ووٹر ابن ووٹر

دروازہ پہ دستک نے خیالات کے تسلسل کو ایک بار پھر توڑ دیا۔ اندر سے ہی بند کواڑ سے آواز دینے پر معلوم ہوا کہ محلے کے چند افراد ہیں جو کسی سیاستدان کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ دیکھے بغیر اتنا صحیح اندازہ لگانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مگر ان کے طرز تخاطب نے مشکل آسان کر دی کہ وہ ووٹر ابن ووٹر سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ باہر جا کر ان کے ساتھ آنے والے سپوٹر ابن سپوٹر نے مجھ سے ان کا تعارف کروایا کہ سیاستدان ابن سیاستدان آپ سے بالمشافہ ملنے کے خواہشمند تھے۔ چہرے پر ناگواری کو چھپاتے ہوئے ایک چمکتی مسکراہٹ سے خوش آمدید کہا اور آنے کا مقصد تو ہمیں معلوم ہی تھا ۔ الیکشن قریب تھے، وہ منہ دکھائی کی رسم ادا کرنے آئے تھے۔

تاکہ ہم ووٹ ان کی جھولی میں ڈالنے کے فرض سے عہدہ برآہو جائیں۔ میں بچپن سے ان تمام افراد کو اور وہ مجھے جانتے تھے۔ اس وقت فرق صرف یہ تھا کہ دستک دینے والاسیاستدان ان کا والد اور دروازہ کھولنے والا ووٹر میرے والد تھے۔ حتیٰ کہ تعارف کروانے والا اسی سپوٹر کا باپ تھا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا جیسے کہ ہاکی کھیلنے والے نام بدل جاتے ہیں مگر پوزیشن وہی رہتی ہےاور کمنٹری کرنے والا رائٹ ان سے سنٹر فاورڈ پھر لفٹ ان پوزیشن سے موو بنانے والے کا ذکر کرتا ہے۔ آج ہمارا بھی حال اسی کھیل کی مانند لگ رہا ہے ۔ گفتگو ایسے ماحول میں ہوئی جیسے برسوں کے بچھڑے عزیز محبت میں جدائی کے غم کی روئداد سنا رہے ہوں۔ مرحوم ووٹر کا کیسا گہرا رشتہ تھا مرحوم سیاستدان سے ۔ سال و سال تک خوب نبھاتے رہے وہ اس تعلق کو۔ اب ہمیں ووٹر ابن ووٹر کو سیاستدان ابن سیاستدان سے اسی تعلق کی لاج رکھنی ہوگی جب تک کہ ووٹر- ابن ووٹر ابن ووٹر نہ ہو جائے۔

میرے حالات پہلے سے مختلف تھے تعلیم نے نئی جہت کے دروازے کھول دئے تھے۔ اب ابن کا تعلق تاریخ کی کتابوں سے جڑا تو اچھا لگتا ہے مگر حقیقت حال میں نسل در نسل حکمران ابن حکمران کا مفروضہ ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ جہاں غریب ابن غریب پر قناعت کرے اور امیر ابن امیر کا شاہسوار بنے۔ غلام ابن غلام کا دور گزر چکا ۔ جب زیادہ غلام رکھنا علامت ِ طاقت تھا وہ تاریخ دہرائی نہیں جائے گی۔ مگر نیا جال لائے پرانے شکاری کے مصداق اب ووٹر زیادہ ہوں تو طاقت کی علامت ہوتے ہیں۔ ہمارا ووٹ تو انہیں اونچی پرواز میں مخالف سمت چلنے والے جھکڑ سے بچنے میں مددگار تھا۔ وگرنہ ہم تو سال و سال سے زمین پر بنتے بگولوں کا شکار ہیں۔ جو صرف آنکھوں میں دھول اڑانے سے زیادہ کارآمد نہیں ہے۔ اگرآنکھیں صاف آب و ہوا میں چند دن گزار لیں تو دھول چبھن دینے لگتی ہے ۔آنکھ بند کرنے سے کام نہ چلے تو رخ بدل لیا جاتا ہے لیکن اب منہ موڑنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ کیونکہ بگولے اب آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں ۔آنکھ بند کریں یا رخ بدل لیں مگر رہیں گے بگولے کے اندر ہی۔ جب تک آنکھیں موندھے رہیں صاف آب و ہوا کی عادی نظر بچی رہیں گی۔ ایسی حالت میں ٹکرانے سے بچ نہیں پائیں گے ۔

روشنی چاہے کتنی ہی چکمدار کیوں نہ ہو دیکھنے کی سکت پیدا نہیں ہوتی۔ ہماری پوری زندگی ہی فلاں ابن فلاں بن کر رہ گئی ہے ۔ ترکھان، لوہار، جولاہے کا بیٹا سبزی کی دوکان نہیں لگاتا۔ ڈاکٹر، انجنیئر بزنس کے دھندے میں نہیں پڑتے ۔ ہاتھ صاف رکھتے ہیں ۔ ہر شعبہ زندگی کی افادیت، گھرانوں کے مکھی پہ مکھی مارنے کی عادت قفل بندی کا شکار ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک باکمال جادو ئی طاقت کے سحر زدہ ہیں۔ زیادہ بحث اور سوال و جواب کرنے والا بچہ اہلخانہ کی نظر میں وکیل یا پروفیسر کے مقام پانے کا اہل ہو جاتا ہے۔ جو بہانہ بازی، گولی دینے میں ماہر ہو شروع سے گلی محلے کی سیاست کا وارث سمجھا جاتا ہے۔ ملک و قوم کی نمائندگی کی اہلیت کا تصور الگ ہے۔ غرض معاشرہ اپنی ذمہ داری کندھوں سے اتار چکا۔ فرض منصبی ادا ہو چکا۔ جنہیں جو کام کرنا ہے وہ کر رہے ہیں۔ جیسے پنجابی کی ایک مشہور کہاوت کچھ یوں ہے " بیل سے کسی نے کہا ! تجھے چور لے جائیں، بیل بولا! مجھے اس سے کیا سروکار میں نے تو چارہ ہی کھانا ہے یہاں نہیں تو وہاں "
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96075 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.