ظہرانہ

’’تم آج پھر اپنے اس بھائی کو اسکول لے آئی؟،تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے اسے اسکول ساتھ نہ لایا کرو،تم پر میری بات کا ذرا بھی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟‘‘۔

آج بھی دوم جماعت کی وہ بچی ثمر اپنی گود میں اپنے سہ سالہ بھائی قمر کو سنبھالے اور دوسرے کاندھے پر ایک پھٹی سی تھیلی جس میں اسکول کی جانب سے ملی ہوئی مفت ادھوری کتابوں اور بیاضوں کے ساتھ ایک دبی مڑی سی رکابی تھی لئے ہوئے کلاس روم میں داخل ہوئی تھی اور استاد نے اُسے ڈانٹنا شروع کیا تھا۔

یہ ایک سرکاری اسکول تھا۔جہاں ۶سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع تھا۔روز روز ڈانٹ وسزا کے باوجود ثمر اپنے بھائی کو لے آتی،اسکے پیچھے اسکی کیا مجبوری ہوسکتی ہے شایدیہ کبھی اساتذہ نے جاننے کی کوشش ہی نہ کی ہو۔وہ چپ چاپ اساتذہ کی باتیں سنتی ،کہہ بھی کیا سکتی تھی اساتذہ کا احترام و خوف کی آمیزش کہاں اس معصوم کی زبان سے کچھ کہلوانے کی طاقت رکھے؟۔اوکئی اساتذہ کے گھریلو تنازعات اور غصے کا سامنا بھی تو ان معصوموں کے حصے ہی آتا ہے۔آج تو استادنے حد ہی کردی،ثمر کو اسکے بھائی سمیت یہ کہہ کر روانہ کردیا کہ’اسے گھر چھوڑ آؤ‘۔

ثمر نے ڈرتے ڈرتے استاد سے کہہ ہی ڈالا۔سرجی،گھر پر کوئی نہیں ہے۔ماں کھیتوں میں گئی ہے۔’’مجھے اس سے مطلب نہیں،بس اسے لے جاؤ یہاں سے۔دوسرے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اس سے۔

استاد نے آنکھیں نکال کر کہا۔اور ثمراپنے رخسار وں پر آنسوؤں کی لکیر،سیدھے ہاتھ میں قمر اور بائیں ہاتھ میں بستہ لٹکائے اسکول کے پھاٹک سے باہر نکل گئی۔زیادہ دور جا نہ سکی۔اسکی ایکہی وجہ تھی اور وہ وجہ تھی’’روزدوپہر کو اسکول کی طرف سے ملنے والے ظہرانے کی ‘‘۔دوپہر میں کھانا تقسیم ہونے کے وقت وہ بھی لائن میں لگ گئی ،اپنے ہم جماعت بچوں کی حقارت بھری نظروں سے مقابلہ کرتی اپنی نظریں جھکائے کھانا لے کر دور درخت کے نیچے بیٹھے قمر کے پاس دوڑ کر گئی اور دونوں نے اسے نعمت خداوندی سمجھ کر پیٹ بھر لیا۔

بیوہ ماں کریمہ صبح اُٹھ کردو پتلی پتلی روٹیاں بناتی جس میں سے ایک کپڑے میں لپیٹ کر کھیتوں میں کام کرنے کیلئے چلی جاتی اور دوسری ثمر اور قمر کو ناشتہ کیلئے دیتی،قمر کو ساتھ لے جانے سے اس لئے قاصر تھی کہ کہیں زمیندار سب و ستم نہ کرے اور تنخواہ میں کٹوتی کا بھی خطرہ تھا۔یومیہ تیس روپوں کی خاطر اتنا جوکھم بھلے ہی گراں تھا پھر بھی بیچاری مجبوری میں اپنے لال کو ثمر کی گود میں چھوڑ روانہ ہوجاتی۔اسے یہ اطمینان تو تھا کہ دوپہر کا کھانا اسکول میں مل جائیگا،رہا سوال شام کا تو تنخواہ تو یومیہ ملتی تھی اس لئے شام کچھ ٹھیک ہی ہوتی تھی انکی۔ اپنی ذہین ثمر کی صلاحیتیں رائیگاں ہوجانے خدشہ تھا کریمہ کو۔لیکن وہ کیا کرسکتی تھی۔اگر مزدوری نہ کرے تو گھر کیسے چلے۔اسے پتہ تھا یہ قمر کے اسکول جانے لائق ہونے تک کا امتحان تھا۔لیکن ان تین سالوں میں ثمر پر کیا بیتے گی اس کا شاید اسے احساس نہ تھا۔ آج بھی استاد کی جانب سے کلاس روم سے نکالے جانے کی بات اس معصوم نے ماں سے چھپالی۔اسے صرف ایک بات کی خوشی تھی ’’آج میرے بھائی نے دوپہر میں کھانا کھا لیا‘‘۔
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 22332 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More