جب بھی ہم کوئی کام کرتے
ہیں۔تواس کے اختتام پر ایک نتیجہ مرتب ہوتاہے۔اگر نتیجہ اچھا ہوگا تو اس پر
انعام یا جزا ملتی ہے اور اگر نتیجہ بُرا ہو تو اس پر سزاملتی ہے بغیر وجہ
کے نہ تو سزاملتی ہے نہ ہی جزا۔ کبھی ایسانہیں دیکھا گیا کہ سزا دینے کے
بعد پوچھا جائے کہ جس کو سزا دی گئی ہے اس کا قصور کیا تھا۔ قصور ثابت ہونے
پر ہی سزا دی جاتی ہے یا ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔
آج موبائل کا دورہے تقریباً سبھی کے پاس مو بائل موجود ہوتاہے جب جی چاہ
اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو فون کر لیا۔ لیکن اس میں ایک بات کا خیال ہم
بہت کم رکھتے ہیں۔وہ یہ ہے کہ جس کو ہم فون کررہے ہیں اس وقت وہ فارغ ہے یا
مصروف ، وہ نماز پڑھ رہاہے یا پھر تلاوت کر رہاہے ۔ گھر میں کوئی بیمار ہے
تو اس کی تیماری کررہاہے یا پھر کوئی بہت اہم کام کررہاہے۔
بس ہم نے دو بار کال ملائی اور آگے سے جواب نہ ملنے پر شروع ہوگئے برائیاں
کرنے اس کی جس نے کال نہیں سْنی مختلف القابات سے نوازنا شروع کر دیا موصوف
کو ۔ جیسے ہم نے شروع میں ذکر کیا کہ جب تک قصور ثابت نہ ہوجائے تو سزا یا
ڈانٹ دپٹ کیسی۔ ہمیں تو ابھی معلوم ہی نہیں کہ ہماری کال کا جواب نہیں دیا
گیا تو اس کی وجہ کیاتھی۔پھر اگر وہ موصوف سامنے آگئے تو پھربرس پڑے اس پر۔
جی چھوڑیں ! جناب آپ تو بڑے آدمی ہوگئے۔ہماری کال ہی نہیں سنی آپ نے۔ اتنے
مصروف تھے کیا؟ کوئی ناراضگی ہے کیا ہم سے وغیرہ و غیرہ۔۔۔
آپ کی ناراضگی بنتی تھی اگر آپ اپنے دوست کے پاس جاتے ۔ اور دیکھتے کہ آپ
کا دوست اچھے موڈ میں ہے آپ اسے سلام کرتے ۔ وہ آپ صرف سلام کو جواب دے کر
منہ دوسری طرف کرلیتا۔ پھر تو آپ کی ناراضگی جائز ہوتی۔ لیکن صرف کال کرنے
پر وجہ جانے بغیر دوسرے سے ناراض ہونا بٍلاجواز ہے۔
ایک اور بات سوچیں! اگر ایک شخص جو آفس میں کا م کر رہا ہے جو اس کا م پر
اجرت بھی وصول کرتا ہے۔ اس کے لئے ایمانداری اس کے کام کرنے میں ہے یا پھر
فون کالز سننے میں۔
ویسے بھی موبائل آسانی پیدا کرنے کے لئے ہے نہ کہ پریشان کرنے کے لئے۔جب
موبائل نہیں تھا کم از کم پاس بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں بات تو کر لیتے تھے۔
اب تو پاس بیٹھ کر بھی موبائل کو ہی زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔یعنی آسانی
کم اور پریشانی زیادہ ہے۔
آج کیسے پیکجز پر لمبی کال کرکے وقت ضائع کیا جاتاہے۔دور بیٹھے ہوئے لوگوں
کو تو وقت دے رہے ہوتے ہیں لیکن جو پاس ہوتے ہیں ان سے کلام تک نہیں کرتے۔
ہمارے والدین اوربزرگوں جہنوں نے اپنی پوری زندگی لگا دی ہماری پرورش پر ۔
آج جب ان کو ہمارے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم ان کو بہت کم وقت دیتے
ہیں۔اور بہت کم دعائیں لیتے ہیں۔
خدارا! کسی کو قصور وارٹھہرانے لگیں تو پہلے آپ کو اس کے قصور کا علم ہونا
چاہیے۔ بغیر تحقیق کے کسی کو قصوروار نہیں گرداننا چاہے۔ |