انشقاق القمر
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
آج کل پوری دنیا میں ایک نئی بحث
سوشل میڈیا اورانٹر نیٹ پر چل رہی ہے ،وہ یہ کہ ہماری اس دنیا کے چاندامسال
نومبر2015میں ایک کے بجائے دو ہوجائیں گے،اس دوسرے چاندکا نیا نام’’کرویثن‘‘
بھی منظر عام پر آگیاہے،ناسا کے مطابق بتایاجاتاہے کہ اسے ایک برطانوی
سائنسداں نے 1986 میں دریافت کیاتھا،حقیقت کیا ہے، یہ تو علم الافلاک کے
ماہرین ہی بتاسکتے ہیں،کچھ حضرات نے تو اسے ایک مفروضہ ہی قرار دیاہے،مگر
پھر بھی اس خبر کے تعاقب میں سرگرداں لوگوں نے چاند کے متعلق بحثیں شروع
کردی ہیں،جن کی وجہ سے معجزۂ انشقاقِ قمر بھی زیر بحث آگیا ہے،سوال جواب
میں نہایت بے سروپا مغالطات بھی سامنے آرہے ہیں،اس لئے ہم یہاں قدرے تفصیل
سے واقعۂ شق قمر ذکر کئے دیتے ہیں۔معجزۂ انشقاق القمر کا وقوع قرآن کریم ،احادیثِ
متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے ، علاوہ ازیں تاریخی مراجع سے اس کا
مشاہدہ بھی ثابت ہے، ظاہر ہے کہ جس چیز کا ثبوت کلام اﷲ ،احادیث رسول ﷺ اور
مشاہدہ سے ہوچکاہو، اس کا انکار یا اس کی تاویل خلاف ِعقل ہے، اہل اسلام کے
لئے اس پر بلا تردد ایمان لانا لازم ہے، جس طرح قرآن کریم کی تصریحات کی
وجہ سے جنت وجہنم پر ایمان لائے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اگر
قرآنی تصریحات اور قطعیات میں تاویل کا دروازہ کھول دیا جا ئے ،تو پھر
ایمان بالآخرۃ رہے گا اور نہ ہی جنت وجہنم کی حقیقت کا کوئی مسئلہ باقی رہ
سکتاہے، جس قرآن حکیم نے ہم کو قیامت جیسے عظیم الشان واقعہ کی خبر دی اور
ہمارا اس پر ایمان ہے، اسی قرآن نے ہمیں انشقاقِ القمر کے واقعہ کی بھی خبر
دی ، جب قیامت پر ایمان ہے تو شق قمر جو قیامت سے زیادہ کوئی عجیب یا عظیم
شے نہیں ،اس پر ایمان لانے میں کیا تامل کیا جاسکتاہے ،امام طحاوی ؒ اور
حافظ ابن کثیر ؒ نے اس وقعہ کے متعلق تواتر کا دعوی کیا ہے اور یہ دعوی
دلائل قویہ سے ثابت ہے ۔
کچھ فلاسفہ اور ملحدین نے شق القمر کو محال قرار دیتے ہوئے انکار کیا اور
بعض لوگوں نے اس کی تاویل کی کہ یہ قیامت کے روز پیش آنے والے شق قمر کا
ذکر ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت چاند پھٹ جائے گا۔فلاسفہ اور ملحدین
کا شق قمر کو محال قرار دینا خود خلاف عقل ہے ،یہ ایک محض دعوی ہے، جس پر
ان کے پاس بھی کوئی ثبوت اور برہان ِقطعی نہیں ،اولاً تو یہ چیز قابل لحاظ
ہے کہ چاند ہو یا سورج اور کوئی ستارہ وسیارہ یہ سب اجسام ہیں اور دلیل
عقلی سے یہ بات لازم ہے کہ ہر جسم کا اجزاء کی طرف منقسم ہونا اور پھر اس
کے اجزاء کاملاپ ممکن ہے ، اس میں کسی قسم کا استبعاد نہیں ،جس پرور دگا ر
نے اپنی قدرت کا ملہ سے ان اجزاء کو جوڑ کر جسم ِمستنیر بنایاہے ، وہ ان کو
تقسیم کرنے اور ٹکڑے کرنے پر قادر ہے، علماء کے نزدیک جسم متصل کا منفصل
اور منفصل کا متصل ہونا ممکنات میں سے ہے، اس دلیل سے جہاں شق قمر کا ثبوت
مل رہا ہے، اسی کے ساتھ وقوف شمس اور ردشمس کا معجزہ بھی ثابت ہوتاہے ، اس
پر بھی فلسفیانہ قسم کا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔
حضرت یوشع بن نون علیہ السلام بنی اسرئیل کے ہمراہ جَبّارین سے جہا د کررہے
تھے ،بحکم خداوندی آفتاب ٹھہر گیا ،یہاں تک کہ جس روز وہ فتح کا مامورتھا
،اسی دن فتح واقع ہوگئی۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے معجزات میں رد شمس کا واقعہ
بھی ہے ،آپ ﷺ کی دعاسے سورج غروب ہونے کے بعد واپس ہوگیا،اس میں کوئی شبہ
نہیں کہ چاند کے ٹکڑے ہوجانا یا آفتاب کا ٹھہر جانا اور لوٹ جانا فی نفسہ
عظیم الشان امر ہے اور یہ امر معتاد اور معمولی بھی نہیں ہے ،لیکن عقلاًاس
کو تسلیم کرنے میں کوئی وجہ ٔتأمل نہیں، کیونکہ آفتاب وماہتاب کی حرکت
طلوعی اور غروبی سب اﷲ کے حکم اور اس کے قدرت سے ہے، گویااصلاًمحرک اﷲ رب
العزت کی ذاتِ اقدس ہے ،وہ جب چاہے ان اجرام کی حرکت کو روک دے ،اجرام
علویہ ہوں یا اجرام سفلیہ ،آسمان ہو یا زمین ، بر وبحر سب کی حرکت وسکون
اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، زمین کو متحرک مانو یا آسمان کو ۔بہر کیف اس امر
پر مجبور ہونا پڑے گا کہ ہر شیٔ اور اس کی حرکت خد اکے ہاتھ میں ہے ،الغرض
جو چیز وحی الہی ، اخبار متواترہ ، نیز مشاہدہ سے ثابت ہو،اس کا انکار یا
اس میں تردد خلاف عقل ہے ، صحیح بخاری میں انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ اہل
مکہ نے آپ ﷺسے سوال کیا،کہ آپ کوئی نشانی دکھائیں ،تاکہ ہم آپ ﷺ کی نبوت
مان لیں ، اس پر آپ ﷺ نے چاند کے دوٹکڑے کرکے ان سے فرمایا ،دیکھ لو
اورگواہ رہو ، جبیر بن مطعمؓ کی روایت میں ہے کہ شق قمر پر قریش کے لوگ
کہنے لگے ، محمد (ﷺ) نے تو ہماری آنکھوں پر جادو کردیاہے ،اس کو سن کر بعض
لوگ کہنے لگے کہ اگرہماری آنکھوں پر جادوکردیا، تویہ ممکن نہیں ہے کہ سب کی
آنکھوں پر جادو کر دیں ،اس کے بعد ان لوگوں نے مکہ سے باہر آنے والے قافلوں
سے پوچھنا شروع کیا ،تو ہر قافلہ یہ بتاتا، ہاں ہم نے بھی یہ عجیب واقعہ
دیکھاہے ، یہ احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کا واضح بیان بھی بتارہاہے کہ
انشقاقِ قمر کا واقعہ’’معجزہ‘‘ ہوچکاہے۔
سورۂ قمر کی آیت مبارکہ (اقتربت الساعۃ ) کے حوالے سے علامہ آلوسی ؒ نے
تفصیل کے ساتھ تفسیر روح المعانی میں حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓاور حضرت عبداﷲ
بن مسعودؓ(جو بذاتِ خود وہاں موجود تھا)کی یہ روایتیں بیان فرمائی ہے ،
ہجرت مدینہ سے تقریباً پانچ سال قبل ایک مرتبہ کچھ مشرکین ِمکہ جمع ہو کر
آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے، جن میں ولید بن مغیرہ ،ابوجہل ، عاص بن وائل ،
عاص بن ہشام ، اسود بن عبد یغوث ،اسود بن المطلب ،ربیعہ بن الاسود ،نضربن
حارث وغیرہ اور یہ کہا،اگر آپ ﷺ اپنی نبوت میں سچے ہو،تواس چاند کے دوٹکڑے
کرکے دکھلاؤ ،رات کا وقت تھا اور چودھویں رات کا چاند طلوع کئے ہوئے تھا،آپ
ﷺ نے فرمایا، اچھا اگر یہ معجزہ دکھلادوں، توایمان بھی لے آؤگے،ان لوگوں نے
کہا،ہاں !ہم ایمان لے آئیں گے ،حضور ﷺ نے حق جل شانہ سے دعاکی اور انگشت
مبارک سے چاند کی طرف اشارہ کیا،اسی وقت چاند کے دوٹکڑے ہوگئے ، ایک ٹکڑا
جبل ابی قبیس پرتھا اور دوسرا جبل ِقیقعان پرتھا، دیر تک لوگ حیرت سے دیکھ
رہے تھے، حیرت کا یہ عالم تھا کہ اپنی آنکھوں کو کپڑوں سے پونچھتے تھے اور
چاند کی طرف دیکھتے تھے ،تو صاف دوٹکڑے نظر آتے تھے ، حضور ﷺ اس وقت یہ
فرمارہے تھے ،’’اشھدوا ،اشھدوا‘‘ اے لوگو! گواہ رہو،اے لوگو!گواہ رہو،بعض
کا نام لیکر آپﷺ نے فرمایا:اے سلمہ بن اسود ،اے ارقم بن ارقم گواہ رہو۔ عصر
اورمغرب کے درمیان جتنا وقت ہوتاہے اتنی دیر تک چاند اسی طرح رہا اور اس کے
بعد پھر ویسا ہی ہوگیاجیسے پہلے تھا، مشرکینِ مکہ نے کہا کہ محمد ﷺ نے تم
پر جادو کردیاہے ،بہتر یہ ہے کہ تم باہر سے آنے والے مسافروں کا انتظار کرو
اور ان سے دریافت کرو ،کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ محمد ﷺ تمام لوگوں پر جادو
کردیں ، اگر وہ بھی اسی طرح اپنا مشاہدہ بیان کریں ،تو سچ ہے اور اگر یہ
کہیں کہ ہم نے نہیں دیکھا ،تو سمجھناکہ محمد ﷺ نے تم پر سحر کیاہے ، چنانچہ
اگلے دن آنے والے مسافروں سے دریافت کیا گیا ،ہر طرف سے آنے والے مسافروں
نے اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ ہم نے انشقاق قمر دیکھاہے، مگر ان شہادتوں کے
باوجود بھی معاند ین ایما ن نہ لائے اور یہ کہا کہ یہ سحر مستمر (دائمی اور
ہمہ گیر)ہے ،اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ( اقتربت الساعۃ وانشق القمر وان
یروا آیۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر )سورۂ قمر۔
جیساکہ بیان کیا گیا کہ معجزہ شق قمر کا رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں واقع ہونا
قرآن کریم ، احادیث متواتر ہ اور اسانید صحیحہ و جیدہ سے ثابت ہے اور اسی
پر تما م سلف اور خلف کا اجماع ہے ،کسی شاذونادر نے جو (انشق القمر) بصیغہ
ماضی کو بمعنی (سینشق القمر) لیا ہے ،وہ سراسر ظاہر قرآن ، احادیث صریحہ و
صحیحہ اور تصریحات سلف وخلف کے خلاف ہے ،قابل اعتبار نہیں اور اس صورت میں
آگے کا مضمون ( وان یروا آیۃ یعرضوا ) بے معنی ہوجائے گا ، اس لئے کہ قیامت
کے واقع ہونے پر توکسی کے اعتراض اور بے رخی کا امکان ہی نہیں رہتا، واقعہ
شق القمر کی جو تفصیل ہم نے ذکر کی ہے ، وہ البدایہ والنہایۃ للحافظ ابن
کثیر :۱۸-/۳اور فتح الباری : ۱۳۸/۷ باب انشقاق القمر سے لی ہے ، حضرات اہل
علم اصل کی مراجعت فرماسکتے ہیں۔
مخالفین اسلام اس معجزہ پر اعتراض کر تے ہیں کہ اول تو یہ بات محال اور
ناممکن الوقوع ہے کہ چاند کے دوٹکڑے ہوجائیں ،دوسرے یہ کہ اس واقعہ کا کسی
تاریخ میں ذکر نہیں ،جواب یہ ہے کہ آج تک کسی دلیل عقلی سے اس قسم کے واقعہ
کا محال اور ناممکن ہوناثابت نہیں ہوا، اﷲ تعالی ہر چیز پر قادر ہے ، جس
طرح اجسام سفلیہ میں کون وفساد عقلا ًمحال اور ناممکن نہیں ، اسی طرح اﷲ
تعالی کی قدرت اور مشیت سے اجسام علویہ میں بھی کون فساد محال نہیں ،خداوند
ذوالجلال کی قدرت کے اعتبار سے آسمان اور زمین شمس او رقمر ،شجر اور حجر سب
برابر ہیں ، جس خدانے شمس وقمر کو بنا یاہے ،وہ خدا ان کو توڑ بھی سکتاہے
اور جو ڑ بھی سکتاہے ،جو لوگ محض استبعاد کی بناء پراس کو محال قرار دیتے
ہیں ،ان کو محال اور مستبعد کا فرق بھی معلوم نہیں ، رہایہ امر کہ اس واقعہ
کا ذکر تاریخوں میں نہیں تو صد ہا اور ہزار ہا ایسے عجیب وغریب واقعات ہیں
کہ جو وقوع میں آئے مگر تاریخوں میں ان کا ذکر نہیں، تو رات اور انجیل میں
بہت سے ایسے واقعات ہیں، جن کا کسی تاریخ میں کہیں نام ونشان نہیں ،نیز شق
قمر کا واقعہ رات کاواقعہ ہے، جو عموما ًلوگوں کے آرام کا وقت ہے ،وہ بھی
صرف تھوڑی دیر کے لئے رہا ،اس لئے اگر عام طور پر لوگوں کو اس کا علم نہ
ہواہو،تو تعجب نہیں ،بسا اوقات چاند اور سورج گرہن ہوتے ہیں او ربہت سے
لوگوں کو علم بھی نہیں ہوتا، نیز اختلاف مطالع کی وجہ سے بہت سے مقامات پر
اس وقت دن ہوگااور کسی جگہ آدھی رات ہوگی ، عموما ًلوگ گھروں میں سوتے ہوں
گے او رکھلے آسمان کے نیچے بھی ہوں، تو عادۃً یہ ضروری نہیں کہ سب لوگ
آسمان کی طرف نظریں جمائے تک رہے ہوں اور زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی پر
کوئی فرق چاند کے ٹکڑ ے ہونے سے نہیں آسکتا،بارہا چاند گرہن لوگوں کو نظر
نہیں آتا ،بایں ہمہ تاریخ فرشتہ میں اس کا ذکر موجود ہے اور علامہ شبیر
احمد عثمانی ؒ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایاہے ،ہندوستان میں مہاراجہ
مالیبار (شیرامین)کے اسلام کا سبب مؤرخین اسی واقعہ کو کہتے ہیں ،اگر عام
تاریخوں میں یہ واقعہ مذکور نہیں ،تو اس سے اس واقعہ کی تکذیب کیسے ہوسکتی
ہے ، یوں تو عام تاریخوں میں قوم عاد وثمود کے بھی واقعات نہیں ملتے ،نیز
اس معجزہ سے مقصود فقط اہل مکہ کو دکھلانا اور ان پر حجت تما م کرنا تھا ،
وہ مقصود حاصل ہوگیا، تما م عالم کو تو دکھلانا مقصود بھی نہ تھا ،نیز کسی
شیٔ کا دیکھنا اﷲ کے دکھلانے پر موقوف ہے ، اگر کوئی شے نظروں کے سامنے بھی
ہو اور اﷲ تعالی نہ دکھلانا چاہیں، تب بھی وہ شے نظر نہیں آتی ، پھر یہ کہ
اس زمانہ میں رصدگاہیں نہیں تھیں کہ پہلے سے بذریعہ اخبار یامیڈیااطلاع
ہوتی کہ فلاں دن انشقاقِ قمر کا معجزہ دکھلایا جائے گا،لہذا لوگ با خبر
رہیں اور دیکھتے رہیں۔(معارف القرآن للکاندہلوی مع تغییر واضافات)۔ |
|