نوبت باینجا رسید ؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
میں نے تاریخ کے جھروکوں میں
جھانک کر دیکھا کہ مسلمانوں کے ملک میں ،مسلمان حکمران ہوں اور کسی غیر
مسلم نے بلا کسی جرم کے مسلمانوں کو قتل کیا ہواور پھر انہیں نذرآتش کیا ہو،
لیکن مجھے ایسی کوئی نظیر نہ ملی ۔ تو لاہور میں حافظ نعیم اور عزیز فرزند
ابرار کی شہادت اپنی مثال آپ ہے۔ کراچی کے ایک بشپ سے ٹی اینکر نے انکے
بارے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بہت براہوا لیکن جو گرجا گھر کے اندر
دہشت گردی کا شکار ہوئے وہ بھی تو افسوس ناک ہے ۔ پھر سوال کیا گیا کہ ایک
تنہا عورت پر ہجوم نے حملہ کردیا ۔ خوش قسمتی سے اسے پولیس اہلکاروں نے
اپنی تحویل میں لے کر درندوں سے بچالیا، آپ اس بارے کیا کہتے ہیں؟ بشپ نے
جواب دیا کہ اس عورت پر حملے کا تو آپ کو افسوس ہے لیکن گرجا کے اندر بھی
توعورتیں تھیں۔ اسی طرح ایک عیسائی عورت نے میرے سامنے گرجا گھر پر حملے کا
افسوس کیا تو میں نے کہا کہدہشت گردوں نے کس کو چھوڑا، مساجد، علما کرام،
امام بارگاہیں ، مارکیٹیں حتی کہ معصوم طلبا کو سکولوں نہائت بے دردی سے
اپنی بہیمیت کا نشانہ بنایا لیکن کسی بھی واقعہ کے بعد ایسا وحشیانہ احتجاج
یا کسی بے قصور کی جان نہیں لی گئی تو اس نے جواب دیا کہ گرجا گھر پر حملہ
کا رد عمل ہے۔ اسی طرح کے بیانات صلیبی رہنماؤں کی جانب سے سننے میں آرہے
ہیں۔ حکومت نے فوری طور پر دہشت گردی اور قتل کے پرچے درج کرلیئے لیکن آج
تک کسی مجرم کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ بربریت کا کردار اداکرنے والوں کی
شناخت بھی ہوچکی ہے۔ اب میں ذرا ماضی میں ہونے والے واقعات کو زیربحث
لاؤنگا کہ برطانیہ کے غاصبانہ دورِ حکومت میں جو مظالم مسلمانوں پر ڈھائے
گئے وہ صلیبیوں کی خونخواری کی بھیانک تاریخ ہے ۔کئی دینی اور روحانی
ہستیوں کو تختہ دار پر چڑھایاکئی ایسے کہ جنہیں کالے پانی بھیجا گیا۔ظلم کے
عمل کو جاری رکھنے کے لیئے ہندؤں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ جنہوں نے صلیبیوں
کی سرپرستی میں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت آبروپر تو حملے کیئے لیکن اس
ذات پر بھی حملے کیئے کہ جن کی عزت اور حرمت پر مسلمانوں نے صدیوں سے جانیں
قربان کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ درجنوں ایسے واقعات ہیں کہ برطانوی
غاصبانہ دور حکومت میں سرور انبیاء جانِ ایماں رحمۃ للعلمین ﷺ کی شان میں
ہندوؤں نے گستاخانہ کتابیں لکھیں اور انگریز حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا تو
شمع رسالت کے پروانوں نے خبیثوں کو واصل جہنم کیا۔ صلیبی حکومت نے ان میں
سے اکثر غازیوں کو سزائے موت سنائی اور وہ شہادت کے اعلیٰ مراتب کو پہنچے۔
پاکستان بننے کے بعد صرف عیسائیوں نے شان رسالت میں زبان درازیاں کیں اور
پاکستان کے قانون کے مطابق ان میں سے بعض کو سزائے موت تو سنائی گئی مگر
ہمارے ملک کے لالچی ایمان باختہ حکمرانوں نے انہیں صلیبی ممالک کے حوالے
کردیا۔ اﷲ جانے پاکستان میں کیسے کیسے لوگ حکمران بن جاتے ہیں ۔ کہ وہ
صلیبیوں کی رضامندی کو اﷲ و رسول کی رضامندی پر ترجیح دیتے ہیں۔ جیسا کہ
صلیبی عورت آسیہ نے شان رسالت میں گستاخی کو تسلیم ، سزائے موت سنائی گئی۔
لیکن سلمان تاثیر نامی گورنر اس کا خیرخواہ نکلا اور تمام تر قوانین
اورضابطوں کو پامال کرتے ہوئے سزائے موت کی مجرمہ کو ملنے جیل جاکر آئین
پاکستان کی شق295-c کہ جس کے تحت آسیہ کو سزائے موت سنائی گئی اسے کالا
قانون قرار دیتا ہے اور بھی بہت کچھ اس نے کہا۔ مسلمانوں نے پہیہ جام ہڑتال
بھی کی لیکن قانون شکن گستا خ رسول گورنر کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی تو
مجبورا ایک عاشق رسول نے تمام مسلمانوں پر عائد فرض پورا کردیااور سلمان
تاثیر کو واصل جہنم کردیا۔ کچھ انسانیت کی ہمدرد عورتوں نے سلمان تاثیر کی
حمائت کی۔ لیکن آج جب عیسائی غنڈوں نے پاکستان کے قانون کی سرعام دھجیاں
اڑائیں، بے قصور مسلمانوں کو ڈنڈے مارمارکر اذیت دی اور پھر انہیں سرعام
جلادیا تو کوئی فرد یا تنظیم انسانی ہمدردی میں نظر نہ آئی۔ شائد انہیں
اژدہاؤں نے سونگھ لیا ہو۔ امریکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس نے سر عام تین
پاکستانی مسلمانوں کو انکے شہر لاہور میں بڑی دلیری کے ساتھ قتل کیا۔ لیکن
پاکستان کے حکمران کی دلیری بھی قابل داد ہے کہ مسلمان پاکستانیوں کی لاشوں
کا سودا کیا اور ریمنڈ دیوس کو اپنے قبلہ و کعبہ کے حوالے کیا۔ جبھی تو
پاکستان کی صلیبی اقلیت اتنی دلیر ہوئی کہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف
اپنے عقائد کے تشخص کو قائم کرتے ہوئے ایک آبادی کا نام یوحنا رکھا۔ جو
آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن عالمی صلیبی مشن کا حصہ ہے جس طرح
انڈونیشیا کا عیسائی اکثریتی علاقہ علیحدہ کردیا گیا، اسی طرح پاکستان میں
ایک علیحدہ صلیبی ریاست کا منصوبہ ہے۔ لاقانونیت کی انتہاکردی گئی۔ فیروز
پور روڈ پر صلیبی راج رہا اور صلیب لہرائی گئی۔ صلیب لہرانے کا کیا مطلب ہے؟
اہل دانش غور کریں۔اس سے قبل بھی صلیب لہرانے کے واقعات موجود ہیں۔ قیام
پاکستان کے ساتھ ہی قومی پرچم میں سفید رنگ سے اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا۔
پھر 1949 میں قراردادِ مقاصد میں اقلیتیوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی
آزادی دی گئی اور انہیں مسلمانوں کی طرح قانونی تحفظ دیا گیاجو آج بھی آئین
پاکستان کا ابتدائیہ ہے۔ یہ آزادی عبادات تک ہے ۔ پاکستان اسلامی ریاست ہے
اور ریاست کا مذہب اسلام ہے لھذا پاکستان میں تبلیغ و ترویج صرف اسلام کی
ہوگی۔ غیر مسلموں کو اپنے عقائد یا مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں ۔ تمام غیر
مسلم اقلیتیں اسکی پابند ی کرتی ہیں سوائے صلیبیوں (عیسائیوں )کے ۔ تقریبا
تمام بڑے بڑے شہروں کے چوکوں میں عیسائی مبلغین سرعام عیسائیت کی تبلیغ
کرتے نظر آتے ہیں۔ آخر ہمارے حکمران یا افسران بتائیں تو سہی کہ صلیبیوں کے
ساتھ اتنا لاڈ پیار کیوں؟ عوام تو جانتے ہیں کہ اس ملک کے نمک خوار کن کے
وفادار ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ صلیبیوں کو بتادے کہ وہ اس طرح رہیں جس
طرح باقی اقلیتیں اس ملک میں رہ رہی ہیں۔ اس ملک کی تخلیق کے واضح مقاصد
ہیں جو ہمارے قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے واشگاف میں الفاظ بتائے کہ پاکستان
کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا اور ہمارا آئین قرآن و سنت ہے۔ یہ اسلام کی
تجربہ گاہ اور اسلام کا قلعہ ہے۔ اس میں کسی صلیبی یا کسی بھی غیرمسلم کو
نقب لگانے کی اجازت نہیں ۔نیز حکومت اقلیتوں سے جزیہ(تحفظ ٹیکس)وصول کرے جو
اسلامی قوانین کے مطابق ہو۔ |
|