سکون کی خاطر۔۔۔۔۔

شام ہونے کو تھی اور رمجو کو گھر جانے کی جلدی پڑ گئی تھی۔اس نے جلدی جلدی ٹیبل پر رکھے خالی گلاس اور کپ اُٹھانے شروع کردئے۔مالک نے کاؤنٹر پر کہنیاں ٹکا کراُسے کنکھیوں سے دیکھا اور بے ساختہ کہا۔’’ اب اتنی بھی جلدی نہ کررمجو،کہیں کوئی نقصان نہ کر بیٹھنا۔‘‘

سیٹھ جی! آپ بے فکر رہیں۔ کوئی نقصان نہ ہوگا،اب تو عادت سی پڑ گئی ہے۔آپ کے ہوٹل میں کام کرتے کرتے چار سال بھی تو ہوگئے۔

ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔چل یہ لے تیری آج کی روزنداری،پورے چالیس روپے ہیں۔

کیا سیٹھ جی کل تو آپ نے کہا تھا پورے پچاس دیں گے،یہ کیا پھر چالیس پر ٹرکا رہے ہو؟ اب چالیس میں تو بابا کی شراب کی بوتل ،بہن کیلئے دودھ اور رات کی سبزی کا بندوبست ذرا مشکل ہوگا نا۔۔

سیٹھ نے پیشانی پر ہاتھ رگڑا اور پھر کچھ سوچ کرگلے سے دس روپے کا ایک نوٹ اور نکالا اور رمجو کی طرف بڑھا دیا۔پاس کی ایک گاہک جو گذشتہ ایک ماہ سے روزانہ اسی وقت شام میں چائے پینے کی غرض سے آرہا تھا بڑی توجہ سے دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔کوئی سرکاری انجینئرتھا، کام کے سلسلے میں شہر کی اس بستی میں ایک ماہ سے مقیم تھا، بڑے تذبذب و حیرانگی کے ساتھ رمجو سے مخاطب ہوا۔’’بہن کیلئے دودھ اور کھانا تو ٹھیک ہے،بابا کی شراب کی بوتل؟؟؟؟؟؟ تم تو کافی سمجھدار نظر آتے ہو، باتیں بھی بھلی ہی کرتے ہو،بڑوں کا ادب بھی ہے،پھر یہ شراب ؟؟؟؟؟؟؟ رمجو نے اس کی طرف عجلت سے دیکھا اورصرف اتنا کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ پھر کبھی بات کرلیں گے،ابھی معاملہ نازک ہے۔۔

اس نے ہوٹل مالک کے چہرے پرسوالیہ نظر ڈالی لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر انجینئرکو بہت حیرانگی ہوئی۔وہ بنا کچھ کہے وہاں سے نکل گیا۔

دوسرے دن انجینئربجائے شام کے دوپہر ہی میں وارد ہوگیا شاید اسکے دل میں رمجو کو کچھ سکھانے یا سمجھانے کی غرض تھی۔اس نے رمجو کو اپنے پاس بلایا اوراسکے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر نہایت مشفقانہ انداز میں مخاطب ہوا۔’’ تم اپنے بابا کیلئے شراب کیوں خریدتے ہو؟۔‘‘کیا تمہیں پتہ نہیں شراب انتہائی خطرناک چیز ہے۔

پتہ ہے صاحب!لیکن میرے بابا شراب پینے کے بعد بیمار نہیں پڑتے،ہاں شراب نہ ملنے پر ان کی تکلیف اور بڑھ جاتی ہے۔انکی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی،ڈاکٹر نے جو دوائیں لکھی ہیں انکی قیمت شراب کی بوتل کی قیمت سے چار گناہ زیادہ ہے اور دوا سے خطرہ زیادہ ہے،کبھی بھی حالت بگڑ جاتی ہے ان کی۔اب آپ ہی بتاؤ،اگر اس شراب سے ہمارے گھر میں وقتی سکون رہتا ہے تو کیا یہ غلط ہے؟رمجو نے سوال کے جواب میں سوال رکھ دیا۔

انہیں کسی امدادی ہسپتال میں داخل کروادو نا!انجینئر نے قدرے تامل کے بعد کہا۔

ہوٹل مالک جو دونوں کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھانہایت طنزیہ ہنسی کے ساتھ اپنے داہنے ہاتھ کا پنجہ انجینئر کی جانب دکھا کر چینخا’’امدادی ہسپتال ‘‘۔

ارے صاحب! امدادی ہسپتال سے تو بہتر ہے یہ اپنے باپ کو زندہ قبر میں دفن کرآئے۔لے کر گیا تھا وہاں بھی رمجو اپنے باپ کو۔کمینوں نے اور برا حال کر دیا تھا اس کے باپ کا۔امداد کے نام پر صرف سرکار سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے مریضوں کا کوئی خیال نہیں رہتا انہیں۔اب اس کے باپ نے بھی کوئی کرم ایسے تو کئے نہیں کہ اس کیلئے اس گھٹیا نظام سے لڑائی مول لی جائے۔

لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں نا کہ بیچارہ رمجومفت میں اپنی محنت کی کمائی سے شراب خریدتا پھرے،اس میں اس بیچارے کا کیا قصورہے؟ انجینئر نے مالک سے کہا۔

اماانجینئر صاحب! اب چھوڑئے ان باتوں کو،باپ کو آرام دلانے کی غرض سے اسکی سوچ بھلی ہے،ورنہ دنیا میں صحیح اور غلط کے نام پر جانے لوگ کیا کیا کر رہے ہیں۔

رمجو درمیان میں ہی بول پڑا۔’’صاحب جی مجھے یہ بتائیں’ شراب اور دوا ‘دونوں کا ہی پروانہ سرکار جاری کرتی ہے،پھر شراب سستی اور دوائیں اتنی مہنگی کیوں ہوتی ہیں؟‘‘۔اور جب سرکار خود شراب کا پروانہ دیتی ہے پھر اس کے پینے پر کیوں روک لگاتی ہے؟

انجینئر صاحب کے پاس رمجو کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 24457 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More