اسلام اور اقلیت
(Muhammad Attique Goraya, )
کل(15-03-2015) میں نے لاہور میں
ایک عجیب منظر دیکھا کہ ایک طرف ہلکے سبز رنگ کی جیکٹیں پہنے ہوئے کچھ
باریش لوگ چرچوں میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں زخمیوں اور لاشوں کو
اٹھا رہے تھے اور دوسری طرف کچھ مشتعل لوگ شبہ کی بنیا د پر دونوجوانوں کو
زندہ آگ لگا رہے تھے ۔ آگ لگانے کا منظر ایسا ہولناک اور دہشت زدہ کرنے
والا تھا کہ میرے دل سے دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ ان مظلوموں کے خون کی
وجہ سے پاکستان پر کوئی مصیبت نازل نہ فرمانا۔ یااللہ ہم سب کی غلطیوں کو
معاف فرما۔ گو کہ ان دو افراد کی ابھی تک شناخت نہیں ہوسکی کہ یہ دہشت
گردتھے بھی یا نہیں ؟
مورخہ 15-03-2015کو لاہور میں عین دعا کے وقت 2چرچو ں میں دھماکے ہوئے جس
میں تقریباََ 14 افراد ہلاک اور 65کے قریب زخمی ہوئے ۔مشتعل عیسائیوں نے
دھماکوں کے بعد تقریباََ ایک گھنٹے تک پولیس کو جائے وقوعہ پر جانے سے روکے
رکھا اور اس کے بعد احتجاج کم اور تشدد کا عنصر زیادہ تھا۔دوافراد کو زندہ
جلایا گیا ،شہریوں پرتشدد ،توڑپھوڑ اور میٹروسٹیشن کوبھی نقصان پہنچایا گیا۔
گو کہ ہر دھماکے کے بعد احتجاج کرنا توڑپھوڑ کرنا ہم پاکستانی اپنا حق عین
سمجھتے ہیں اور ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچاکر خوشی
محسوس کرتا ہے ۔ لیکن ان واقعات میں ایک نیا واقعہ دوافراد کو زندہ جلانا
ہے اگر وہ دہشت گرد تھے بھی تو قانون ان کو سزا دیتا اور یہ ثابت کرنا بھی
قانون کا ہی کام تھاکہ آیا وہ دہشت گرد ہیں بھی یا نہیں ؟یہ دھماکے اور ان
کے بعد کے واقعات اس وقت وقوع پذیر ہورہے ہیں جب پاک فوج کا شدت پسندوں اور
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن انتہائی کامیاب کے ساتھ جاری ہے اور کراچی جیسے
شہر میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کافی کامیابی حاصل کرلی ہے اس
وقت اس طرح کے دھماکے ہونا اور وہ بھی پاکستان میں کسی غیر مسلم عبادت گاہ
پر بہت سارے سوالات کھڑے کرتا ہے ۔
ویسے تو کل جو کچھ بھی ہوا پاکستانی ہونے کے ناطے انتہائی دکھ ہوا چاہے وہ
عیسائی عبادت گاہ پر حملہ ہو یا پھر دوافراد کوزندہ جلایا جانا۔ سیدھی بات
ہے کہ اسلام میں اس طرح کے واقعات کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے ۔ اسلام میں
کسی بیگناہ کا قتل گویا پوری نسل انسانیت کا قتل ہے۔ اسلا م میں اقلیت کے
لئے ذمی کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ذمی کا مطلب ہے کہ اس کی جان ومال ،عزت وآبرو
اور زندگی گزارنے کے لئے ماحول اور وسائل فراہم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ
داری ہے ۔ امام ترمذی اپنی کتاب ترمذ ی شریف میں محمدکریم ﷺ کا فرمان نقل
کرتے ہیں کہ ’’یاد رکھوجو شخص مسلمان ریاست میں کسی ایسے غیرمسلم کوقتل کرے
،جس کا ریاست سے معاہدہ ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کی جان اور مال
کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے تو وہ اللہ کی ذمہ داری کی بیحرمتی کرتا ہے ،ایسا
شخص جنت کی خوشبوبھی نہیں سونگھے گا‘‘ اس طرح کے سخت الفاظ شاید ہی کسی
دوسرے مذہب میں ہوں وہ بھی کسی دوسر ے کے لئے ۔جو کہ آپ کے عقیدے کو نہیں
مانتا۔پاکستان سمیت کسی بھی اسلامی ملک میں رہنے والے غیرمسلم خواہ وہ ہندو
ہویا پھر یہودی یا پھر کوئی اور ان کی عبادت گاہ پرحملہ اسلام میں قطعاََ
حرام ہے ۔ یہ پھر کون لوگ ہیں جو پاکستان میں ذمی (اقلیتی) بھائیوں پر حملہ
کرکے ان کو اشتعال دلاتے ہیں اور پھر اسلام کے نام پر ان کے قتل کو جائز
قرار دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کا نہ تو اسلام سے اور نہ پاکستان سے کوئی تعلق
ہے ۔ یہ لوگ خواہ کسی بھی روپ میں ہوں اسلام وپاکستان کے دشمن ہیں ۔ کیوں
کہ یہ ریاست پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوئی تھی ۔ اس میں جس طرح
مسلمانوں کے حقوق ہیں بالکل اسی طرح ذمی(اقلیتیوں ) کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔
ان کی جان ومال وغیرہ کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔
یہاں پر عیسائی بھائیوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیئے کہ پاکستان کے دشمن عناصر
ان کے وطن عزیز کو خانہ جنگی وانتشار میں لیجانا چاہتے ہیں اور اس پر اپنا
قبضہ کرکے اپنے ناپاک منصوبے پورے کرناچاہتے ہیں ۔ یہ ملک ہم سب پاکستانیوں
کا ہے ۔عبادت گاہ کسی بھی مذہب کی ہو وہ احترام کے قابل ہے اس پر حملہ کرنا
اسلا م اور پاکستان کے قانون میں قطعاََ منع ہے جو بھی یہ کام کرتے ہیں وہ
دشمن عناصر کے کارندے ہیں ان کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ناکہ
پاکستان کی املاک کو نقصان پہنچا کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں ۔یہ دہشت
گردی کاشکار ہم سب پاکستانی بھائی ہیں مساجد ،امام بارگاہ ،اسکول ،سیکیورٹی
اداروں کے دفاتر الغرض پاکستان کی ہرسطح پر یہ لوگ حملے کرتے ہیں یہاں سب
شکار ہیں اس دہشت گردی کا ۔ ہمیں ضرورت ہے متحد ہونے کی نا کہ انتشا ر کی ۔
ہمارا دشمن ہمیں آپس میں لڑوانا چاہتا ہے ۔
پاکستانی اسکالرز خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ان کا فرض بنتا
ہے کہ وہ اس مذہب کے ماننے والوں کو امن وآتشی کی تلقین کریں اور اپنے مذہب
کی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ لوگ دشمن عناصر کے ہاتھوں بلیک
میل نہ ہو سکیں ۔ چونکہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے تو
اس لحاظ سے مسلم علما کا خصوصی طور پریہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کی صحیح
تصویر لوگوں کے سامنے رکھے وہ گھسی پٹی تقریریں کرناچھوڑدیں جو ہرسال ہر
ماہ ایک ہی موضوع پر کی جاتی ہیں اسلام کی امن کے متعلق تعلیمات کو میڈیاکے
ہرفورم پر لے کر آئیں اس کے متعلق کتابیں لکھ کر پڑھے لکھے طبقے تک پہنچائی
جائیں جیسا کہ محتر م امیرحمزہ صاحب کی کتاب ’’رویے میرے حضور ﷺکے‘‘ اس
موضوع پر ایک بہترین کتا ب ہے اس طرح کی مزید کتابیں علماء اکرام کو لکھنی
ہونگی تاکہ عوام تک اسلام کی صحیح اور سچی تصویر پیش کی جاسکے اور اسلام
وپاکستان دشمن عناصر کے عزائم کو نیست ونابود کیا جاسکے۔ |
|