امن، آزادی، انصاف، انسانی حقوق
کے عالمی ٹھیکیدار امریکہ کے نظام انصاف کو ایک تشدد سے نڈھال، نہتی اور
کمزور خاتون نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ دنیا کی واحد سپر پاور کو
افغانستان کے کوہساروں میں وسائل سے عاری، جدید جنگی آلات سے محروم مٹھی
بھر طالبان اور حزب اسلامی کے مجاہدین نے تورا بورا کی سنگلاخ چٹانوں کے
سنگ ریزوں کی طرح اڑا کر رکھ دیا ہے۔ اور اب نیٹو کے بعد امریکہ بھی افغان
حریت پسندوں سے مذاکرات پر آمادہ و تیار دکھائی دے رہا ہے۔ اور اس حوالے سے
سعودی حکمت کے تعاون سے کوششوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ مگر پاکستان کی
بیٹی ڈاکٹیر عافیہ صدیقی نے امریکی سر زمین پر تن تنہا جو کارنامہ انجام
دیا۔ اس کی نظیر انسانی اور امریکی تاریخ سے تلاش کرنا غیر ممکن ہے۔ عافیہ
صیدیقی بظاہر ایک بد نصیب خاتون ہے۔ جسے اس کے ملک کے حکمرانوں نے چند
ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کردیا۔ امریکہ کے بے دام غلام سابق صدر
پرویز مشرف جن پر آج اپنے ملک کی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ اور وہ اپنے دور میں
لوٹی گئی قومی دولت اور اپنے شہریوں کو سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے اغواﺀ کر
کے امریکہ کی تحویل کے عوض ملنے والے ڈالروں کے ذریعے لندن میں پرتعیش
زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سابق دور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے اغواﺀ
کر کے بڑی خاموشی سے چوروں کی طرح امریکہ کی تحویل میں دے دیا گیا۔ امریکی
حکام نے اسے افغانستان کے بدنام زمانہ ٹارچر سیل بگرام میں رکھا۔ جہاں اس
پر وحشیانہ اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گرفتاری سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی آغا خان یونیورسٹی میں ملازمت کر رہی
تھیں۔ 2003 میں ان کے اغواءکے بعد ان کے اہل خانہ مسلسل تلاش میں مصروف رہے۔
لیکن 2008 میں اچانک ایک برطانوی صحافی نے قیدی نمبر 650 کے حوالے سے ایک
چشم کشا رپورٹ شائع کی۔ جس میں انکشاف کیا گیا کہ یہ خاتون قیدی جس کی
کوٹھڑی سے رات بھر چیخیں اور کراہیں گونجتی تھیں۔ دراصل ڈاکٹر عافیہ صدیقی
ہے۔ خبر کی اشاعت کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کا طوفان امڈ آیا۔ طالبان کے
ردعمل کے خوف سے عافیہ صدیقی کو افغان صوبے غزنی سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری سے قبل اس نے ایک امریکی فوجی اور ایک شہری پر فائرنگ کرکے انہیں
زخمی کیا۔ اس تناظر میں یہ بات صیغہ راز ہے کہ 2003 سے 2008 تک عافیہ صدیقی
کہاں رہیں ؟۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عرصہ انہوں نے امریکی عقوبت
خانوں میں امریکی فوج کے مظالم سہتے گزارا۔ تاہم امریکی اس سے انکاری ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران زخمی فوجی ،عینی شاہد اور
مترجم کے بیانات میں واضح تضاد پایا گیا۔ جس رائفل سے فائرنگ کا حوالہ دیا
گیا۔ کسی نازک اندام خاتون کے لئے اس کو اٹھانا اور پھر استعمال کرنا ممکن
ہی نہیں اور یہ حقیقت امریکی قانونی ماہرین تسلیم کر چکے ہیں۔
دوسری اہم ترین بات یہ کہ اگر عافیہ صدیقی امریکی تحویل میں نہ تھی تو وہ
غزنی کیمپ میں کیا کر رہی تھیں ؟۔ کس مقصد کے تحت وہ وہاں موجود تھیں اور
کن ذرائع سے وہ اس کیمپ میں داخل ہوئیں ؟۔ حیرت انگیز طور پر جیوری نے اس
اہم نکتے کو نظر انداز کیا۔ بگرام جیل قیدی نمبر 650 کا ریکارڈ تک نہیں
منگوایا گیا۔ تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ عافیہ صدیقی 2003 سے 2008 تک
امریکی قید میں تھیں۔ قیدی نمبر 650 اگر عافیہ صدیقی نہیں تھیں تو وہ کون
سی خاتون تھیں جس کی چیخیں برطانوی صحافی نے سنی تھیں ۔ عافیہ صدیقی کے
خلاف امریکی جیوری کا متفقہ فیصلہ بھی اپنی طرز کا واحد اور انوکھا فیصلہ
ہے۔ جس میں ملزم پر عائد فرد جرم ثابت کئے بغیر اسے مجرم تسلیم کرلیا گیا۔
جیوری نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اقدام قتل سمیت سات جرائم میں مجرم مانا۔
مگر ان جرائم کا وقوع پذیر ہونا ثابت نہ کیا جاسکا۔ امریکی جیوری اس قدر بے
بس اور معذور تھی کہ اس نے اپنے ادھورے فیصلہ میں ڈاکٹر عافیہ کو مجرم تو
قرار دے دیا۔ مگر اسے کوئی سزا نہ دے سکی۔ شائد امریکی قوانین میں ایسی
کوئی سزا دستیاب ہی نہ تھی جو ایسے جرم پر دی جاسکے۔ جو سرے سے رونما ہی
نہیں ہوا۔ اور نہ اسے ثابت کیا جاسکا یا شائد امن، آزادی، انصاف اور انسانی
حقوق کے ٹھیکیدار امریکی امن کو تباہ کرنے غریب ممالک کے شہریوں کی آزادی
پامال کرنے ،انصاف کی دھجیاں اڑانے اور انسانی حقوق کو روندنے کی کوئی نئی
مثال قائم کر کے ایک مظلوم، بے بس ،لاچار خاتون کو نشان عبرت بنانا چاہتے
ہوں۔ اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ ہم ہیں سپر پاور۔ جسے چاہیں
آفتاب سے زرہ اور زرے سے آفتاب بنا دیں۔ امن صرف امریکیوں کا حق ہے۔ آزادی
وہ جو ہم دیں۔ آزادی کا جو پروانہ ہی اس طرف سے جاری کردہ نہیں۔ وہ بغاوت
ہے۔ انصاف دراصل وہ ہے جس میں امریکہ کے مفادات کو تحفظ ملے۔ ورنہ ظلم اور
نا انصافی ہے۔ انسانی حقوق صرف انسانوں کا حق ہے اور انسان صرف امریکی ہیں۔
باقی دنیا حشرات الارض ہے۔ اور امریکہ کو حق حاصل ہے کہ جب چاہے کرم کش
ادویہ یا ڈیزی کش بموں کی بارش سے ان کو تلف کر دے۔ امریکہ کی یہ فرعون سوچ
اپنی جگہ مگر جن کے ضمیر زندہ ہیں احساس ابھی مردہ نہیں ہوا۔ وہ جانتے ہیں
کہ ایک نہتی لڑکی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی نظام انصاف ہی کو نہیں بلکہ
امن، آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کے فلسفے کی عمارت کو بھی ورلڈ ٹریڈ
سنٹر کے ٹوئنز ٹاورز کی طرح ایک ہی جھٹکے میں زمیں بوس کر دیا ہے۔ ڈاکٹر
عافیہ صدیقی سپر پاور کے مقابلے میں جیت گئی اور امریکہ ہار گیا۔ |