لعنت کئے گئے وہ جنہوں نے کفر
کیا بنی اسرائیل میں داؤد اور عیسٰی بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی
نافرمانی اور سرکشی کا
سورہ المائدہ آیت نمبر۷۸
تفسیر خزائن العرفان
باشندگانِ اِیلہ نے جب حد سے تجاوز کیا اور سنیچر کے روز شکار ترک کرنے کا
جو حکم تھا اس کی مخالفت کی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے ان پر لعنت کی اور
ان کے حق میں بددعا فرمائی تو وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر
دیئے گئے اور اصحابِ مائدہ نے جب نازل شدہ خوان کی نعمتیں کھانے کے بعد
کُفر کیا تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے ان کے حق میں بددعا کی تو وہ خنزیر
اور بندر ہو گئے اور ان کی تعداد پانچ ہزار تھی ۔ (جمل وغیرہ) بعض مفسرین
کا قول ہے کہ یہود اپنے آباء پر فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ہم انبیاء
کی اولاد ہیں۔ اس آیت میں انہیں بتایا گیا کہ ان انبیاء علیہم السلام نے ان
پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسٰی علیہما السلام
نے ان پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسٰی علیہما
السلام نے سیدِ عالَم محمّدِ مصطفٰے صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی جلوہ
افروزی کی بشارت دی اور حضور پر ایمان نہ لانے اور کُفر کرنے والوں پر لعنت
کی۔
قارئین مُحترم قُوم ایلہ کا واقعہ تفسیر صاوی میں تفصیل کیساتھ موجود ہے
جِسے آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں
(تفسیر صاوی)
روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قُوم کے ستر ہزار لوگ عقبہ کے پاس
سمندر کے کنارے ایلہ نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی فراخی اور
خوشحالی کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ اللہ عزوجل نے اُن لوگوں کا اسطرح
امتحان لیا کہ سنیچر کے دن مچھلی کا شکار اُن لوگوں پر حرام فرما دیا اور
ہفتے کے باقی دِنوں میں شکار حلال فرما دیا۔ مگر اُن لوگوں کو اِس طرح
آزمائش میں مُبتلا فرما دیا کہ سنیچر کے دِن تو مچھلیاں پانی میں بیشمار
اور بے حِساب نظر آتیں لیکن اتوار سے لیکر جُمعہ تک مچھلیاں بہت کم نظر
آتیں اور بُہت کی ہی شکار ہوتیں لہٰذا شیطان نے اُنہیں ایک چالاکی سمجھائی
کہ ایسا کرو سُمندر سے کُچھ نالیاں نکال کر خشکی میں چند حوض بنا لو اور
سنیچر کے دِن اُن نالیوں کے دہانے کُھول دو اور جب تالاب مچھلیوں سے لبا لب
بھر جائیں تب اُن نالیوں کے دہانے بند کردو اور دوسرے دِنوں میں اطمینان سے
اُنہیں شکار کرتے رہو۔
اُن لوگوں کو یہ شیطانی ہتھکنڈہ بے حد پسند آیا اُن کمبختوں نے یہ نہ سوچا
کہ جب ہفتہ کے دِن مچھلیاں تالاب میں قید ہو جائینگی تو شکار تو ہوگیا اور
ہفتہ کے دِن شکار کی ربّ عزوجل کی جانب سے مُمانعت ہے اور یہ عمل اللہ کریم
کو بے حد نا پسند ہے کہ اُسکی نافرمانی کے زُمرے میں آتا ہے قارئین محترم
یہاں یہ واضح کرتا چَلوں کہ تمام یہودی اس میں شریک نہ تھے اور یہاں سے
یہودیوں کے تین گِروہ ہوگئے ۔ پہلا گروہ اُن کا تھا جو ہفتہ کے دن شکار کا
مُخالف تھا یہ گروہ شکار سے باز رہا اور اس عمل کی مُخالفت کرتا رہا۔ دوسرا
گروہ اُن لوگوں کا تھا جو پہلے گروہ سے کہتے تھے کہ اِنہیں نصیحت نہ کرو کہ
یہ لوگ مال کی مُحبت میں مُبتلا ہو کر اللہ عزوجل کی نافرمانی پر آمادہ
ہوچُکے ہیں عنقریب ان پر عذابِ اِلہی نازل ہوگا اور اپنے دل میں اِن لوگوں
کو بُرا جانتے تھے۔
جبکہ تیسرا گِروہ اُن بدبخت لوگوں پر مُشتمل تھا جنہوں نے اعلانیہ حُکم
خُداوندی کی مُخالفت کی۔ شکار بھی کیا اُسے کھایا بھی اور فروخت بھی کیا
اور اِس تمام کا کو جائز سمجھ کر ہٹ دھرمی کا مُظاہرہ کرتے رہے۔
جب نافرمان گروہ نے منع کرنے کے باوجود شکار کرلیا تو مانعین نے کہا اب ہم
اِن گُنہگاروں سے کوئی واسطہ نہ رکھیں گے لہٰذا اُن لوگوں نے گاؤں کو تقسیم
کردیا اور درمیان میں ایک دیوار قائم کر دی اور اپنی آمدورفت کے واسطے جُدا
راستہ بنا لیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے غضبناک ہو کر شکاری گروہ کیلئے لعنت فرما دی اس
کا اثر یہ نکلا کہ ایک دِن شکاری گروہ میں سے کوئی باہر نہ نِکلا تو دوسری
جانب کے چند لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھنا چاہا تب اُن لوگوں نے دِیکھا
کہ وہ سرکش شکاری گروہ ۔ بندر۔ کی شکلوں میں مسخ ہو چُکے ہیں اب لوگ اُن
مُجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر لپک لپک کر اپنے رشتہ
داروں کے قریب آتے اور اُنکے کپڑوں کو سونگھتے اور روتے تھے لیکن لوگ اُن
بندروں کو پہچاننے سے قاصر تھے۔
اُن بندر بن جانے والوں کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی ۔ یہ تمام بندر تین
دِن تک زندہ رہے اور اِس مُدت میں کچھ بھی نہ کھا پی سَکے بلکہ یوں ہی
بھوکے پیاسے تڑپ تڑپ کر مرگئے شکار سے منع کرنے والا گروہ ہلاکت سے مَحفوظ
رہا اور صحیح قُول یہ ہے کہ جن لوگوں نے دِل سے اس تمام عمل کو بُرا جانا
تھا اور خاموشی اختیار کی تھی وہ بھی ہلاکت سے محفوظ رہے (تفسیر صاوی جلد
اول سے ماخوذ)
محترم قارئین یہ واقعہ سورہ البقرہ اور سورہ الاعراف میں بھی موجود ہے
طوالت کے پیش نظر اس پر اکتفا کرتا ہوں۔ تفاسیر کی کُتب اُٹھا کر دیکھ
لیجئے آپکو بیشُمار واقعات مِلیں گے جِن سے معلوم ہوگا کہ نبی رحمت(صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بِعثت سے قبل عذاب اِلہی میں اقوام کی اقوام کے
چہرے مسخ ہوجایا کرتے تھے۔ اور بستیوں کی بستیاں اُلٹ جایا کرتی تھیں آسمان
سے پتھروں کی بارش ہوجایا کرتی تھی لیکن قربان جائیے سوہنے مصطفےٰ علیہ
السلام کی آمد کے ۔آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے بعد چہرے مسخ
ہونے کا عذاب ربِّ کریم کو گوارہ نہ ہوا لہٰذا ہم خوش قسمت ہیں کہ نبی
آخرُالزماں کی اُمت میں پیدا ہونے کا ہمیں شرف ملا وگرنہ تو بد اعمالی میں
ہم بھی اُس قبیلہ سے کم نہیں اور مُفسرین کرام اُن عذابوں کی ایک وجہ یہ
بھی بیان کرتے ہیں کہ پہلے کی اکثر اُمتیں اپنے انبیئا کرام کا مذاق اُڑایا
کرتی تھیں اور اُنکے قتل کے درپے رہتی تھیں الحمدُ للہِ عزوجل ایک سچا
مُسلمان رَسُولِ کریم (صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم) سے بے پناہ مُحبت کرتا ہے
اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی جان اپنا مال اپنے ماں باپ آل
اولاد سب کچھ قُربان کرسکتا ہے نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے
مُحبت کرتا ہے بلکہ آپکی آل آپکے اصحاب تمام انبیا کرام (علیہِمُ السلام)
کی بھی تعظیم کو جُز ایمان جانتا ہے اور جس شے کو بھی آپ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) سے نسبت ہوجائے وہ ہمارے لئے باعِثِ تعظیم ہے یہاں میں ایک
پنجابی کا خوبصورت شعر پیش کرنا چاہوں گا۔
جِینوں نسبت پاکاں دی مِل جائے او جنتی اے
پاویں کُتا ہُوے بیٹھا کوئی غار دے بُوہے تے
اس شعر میں شاعر نے سورہ کہف کے اُس کُتے کا تذکرہ کیا جو اصحاب کہف کیساتھ
ہولیا تھا اور غار کے دہانے پر چوکیداری کر رہا تھا مفسرین کرام کے مُطابق
یہ کُتا بھی جنتّی ہے“
محترم قارئین ذرا سوچیے جب ایک کُتے کو اصحاب کہف سے نسبت ہوجائے تو جنّت
کا حقدار ٹہرےِ۔ اور جِسے سیدُالابرار‘ سیدُالانبیاءَ سے نِسبت ہوجائے تو
اُسکا دَرجہ اور مُقام اللہ کریم کی بارگاہ میں کیا ہوگا؟
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنا رِشتہ اُن سے جوڑیں جِنکے سینے میں عِشق
مُصطفٰے کی لہریں مؤجزن ہوں اور اُن سے اپنی نَسلوں کو بھی بچانا ہماری ذمہ
داری ہے جو اس نِعمت عُظمیٰ سے مِحروم ہیں
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی
محمد کی محبت خون کے رشتوں سے بالا ہے
یہ رشتہ دینوی قانون کے رشتوں سے بالا ہے
محمد ہے متاع عالم ایجاد سے پیارا
پدر، مادر، برادر، مال، جان، اولاد سے پیارا
یہ جذبہ تھا ان مردان غیرتمند پر طاری
دکھائی جن کے ہاتھوں حق نے باطل کو نگونساری |