مسالک کی چھاپ
(Abdul Majid Malik, Lahore)
خلافت عباسیہ 750ء میں قائم
ہوئی ،عباسی خلفاء میں سب سے شہرت خلیفہ ہارون الرشید کو حاصل رہی ،جو اہل
علم کے انتہائی قدردان تھے،ان کی سلطنت تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ،انہیں
خاتون اول ملکہ زبیدہ سے بے پناہ محبت تھی ،ایک بار شدت جذبات میں آ کر کہ
دیا کہ آج کی رات اگر تم نے میری سطلنت میں بسر کی تو تمہیں تین طلاق ہیں
اور تم میری زندگی سے نکل جانا۔جب خلیفہ کے ہوش ٹھکانے آئے تو انہیں اپنی
حماقت کا احساس ہوا،چنانچہ مفتیان کرام کو اکٹھا کیا گیا کہ اس مسئلے کا حل
بتایا جائے ،سبھی نے کہا کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ اگر ملکہ عالیہ کو
سلطنت سے باہر بھیج دیا جائے تو پھر علیحدگی نہیں ہو گی ،اور مسئلہ یہ تھا
کہ سلطنت کی حدود تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ،اس وقت دنیا نے اتنی
ترقی نہیں کی تھی جس کی وجہ سے فضائی سفر کی سہولت تو تھی نہیں ،اور سبک
رفتار گھوڑے کے ذریعے بھی اس کی حدود کو رات سے پہلے پار کرنا ممکن نہیں
تھا ،خلیفہ ہارون الرشید نے مفتیان کرام سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی امام
ابو حنیفہ کا شاگرد ہے تو انہوں نے کہا کہ ایک نوجوان دھوبی کا بیٹا ہے
لیکن وہ یہاں موجود نہیں ہے ،خلیفہ نے ہرکارے دوڑائے کہ اسے بلایا جائے ،اسے
حاضر کیا گیا اور مسئلہ بتا کر اس کا حل دریافت کیا گیا تو نوجوان نے کہا
کہ علیحدگی نہیں ہو گی اگر ملکہ عالیہ آج کی رات مسجد میں بسر کرے اور ساتھ
میں سورۃ جن کی آیت نمبر ۱۸ کا حوالہ دیا کہ مساجد تو اﷲ کے گھر ہیں ان پر
کسی کی حکومت نہیں ،وہ نوجوان ابو یوسف ؒ تھے جن کی فراصت کو دیکھتے ہوئے
بعد میں خلیفہ ہارون الرشید نے پوری سلطنت کا قاضی القضاء (چیف جسٹس) مقرر
کر دیا تھا۔
مندرجہ بالا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک وقت تھا جب مساجد صرف
مسلمانوں کی تھیں ان پر کسی مسلک کی چھاپ نہیں ہوتی تھی ،بلکہ مسافر رات کو
تھک ہار کر مساجد میں ٹھہرا کرتے تھے ،ان مساجد سے محبت کا درس دیا جاتا
تھا ،امن کا سبق پڑھایا جاتا تھا ،باہمی محبت و یگانگت کے فروغ کے لئے
محافل منعقد ہوتی تھیں ،مساجد کو معاشرے میں ایک ایسا مقام اور اہمیت حاصل
تھی کہ باہمی جھگڑوں کو مساجد میں ختم کروایا جاتا تھا لیکن پھر کیا ہوا
،پھر ایک ایسی ہوا چلی جس نے سب کچھ الٹ کا رکھ دیا ،مساجد جو صرف مسلمانوں
کی تھیں ان پہ مسالک کی چھاپ لگ گئی ،کوئی دیو بندی کی ،کوئی بریلوی کی
،کوئی اہل حدیث کی،کوئی وہابی کی ،کوئی اہل تشیع کی ،کوئی اشاعت تو حید کی
تو کوئی کسی اور مسلک کی مسجد بن گئی ،اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ ہر کسی نے
چار اینٹیں ڈال کر اپنی مسجد بنا لی ،لاؤوڈ اسپیکرز سے ایک دوسرے کے خلاف
نفرت کے ترانے گونجنے لگے ،منبر رسولﷺ جہاں محبت کا درس اور بھائی چارے کی
باتیں کی جاتی تھیں وہاں سے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کئے جانے
لگے ،مساجد جہاں مسافر ٹھہرا کرتے تھے وہاں تالے پڑ گئے ،اور ہر کسی نے
اسلام کے احکامات کو تو بھلا دیا ،سنت نبویﷺ کو تو پس پشت ڈال دیا ،دلوں کو
سنوارنے کی بجائے صرف مساجد کو ہی سجانے سنوارنے لگے ان کے اوپر اپنے مسلک
کا لیبل لگانے لگے ۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پراناپاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اگر یہی روش برقرار رہی ،ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ،ایک
دوسرے کو واجب القتل قرار دیتے رہے تو پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرور ت نہیں
پڑے گی بلکہ ہم خود ہی ایک دوسرے کے لئے کافی ہو نگے ،پھر روز خون بہے
گا،روز لاشیں اٹھائیں گے اور ہر روز ماتم کیا کریں گے ،اس لئے ہم مساجد کو
صرف اﷲ کا گھر ہی بنائیں وہاں کسی کی اجارا داری کی بجائے صرف مسلمان اپنے
رب کی احکامات کی پیروی کرتے دکھائی دیں،آپ کسی کو برا نہ کہیں ،کسی پر
آوازیں نہ کسیں ،کوئی ہاتھ کھول کر نماز پڑھتا ہے تو اسے پڑھنے دیں ،کوئی
ہاتھ باندھ کر پڑھتا تو بھی پڑھنے دیں ،کوئی رفع یٰدین کرتا ہے تو اسے بھی
مسلمان سمجھیں جو نہیں کرتا اسے بھی مسلمان ہی سمجھیں ،کوئی آمین بلند آواز
میں کہتا ہے تو کہنے دیں جو آہستہ کہتا ہو تو اس پر بھی قدغن نہ لگائیں
،کوئی پاؤں کھول کر نماز میں قیام کرتا ہو تو اسے بھی اجازت ہو اور جو سمیٹ
کر نماز ادا کرتا ہو تو اس کو منع نہ کریں۔اگر ہم نے یہ کر لیا تو ہم مسالک
کی بجائے صرف مسلمان بن جائیں گے اور جس دن ہم مسلمان بن گئے ،مسالک کی
چھاپ ہٹ گئی تو تفرقوں میں بٹی یہ قوم دنیا کی سب سے مضبوط قوم ہو گی ،لیکن
اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہمارا مذہب اسلام ہے
جو کسی کو برا بھلا نہیں کہتا ،جو امن کا درس دیتا ہے ،بھائی چارے کی بات
کرتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کو قتل
کرنے کے مترادف ہے۔ |
|