اصدق الصادقین،سید المتقین (حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ)
(Dr Iqbal Akhtar Ul Qadri, Karachi)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
الصدق الصادقین،سید المتقین،ا فضل البشر بعد الانبیاء،خلیفۃ الرسول، امیر
المومنین حضرت سید نا ابو بکر صد یق رضی اﷲ عنہ کی کیا شان بیان کی جائے کہ
والی کائنات سرکار دو عالم ﷺ خود جن کے احسان مند ہوں اور فرماتے ہوں کہ:
’’تمام انسا نوں میں مجھ پر سب سے زیادہ احسا ن ابو بکر صد یق کا ہے‘‘۔
آپ کی ولا دت واقعہ ء فیل (یعنی جب حبشہ کا بادشاہ ابرہہ ، ہاتھیوں کے
لشکرلے کر مکہ مکر مہ پر حملہ آور ہوا تھا ) سے تقریباً دوسال چار ماہ بعد
ہوئی ۱…… آپ حضور اکرم ﷺ سے دوسال چند ماہ چھوٹے تھے ۲ …… زمانہء جاہلیت
میں آپ کا اسم گر امی ’’عبد الکعبہ ‘‘تھا ،جسے بعد میں حضور اکرم ﷺ نے
تبدیل فرماکے’’ عبد اﷲ‘‘ تجو یز فرمایا ۳ ……آپ کے والد ماجد’’ ابو قحافہ‘‘
کا نام ’’عثمان‘‘ تھا ، جن کا تعلق بنو تیم قبیلہ سے تھا……آپ کا نسب اس طرح
ہے :
’’ ابو قحافہ عثما ن…… بن عامر…… بن عمر…… بن کعب…… بن سعد…… بن مرہ ……بن
کعب…… بن لو ی…… بن غالب…… بن فہر القر شی التیمی‘‘۔
آپ کی والد ہ ماجد ہ کا نا م’’ اُم الخیر سلمیٰ‘‘ تھا ، جن کا نسب یوں ہے :
’’اُم الخیر سلمیٰ…… بنت صخر ……بن عمر و……بن کعب…… بن سعد…… بن تیم‘‘ ۴
آپ’’ عتیق ‘‘اور’’ صد یق‘‘ کے لقب سے ممتاز ہیں ، جب کہ کنیت ’’ابو بکر‘‘
ہے …… آپ کا سب سے مشہور لقب’’ صدیق ‘‘ہے ……حافظ ابن عبد البر‘ اس کی یہ تو
جیح بیان کرتے ہیں :
’’آپ نے ہر معاملہ میں حضوراکرم ﷺ کی تصدیق کرنے میں پہل کی‘ اس لیے آپ کا
لقب صدیق رکھا گیا‘‘۔ ۵
چنانچہ دیلمی ، حضرت سیدہ اُم ہانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں
کہ حضورانورﷺ نے فرمایا:
’’اے ابو بکر! اﷲ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے‘‘ ۔۶
امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکر یم سے منقول ہے کہ یہ لقب اﷲ نے
خود نا زل فرمایا ، آپ حلفیہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’اﷲ تعالیٰ نے ابو بکر کے لیے’ صد یق‘ کا لقب آسمان سے نا زل فرمایا‘‘ ۔۷
حضرت امام حسن بصر ی اورحضرت قتا دہ رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ :
’’ آپ کا یہ لقب شب ِمعراج کے اگلے دن کی صبح سے مشہور ہوا‘‘۔۸
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مر وی ہے کہ شب
ِمعراج سے اگلے دن مشرکین مکہ‘ حضرت ابو بکر کے پا س آئے اور کہا ، اپنے
صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟……اب انہوں نے دعوٰ ی کیا ہے کہ راتوں رات بیت
المقد س کی سیر کر آئے ہیں!……اس پر حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ نے فر ما یاکہ:
’’ بے شک آپﷺنے سچ فر ما یا ہے،میں تو صبح شام اس سے بھی اہم اور مشکل امور
کی تصدیق کرتا ہوں ‘‘۔
اور پھر اس واقعہ کے بعد آپ کا لقب’’ صدیق‘‘ مشہور ہوگیا۔۹
حضرت ابو ہر یر ہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبر یل‘ حضور
اکرمﷺ کی خد مت میں حاضر تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا قریب سے گزر ہوا ،تو
جبر یل امین نے عر ض کیا ، یارسول اﷲ ! وہ ابو قحافہ کے صاجنر ادے ہیں ؟
حضور انور ﷺ نے فرمایا :……ہاں‘کیا تم آسمان میں رہنے والے انہیں پہچاتے ہو؟
جبر یل امین نے عر ض کیا :
’’قسم ہے آپ کو مبعوث فرمانے والے رب کی ! ابو بکر کا زمین کی نسبت آسمانوں
پر زیادہ شہرہ ہے ، وہاں ان کا نا م حلیم ہے‘‘ ۔۱۰
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی پرورش اور نشوونمامکہ مکر مہ میں ہوئی
…… کبھی کبھی تجا رت کے لیے باہربھی جاتے تھے…… آپ نہایت متمول شخصیت کے
مالک تھے…… قبیلہ قریش میں اخلا ق وعادات ، فضل وشر ف اور احسا ن کے لحاظ
سے اہم مقام کے حامل تھے …… قریش کے مشہور قبیلہ قارہ کے سر دار ابن دغنہ
نے آپ کے اوصاف ِحسنہ کا بایں الفا ظ اعتراف کیا ہے کہ :
’’اے ابو بکر ! بے شک آپ نا دار وں کی مدد کرتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ،
کمزوروں کا بو جھ اُٹھا تے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اورراہ ِحق میں مصیبت
زدہ افراد کے کا م آتے ہیں‘‘۔۱۱
حضرت سید نا ابو بکر صد یق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شروع ہی سے سلیم الفطر ت تھے
، شراب نوشی سے عمر بھر محفوظ رہے ……ایک بار صحابہ کرام نے پوچھا کہ زمانہ
ٔجاہلیت میں کبھی آپ نے شراب نو شی کی ہے ؟
آپ نے فرمایا :……’’ میں اﷲ کی پنا ہ مانگتا ہوں ‘‘ ……
صحابہ نے وجہ پو چھی توآپ نے فرمایا :
’’مجھے اپنی عزت اور مال کی حفا ظت مطلو ب تھی ،شراب نو شی عز ت وآبر و کے
لیے با عث نقصان ہے ‘‘ ……
حضو رانورﷺ کوجب یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا :
’’صدق ابو بکر‘صدق ابو بکر……(ابو بکر سچ کہتے ہیں واقعی انہوں نے کبھی شر
اب نو شی نہیں کی )‘‘۔۱۲
اُم المومنین حضرت سید ہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’آپ نے زمانہ ٔجاہلیت میں ہی شراب کو حرام کررکھا تھا‘‘ ۔۱۳
اﷲ اکبر !ایک ایسے معاشرے میں جہاں شراب کا عام رواج تھا اور کھلے عام بتو
ں کی پو جا کی جاتی تھی ،مگراﷲ کی شان کہ آپ اس دورجاہلیت میں بھی شراب
اوربت پرستی سے محفوظ رہے ……
حضور اکرمﷺ سے آپ کی شروع ہی سے دوستی تھی…… آپ ‘حضورانورﷺ کے ندیم خاص اور
راز داں تھے ……بعثت سے پہلے حضورانور ﷺ غیب سے آواز سنتے کہ کوئی پکا ر تا
:’’یا محمد‘یا محمد ‘‘……(ﷺ)اس خصوصی راز سے آپ نے حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ
کو آگاہ فرمادیاتھا ۱۴……آپ کے قبو ل اسلا م کے سلسلے میں بہت سے واقعات کتب
سیر ومنا قب میں مرقوم ہیں لیکن خود حضور اکرمﷺ کے بعض ارشادات کی روشنی
میں یہ امر یقینی ہے کہ آپ قدیم الاسلا م مسلمان ہیں……
چنانچہ حافظ ابن عسا کر ، حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت کرتے
ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
’’ابو بکرصدیق کے سوا میں نے جس کو اسلا م کی دعوت دی ، اس نے تو قف کیا ،
ابو بکر نے میری ہر با ت کو قبول کیا اور استقا مت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ ۱۵
قبو ل اسلا م کی اولین سعادت کسے نصیب ہوئی ؟اس کا حتمی تعین نہایت مشکل ہے
کیونکہ اس سلسلہ میں متعد دومتضا دروایات ملتی ہیں……ہاں اس حوالے سے تین
حضرات کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں :
۱……اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجہ الکبر ٰی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
۲……امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی ٰ اﷲ تعالیٰ عنہ ۳……امیرالمومنین
حضرت علی کر م رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
تاہم قو ل فیصل وہ ہے جو حضرت امام جلا ل الدین سیو طی رحمۃ اﷲ علیہ نے
سراج الا ُمہ سید نا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے
بیان کیا ہے کہ آپ نے اولیت ِایمان کی تمام روایات میں تطبیق کرتے ہوئے
نہایت قرین قیاس اور دل لگتی بات کہی ،آپ فرماتے ہیں کہ :
’’مر دوں میں سب سے پہلے سید نا ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘عورتوں میں
سب سے پہلے سید ہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہااور بچوں میں سیدنا علی المر تضیٰ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے اسلا م قبول کیا‘‘۔ ۱۶
آپ کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کی چار پشتیں شرف ِصحابیت سے بہرہ
یاب ہوئیں……یہ وہ اعزاز ہے کہ سوائے آپ کے کسی اور کے حصہ میں نہ آسکا……چنانچہ
مفسر قرآن صد ر الا فاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اﷲ علیہ
لکھتے ہیں کہ :
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد ین بھی مسلمان اور آپ کے
صاجنر ادے محمد اور عبد اﷲ اور عبد الر حمن اور آپ کی صاجنرادیا ں حضرت
عائشہ اور حضرت اسماء اور آپ کے پوتے محمد بن عبد الرحمن (اور نو ا سے حضرت
عبد اﷲ بن زبیر) ……یہ سب مومن اور سب شرف ِصحابیت سے مشرف‘ صحابہ ہیں رضی
اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین ……آ پ کے سواکوئی ایسا نہیں ہے جس کو یہ فضیلت حاصل
ہو کہ اس کے والد ین بھی صحابی ہوں ‘ اولا د بھی صحابی اورپوتے بھی صحابی ‘
چا رپشتیں شرف ِصحا بیت سے مشر ف ہوں‘‘۔ ۱۷
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ:
’’ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اپنی قو م کی تالیف قلب کرنے والے اور
محبو ب شخصیت کے حامل تھے ، وہ قریش کے نسب اور ان کے تمام معاملا ت سے خوب
واقف تھے ۔ آپ تاجر ، خلیق اور نیک سیرت انسان تھے ۔ آپ کی قو م کے لوگ آپ
سے نہایت درجہ انس رکھتے اور اپنے امور میں آپ کے علم اور تجربے سے مستفید
ہوتے ، آپ خوش مجلس تھے ، جب آپ نے دعوت اسلا م کا کا م شروع کیا ،تو آپ کی
ترغیب سے حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبد الرحمن
بن عوف رضی اﷲ عنہم اجمعین جیسے جلیل القدر لوگ مشر ف با سلا م ہوئے‘‘ ۔ ۱۸
حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں اسلا م لانے والے
اِن پانچ حضرات کا تعلق اُن دس افراد پر مشتمل مقدس جماعت سے ہے جنہیں عشر
ہ مبشر ہ کہا جاتاہے۱۹ ……سرکا ردوعالم ﷺ نے انہیں ایک ہی مجلس میں جنت کی
بشا رت فرمائی تھی …… عشر ہ مبشرہ میں باقی پانچ دوسرے حضرات کے اسمائے
گرامی یہ ہیں:
۱……حضرت ابو بکر صدیق ۲…… حضرت عمر فاروق ۳…… حضرت علی
۴…… حضرت سعید بن زید ۵…… اور حضرت عبید ہ بن حضرت جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہم
اجمعین ۔۲۰
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی ذات کے ساتھ اپنی تمام
دولت بھی اشاعت اسلا م کے لیے وقف کردی تھی…… ساری کی ساری دولت مظلو م
اورکمزو ر غلاموں کی آزادی اور مسلمانوں کی مد دپر خر چ کردی ۲۱ ……غرض اسلا
م کے ابتد ائی دور سے لے کر تا دم آخرحضرت سید نا صد یق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی خدمات نا قا بل فرامو ش ہیں ……خدمت اسلا م کے لیے آپ کی ان ہی مساعی
جمیلہ کے سبب والی کائنات سرکار دو عالم حضوراکرم ﷺ نے فرمایاتھا کہـ :
’’تمام انسا نوں میں مجھ پر سب سے زیادہ احسا ن ابو بکر صد یق کا ہے‘‘۔
سایۂ مصطفی، مایۂ اصطفا
عزّ و نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل
ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام
اصدق الصادقین، سید المتقین
چشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام
حواشی و حوالے:
۱……ابن عساکر،مختصر تاریخ دمشق،جلد:۱۳،ص:۳۷ ۲……تاریخ الخلفاء،ص:۳۰
۳……الا ستیعاب،جلد:۱،ص:۳۲۹ ۴……الکامل فی التاریخ،جلد:۲،ص:۴۰۲
۵……الاستیعاب،جلد:۱،ص؛۳۳۱ ۶……سبل الہدٰی،جلد:۱،ص:۲۵۲
۷……ابن عساکر،مختصر تاریخ دمشق،جلد:۱۳،ص:۵۲ ۸……تاریخ الخلفاء،ص:۲۹
۹……تاریخ الخلفاء،ص:۲۹ ۱۰……الریاض النضرۃ،جلد:۱،ص:۸۲
۱۱……صحیح بخاری شریف،جلد:۱،ص:۵۵۲ ۱۲……الریاض النضرۃ،جلد:۱،ص:۲۰۱
۱۳……الریاض النضرۃ،جلد:۱،ص:۲۰۱ ۱۴……الریاض النضرۃ،جلد:۱،ص:۹۲
۱۵……ابن عساکر،مختصر تاریخ دمشق،جلد:۱۳،ص:۴۴ ۱۶……تاریخ الخلفاء،ص:۳۴
۱۷……مولانا نعیم الدین مرادآبادی،خزائن العرفان فی تفسیر القرآن،زیر
آیت:۱۵،سورۂ احقاف
۱۸……الاصابہ فی معرفتہ اصحابہ،جلد:۲،ص:۲۳۴ ۱۹……نور الابصار،ص:۵۳
۲۰……جامع ترمذی،باب مناقب عبدالرحمن بن عوف،جلد:۲،ص:۲۳۹
۲۱…… الاصابہ فی معرفتہ اصحابہ،جلد:۲،ص:۳۳۴ ۲۲……امام احمد رضا خاں،حدائق
بخشش،مطبوعہ بریلی |
|