنے والے کے لیے ذوالاحسان
کا لفظ بولا جائے گا۔ اگر آپ عربی لغت کے قواعد دیکھیں تو واضح ہوگا کہ اس
میں مضاف اور مضاف الیہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ایک ساتھ
آتے ہیں۔ ایک شخص مضاف ہوتا ہے اور دوسرا مضاف اِلیہ ہوتا ہے، جیسے صاحب
الکتاب، ذوالکتاب اور ذوالفضل میں مضاف اور مضاف الیہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔
ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ دونوں ایک ہی شخص ہوں۔ اس کی ایک مثال ’’رَسُوْلُ
اﷲِ‘‘ ہے جس میں ’’رسول‘‘ مضاف ہے اور لفظ ’’اللہ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ پس اس
قاعدہ کی رُو سے رسول، اللہ نہیں ہو سکتا اور اللہ، رسول نہیں ہو سکتا۔
اس نکتہ کی تفہیم کے بعد ہم دوبارہ قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اور اس اصول
کا اطلاق کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے کہا گیا ہے :
وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم (اور اﷲ بڑے فضل والا ہے)۔ ’’ذُو
الْفَضْلِ‘‘ مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ قاعدہ کی رُو سے مضاف اور مضاف اِلیہ
ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ فَضل اور ذُو
الْفَضْلِ بھی دو جدا جدا ہستیاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُس فضل کا مالک ہے۔ وہ
بذاتِ خود فضل نہیں، کیوں کہ فضل وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا
کردہ ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوگا کہ وہ خود فضل نہیں تو فضل کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے
کہ فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ
نے جملہ انسانیت کے لیے رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا اور جس کا نامِ نامی
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ذیل میں ہم اسی مؤقف کی تائید میں چند
نام وَر تفاسیر کی عبارات نقل کریں گے تاکہ کوئی اِبہام باقی نہ رہے
(ب) اَئمہ تفسیر کے نزدیک ’’فَضْلُ اﷲِ‘‘ سے مراد:-
سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے الفاظ ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ‘‘ اور
’’وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لیے وحی کیے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ورودِ مسعود عالم انسانیت کے لیے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے
فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر کسی نے فضل کو جیتی جاگتی صورت میں دیکھنا ہو
تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں دیکھ لے۔ اس نکتے کی
توضیح و تشریح خود قرآن مجید نے فرما دی ہے۔ ذیل میں ہم اس خاص آیت کریمہ
کے حوالے سے چند اہم تفاسیر کا حوالہ ذکر کر رہے ہیں :
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 68ھ) الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی
مراد یوں بیان کرتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ) المن (الْعَظِيْمِ) بالإسلام والنبوة علي محمد صلي
الله عليه وآله وسلم ، و يقال : بالإسلام علی المؤمنين، ويقال : بالرسول
والکتاب علی خلقه.
’’فضلِ عظیم یعنی دینِ اسلام اور نبوتِ محمدی کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے : مومنوں پر اسلام کی صورت میں احسان عظیم ہے، اور
یہ بھی کہا گیا ہے : مخلوق پر وجودِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
نزولِ قرآن کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔‘‘
فيروز آبادي، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس : 471
2۔ علامہ زمخشری (467۔ 538ھ) نے بیان کرتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا وهو أن يکون نبي أبناء عصره، و نبي أبناء
العصور الغوابر، هو (فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ).
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو عطا فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے
کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا
ہے۔ یہی اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔‘‘
زمخشري، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل وعيون الأقاويل فی وجوه التأويل، 4
: 530
3۔ علامہ طبرسی (م 548 ھ) مذکورہ الفاظ کی مراد یوں واضح کرتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) ذو المن العظيم علي خلقه ببعث محمد صلي
الله عليه وآله وسلم.
’’وہ اُس اِحسانِ عظیم والا ہے جو اُس نے اپنی مخلوق پر بعثتِ محمدی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے کیا۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان فی تفسير القرآن، 10 : 429
یعنی رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا
جانا اﷲ تعالیٰ کا عظیم تر فضل اور احسان ہے۔
4۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) فرماتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) بإرسال محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اور (اس کا یہ فضل) بعثتِ محمدی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوا۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 8 : 260
یعنی رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنی نوع انسان میں تشریف آوری
اور بعثت اﷲ کا بہت بڑا فضل (الفضل العظیم) اور انعام ہے۔
5۔ امام نسفی (م 710 ھ) فرماتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا. . . وهو أن يکون نبي أبناء عصره ونبي
أبناء العصور الغوابر.
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو عطا فرمایا۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے
لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا
ہے۔‘‘
نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 5 : 198
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اور بعثت مبارکہ اُن سب کو
اپنے دامنِ رحمت میں لیے ہوئے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے
پہلے تھے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد قیامت تک
آئیں گے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے زمانوں میں آنے والے اور
بعد میں آنے والے تاقیامِ قیامت آپ کے فیوضاتِ رسالت سے مستفیض ہوں گے۔ یہ
ہے ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ‘‘ کی تفسیر جس میں امام
نسفی نے دونوں معانی کا اِحاطہ کیا ہے۔ ’’وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا
يَلْحَقُوا بِهِمْ‘‘ میں وہ لوگ شامل ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
بعد پیدا ہوں گے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا
ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بھی رسول ہوں گے اور ان کا شمار
بھی اس زمرے میں ہو گا جن کے لیے ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘کا حکم اِلٰہی وارِد
ہوا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت باسعادت کی خوشیاں منائیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا ظہور اس عالم ارضی میں ان کے لیے مژدۂ عظیم بن کر آیا ہے جو ماضی، حال
اور مستقبل کی صدیوں میں آتے رہے یا آتے رہیں گے۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک
جاری رہے گا۔
6۔ امام خازن (678۔ 741ھ) ’’الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے
لکھتے ہیں :
أي علي خلقه حيث أرسل فيهم رسوله محمدا صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر فضل ہے جو اس نے اپنے رسول محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر فرمایا۔‘‘
خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 4 : 265
7۔ ابو حیان اندلسی (682۔ 749ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
لکھتے ہیں :
و (ذٰلِکَ) إشارة إلی بعثته عليه السلام.
’’ذٰلِکَ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی طرف
اشارہ ہے۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 8 : 265
8۔ امام ابن کثیر (701۔ 774ھ) تفسیر کرتے ہیں :
يعني ما أعطاء اﷲ محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم من النبوة العظيمة، وما
خص به أمته من بعثته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد وہ نبوتِ عظیمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو عطا فرمائی، اور (اس سے مراد) وہ خصائص ہیں جن سے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ذریعے اُمت کو نوازا گیا۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 364
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود اور نبوت دونوں
فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔
9۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
(ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ) النبي صلي الله عليه وآله
وسلم ومن ذکر معه.
’’(ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ) میں فضل سے مراد حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
مذکور لوگ ہیں۔‘‘
سيوطي، تفسير الجلالين : 553
10۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے
ہیں :
(ذٰلِکَ) إشارة إلي ما تقدم من کونه عليه الصلاة والسلام رسولا في الأميين
ومن بعدهم معلمًا مزکيا، وما فيه من معني البعد للتعظيم أي ذٰلِک الفضل
العظيم.
’’ذٰلِکَ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سورت کی ابتداء میں جو ذکر کیا
گیا ہے کہ رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمیوں اور
ان کے بعد آنے والوں کے درمیان انہیں تعلیم دینے اور ان کا تزکیہ کرنے کے
لیے معبوث فرمائے گئے ہیں، اور اِشارۂ بعید۔ ذٰلِکَ۔ تعظیم کے لیے ہے یعنی
بے شک وہ فضل عظیم ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفيسر القرآن العظيم والسبع المثاني، 28 : 94، 95
11۔ شیخ احمد مصطفیٰ مراغی (1300۔ 1372ھ) مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں لکھتے
ہیں :
أي وإرسال هذا الرسول إلي البشر مزکيا مطهرًا لهم، هاديا معلما، فضل من اﷲ،
و إحسان منه إلي عباده.
’’اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم انسانیت
کی طرف تزکیہ کرنے والا، پاک کرنے والا، ہدایت دینے والا اور علم دینے والا
بنا کر بھیجنا اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و اِحسان ہے۔‘‘
احمد مصطفي، تفسير القرآن الکريم، 10!28 : 96
12۔ عصر حاضر کے ایک نام وَر مصری مفسر شیخ طنطاوی جوہری (م 1359 ھ) لکھتے
ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) فإذا کان محمد قد أرسلته إليکم أيها
الأميون وإلي من يأتي بعدکم.
’’اور اﷲ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ میرا یہ فضل تم پر اُس وقت ہوا جب میں نے
اے اُمّیو (اَن پڑھ لوگو)! اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو
تمہاری طرف اور تمہارے بعد آنے والوں کی طرف بھیجا۔‘‘
طنطاوي جوهري، الجواهر في تفسير القرآن الکريم، 24 : 175
آیت کریمہ کی متذکرہ بالا تفاسیر سے واضح ہوگیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم بلااِستثناء سب کے لیے فضل ہیں۔ لہٰذا جب نصِ قطعی سے
یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے مراد حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو یہ اَمر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ اس رحمت
اور فضل کے حصول پر ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے حکم کے تحت عید میلاد النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا بھی عین مدعائے قرآن اور منشائے حکمِ
اِلٰہی ہے۔
جاری ہے--- |