۱۴ فروری ساری دنیا میں ویلنٹائن
ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گذشتہ سال اس دن دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند
کیجریوال نے اقتدار کی دیوی کو محبت بھرا گلابدینے کے بجائےببول کا کانٹا
پکڑا دیا اوراسی کے ساتھ حمایت والا کانگریسی ہاتھ لہولہان ہوگیا۔ اس طرح
جن لوک پال بل کی بنیاد پراصول نظریات کی خاطر اقتدار سے سبکدوش ہونےوالا
نادرومنفرد واقعہ ہندوستان کی موقع پرست سیاست میں رونما ہوگیا۔اپنی
الوداعی تقریر میں کیجریوال نے کہا تھا’’میں وزیراعلیٰ کی کرسی ایک بار تو
کیا ہزار بار چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو دیش کے لیے اپنی
جان تک دینے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماراآخری اجلاس ہے۔‘‘
اس سال پھر ایک بار اقتدار کی دیوی۱۴ فروری کو سرجھکائے اروند کیجریوال کے
سامنے کھڑی تھی ۔ کیجریوال نے جب اس کے گلے میں ور مالا ڈالی اور اگنی کے
پھیرے لینے جارہے تھے تو اخبار نویسوں کو کہانی ولن لوک پال یاد آگیا
انہوں نے پوچھا جن لوک پال بل کب پاس ہوگا ؟ اروند کیجریوال نے جواب دیا
عوام نے ہمیں ۵ سال کا وقت دیا ہے۔ یہ جملہ سن کر اقتدار کی دیوی خوشی سے
جھوم اٹھی اس لئے کہ لوک پال سے بڑا اس کا رقیب روسیاہ کوئی اور نہیں ہے۔
اسے یقین ہوگیا کہ کیجریوال اب خبطی سیاستداں نہیں رہا۔ ان کی رفاقت کواب
دوام حاصل ہوگا۔ اس لئے کہ جو وزیراعلیٰ محض ۲۸ ارکان اسمبلی کے ساتھ لوک
پال کے بغیر ۵۰ دن کا وصال برداشت نہ کرسکا وہ ۵۷ ارکان کی حمایت کے
باوجود۵ سال تک صبرکرنے کیلئے اسی تیار ہوگیا کہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔
اقتدار کی دیوی کو اروند کیجریوال کا وہ تاریخی جملہ بھی یاد آیا کہ جس نے
ماضی میں اسے شرمسے پانی پانی کردیا تھا کیجریوال نے کہا تھا ’’دوستو! میں
بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ میری کوئی اوقات نہیں لیکن جب سے ہماری سرکار بنی
ہمارے وزرا نے دن رات کام کیا۔ ہم نے ایمانداری سے کام کیا۔‘‘ اقتدار کی
دیوی کو احساس ہوا کہ اب یہ کوئی چھوٹا آدمی نہیں ہے۔ اس بار وہ میٹرو میں
بیٹھ کرحلف برداری کی خاطر رام لیلا میدان تک نہیں آیا ہےبلکہ اپنے وزراء
کے ساتھ قافلہ کی شکل میں رام لیلا کیلئے آیا ہے ۔ اقتدار کی دیوی کو اس
موقع پرمریادہ پرشوتم رام چندر جی کے راون کو شکست دینے کے بعد ایودھیا میں
واپسی کا منظر یاد آ گیا جبکہ چہارجانب دیپاولی کا جشن منایا جارہا تھا۔
بھارت کی دھرتی پراپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر اقتدار کی دیوی کو احساس ہو
گیا تھا اب عیش و عشرت کےاچھے دن آگئے ہیں اور اسی کے ساتھ ایمانداری کے
ساتھ دن رات کام کرنے کے دن لدچکے۔
اروند کیجریوال نےاپنی الوداعی تقریر میں ایک اور دلچسپ بات کہی تھی ’’ہم
لوگ پہلی بار منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے تھے تو ہم نے سوچا تھا کہ یہاں
بہت سارے سینئر پارلیمینٹیرین موجود ہیں۔ ہم اِن سے اسمبلی کے آداب اور
سیاست کے طور طریقے سیکھیں گے۔ لیکن کانگریس اور بی جے پی کے ارکان نے کیا
کیا۔ انھوں نے میرا مائیک توڑ دیا اور میرے کاغذ پھاڑ دیئے۔ اس سے مجھے بہت
صدمہ اور مایوسی ہوئی ہے۔‘‘ پارلیمانی انتخاب میں ہاتھ آنے والی زبردست
ناکامی کے بعد اس صدمہ اور مایوسی میں یقینا ً اضافہ ہوا ہوگا اوراس کے بعد
جب کیجریوال نےخوداحتسابی کے عمل سے فزرے ہوں گے تو انہیں احساس ہوا ہوگا
کہ کانگریس ، بی جے پی اور دیگر علاقائی جماعتوں سے بہت کچھ سیکھے بغیر وہ
سیاست کے گندے تالاب میں پھل پھول نہیں سکتے۔
عام آدمی پارٹی (عآپ) میں برپا ہونے وا
لی حالیہ سرپھٹول کے پس پردہ وہی سبق کارفرماہے جسے سیکھنے کیلئے اروند
کیجریوال ایوانِ اقتدار میں گئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں قومی سیاست کا
درس بہت جلد ازبر کرلیا ہے یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور بی جےپی کا اصلی چہرہ
دکھلانے والے کیجریوال کا اپنا رعونت بھراچہرہ ساری دنیاکےسامنے آ گیا ہے
۔ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کو پارٹی سے نکالنے کیلئے جو حربہ استعمال
کیا گیا اسے دیکھ کر مودی جی بھی حیران ہوں گے کہ پارٹی کے اندر اپنے
حریفوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے جوخونریزی انہوں نے کی اس کی چنداں ضرورت
نہیں تھی اسکے بغیربھی نہایت صفائی سےیہ کام ہوسکتا تھا بقول مرحوم کلیم
عاجز؎
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
عام آدمی پارٹی کے اختلافات دہلی کی انتخابی مہم کے دوران سامنے آئے تھے۔
وہ بہت ہی بنیادی نوعیت کے اختلافات تھے مثلاً داغدارپس منظر کے لوگوں کو
پارٹی کا ٹکٹ دیا جانا۔ امیدوار کے پاس شراب کا پکڑا جانا اور غلط طریقوں
سے چندہ جمع کرنا وغیرہ۔ ہندوستان کی سیاست میں یہ معمولی باتیں ہیں ۔ اگر
عآپ بھی ایک عام سی سیاسی جماعت ہوتی تو ان کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا
جاتا لیکن چونکہ لوگ اسے ایک اصول ونظریات کی حامل جماعت سمجھتے تھے اس لئے
بجا طور پر اعتراض کیا گیا۔ اس کی اصلاح کوئی بہت مشکل کام نہیں تھا ۔ اگر
آئندہ کیلئے داغدار لوگوں کو ٹکٹ دینے سے توبہ کرلی جاتی ، خاطی رکن
اسمبلی کی سرزنش کی جاتی اور چندہ کے طریقہ کو مزید صاف شفاف بنانے کے لئے
ضروری اقدام کئے جاتے تو عوام کی نظر میں اس سےعآپ کا احترام بڑھ جاتا
لیکن عوام کی اہمیت تو اقتدار میں آنے کیلئے ہوتی ہے سو وہ ۵ سال تک کیلئے
ختم ہوگئی اب تو منتخب شدہ ارکان زیادہ اہم ہو گئے ہیں ۔
عآپ کی جوان قیادت نےاپنی ناتجربہ کاری کے سبب اصولی اختلافات کو شخصیات
کی جنگ میں بدل دیا اور پارٹی کی توسیع کو جھگڑے کی بنیاد قرار دے دیا۔
اروندکیجریوال کےحامیوں نے اعتراض کا منطقی جواب دینے کے بجائے نہایت رکیک
ذاتی الزامات لگانےپر اتر آئےاور معترضین کو کیجریوال اور پارٹی کا دشمن
قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اروند کیجریوال کو قومی کنونیر کے
عہدے سے ہٹا کر پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی ان جماعتوں میں
بھی جو انحطاط کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں یہ دو عہدے مختلف لوگوں
کے پاس ہوتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کٹھ پتلی ہوتا
ہے) اس لئے دو مختلف لوگوں کی ان عہدوں پر فائز کرنے کا مطالبہ غیر معقول
نہیں تھا۔ اگر اروند ازخود ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرکے دوسرا عہدہ کسی
اور کے حوالے کردیتے تو سارا اختلاف اپنے آپ ختم ہوجاتا لیکن افسوس کے
ایسا نہیں ہوا۔ جان دینے والا کرسی نہ دے سکا۔
پارٹی کی توسیع کے حوالے سے اروند کیجریوال کا فیصلہ بھی کئی معنیٰ میں
مضحکہ خیز ہے ۔ اول تو یہ پارٹی کا متفقہ فیصلہ ہے اس لئے اسے کوئی فرد
واحد نہیں بدل سکتا ۔ اروند کیجریوال کی سوراج نامی کتاب جو آج بھی انٹر
نیٹ پر موجود ہے حکومت کو ہر اہم فیصلے سے قبل عوام سے مشورے کا پابند کرتی
ہے۔ اروند کیجریوال نےگذشتہ انتخاب سے قبل کہا تھا کہ ہم کانگریس یا بی جے
پی کا تعاون نہیں لیں گےلیکن کانگریس کے تعاون سے حکومت سازی سےپہلے وہ
عوام میں گئے اور ان کی توثیق حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف
لیا۔ اس مثال کی روشنی میں پارٹی کی توسیع کا فیصلہ بھی علاقائی کارکنان کے
مشورے سے ہونا چاہئے تھا لیکن اس کیلئے کیجریوال نے بغیر کسی سے پوچھے
فرمان جاری کردیا اور سوراج یعنی عوام کی خودمختاری کو اپنے ذاتی اختیار
میں لے لیا۔
عآپ کے اندرونی خلفشارکا آتش فشاں جب پھٹا تو پہلے کیجریوال نے مودی جی کی
مانند چپیّ سادھ لی اور جب بولے بھی تو کسی فلسفی بابا کے سمان کہا مجھے یہ
سب دیکھ بہترنجیدہ ہوں حالانکہ اگروہ کوئی واضح موقف اختیار کرلیتے یا اپنے
حامیوں کو ڈانٹ دیتے تو صورتحال ہر گزنہیں بنتی ۔ عام آدمی پارٹی کا یہ
امتیاز ہے کہ اس میں ایک داخلی لوک پال ہے اور پارٹی کے دستور میں اس کے
متعلق درج ہے کہ ’’ لوک پال پارٹی کا رکن نہیں ہوگا مگر اسے پارٹی کی سب
سےاعلیٰ فیصلہ ساز مجلس سے زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے‘‘۔ اس عہدے پر فائز
ایڈمرل رام داس نے پارٹی میں داخلی جمہوریت کے فقدان ، باہمی اعتماد کی کمی
اور تعلقات کےتعطل پر تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک
قومی جماعت کیلئے اپنے آپ کو کسی ایک ریاست تک محدود کردینے کا موقف درست
نہیں ہے لیکن سارے ملک کو لوک پال کے تحت لانے کا مطالبہ کرنے والوں نے خود
اپنی پارٹی کے لوک پال کی رائے ٹھکرا دیا اس لئے کہ وہ پارٹی سپریمو کی
مرضی کے خلاف تھی۔
اس ڈرامہ کا کلائمکس خاصہ دلچسپ ہوا۔ یوگیندر یادو تو پہلے ہی سے مفاہمت کی
بات کررہے تھے لیکن پرشانت نے بھی اپنا موقف نرم کرتے ہوئے اروند کیجریوال
سے ملاقات کی کوشش کی تاکہ پی اے سی سے قبل کوئی درمیان کی راہ نکل
سکے۔مائنک گاندھی کے مطابق پارٹی میں اتحادو اتفاق کو برقرار رکھنے کی خاطر
کئی تجاویز سامنے آئیں مثلاً یہ دونوں لوگ معافی مانگ لیں جو سراسر ہتک
آمیز مطالبہ تھا ۔ اس کے علاوہ پی اے سی کی تشکیل جدید کی جائے اور نئے
ارکان کی فہرست سے ان کا نام خارج کردیا جائے یا چونکہ اروند کیجریوال ان
کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے اس لئے ان کی رکنیت کوتو برقرار رہےمگر وہ اجلاس
میں شرکت سے بازرہیں وغیرہ لیکن کیجریوال کے حامی انہیں رسوا کرکے نکالنے
پر مصر تھے اس لئے سسودیہ نے یہ نامعقول قرارداد پیش کرکےرائے شماری پر
اصرار کیا ۔
عآپ کی سیاسی امور کی کمیٹی میں کل ۲۱ ارکان ہیں جن میں سے دو کیجریوال کے
خوف سے غیر جانبدارہوگئے۸ نے مخالفت کی اور ۱۱ کی حمایت سے یوگیندر یادو
اور پرشانت بھوشن کو پارٹی کے پی اے سی سے نکال باہر کیا گیا یعنی اگر دو
لوگ ووٹ دیتے تو ۱۰ اور ۱۱ کی بات تھی۔ اس طرح یہ متفقہ فیصلہ تو درکنار
بڑی اکثریت کی رائے بھی نہیں تھی۔ ماینک گاندھی کو دھمکی دی گئی کہ اگر
انہوں نے ان حقائق کا انکشاف کیا تو انجام ٹھیک نہیں ہوگا مگر انہوں
نےعمران عظیم کی مصداق حق گوئی سے کام لیا ؎
لوآج ہار کے ہم بھی زبان کھولتے ہیں
تمہارے شہر کے آئینے جھوٹ بولتے ہیں
کیجریوال جی کے ذریعہ اس طرح اجلاس کا بائیکاٹ کرنا نریندر مودی کے اس رویہ
کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے اپنے سب سے بڑے مخالف سنجے جوشی کو پارٹی کے
اعلیٰ کمان میں آر ایس ایس کے ذریعہ نامزد کرنے کے خلاف اختیار کیا ۔ وہ
مختلف بہانوں سے پارٹی کے مرکزی مجلس انتظامیہ کےاجلاس سے اس وقت دور رہے
جب تک کہ جوشی کو ذلیل کرکے نکال باہر نہیں کیا گیا۔سوئے اتفاق سے فی الحال
سیاسی افق پر بظاہر مختلف نظر آنے والی ان دومقبول ترین شخصیات میں زبردست
یکسانیت پائی جاتی ہے۔ نریندرمودیجہاں بیجےپیکاواحدچہرہہیںوہیں عآپ
بھیاروندکیجریوالکے طواف میں مستہے۔دونوں حضرات پارٹی کے اندر اختلاف کرنے
والوں کے ساتھ نرمی کے قطعی روادا ر نہیں ہیں۔ سیاسینظریاتسے قطع نظر
دونوںکے اندرصبروتحمل کی کمی ہے اور ضوابط کی پاسداری کاخیال بھی وہ ضروری
نہیں سمجھتے۔ مصمم ارداہکرکے اسپراڑجانا اورآسانی سے رجوع نہ کرنا ان کی
عادت ثانیہ ہے۔ شاید اسی لئے لوگ کہتے ہیں ان دونوں کا عزم مصمم جو اپنے
حدود سے تجاوز کرکےجب ضد میں تبدیل ہوجاتا ہے تو بیک وقت انکیقوت کا سرچشمہ
اورسبسےبڑیکمزوریبھی بن جاتاہے۔
ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گرم ہے کہ کیجریوال نے ان یادو اور بھوشن کے انخلاء
کی خاطردباؤ بنانے کیلئےقومی کنونیر کی ذمہ داری سے استعفیٰ دے کر اسے
واپس لینے کیلئے انہیں نکالنے کی شرط لگادی تھی۔کیجریوال کے استعفیٰ کا
متفقہ طور پر مسترد کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ فی الحال عآپ کے اندر
کوئی ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے جس پر اروند کیجریوال دہلی کے وزیر اعلیٰ
یا پارٹی کا قومی کنونیر کے طور پر اعتماد کرسکتے ہوں ۔ یہ قحط الرجال کی
انتہا نہیں تو اورکیا ہے؟ شانتی بھوشن نے نہ صرف کرن بیدی بلکہ نریندر مودی
کی بھی تعریف کی تھی اور ان پر گھر کی تعمیر میں ٹیکس چوری کا الزام بھی
لگا تھا اس لئے اگر پارٹی کی اصولی و عملی مخالفت کے سبب کسی کو نکالا جانا
چاہئے تھا تو وہ شانتی بھوشن تھے لیکن انہیں بخش دیا گیا اور نظریاتی
مخالفین کی چھٹی کردی گئی ۔
کیجریوال پارٹی کے نازک ترین دور میں اپنے فطری علاج کیلئے بنگلور سدھار
گئے ۔ لوگوں کو یہ توقع تھی کہ وہ اپنی فطرت پر لوٹ آئیں گے لیکن میر کے
شعر کی مصداق ’’الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘۔ ویسے اروند
کیجریوال اگر واقعی اپنی بیماری کی تشخیص کرکے فطرت کی جانب لوٹنا چاہتے
ہیں تو اس کا جواب ان کی اپنی تقاریر میں موجود ہے ۔ کیجریوال نےجیت کے
بعد۱۰فروری کو اپنے پہلے ردعمل میں کارکنان کو تلقین کی تھی کہ وہ تکبراور
گھمنڈ کے شکار نہ ہوں ۔ بحیثیت وزیراعلیٰ اپنی پہلی تقریر میں فرمایا تھا
کہ حکومت کے ذمہ داروں، وزراء،اراکین اسمبلی اور کارکنان میں تکبر اورگھمنڈ
نہیں پایاجاناچاہئے۔
دوسروں کو اہنکار سے بچنے کا درس دینے والا عام آدمی پارٹی کا بہت ہی خاص
آدمی خود اپنے آپ کو اس خرابی سے نہیں بچا سکا۔ موجودہ خلفشار میں
کیجریوال کا رویہ اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نےرام لیلا میدان میں
پروردگار سے جو دعا کی تھی کہ وہ انہیں عقل سلیم عطافرمائے،کبریائی سے
بچائےغالباً مستعجاب نہیں ہوئی ۔ ویسے جو کچھ عآپ اورکیجریوال کے ساتھ ہوا
ہےوہافسوسناک تو ضرور ہےلیکن غیر متوقع نہیں ہے اس لئے کہ ان سے قبل اچھے
اچھوں کو یہ نظام اپنے رنگ میں رنگ چکا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ سیاسی
نظام کو بدلنے کا عزم کرکے بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والے ایک انقلابی
رہنما کو جس سے لوگوں نے بڑی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں سیکولرجمہوی نظام
اپنے اندر نگلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ ہولی کی آگ میں کوئی اپنا اہنکار
نہیں جلاتا بلکہ اقتدار کی بھنگ پی کر ساری جماعتوں کے رہنما آپسی بھید
بھاو مٹا کر سیاسی حمام میں برہنہ تن داخل ہو جاتے ہیں ۔ ایوانِ اقتدار میں
ہولی کھیلنے والے اورگلال اڑانے والے تمام سیاسی رہنما یک رنگ ہوتے ہیں۔ |