مسلمانوں کا عروج کب اور کیوں؟

اسلام کے اوائل میں مکہ کے احوال کسی باشعور مسلمان سے مخفی نہیں۔ اہلِ مکہ جہالت کی تاریکیوں کی لپیٹ میں تھے۔ اندھیروں کے سیادہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہر سوں ظلم، بربریت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ْ مختلف قبائل کے قدیم جھگڑے جو صدی ختم ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتے تھے۔ معمولی باتوں سے شروع ہونے والے جھگڑے اور فسادات سینکڑوں انسانوں کا خون بہا کر بھی انتہا کو نہیں پہنچتے تھے۔ دشمنی کی جو قدیم روایات عرب میں قائم تھیں، مشکل سے کوئی کلچران روایات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ ظلم کا یہ حال تھا کہ اپنی صلبی بیٹیوں کو زندہ درگور کرکے اپنے آپ کو غیر مند ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور بچی چیختے ہوئے پوچھتی تھی میرے پیارے ابو! یہ کیا کر رہے ہو۔ ظالم باپ کے دل میں ذرا برابر بھی ترس نہیں آتا تھا اور اس کو اس بات کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ میں اس بدقسمت بیٹی کا قاتل بن رہا ہوں جس کی تمام امیدیں مجھ سے وابستہ ہیں اور اس بات کا بھی احساس نہیں تھا کہ میں دنیائے ظلم کی تاریخ میں ایسی داستان رقم کر رہا ہوں جس سے خود ظلم بھی شرمائے بغیر نہ رہے۔ دین کے حوالے سے یہ عالم تھا کہ جس چیز میں جو کوئی کمال نظر آتا، اسی کو اپنا معبود بنا لیتے، کوئی پتھر کو ، کوئی تاروں کو ، کوئی سورج کو تو کوئی چاند کو پوجتا تھا۔ بڑا عابد اس کو سمجھا جاتا تھا جو بُت پرستی اور شرک میں کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ غرض کوئی ایسا چھوٹا بڑا گناہ نہیں تھا جو ان لوگوں میں بالفعل موجود نہیں تھا، زنا، شراب خوری، سود، ظلم ، قتل و غارت اور شرک و بُت پرسی عام معمول کے گناہ تھے۔ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت کا مکی معاشرہ سب سے زیادہ قابلِ رحم تھا۔ ایسے کسمپرسی اور ناگفتہ بہ حالات میں جبکہ اہلِ مکہ ظلم و ستم کے حوالے سے انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ اور ظلم کی چکی میں پس رہے تھے۔ اور کوئی خیر خبر لینے والا نہیں تھا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، کوئی یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہوں؟ اللّہ پاک نے محمد عربی ﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا (وما ارسلنٰک الاّ رحمۃ للعلمین)(سورۃ الانبیاء/ ۱۰۷)گویا رات کی سخت تاریکی میں ایک چمکتا ہوا نور نمودار ہوا۔ یہ اسلام کے بالکل ابتدائی ایا م تھے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو شرک سے توحید، کفر سے اسلام، ظلم سے عدل اور اندھیروں سے نور کی طرف دعوت دینا شروع کی۔ ایک اﷲ کی عبادت کی دعوت سن کر اہلِ کفر اور اہلِ شرک بلبلا اٹھے اور بولنے لگے کہ ہم تمام بتوں کو چھوڑ کر صرف ایک اﷲ کی عبادت کریں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔
’’ اجعل الا لھۃ الھاً واحداً ان ھذا لشیٔ عجاب۔ ‘‘ (ص/ ۵)

نہ صرف اہلِ مکہ نے اس دعوت کو بُرا مانا بلکہ اس کے ردعمل میں اﷲ کے نبی کو مسلسل اذیتیں پہنچانا شروع کیں حتیٰ کہ ان بدبختوں نے اﷲ کے بھیجے ہوئے پیغمبر کو قتل کرنے کیلئے مشورے شروع کیے۔ اس مقصد کیلئے بار بار پلاننگ کی گئی مگر جسے اﷲ رکھے اُسے کون چکھے؟شرک اور کفر میں مست اہلِ مکہ کلمہ توحید سُن کر جلتے تھے۔ جیسے کانٹا چھبنے لگا ہو بلا وہ کیسے ایک اﷲ کی عبادت برداشت کر سکتے تھے۔ ان کے دلوں میں شرک کا مرض تھا۔ پوری زندگی کفر و شرک میں گزارنے والے اچانک توحید کی بات سُن کر تعجب کرنے لگے۔ ایسے حالات میں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم ’’ یآ ےّھا المدثر،قم فانذر۔وربک فکبر ‘‘ ( المدثر / ۳۔۲۔۱۔)کا مصداق بن کر مسلسل لوگو ں کو توحید کی طرف بلاتے رہے۔ آپﷺ دعوت و تبلیغ کے حوالے سے کسی قسم کی مصالحت کے لیئے تیار نہ ہوئے بلکہ مستقل مزاجی کیساتھ دعوت دیتے رہے اور مشکلات و اذیتیں برداشت کرتے رہے۔ا ہلِ کفر نے تنگ آکر مختلف قسم کی پیشکشیں شروع کر دیں لیکن آپﷺ نے کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا بلکہ مسترد کرتے رہے۔ ان تمام احوال کو دیکھ کر مشاہدہ اور ظاہر بینی پر یقین رکھنے والے ضرور خیال کرتے کہ یہ شخص اپنی بات چھوڑتا کیوں نہیں؟جس بات کی وجہ سے اقرباء نے ، رشتہ داروں نے اور قبیلہ کے اکثر افراد نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا ۔ یہ اسلام کے بالکل ابتدائی حالات تھے۔ ظاہری طور پر اسلام کی ترقی کا کوئی نقشہ نہیں تھا۔ بلکہ تھوڑے بہت لوگ جو مسلمان ہوئے وہ بھی اپنا اسلام ظاہر کرنے میں جھجھک محسوس کرتے تھے۔ مسلمانوں کی قربانیاں، مشکلات، مجاہدے مسلسل بڑھتے رہے لیکن کہیں روشنی کی کرن نظر نہیں آئی، امید کی بجائے مایوسی بڑھتی رہی، فتح کی بجائے شکست چھائی رہی لیکن محنت میں کہیں کوئی کمی نظر نھیں آئی بلکہ دعوت چلتی رہی اور مستقل چلتی رہی اور آنے والی امت کو گویا اس بات کا عندیہ دیا جا رہا تھا کہ حالات چاہے جیسے ہی کیوں نہ ہوں؟،جہالت کے اندھیرے بے شک پوری دنیا لپیٹ میں لے لیں مگر دنیا کو اندھیروں اور ظلمات سے نکالنے کا راستہ دعوت ہے۔ اسکو چھوڑنا نہیں ہے۔ یہ مسلسل کرنے والا کام ہے۔ اس کے اثرات اور نتائج کو بھی نہیں دیکھنا ہے بلکہ اُمت قربانی سے کام کرتی رہے۔ اﷲ پاک خود ہی اس کا نتیجہ مرتب فرمائیں گے۔
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (سورۃ العنکبوت/۶۹)

امت کو ایسی بنیادوں پر ڈالا گیا اور اس طرح استوار کیا گیا کہ قیامت تک آنے والے حالات سے نمٹنے کیلئے امت کی مکمل رہنمائی کی گئی ۔ پھر یہ چھوٹی سی جماعت چند سالوں کے اندر اندر قلیل مدت میں پوری دنیا پر حکومت کرتی ہے اور دنیا ان غریبوں کے اشارے پر ناچتی ہے۔ کوئی سر نہیں اٹھا سکتا۔ دنیا کا سب سے غریب طبقہ پوری دنیا پر غالب آتا ہے۔ کیوں نہ آتا؟ دعوت کی محنت سے ایمان اور اعمال کی فضاء بن گئی ۔ اور قرآنی وعدہ یقینی طور پر پورا ہونیوالا تھا۔
وعداﷲ الذین اٰمنو امنکم وعملوا الصلحٰت لیسخلفنھم کما استخلف الذین من قبلھم۔ (سورۃ النور / ۵۵)

جن لوگوں پر کوئی حکومت کرنے کیلئے تیار نہیں تھا ایمان و اعمال کی بدولت پوری دنیا کے حکمران بن گئے۔ جس پر کوئی اونٹ چروانے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل پر حکرانی کرنے لگے۔ آسمانی نظام مسخر ہے، زمینی نظام ان کے تابع، فضاء ’’ یا عبدی ماذا ترید‘‘ کی آواز سے گونج رہی ہے۔ زمین و آسمان کی برکتیں ان لوگوں پر نازل ہو رہی ہیں۔ بارش اپنے وقت پر ہو رہی ہیں۔ حالات بالکل درست ہیں۔ کیوں نہ ہوتے۔
’’ ولوأن اھل القریٰ امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت من السمآء والارض ‘‘ (سورۃ الاعراف آیت نمبر۹۶)
کا وعدہ جو ہوا تھا۔ جب ایمان و اعمال کی فضاء بن گئی تو اﷲ پاک نے ان ظاہری بے بس لوگوں میں ایسی استعدادیں پیدا کیں کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ اہل دنیا کو ایسا نظام حکومت دیا کہ آج تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ زمین نے اپنے خزانے باہر نکال پھینک دیے ہیں۔ ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ دنیا سمٹتے سمٹتے ایک چھوٹا گاؤں بن چکی ہے۔ مگر اتنی فراوانی اور سہولتوں کے باوجود زمین و آسمان نے وہ نظام حکومت نہیں دیکھا جو ایمان و اعمال کی بنیاد پربن گیا تھا۔ مسلمانوں کی ترقی اور عروج کا یہ زمانہ صرف صحابہ تک محدود نہیں تھا بلکہ جب تک ایمان اور اعمال کی فضاء قائم تھی، عروج ان کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ مسلمان غالب تھے۔ کوفہ، بصرہ، بغداد، دمشق، ثمرقند، بخاری، کاشغر، وسطِ ایشیاء تک اور ایشیاء کے علاوہ افریقہ بلکہ یورپ بھی مسلمانوں کے زیرنگیں رہا۔ کہیں اندلس پر مسلمان چھائے ہوئے نظر آرہے تھے، تو کبھی ایران کی فارسی حکومت کے پرخچے اُڑ رہے ہیں۔ فرانس اور روم یا وہ علاقے جو غیر کے زیرتسلط تو تھے لیکن مسلمانوں کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ہر طرف مسلمان کا رعب اور دبدبہ پھیل چکا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت تھا جب مسلمان ایمان و اعمال کی دولت سے مالا مال تھا۔ ایمانداری، دیانتداری، صداقت ، پاکدامنی، مروت، یقین اور تواضع جیسے صفات مسلمان سے ٹپکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ مسلمان کی زندگی، بودوباش اور کلچر کو دیکھ کر لوگ رشک کرتے تھے۔ اخلاقیات، معاملات ، معاشرت ، تہذیب و تمدن، نظم و ضبط اور عبادات میں ایک دوسرے سے مسلمان سبقت حاصل کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ حتیٰ کہ انڈونیشیا جانے والے چار مسلمان تاجروں کی تجارت دیکھ کر پورا انڈونیشیا مسلمان ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا اب بھی سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے۔ گویا اسلام ترقی یافتہ بھی تھا اور چار سو مسلمان ہر فیلڈ میں عروج کی چوٹی پر چھائے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن یہ ہے کہ مسلمان باطنی طور پر ایمانی قوت سے بھرپور تھا اور ظاہری اعمال اطمینان بخش تھے۔ گو مسلمانوں کے عروج کا سورج جب بھی طلوع ہوا اس کے پیچھے ایمان و اعمال کی فضاء کارفرما تھی۔ یہ ایک یونیورسل ٹرتھ ہے جس سے انکار کرنا ممکن نہیں اور تاریخ اس پر روزِ روشن کیطرح گواہ ہے۔ صحابہ اور تابعین کے دور کے بعد بھی فتوحات، غلبہ اور ترقی و عروج کا یہ سلسلہ رُکا نہیں اور نہ ٹوٹا بلکہ محمد بن قاسم ہو یا موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد ہو یا زبیر، سلطان صلاح الدین ایوبی ہو یا سلطان محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی ہو یا ٹیپو سلطان، ہر ایک نے وہ ایمانی جوہر دکھائے کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رفتہ رفتہ جب معاملہ ہم تک پہنچا تو ترقی رُک گئی۔ عروج پر تنزل کا جھکاؤ غالب ہوگیا۔ مسلمانوں کا غلبہ شکست میں تبدیل ہوگیا۔ انتہائی غائر نظری اور باریک بینی سے اگر غور و فکر کیا جائے تو صاف پتہ چلے گا اور واضح طور پر معلوم ہوگا کہ مسلمان جب صرف نام کا مسلمان رہا، مسلمان کا اسلام جب صرف کتابوں تک محدود رہا، صداقت ، دیانتداری، تواضع، پاکدامنی اور دوسرے اسلامی صفات سے مسلمان مکمل طور پر عاری ہوگیا۔ مسلمان نے جب غیروں کے کلچر کو ویلکم کہا۔غیر شرعی زندگی پر فخر کیا۔ اﷲ کے احکامات توڑ دیئے ۔ ایمان و اعمال کی فضاء مکمل طور پر نیست و نابود ہوگئی تو آسمان کے دروازے بھی بند ہوگئے۔ زمینی نظام تو آسمانی نظام کے تابع ہے۔ جب زمین پر مسلمان نے خود ہی اسلامی زندگی کو بوجھ سمجھ کر اپنے سے پھینکنا شروع کیا تو ربِ کائنات کو اس کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی اور نتیجۃً مسلمان قوم مجموعی طور پر ایسی پریشانیوں کی دلدل میں پھنس گئی کہ بڑے بڑے فلاسفر بھی نکلنے کا راستہ معلوم نہیں کرسکتے۔ مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں اور نصف النہار سے زیادہ واضح ہے کہ مسلمان ماضی کی طرح جب تک دوبارہ ایمان و اعمال کی چادر نہیں اوڑھتا اور جب تک اسلامی لباس میں ملبوس نہیں ہو پاتا تب تک ترقی اور عروج کے خواب دیکھنا ادھوری بات ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے شک مسلمان آسمان سے باتیں کرنے لگے، مادی ترقی کے تمام اسباب فراہم کیئے جائیں لیکن ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے صرف ایک اور ایک ہی راستہ ہے اور یہ بات بہت زیادہ قابلِ غور ہے اور اس کو ذہن نشین کرنا چاہیئے کہ مسلمانوں کی ترقی کو اﷲ پاک نے کبھی بھی مادی چیزوں اور مال و اسباب سے نہیں جوڑا۔ یہ کم ظرفی، تنگ نظری، کم علمی اور خام خیالی ہے۔ لوگ اس کو بے شک روشن خیالی کا نام دیں یا چاہے جو بھی نام دیں لیکن
ع، حقیقت چُھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

جس ظرف میں پانی ڈالا جائے اس کا مظروف پانی ہوگا چاہے کوئی سو بار کہے کہ اس میں دودھ ہے۔ جس فصل کی بیج جَو ہو بلا اس سے گندم کی توقع رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ فصل اُگے گی تو جَو کی شکل میں ،نہ گندم کی توقع رکھی جائے اور نہ گندم اُگے گی۔ بعینہ اسی طرح مسلمانوں کی ترقی ، عروج اور کمال کا تعلق ایمان و اعمال سے ہے۔ دنیوی اور مادی ترقی سے نہیں البتہ دنیوی اور مادی ترقی ایمان اور اعمال کا اثر ضرور ہے۔ سورۃ نوح میں اﷲ پاک نے رزق کی کشادگی اور خوشحالی استغفار کیساتھ جوڑ دی ہے۔ استغفار ایک عمل ہے۔ رزق کی کشادگی اور خوشحالی اس کا اثر ہے۔
’’ فقلت استغروا ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً (نوح نمبر ۱۱،۱۰)
ولو ان اھل القریٰ اٰمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت من السماء والارض (اعراف / ۶۹)

اسی طرح فرمایا کہ اگر بستی والے ایمان اور تقویٰ کے لباس سے مزین ہوں تو ہم زمین اور آسمان کی برکات کے دورازے ان پر کھول دیں گے۔
ولوانھم اقاموا التوراۃ والانجیل وما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم (سورۃ المائدہ / ۶۶)

اس کا تعلق صرف اس امت کیساتھ نہیں بلکہ یہ قدرتی اور فطری قانون یہود اور نصاریٰ کے زمانے اور ان سے پہلے مذاہب حقہ کیساتھ بھی رہا چنانچہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ توریت اور انجیل اور دوسری منزل علیھم کتابوں پر عمل کرتے، ان کو گلے سے لگاتے ،تو ان کی رزق کی مشکلات میں آسانی ہوتی اور یہ دنیوی زندگی کے لحاظ سے خوشحال ہوتے۔ درجہ بالا آیات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مادی ترقی کا تعلق بھی ایمان اور اعمال سے ہے۔ لہٰذا بہت ہی ضروری ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر واقعی اور حقیقی ترقی حاصل کرلیں۔ ہمارے اسلاف نے اس ترقی کو جس طریقے اور راستے پر جا کر ہاتھ لگایا اسی راستے پر ہمیں بھی گامزن ہونا پڑے گا۔ ادھر ادھر چیخنے چلانے سے کام نہیں بنے گا۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، گھریلو زندگی ہو یا تجارتی، عبادات کا لائن ہو یا معاملات کا ۔ بہرصورت ہمیں اسلامی سانچے میں اپنے آپ کو ڈالنا ہوگا۔ اس کے بغیر ترقی اور عروج کا ملنا ناممکن ہے۔ اگر کہیں اس کے بغیر ترقی مل بھی جاتی ہے تو وہ ترقی نہیں بلکہ استدراج ہے اور ناکامی و تنزل کی پہلی سیڑھی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں ہوشیارباش!مختصر یہ کہ مسلمانوں کی ترقی اور عروج دین کیساتھ متعلق ہے۔ ماضی میں دین تھا تو مسلمانوں کا غلبہ تھا۔ فتوحات کے دروازے کھلے تھے۔ جتنی جتنی کمی اور کمزوری دین میں آتی رہی اسی قدر مسلمانوں کا عروج و کمال ٹوٹتا رہا۔ اگر ہم واقعی ترقی اور عروج دوبارہ چاہتے ہیں تو ہمیں لوٹنا ہوگا اپنی ماضی کی طرف اور اسلاف کی زندگی کی طرف۔ اس کے علاوہ تمام کوششیں بے سود اور بے کار بلکہ وقت کا ضیاع ہے اور کچھ نہیں ۔ـ
Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 212022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.