علامہ محمد شاکر علی نوری مشائخ عظام کی نظر میں
(Ata Ur Rehman Noori, India)
۱۶،۱۷؍اپریل مالیگاؤں اجتماع کے
پیش نظرقارئین شامنامہ کی نذر تیسری قسط
۱۶،۱۷؍اپریل۲۰۱۵ء کو شہر مالیگاؤں میں سواداعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر
تحریک سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام دو روزہ عظیم الشان سنّی اجتماع کا
انعقاد عمل میں آرہاہے ۔اجتماع کے پیش نظر گزشتہ تین ہفتوں سے تحریک اور
امیر تحریک کی جملہ سرگرمیوں سے ہم شہر کے مؤقر اخبار ’’شامنامہ‘‘ذریعے
روشناس ہورہے ہیں۔اس ہفتہ امیر محترم کے متعلق سجادگان اور مشائخ عظام کے
چنندہ تأثرات سپرد قلم ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت سید شاہ آل رسول نظمی مارہروی
شہزادۂ حضورسیدالعلماء حسان الہندحضرت سید شاہ آل رسول حسنین میاں نظمی
مارہروی علیہ الرحمہ نے اپنا نعتیہ مجموعہ ’’نوازش مصطفی‘‘تحریری دستخط کے
ساتھ جب امیر سنّی دعوت اسلامی کو بہ طور تحفہ عنایت فرمایاتو اس میں آپ نے
اپنے دستخط کے ساتھ یہ تاریخی جملہ قلم بند فرمایاتھا:’’اس مستانے کی نذر
جسے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسے مقدس کام کے لیے چناہے جو اس کے حبیب ﷺکی سنت
ہے،یعنی تبلیغ دین متین۔میری مراد علامہ شاکر نوری برکاتی سے ہے جنہیں میں
اپنے بھائی کی طرح چاہتاہوں۔‘‘غور کیاجائے تو اس ایک جملے میں جہاں
اعتماد،چاہت،اصاغر نوازی،اپنائیت اور والہانہ سرپرستی کی رنگارنگی موجود
ہے،وہیں اس میں تبلیغ دین اور اشاعت مسلک حق کی مقبول بارگاہ خدمات اور
دینی وعلمی اثرات کی دانش ورانہ پیشین گوئی بھی عکس ریز ہے۔حضرت سید نظمی
میاں علیہ الرحمہ نے امیر سنّی دعوت اسلامی کو ۱۷؍صفرالمظفر ۱۴۳۳ھ کو خلافت
سے نوازاتھااور خلافت عطا کرتے وقت فرمایاتھاکہ :’’شاکر بھائی!خوب لگن سے
دین کاکام کرو،ذراسامغموم اور رنجیدہ نہ ہونا،یہ فقیر برکاتی اور خاندان
برکاتیت آپ کے ساتھ ہیں،میں آپ کو وہ خلافت دیتاہوں جو حضرت نوری میاں علیہ
الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو دی تھی،یعنی سلسلہ جدیدہ اور
قدیمہ دونوں کی خلافت دیتاہوں۔(اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)
پرو فیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب
مولاناشاکر علی نوری صاحب نے ابتدا ہی سے زمینی اورانفرادی محنت پرخصوصی
توجہ مرکوز کیں جس کے سبب لاکھوں گم گشتگانِ راہ نے ہدایت پائی۔اس حقیقت کا
اعتراف کرتے ہوئے امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب ( سجادہ
نشین آستانۂ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، وپروفیسر شعبہ اُردو مسلم
یونیورسٹی علی گڑھ)امیر سنّی دعوت اسلامی کی کتاب ’’برکات شریعت ‘‘کی تقریظ
میں رقم طراز ہیں: ’’میں دِلی گہرائیوں سے مولانا شاکر رضوی صاحب اور ان کی
تحریک ’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کے لیے دعاکرتا ہوں،نہ جانے کتنے گمراہ اس تحریک
میں شامل ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔اﷲ تعالیٰ مولانا کے علم وفضل ،جمال
وکمال اور تصلب دینی میں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین
حضرت سید محمد اشرف میاں صاحب مارہروی
اہل سنّت وجماعت کے مرکز روحانیت مارہرہ مطہرہ کے چشم وچراغ مشہور فکشن
رائٹر حضورشرف ملت حضرت علامہ سیدمحمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی(چیف
انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا، کولکاتا) دنیائے ادب میں اپنے مخصوص اسلوب اور
طرز تحریرکی بنیاد پر مقبول ہیں۔ امیر سنّی دعوت اسلامی کے نعتیہ مجموعۂ
کلام ’’مژدۂ بخشش ‘‘پر حضور شرف ملت اپنے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے
ہیں:’’امیر سُنی دعوت اسلامی مولانا حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی کی
شخصیت اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ لیکن آج ان کے ادبی
اظہار سے میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِ عمل بہت دل خوش کن
اور روح کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔نعت نبیﷺ بڑا ہی سخت میدان ہے۔ اس
راہ میں قلم کی ایک معمولی لغزش بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں عمر بھر کیلئے
معتوب بنا سکتی ہے۔ اس مجموعے میں شامل نعتوں میں بفضلہ تعالیٰ نعتیہ شاعری
کے مضامین سے متعلق وہ دونوں بڑی مشہور لغزشیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں
گی، یعنی شرک کا شائبہ اور اہانتِ رسولﷺ پر سمجھوتہ۔شاعری، شاعر کے دل کی
ترجمانی کرتی ہے، جناب شاکر نوری کو اپنے پیرانِ سلسلہ اور تحریک سُنی دعوت
اسلامی سے والہانہ عقیدت و محبت ہے، ان دونوں جذبوں کا اظہار بخوبی ہوا۔
نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے
ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین
کی بلندی، عاشق کی نیازمندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری و ساری ایک
خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوؤں سے آنکھیں خوب خوب ٹھنڈی ہوں گی۔ (مژدۂ
بخشش نعتوں کا مجموعہ،ص۵)
برادر تاج الشریعہ علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب
امیر سنّی دعوت اسلامی نے ملک و بیرون ممالک میں چمنستان سنیت کی جو باغ
وبہار لگائی ہے،ان خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنّی دعوت اسلامی کے زیر
اہتمام جاری علاقۂ خاندیش کی معیاری درس گاہ ’’دارالعلوم چشتیہ‘‘کے سالانہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برادر تاج الشریعہ حضرت علامہ عبدالمنان رضامنانی
میاں صاحب نے تحسین آفرین کلمات ارشاد فرمائے،ملاحظہ کریں:’’پہلی مرتبہ
مہاراشٹر کی سرزمین پر ایسا ہواکہ امیر اہلسنّت سنّی دعوت اسلامی کی جان،
مسلک امام احمد رضا خاں رحمۃ اﷲ علیہ کو پھیلانے والا انسان، نازش سنّیت،
حضرت مولاناحافظ قاری محمدشاکر علی نوری۔میں سمجھتاہوں کہ حضور مفتی اعظم
ہند کی روح بھی بہت خوش ہوگئی ہوگی۔اﷲ کا بڑافضل واحسان ہے کہ ان کے کام کو
نندوربار ہی میں نہیں دیکھا،منانی نے ان کے کام کو انگلینڈکی زمین پر بھی
دیکھاہے اور وہاں ان کے لندن کے پروگرام،لیسٹر کے پروگرام،لسبن کے
پروگرام،مانچسٹرکے پروگرام،پرسٹن کے پروگرام ۔علاقۂ عالم اسلامی میں منانی
گیااور ایک دو ملک نہیں،سولہ ملک میں۔الحمدﷲ!سولہ ملک میں جانا ہوا،کہیں
ہمیں بستر اٹھانانہیں پڑا،ہر جگہ بستر لگاہوامل گیا۔وہ بستر اٹھاتے پھرتے
ہیں جن کا کوئی نہیں،ہماراتو سب کچھ ہے
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہئے
دینے والا ہے سچاہمارا نبی
اﷲ کا بڑافضل واحسان ہے۔منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت
نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔بعد میں
ہم گئے پہلے یہ گئے،سب بستر لگے لگائے مل گئے۔‘‘(۱۲؍اگست بروز منگل ۲۰۰۸ء ،نندوربارمہاراشٹر)خانوادۂ
اعلیٰ حضرت کے ایک ممتاز فرد کا یہ گراں قدر تاثر خصوصاً یہ جملے:’’منّانی
تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر
اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔ ‘‘ مولانا شاکر علی نوری صاحب کی
بے پناہ مقبولیت پر دال ہے۔
|
|