خواتین ڈے ۔کچھ حقائق

 آٹھ مارچ کو ہرسال پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے،یہ سلسلہ 1907سے اب تک چلا آرہاہے جب پہلی مرتبہ نیویارک میں چند ورکرخواتین نے اپنے حقوق کے لئے آوازبلندکی،اس دن کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔خواتین کے حق میں قلم اُٹھا کر راقم بھی دنیاکے آواز میں ملاکر خواتین کے حقوق کی جنگ میں جہادی کا کردار اداکرناچاہتا ہے۔دنیا بھرمیں خواتین کے حقوق، عالمی بہبود کو سمجھنے کے لیے ایک اہم اشارہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دنیا بھرکی خواتین کی تحریک کے انتھک کاموں سے عالمی سطح پرصنفی مساوات کی راہیں استوار ہوئی ہیں اور لوگوں کی اکثریت اس خیال سے متفق نظر آتی ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا ہے جب تک اس کی نصف آبادی تعلیم، کام اور فیصلہ سازی کے حق سے محروم ہے۔گزشتہ برس2014ء میں دنیا کے بیشتر ملکوں میں نئے قوانین متعارف کرائے گئے جن میں خواتین کے حقوق کو گھر میں اور گھر سے باہر بھی تسلیم کیا گیا ہے تاہم ،خواتین کو با اختیار بنانے کی کامیابیوں کے باوجود بہت سے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل اب بھی موجود ہیں۔میڈیاورلڈلائن کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک میں خواتین کے خلاف تشددعام ہے اور بہت سی اقسام میں کیا جارہا ہے۔ دنیا بھرمیں ہر تین میں سے ایک عورت اپنے ساتھی یا خاوند کے ہاتھوں جنسی بد سلوکی اورگھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ دس کروڑ سے زائد لڑکیوں کے ساتھ زبردستی کی جاتی ہے اور 29 ممالک میں 133ملین لڑکیاں نازک اعضاء کی قطع وبرید کی تکلیف جھیلتی ہیں۔ 700ملین لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کی جاتی ہے۔ جنسی استحصال کے مجموعی اندازے کے مطابق 4.5 ملین متاثرین لڑکیاں اور خواتین ہیں۔ اسی طرح عورتوں کو غیرت کی بنیاد پر قتل کرنے کا رجحان بھی ترقی پزیر ممالک میں عام ہے۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک عمومی خیال یہ بھی ہے کہ خواتین کے حقوق صرف ان ممالک کا مسئلہ ہیں جہاں سخت اسلامی قوانین رائج ہیں جبکہ زیادہ تر افراد سوچتے ہیں کہ موجودہ دور میں اب یہ کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔ جبکہ ہیومن رائٹس موومنٹ پاکستان جو کہ مرد و عورت کی تفریق کئے بغیرانسانی حقوق کی بحالی کیلئے آواز بلند والی تنظیم کے مرکزی صدر محمد ناصر اقبال خان نے بتایا ہے کہ کیسے خواتین کے حقوق کو پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اس طرح تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی توقع کی جارہی تھی۔اگرچہ خواتین کے حقوق کا حصول راتوں رات ممکن نہیں ہے تاہم دنیا بھر سے گزشتہ برس کی منتخب صنفی مساوات کی کامیابیاں اورقابل ذکر لمحات درج ذیل ہیں۔1 ,لڑکیوں کے حقوق کی سرگرم کارکن 17 سالہ ملالہ یوسفزئی نے رواں برس امن کا نوبل انعام جیتا۔ ملالہ دنیا کے 95 نوبل انعام حاصل کرنے والی شخصیات میں سب سے کم عمر اور نوبل انعام جیتنے والی دنیا کی 16 ویں خاتون ہیں۔ شدت پسندی کے حملے کے بعد نئی زندگی پانے والی سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی کو رواں برس'

سویڈن میں ورلڈ چلڈرن ایواڈ' کے لیے نامزد کیا گیا انھیں ہالینڈ کا 'بچوں کا اعلی ترین ایواڈ ' سے نوازا گیا اسی سال یونیورسٹی آف کنگز کالج ہیلی فیکس نے انھیں 'ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 'سے نوا زا گیا۔ایرانی ریاضی دان مریم مرزا خانی نے اس برس ریاضی کا اعلیٰ ترین ایوارڈ 'فیلڈ میڈل ' جیتا ہے جو میتھم یٹیکس کی فیلڈ میں نوبل انعام تصور کیا جاتا ہے انھیں پیچیدہ جیومیٹری کے لیے یہ اعزاز دیا گیا ہے۔.2 مراکش کی پارلیمنٹ کی طرف سے ضابطہ تعزیرات کے ایک آرٹیکل کو منسوخ کردیا گیا جس کے تحت جنسی زیادتی کرنے والے مجرم کو متاثرہ لڑکی سے شادی کرنے پر قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل ہو جاتا تھا۔.3 تیونس کے آئین نے خواتین کیحقوق پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اسے عرب خطے کا سب سے زیادہ ترقی پسند آئین قرار دیا گیا ہے جس میں مرد اور عورت کو تعصب سے بالاتر ہو کرقانون کی نظر میں ایک جیسیحقوق اور فرائض تقویض کیے گئے ہیں۔6.۔ برطانوی حکومت نے جولائی میں خواتین کے نسوانی اعضاء کی قطع وبرید کیخلاف قوانین مزید سخت کر دیئے۔ اس قانون کا اطلاق اب برطانوی شہریوں کے علاوہ برطانیہ میں رہنے والے دیگر شہریوں پر بھی ہو سکے گا جبکہ ایسے والدین کو سزا ہو سکتی ہے جو اپنی بیٹیوں کے جنسی اعضاء کاٹنے کے عمل کو روکنے میں ناکام ہوں گے۔ برطانیہ میں ہر سال 37 ہزار لڑکیاں ایف جی ایم کا نشانہ بنتی ہیں۔ایران میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات : اکتوبر کے مہینے میں ایران کے مرکزی شہر اصفہان میں نامعلوم افراد نے 17 خواتین پر تیزاب سے حملہ کیا جن میں سے ایک خاتون جان سے ہاتھ دھو بیٹھی جبکہ دوسری خواتین جھلس کر زخمی ہو گئیں۔ خواتین کو دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ اگر وہ حجاب کا احترام نہیں کرتی ہیں تو ان پر تیزاب سے حملہ کیا جائے گا تاہم ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے پس پردہ ایران کے ان انتہا پسند عناصر کا ہاتھ ہے جو خواتین کی آزادی کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔بات کو مختصر کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ افسوس کی خواتین انسانی زندگی کو کامیاب بنانے میں انتہائی کردار اداکررہی ہیں۔عورت کے وجود کو تسلیم کئے بغیر انسانی معاشرہ نامکمل ہے پھر بھی دنیا بھر میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے-
Muhammad Raza Advocate
About the Author: Muhammad Raza Advocate Read More Articles by Muhammad Raza Advocate: 13 Articles with 13234 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.