ہندوستانی مدارس کا نصاب و نظام تعلیم: فرسودگی سے گریز اورتجدید واصلاح کی ضرورت
(غلام رسول دہلوی, New Delhi)
اس حقیقت سے کوئی مجال انکار
نہیں کہ مدارس اسلامیہ ہمیشہ تعلیمات نبوی کے گہوارے رہے ہیں اور آج بھی
ایسے متعدد مدارس موجود ہیں جو اس سمت میں شاندار کارنامے انجام دے رہے ہیں۔
لیکن افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ آج اکثر مدارس اپنے فارغین کو دور
جدید میں پیش آنے والے علمی وفقہی چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنانے میں
کامیاب نہیں ہیں۔ دینی مدارس کے موجودہ حالات پر محض ایک سرسری نظر ڈالنے
سے ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ اپنے ان حقیقی مقاصد سے بہت
پیچھے ہیں جو ہمارے اصحاب بصیرت علماء اور اسلامی دانشوروان نے ان کے آغاز
سفر میں طے کیا تھا۔ آج مدارس کے نااہل، حریص اور خود غرض منتظمین جو مذہبی
اداروں کے مقاصد سے بالکل ہی ناواقف ہوتے ہیں، اکثر ہندوستانی مداس پر اپنی
اجارہ داری قائم کر چکے ہیں۔ لہٰذا، طلباء کو موجودہ عہد میں درپیش دینی،
علمی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے تیار کرنے کی تو بات ہی چھوڑ دیں، جو کہ
اسلامی تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد ہے، بہت سے مدارس میں مسلم بچے بنیادی
اسلامی تعلیمات سے بھی ناآشنا ہیں۔
ہندوستان میں مدارس کی قسمیں
ہندوستان میں بنیادی طور پر دو قسم کے مدرسے ہیں: ایک وہ جو محض مسلم عوام
کے مالی تعاون سے چلتے ہیں اور دوسرے وہ جو خاص طور پر یوپی، بہار، بنگال،
جھارکھنڈ اور آسام میں ریاستی حکومتوں سے منسلک اور امداد یافتہ ہیں۔ اس
طرح ہندوستانی مدارس اپنی متعلقہ ریاستی حکومتوں کے گرانٹ اور عوام کے مالی
تعاون پر انحصار کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے مدارس کی تین زمروں میں درجہ بندی
کی جا سکتی ہے: (1) مکتب (2) مدرسہ (3) دارالعلوم۔ اگر چہ ان کے درمیان
کافی فرق ہے کہ لیکن ہندوستان میں عام مسلمان ان کے درمیان کوئی فرق نہیں
کرتے اور ہر اسلامی تعلیمی ادارہ کو 'مدرسہ' یا ‘دارالعلوم’ ہی کہتے ہیں۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے بےشمار مدارس اور
حتی کہ چھوٹے چھوٹے علاقائی مکاتب بھی آج اپنے آپ کو ‘جامعہ’ یعنی
یونیورسٹی سے موسوم کئے ہوئے ہیں۔
تاہم، ان مدارس کا فکری وتربیتی نظام اورنصاب تعلیم ان کے مکاتب فکر کے
مطابق مختلف ہوتا ہے۔ لہذا، مدارس کے نصاب میں مختلف اسلامی نظریات، مذہبی
افکار اور گوں ناگوں عقائد کی ترسیل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سنی صوفی
مدارس میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے آفاقی روحانی نظریات کی تعلیم
دی جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ انتہاپسند وہابی
مدارس میں یہ اور اس طرح کے تمام تر صوفیانہ افکار سخت ممنوع ہیں۔
نصاب تعلیم کا ایک جامع نقطۂ نظر
اٹھارہویں صدی کے اوائل میں، ہندوستان کے دینی مدارس میں ایک جامع نصاب
تعلیم رائج تھا جس میں مذہبی اور فلسفیانہ علوم کے علاوہ عصری وسماجی علوم
کی متعدد کتابیں شامل تھیں۔ ان اسلامی مدارس نے مرکزی دھارے میں شامل عصری
وسماجی علوم مثلا ریاضی، فلکیات، طب، فلسفہ، منطق، جغرافیہ، ادب، كيمياء
جیسے مضامین کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی تفسیر، احادیث نبوی، فقہ اسلامی اور
تصوف کے گنج گراں مایہ کی شمولیت سے دینی وعصری نصاب تعلیم کا ایک جامع
نقطۂ نظر پیش کیا۔
در اصل، مدارس کا یہ نصاب بادشاہ اکبر کے زمانے میں میر فتح اللہ سیراجی نے
تیار کیا تھا۔ بعد کے زمانے میں ہندوستانی علماء نے روایتی اسلامی نصاب میں
چند ضروری اصلاحات اور ترامیم کیں۔ میر فتح اللہ سیراجی کے بعد غیر منقسم
ہندوستان میں درس نظامی کے نصاب پر کام کرنے والے قابل ذکر اسلامی علماء
ودانشوران میں سے چند یہ ہیں: مفتی عبدالسلام لاہوری، مولانا دانیال
چوراسی، ملاقطب الدین سہالوی، حافظ امان اللہ بنارسی، مولانا قطب الدین شمس
آبادی اور ملا نظام الدین سہالوی۔ ان تمام علماء کا تعلق مختلف زمانوں سے
رہا اور انہوں نے اسلامی نصاب تعلیم میں مختلف جہتوں کو متعارف کرایا۔ شاہ
ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ملا نظام الدین سہالوی نے
مرکزی دھارے میں شامل ہندوستانی مدارس کے تعلیمی نصاب کو از سر نو مرتب اور
مدون کیا۔ اور اسی وجہ سے مدارس کے نصاب تعلیم کا نام انہی کے نام پر"درس
نظامی" رکھا گیا۔
چونکہ ملا نظام الدین سہالوی فرنگی محلی کا تعلق ان علماء اور اساتذہ کے
خاندان سے تھا جو اس زمانے میں ہندوستان میں علوم اسلامی کے مرکز فرنگی محل
کی معروف درسگاہوں میں مامور تھے، اسی لیے ان کے پیش کردہ نصاب تعلیم پر نہ
کوئی زبردست تنقید کی گئی اور نہ ہی کوئی مخالفت۔ اس کے نتیجے میں درس
نظامی کا نصاب دہلی، فرنگی محل، لکھنؤ اور خیرآباد کے مرکزی دینی مدارس میں
بخوبی رائج ہو گیا۔ خاص طور پر لکھنؤ اور دہلی کے معروف اسلامی علماء نے اس
نصاب کی تائید کی اور اسے اپنے یہاں نافذ بھی کیا ، کیوں کہ وہ فرنگی محلی
علماء اور فقہاء کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔
درس نظامی کے نصاب کو نافذ کرنے کے پیچھے اس وقت کے اہل مدارس کے پاس بہت
ساری وجوہات تھیں۔ مفتی تقی عثمانی نے ان میں سے ایک کا ذکر اس طرح کیا ہے:
"جب مغلوں نے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا تو درس نظامی کا نظام
تعلیم جنوبی ایشیا میں وسیع پیمانے پر پھیل گیا۔ ہندوستان دینی علوم کے
مراکز اور تعلیمی اداروں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔ اسی نظام کی
وجہ سے ایشیائی معاشرہ عظیم کامیابیوں سے ہمکنار ہوا۔ہمیں درس نظامی کے
نظام کو اپنانا ضروری تھا، اس لیے کہ اس نے علم کے شعبوں میں ہزاروں ماہر
ین علوم و فنون کو پیدا کیا" (عثمانی MT ۔( (2000صفحہ: 6)۔
درس نظامی بنیادی طور پر کلاسیکل اسلامی علوم مثلاً تفسیر قرآن، روایت
حدیث، فقہ، بلاغت، عربی گرامر اور منطق وعلم الکلام وغیرہ کی نصابی کتب
(text books) پر مشتمل ہے۔ تاہم، اس نصاب میں اسلامی تاریخ اور یہاں تک کہ
ملکی وبین الاقوامی اسلامی تحریکات کے مطالعہ کو اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ اس
پہلو کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے ہم عہد وسطی میں تشکیل کردہ درس نظامی
کے اہم مضامین اور نصابی کتابوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں، جو آج بھی
اکثر ہندوستانی مدارس میں شامل درس ہیں:
عربی گرامر (علم الصرف): میزان الصرف، منشعب، پنج گنج، علم الصیغہ ، فصول
اکبری وغیرہ
عربی گرامر (علم النحو): نحومیر، شرح مائۃ عامل، ہدایۃ النحو، کافیہ،شرح
شذوز الذہب اور شرح جامی وغیرہ
علم بیان ومعانی: مختصر المعانی اور مطول
منطق : شرح شمس،سلم، رسالہ میر زاہد، ملا جلال، صغریٰ، کبریٰ، ایساغوجی
تہذیب، شرح تہذیب اور میر قطبی وغیرہ
فلسفہ: میبزی، شمس بازغہ اور صدرا وغیرہ
ریاضیات: قوشجہ، شرح چغمینی
علم الکلام: شرح مواقف، شرح عقائد نسفی
فقہ: نور الایضاح، قدوری، شرح وقایہ اور ہدایہ وغیرہ
اصول فقہ:اصول الشاشی، نورالانوار، توضیح و التلویح اور مسلم الثبوت وغیرہ
تفسیر قرآن: جلالین شریف، بیضاوی شریف
حدیث: مشکوٰۃ المصابیح، بخاری، مسلم، ترمذی، طحاوی، ابن ماجہ، شمائل ترمذی،
مؤطا امام محمد
سلفی، اہل حدیثی اور جماعت اسلامی سے منسلک مدارس کے علاوہ تقریبا تمام
مکاتب فکر کے مدارس میں عام طور پر درس نظامی کا یہی نصاب تعلیم رائج ہے۔
البتہ خارجی مطالعہ کے لئے ان کی اپنی اپنی کتابیں ہیں، اس لیے کہ عقائد،
اصول اور معتقدات کے حوالے سے ان کے مذہبی نقطۂ نظر میں خاصا اختلاف ہے۔
اس طرح ہندوستانی مدارس کے نصاب تعلیم مختلف نظریات اور اصول و معتقدات کی
نمائندگی کرتے ہیں جو کہ دین اسلام کی ایک دوسرے کی تشریح سے مختلف ہوتے
ہیں۔
موجودہ حالات میں ناگزیر تبدیلی کی ضرورت
صدیوں پرانے درس نظامی کے نصاب کو بغیر کسی بڑی تبدیلی، بنیادی اصلاحات
یااس میں کوئی خاطر خواہ ترمیم کے بغیر عالمگیر اسلامی نصاب تعلیم کے طور
پر آج بھی ہندوستانی مدارس میں پڑھایا جا رہا ہے۔ بلکہ طالب علموں کو ان
کے علمی وادبی ذوق یا صلاحیت کے موافق مضامین یا کتابوں کو منتخب کرنے سے
بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ آج ہندوستانی مدارس کا نصاب تعلیم فلسفیانہ
اختلافات اور نزاعی مواد سے بھرا ہوا ہے اور اسلامی تعلیمات کے روحانی حسن
سے خالی ہے۔ ماضی میں جن خوبصورت اسلامی تعلیمات کو ہندوستان کے صوفیاء
کرام نے اپنے مواعظ اور مکاتیب کے ذریعہ سے مرتب کیا تھا، وہ اس وقت مدارس
کے تعلیمی نصاب میں شامل تھیں۔ لیکن اب عصر حاضر کے ملکی دینی مدارس کے
نصاب میں وہ خوبصورت تعلیمی، اخلاقی اور روحانی مواد(Spiritual Study
Material) خال خال ہی کہیں شامل ہے۔ یہاں تک کہ آج سنی صوفی مدارس میں میں
بھی کشف المحجوب ، فوائد الفؤاد اور عوارف المعارف جیسی کتب تصوف شامل درس
نہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصوف کے یہ وہ تاریخی دستاویزات ہیں جن
میں آفاقی اسلامی اقدار، خلق خدا کی خدمت، بقائے باہم، سماجی ہم آہنگی اور
ساری انسانیت کے لیے محبت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اب وہ دن بھی چلے گئے جب شیخ
سعدی کی گلستاں اور بوستان جیسی دانائی ، حکمت اور اخلاقی اقدارکی تعلیم
دینے والی کتابیں ہندوستانی مدارس کے نصاب کا حصہ تھیں۔ دین و امت کا وسیع
ترین اسلامی تصور پیش کرنے کی بجائے مدارس اسلامیہ کے موجودہ نصاب کامقصد
اب طالب علموں کو صرف اپنے ہی فقہی مذہب، اعتقادی مسلک اور خانقاہی مشرب کی
واقفیت تک محدود رکھنا رہ گیا ہے۔
جدیدسماجی، سائنسی اور دیگرعصر ی علوم کی تو بات ہی چھوڑ دیں،آج مدارس میں
مذہبی مباحث کو بھی اس انداز میں نہیں پڑھایا جاتا جس سے دور جدید میں پیدا
ہونےوالے مسائل کا حل پیش کیا جاسکے۔ مدارس کے روایتی علماء ومدرسین اور
دقیانوس مہتمم حضرات اس بات کا تو پر زور دعویٰ کرتے ہیں کہ درس نظامی کا
نصاب عالمی سطح پر قابل نفاذ ہے، اور اس لیے اس میں کسی جزوی تبدیلی کی بھی
ضرورت نہیں۔ مگر عالمی حالات اور بین الاقوامی مسائل تو چھوڑیں، ملکی تناظر
میں بھی کیا ہمارے فضلائے مدارس کی علمی رہنمائی اور روحانی قیادت قابل
اطمینان ہے؟ مدارس کے اکثر ارباب بست وکشاد کا کہنا ہے کہ چوں کہ اسی درس
نظامی نے ماضی میں ماہراسلامی علماء، فقہاء اور متکلمین پیدا کئے ہیں،
لہٰذا حال اور مستقبل میں بھی اس کا نتیجہ ایسا ہی ہوگا۔ بعض کے خیال میں
تو جو شخص بھی درس نظامی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے وہ یا تو گمراہ ہے
یا مدارس کے خلاف کوئی سازشی کردار ادا کر رہا ہے۔
فرسودگی سے گریز اورتجدید واصلاح کی علمی تحریک ضروری
اس کے برعکس اگر درس نظامی کے نصاب کا ایک تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ
چلتا ہے کہ اس میں نہ صرف اختلافی مباحث، متروک و مہجور مواد اور فرسودہ
مضامین کا غلبہ ہے بلکہ یہ طلباء کی صحت مند ذہنی نشو نما اور روحانی تربیت
کے لئے بھی معاون وممد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں"تجدید"، "تحقیق" یا
"نظر ثانی" کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی، جو کہ اسلامی نظریۂ
تعلیم کے بنیادی اقدار میں شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث
مبارک اس پر شاہد ہے کہ "اللہ ہر 100 سال میں ایک ایسے انسان کو پیدا
فرماتا ہے جو دین کی تجدید کرتا ہے"۔ مدارس میں طالب علموں کو یہ نبوی پیشن
گوئی تو بار بار بتائی جاتی ہے، جبکہ مدارس خود ایسا کوئی ایک عالم پیدا
کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں جو اس مرتبہ پر فائز ہو اور دور جدید کی
گوناگوں تبدیلیوں اور علمی چیلنجنز کا سامنا کر سکے۔ نتیجتہ جب طلبۂ مدارس
فارغ ہوتے ہیں تو ان کے اذہان جمود و تعطل کا شکار اور ان کے نظریات بہت
محدود ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ کسی بڑے معاشرہ میں دینی، سماجی اور روحانی
انقلاب یا اصلاح کی تحریک کو کامیاب نہیں بنا پاتے۔
اخیر میں یہ بنیادی امر غور طلب ہے کہ درس نظامی یا دینی نصاب تعلیم میں
اصلاح و ترمیم سے مقصود نفس دین میں کوئی تبدیلی یا اصلاح ہرگز نہیں ہے۔ اس
لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے دین کو معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری
پیغام نبوت کے ساتھ ہی مکمل اور کامل و اکمل کر دیا ہے، جیسا کہ فرمان الہی
ہے: "آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور
کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔" در اصل آج ہمارے
دینی مدارس میں ایسے مصلحین کی ضرورت ہے جو مذہب اسلام کے تئیں مسلمانوں کے
موجودہ فرسودہ رویہ کی اصلاح کرسکیں اور عصر حاضر کے مسائل کے حل کے لئے
دین کے بنیادی اصول وتعلیمات کی تجدید و احیاء کر سکیں۔ جب تک مدارس کے
نصاب میں تجدید دین کی صحیح فہم اور بصیرت پیدا نہیں کی جائے گی ، ہم ان کے
ایک روشن مستقبل کی امید نہیں کر سکتے۔
یہ مقالہ حقیر راقم السطور کے انگریزی مضمون کا آزاد ترجمہ ہے۔ |
|