تقسیم ِمیراث یا ترکہ اور ہمارے والدین کی میراث کی شرعی تقسیم

(آپ بیتی سے ماخوذ)
قرآن کریم میں ’مسئلہ میراث‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے اور حقِ وراثت کی منصفانہ اور شرعی تقسیم پر انصاف سے کام لینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کسی بھی حق دار کو وراثت میں سے محروم کرنا بد ترین گناہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والے قیامت کے دن سخت ترین عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔یہ میراث کی اہمیت ہی ہے کہ نبی رحمت حضرت محمد ﷺ نے علمِ میراث سیکھنے اور سکھا نے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں نا انصافی کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے۔صحیح بخاری کی حدیثِ مبارکہ سیدنا عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
’’ میراث (مقررہ حصے) اس کے حقداروں تک پہنچا دو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد عزیز کا حصہ ہے‘‘۔

میراث یا ترکہ وہ جائیداد ہے جو میت چھوڑ کر فوت ہو گیا ہے۔وہ نقدرقم، زرعی زمین ، مکان یا مکانات یا وہ حقوق جنہیں اس نے زندگی میں ادا کرنا تھا اور وہ ادا نہیں کرسکا۔ ’اسلام کا قانون ِ وَراثت‘کے مصنف صلاح الدین حیدر لکھوی نے میت کے ترکہ سے متعلق چار حقوق بیان کیے
ہیں۔
۱۔میت کی تدفین کے اخراجات
۲۔قرض کی ادائیگی۔
۳۔وصیت کی ادائیگی۔
۴۔وارثوں کا حق۔

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے وراثت یا میراث کی آیت نازل فرمائی جس میں بہت واضح طور پر مرنے والے کی جائیداد یا جو کچھ بھی وہ دنیا میں چھوڑ کر دنیا سے چلا جائے کی منصفانہ تقسیم کس طرح کی جائے صاف الفاظ میں ہدایت موجود ہیں ۔’ کلالہ‘ کی میراث کے حوالے سے بھی قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آخری آیت (176) میں واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ کلالہ سے مراد اختلاف کے ہیں۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کلالہ وہ شخص ہے جو لاوَلد (اس کی اولاد نہ ہو) ہو اور جس کے باپ اور دادا بھی زندہ نہ ہوں بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ محض لاوَلد مرنے والے کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ کلالہ کی وضاحت خود قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے۔ کلالہ کی میراث کے حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث ہے حضرت جابر بن عبداﷲ عنہا نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ بیمارپڑا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیدل میری عیادت کو تشریف لائے۔ ان بزرگوں نے دیکھا کہ مجھ پر بے ہوشی غالب ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا‘ اس سے مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ حضوڑ ﷺ تشریف رکھتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ ! میں اپنے مال میں کیا کروں‘ کس طرح اس کا فیصلہ کروں؟ آنحضرت نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔

قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت 11،12، 33 اور آخری آیت 176کَلاَلہ سے متعلق ہے۔پہلے سورۃ انساء کی آیت 33کا ترجمہ’’اور ہم نے ہر اُس ترکہ کے حق دار مقرر کردیے ہیں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑیں۔ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیماں ہوں تو اُن کا حصّہ اُنھیں دو، یقینااﷲہر چیز پر نگراں ہے‘۔اسی سورۃ کی آیت 11اور 12 میں وراثت کی تقسیم کی کھلے اور صاف صاف الفاظ میں وضاحت کی گئی ہے۔ آیت 11کاترجمہ ’’تمہاری اولاد کے بارے میں اﷲ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ : مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے ۔ اگر( میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو اُنھیں ترکے کا دوتہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارِث ہو تو آدھا ترکہ اس کا حق ہے ۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکہ میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اُس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگرمیت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹاحصہ اور (یہ سب اس وقت نکالے جائیں گے )جب کہ وصیّت جو میّت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور جو قرض اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔ اور تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصّے اﷲ نے مقرر کر دیے ہیں اور اﷲ یقینا سب حقیقتوں سے واقفِ اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے‘‘۔

اِسی سورۃ کی آیت 12کا ترجمہ ہے ’’ اور تمہاری بیویوں نے کچھ چھوڑا ہو، اس کا آدھا حصّہ تمہیں ملے گا، اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمہاراہے، جب کہ وصیّت جو انھوں نے کی ہو پوری کردی جائے ، اور قرض جو اُنھوں نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اُن کا حصّہ آٹھواں ہوگا۔بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیاجائے۔ اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زِندہ نہ ہوں مگر اُس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے۔ ، جب کہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو میت نے چھوڑا ہوادا کردیا جائے ، بشرطیکہ وہ ضرررساں نہ ہو۔ یہ حکم ہے اﷲ کی طرف سے اور اﷲ دانا و بینا اور نرم خُو ہے ‘‘۔

وہ شخص جس کے اولاد نہ ہو اور وہ لاوَلد دنیا سے رخصت ہوگیا ہوعربی میں اس کے لیے ’کَلالہ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایسے شخص کی جائیداد یا ترکہ کی تقسیم کے لیے سورۃ النساء کی آخری آیت 176ہے۔ اس آیت میں پروردگار نے کَلالہ کے بارے میں وضاحت کی نبی ؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ترجمہ ’’اے نبی ؑ ، لوگ تم سے کَلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہو اﷲ تمہیں فتویٰ دیتاہے ۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہو تو اس ترکہ میں سے نصف پائے گی ، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا۔ اگر میّت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ تر کہ میں سے دوتہائی کی حق دار ہوں گی۔ اور اگرکئی بھائی بہن ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مَردوں کادوہراحِصّہ ہوگا۔ اﷲ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے، تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اﷲ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔

میراث یا ترکہ کے بارے میں آنحضرت محمد ﷺ نے بہت واضح ہدایت کی اور اسے حق دار کو ادا کرنے کے لیے کہا۔ ساتھ ہی مرنے والے پر اگر قرض ہو تو سب سے پہلے اس کے ترکہ میں سے اس قرض کو اد کرنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے راویت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپ ﷺ فرماتے کہ کیا اس نے اپنے قرض کے اد ا کرنے کے لیے بھی کچھ چھوڑا؟ پھر اگر کوئی آپ کو بتا دیتا کہ ہاں اتنا مال ہے جس سے قرض ادا ہوسکتا ہے تو آپﷺ اس کی نماز پڑھاتے ‘ورنہ آپ ﷺ مسلمانوں ہی سے فرمادیتے کہ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے آپ پر فتح کے دروازے کھول دیئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ مستحق ہوں۔اس لیے اب جو بھی مسلمان وفات پاجائے اور وہ مقروض رہا ہو تو اس کا قرض اداکرنا میرے ذمے ہے۔ اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے(صحیح بخاری)۔

صحابی ِ رسول سید نا زید بن ثابت ؓ ان صحابیوں میں سے تھے جو وراثت کے مسائل کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات رکھتے تھے ۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیثِ مبارکہ ہے جس کے راوی سید نا انس ؓ ہیں۔ فرمایا رسول اکرم ﷺ نے ایک دفعہ سید نا زید بن ثابت ؓ کے متعلق فرمایا ’وراثت کے مسائل کو حل کرنے کے بارے میں میرے صحابہ میں سے سب سے زیادہ ماہر ہیں‘۔حضرت عمر ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ وراثت کے بارے میں سوال پوچھنا ہو تو سید نا زید بن ثابتؓ سے جاکر پوچھو۔ حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’وراثت کے قوانین سیکھو کیونکہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہیں‘۔

وراثت کا موضوع اور مسئلہ اس قدر اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے کہ اس کا تعلق دنیا کے ہر ہر گھر اور خاندان کا لازمی حصہ ہے۔ کسی نے بہت درست لکھا کہ وراثت کے معاملات اس قدر زیادہ اور گھمبیر ہو گئے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا ایک پیشہ یعنی بے شمار وکیلوں کے گھروں کی روزی مہینوں نہیں بلکہ سالوں تک انہیں وراثت کے مقدمات کے ذریعہ چلتی رہتی ہے۔ ہماری عدالتوں نے اس اہم مسئلہ کو طول دینے اور وکیلوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بنانے میں کچھ زیادہ ہی کردار ادا کیا ہے۔ وراثت کے مقدمات بسا اوقات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوجاتے ہیں ۔ حتمی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔اس کی بنیادی وجہ اس موضوع اور مسئلہ کے حوالے سے اسلام سے دوری، قرآن و حدیث سے ناواقفیت،جذبات سے کھیلنا، ھَوَس،لالچ خدا پر بھروسہ نہ ہونا، ماں باپ کے مرنے کے بعد یا کسی بھی ایسے فرد کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جو جائیداد ، مکان، دکان، گھر، پلاٹ، نقد رقم، بنک بیلنس چھوڑ کر مرا ہو ، اس کے علاوہ سادے الفاظ میں زر، زمین اور دولت کا حصول سامنے نظر آئے تو اس پر صرف اور صرف اپنا حق نظر آنے والے مسائل و مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ اﷲ نے انہیں جو کچھ دینا ہے وہ انہیں ضرور ملے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے ہڑپ نہیں کرسکتی۔ ھَوَس ،لالچ اور جلد بازی میں ہم اپنے خون کو بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔ عزیز رشتہ دار کو زیادہ حقدار قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی آیت الاحراب کی آیت 6میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’ اور رشتے دار کتاب اﷲ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار ہیں(ہا) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم کتاب (الہی) میں لکھا ہے ‘۔

وراثت یا مرنے والے کی جائیداد کی تقسیم کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے بہت صاف صاف اور عدل و انصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کو کہا ہے۔ ہر وارث کو اس کا حق دینے بلا تفریق وہ مرد ہے، عورت ہے، بچہ ہے، بوڑھا ہے، طاقت ور ہے، کمزور ہے،چھوٹا ہے بڑا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بچہ ماں کے پیٹ میں ہے، ابھی اسے دنیا میں آنے کے لیے مہینے درکار ہوں یعنی ماں کے پیٹ میں موجود حمل کی وراثت کا بھی تعین کردیا گیا۔اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا شخص جو اپنی حاملہ ماں، حاملہ بیوی یا حاملہ بہو کو زندہ چھوڑ کر مرگیا ہو ، قرآن نے اس حمل کو بھی میت کا وارث مقرر کیا ہے۔ اسلام سے قبل مختلف قوموں اور نسلوں میں وراثت کا قانون غیر منصفانہ تھا،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہود، سید نا عیسیٰ علیہ والسلام کی قوم عیسائی یا نصاری میں وراثت کا قانون اسلام سے مختلف ہے۔ عدل و انصاف حق دار کو حق کی ادائیگی کا قانون قرآن کریم میں پیش کیا گیا جس کی مزید تشریح اور وضاحت نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی اور اسی طرح اس کے بعد جیسے جیسے مسائل و مشکلات آتی رہیں خلفائے راشدینؓ، صحابہ اکرام رضوان اﷲ علیہم، تابعین، تبع تابعین، اولیائے اکرام ،،بزرگانِ علم و فضل اور اس کے بعد بھی ان مسائل کے حل کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔

قانون وراثت کے بارے میں اہل علم اور علماء اکرم نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس موضوع پر بے شمار تصانیف موجود ہیں۔ معروف عالم دین علامہ کوکب نورانی نے اس پر موضوع پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ’تاریخ شاید ہے کہ طلوعِ اسلام سے قبل عورتیں اور بچے حق میراث سے محروم تھے ، اسلام نے اُنہیں حق وراثت میں شریک کیا اور ان کے حقوق کی پاسداری کے لیے واضح احکامات اور قوانین بیان کیے ان احکامات سے معاشرہ میں انسانی حقوق کے تحفظ کا احساس بیدار ہوا، انہی میں سے ایک اہم اصول ’قانونِ میراث‘ ہے۔اس قانون کو نصف العلم بھی کہا جاتا ہے۔(روزنامہ جنگ ۷ جنوری ۲۰۱۵ء)۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں جسے میں نے از خود سنا کہا کہ ’ہمارے معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اُس کے ترکہ پر کوئی ایک وارث یا چند ورثا مل کر قابض ہوجاتے ہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ مرنے والے کی جیب سے اگر ایک الائچی بھی نکلے تو کسی وارث کے لیے شرعاًجائز نہیں کہ وہ اس الائچی پر اکیلا قابض ہو جائے کیونکہ اس میں تمام ورثا کا حق ہے ۔

وصیت وہ ہدایت یا فیصلہ ہے جو مرنے والا اپنے چھوڑے ہوئے مال ،جائیداد یا ترکہ کے بارے میں کوئی مخصوص ہدایت کرتا ہے۔ وصیت صرف اور صرف اسی شخص کو کرنا ہوتی ہے جس کی ملکیت میں کچھ مال ، جائیداد ، نقد رقم یا بنک بیلنس ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کی تقسیم شرعی اعتبار کے ساتھ ساتھ کسی اور کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے ۔ یا جو لوگ اس کے مال کے شرعی وارث بھی ہیں ان میں سے کسی کو کچھ زیادہ دینے کی خواہش رکھتا ہو۔وصیت صرف مال و دولت کے بارے میں ہی نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ اپنی بیوی کے بارے میں ہوسکتی ہے، وصیت یہ ہوسکتی ہے کہ مرنے کے بعد اسے فلاں قبرستان میں دفن کیا جائے۔اکثر احباب یہ خواہش رکھتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ اگر ہماری موت مدینہ منورہ میں واقع ہوجائے تو تدفین جنت البقیع میں کردی جائے، اگر موت مکہ مکرمہ میں ہوتو اسے جنت المعلیٰ میں دفن کیا جائے۔ اکثر احباب یہ وصیت کرجاتے ہیں کہ ان کی قبر ان کی ماں یا باپ کے پہلو میں بنائی جائے وغیرہ وغیرہ۔ وصیت پر عمل کرنا بشرطیکہ وہ وصیت اﷲ کے احکامات اور طریقہ کار کے مطابق کی گئی ہو عین شرع ہے ، اس میں ردو بدل کردینا یقینا گناہ ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیات 180، 181اور240، سورۃ المائدہ کی آیات106تا 108میں وصیت کے بارے میں واضح احکامات ، ہدایات اور طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 180اور 181کا ترجمہ ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیّت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔ پھر جنہوں نے وصیّت سنی اور بعد میں اُسے بدل ڈالا، تو اُس کا گناہ اُ س بدلنے والوں پر ہوگا۔ اﷲ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے۔ البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادنستہ یاقصداً حق تلفی کی ہے ، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اُس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اﷲ بخشنے والا اور رحم فرمانے ولا ہے‘‘۔ مولانا سیدابُوالا علیٰ مودُودی ؒ نے ’اس سورہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا جب کہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہُوا تھا اس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصّے بذریعہ وصیّت مقرر کرجائے تاکہ مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑ ے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے۔ بعد میں جب تقسیم وراثت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے خود ضابطہ بنادیا(جو سورۃ النساء میں بیان کیا گیاہے) تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ مقرر فرمادیا کہ وارثوں کے جو حصّے اﷲ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں ان میں وصیّت سے کمی بیشی نہیں کی جاسکتی اور غیر وارث کے حق میں کل جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیّت نہ کرنی چاہیے اور مسلم وکافر ایک دوسرے کے وارِث نہیں ہوسکتے‘‘۔اسی سورۃ النساء کی آیت240میں بھی وصیّت کے ضمن میں کچھ بیان شوہر کے مرجانے کی صورت میں دنیا میں رہ جانے والی ان کی بیوی یا بیویوں کے حقوق کے حوالے سے ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ’’تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑرہے ہوں، اُن کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔ ہاں اگر وہ خود گھر سے چلی جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں ،تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اﷲ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ اسی طرح جِن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو ، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رُخصت کیا جائے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔اسی طرح کلام مجید کی سورۃ المائدہ کی آیت 106تا 108 میں بھی وصیّت کے بارے میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے وصیّت کرنے والے کے لیے ہدایات اور احکامات کا بیان کیے ہیں۔ابن ماجہ میں سیدنا ابی ہریرہ ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
’ قرض کی ادائیگی کو وصیت پر مقدم رکھا گیا ہے۔ کیو نکہ یہ رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہے۔ سید نا علی ؓ نے فرمایا کہ تم قرآن میں ترجمہ ’ یعنی وصیت قرضہ سے پہلے ہے لیکن رسول ﷺ نے قرض کا فیصلہ وصیت سے پہلے فرمایا ہے۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وراثت کی تقسیم کے حوالے سے مَیں اپنے ذاتی تجربے اور اپنے بہن بھائیوں کے صالح عمل کو عام قارئین کے لیے بیان کروں ۔ بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگ خاص طو رپر ہماری اپنی اولادوں کو اپنی آئندہ زندگی میں وراثت کی تقسیم کا مرحلہ پیش آئے تو وہ میری اس تحریر سے استفادہ بھی کریں اور اپنے بزرگوں کے اچھے عمل کو اپنے لیے بھی اپنائیں تاکہ بلاوجہ کی رنجشوں، پریشانیوں اور باہمی اختلاف سے محفوظ رہ سکیں ۔ہمارے والدین کی جائیداد محض ایک سو بیس (120)گز کا تین منزلہ مکان تھا اور وہ بھی کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں۔ہمارے والدین نے اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ 1947 میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی یہ وہ وقت تھا جب ہمارے والدین کی شادی تو ہوچکی تھی لیکن اولادوں میں سے صرف مَیں تھا وہ اپنی ماں کے پیٹ میں۔ دنیا میں میری آمد مارچ 1948 میں ہوئی ۔ والاد صاحب نے کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ کراچی آکر وہ کراچی پورٹ پر کام کرنے لگے تھے اس وجہ سے پورٹ کے نزدیک ہی لیاری کے علاقے پہلے بہار کالونی میں پھر آگرہ تا ج کالونی میں دو سو گز کا سستا سا پلاٹ خرید کر گھر بنا لیا۔ یہ پلاٹ پہلے جھونپڑی بناپھرکچے پکے مکان میں تبدیل ہوا۔ میرے دنیا میں آنے کے بعد تین بھائی اور تین بہنیں دنیا میں اور آگئیں اب ہم سات بہن بھائی ہوگئے دو عدد والد صاحب کی بہنیں اور دو عدد ان کے بھائی بھی ساتھ ہی تھے اس کے باوجود 13 افراد کا خاندان اس کچے پکے مکان میں سالوں خوش و خرم رہتا رہا۔ والد صاحب کی بہنوں اور بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں تو یہ خاندان سکڑ کر نو لوگوں پر مشتمل رہ گیا۔ 1988میں جب ہم بہن بھائی بڑے ہوگئے کمانے بھی لگے، دو کی شادیاں بھی ہوگئیں تھیں کسی بہتر علاقے میں منتقل ہونے کی منصوبہ بندی شروع ہوئی۔یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ انسان وقت کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر کی جانب اپنا سفر جاری و ساری رکھتا ہے۔چنانچہ ہم بھائیوں کی بھی یہ سوچ پیدا ہوئی اور ہم نے بہتر جگہ رہائش کی منصوبہ بندی کی۔ والد صاحب اپنی جائیداد کے حوالے سے جذباتی نظر آئے یعنی وہ اس کے حق میں نہیں تھے کہ وہ مکان فروخت کیا جائے۔ لیکن جب اولاد بڑی ہوجاتی ہے تو والدین اس کی مرضی کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی پسپائی اختیار کرلیتے ہیں۔ والد صاحب نے بھی اپنی اولاد کی خوشی کی خاطر اس فیصلے کو قبول کر لیا۔

اب ہمارا خاندان لیاری سے فیڈرل بی ایریا کے علاقے دستگیر سوسائیٹی میں قائم کسی کنسٹرکشن کمپنی کے بنائے ہوئے مکانات ’آصف نگر‘ میں منتقل ہوگیا۔یہ گھر زمینی منزل پر مشتمل تھا۔ گھر خریدنے کے بعدکچھ پیسہ بچ گیا وہ اسی مکان پر لگا دیا گیا۔،بعد میں ہم بھائیوں نے اس مکان کو زمینی منزل سے دوسری اور پھر تیسری منزل تک پہنچایا۔ اس کی مزید تعمیر اور ترقی میں میرے چھوٹے بھائی ندیم کا زیادہ کردار تھا اس کی وجہ اس کا کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہونا ہے۔ 1997میں والد صاحب اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ اس دوران چارو بھائیوں اور تینوں بہنوں کی شادیاں بھی ہوگئیں اور وہ اپنے اپنے گھروں کی ہوگئیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی جو ایک قدرتی عمل تھا۔ اب ہم بھائیوں کے بچے بھی ہو چکے تھے اور وہ بڑے بھی ہورہے تھے۔گھر میں کشادگی کے باوجود دلوں میں تنگی آنا شروع ہو گئی تھی۔ ویسے بھی دل کے کسی کونے میں یہ بات ضرور تھی کہ یہ ہمارے والدین کااثاثہ ہے۔ اس پر ہماری بہنوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہمارا ۔لیکن ابھی یہ بات زبان پر آنا شروع نہیں ہوئی تھی ۔اس کی بنیادی وجہ ہماری والدہ کی موجودگی تھی وہ چاہتی تھیں کہ ان کی اولاد اسی طرح ساتھ رہتی رہے۔ لیکن یہ ایک حد تک ممکن ہوتا ہے۔ دنیااِ سی طرح پھلی پھیلی ہے۔ ایک گھر سے دو اوردو سے چار گھر بنتے چلے جاتے ہیں۔1998 میں پہل کرتے ہوئے مَیں نے اپنے والدین کے گھر کو خیر باد کہا اورایک فلیٹ میں شفٹ ہوگیا۔ یہ میرا پنا فلیٹ تھا جو صرف اس وجہ سے بن سکا کہ میں اپنے والدین کے ساتھ ایک چھت تلے اپنی شادی کے 24 سال بعد تک رہتا رہا۔ جوائنٹ فیمیلی سسٹم یا ایک ساتھ رہنے کی مشرقی روایات کے بہت سے فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنی جائیداد آسانی سے بناسکتا ہے۔میرے علاوہ میرے چھوٹے بھائی ندیم نے بھی ایسا ہی کیا اور اس نے بھی ساتھ رہتے ہوئے اپنا ایک گھر بنا لیا تھا جہاں پر اب میں اور وہ آمنے سامنے اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔1998 میں اٹھنے والا میرا یہ قدم وراثت کی تقسیم کی جانب پہلی ابتدا تھی ۔میرے یہاں سے منتقل ہوجانے کے بعدمیرے تینوں بھائی اسی مکان میں رہتے رہے۔ 2009میں ہماری والدہ بھی اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا کے حق دارں کو ان کا حق ادا کردیا جائے جیسا کہ قرآن و حدیث میں آیا ہے۔

قانونی نقاضے پورے کرنے کی غرض سے میرے بھائیوں اور بہنوں نے اپنا حقِ وراثت میرے نام منتقل کر دیا ۔تمام بہن بھائیوں کا یہ مجھ پر اعتماد اور بھروسہ تھا۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید تقسیم ِ وراثت میں زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اس وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا۔اب وہ جائیداد میرے نام منتقل ہوچکی تھی۔اب یہ ذمہ داری میری تھی کہ مکان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کی تقسیم شرعی اور قانونی طریقے ، نیز شفافیت کے ساتھ عمل میں لائی جائے ۔میرے والد اور میری ولدہ پر کسی کا کسی قسم کا قرض نہیں تھا۔اپنے والد کے انتقال کے وقت جب انہیں قبر کی گود میں پہنچا دیا گیا تو میں نے قبر کے گرد موجود تمام احباب سے باآواز بلند یہ کہا تھا کہ اگر میرے والد صاحب پر کسی بھی شخص کا کچھ بھی قرض واجب ہے تو میں اس کی ادائیگی کروں گا وہ مجھ سے رابطہ کرلے۔ ہمارے والدین نے اپنی زندگی میں کوئی وصیت بھی نہیں کی تھی۔کم از کم میرے علم میں نہیں۔ اگر وصیت ہوتی تو وہ ہر صورت میں سامنے آجاتی۔ میں نے سب سے پہلے قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کی، صلاح الدین حیدر لکھوی کی کتاب ’اسلام کا قانونِ وَراثت: زندگی میں اور مَر نے کے بعد جائیداد کی تقسیم سے بَرپا ہونے والی تباہیوں سے بچنے کا نسخہ‘ کا تفصیلی مطالعہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اس اہم فریضے کی ادئیگی قرآن و سنت کے مطابق ، قانونِ وَراثت کے عین مطابق نیز تمام امور تحریری طور پر سر انجام دیے جائیں۔ چنانچہ میں نے ایک خط اپنے تمام بہن بھائیوں کے نام تحریرکیا جس میں کچھ بنیادی قسم کی ہدایات اور باتیں درج کیں ۔ یہ خط کچھ اس طرح تھا ۔

5؍ جولائی 2014
بَنام پرویز احمدصمدانی ابن انیس احمد صمدانی،تسلیم احمد صمدانی ابن انیس احمد صمدانی،ندیم احمد صمدانی ابن انیس احمد صمدانی،ناہید شاہداحمد بِنتِ انیس احمد صمدانی،شاہین خالدبِنتِ انیس احمد صمدانی،روحی ندیم بِنت ِ انیس احمد صمدانی۔

آپ سب نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے امی اور پاپا کے گھر واقع آصف نگر کی فروخت اور رقم کی شرعی تقسیم کی ذمہ داری مجھے سونپی۔اطلااً تحریر ہے کہ ابتدائی طور پرمکان کی فروخت کی کاروائی شروع ہوچکی ہے۔ مکان کے خریدار اور میرے درمیان Sale Agrement قانون کے مطابق طے پا گیا ہے۔ قانون کے مطابق خریدار نے کل رقم کا ۱۰ فیصد بنک ڈرافٹ کی صورت میں ادا کردیا ہے۔ میں نے اس رقم کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 2جولائی2014 کو جمع کرادیا ہے۔ واضع رہے کہ کرنٹ اکاونٹ میں بنک سود نہیں دیتا ۔ گویا شرعی حصہ آپ تک پہنچنے تک سود سے پاک ہوگا۔ اگلا مرحلہ قانون کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر مکمل ہونا ہے۔

جس کے لیے آپ سب کو درج ذیل امور کو سامنے رکھنا ہوگااور ان پر عمل بھی کرنا ضروری ہوگا۔
۱۔رقم کی ادائیگی اخراجات منہا کرنے کے بعد شرع کے مطابق ہوگی۔
۲۔رقم کے ادائیگی بذریعہ کراس چیک متعلقہ فریق کے نام ہوگی۔ اگر آپ میں سے کسی کا بنک اکاؤنٹ نہیں تو وہ تین ماہ کے اندر اندر اپنا بنک کاؤنٹ کھلوالے۔ چیک کسی بھی صورت متعلقہ فریق کے کسی بھی قریبی مثلاً بیوی؍شوہر؍بیٹا یا بیٹی کے نام سے نہیں دیا جائے گا۔
۳۔خریدار اُسی وقت مکمل رقم ادا کرے گا جب اسے مکان کا قبضہ دیا جائے گا۔ چناں چہ مکان تین ماہ کے اندر اندر خالی ہونا ضروری ہے۔ مکان میں رہائشی بطور خاص اس امر کو یقینی بنائیں ۔

امید ہے میری تمام بہنیں اور بھائی اس قانونی و شرعی مرحلے کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے میں میرے ممد و معاون ہوں گے اور ہر طرح سے تعاون بھی کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس نازک گھڑی میں ثابت قدم رکھے ۔ (ڈاکٹررئیس احمد صمدانی)، ۵؍ جولائی ۲۰۱۴ء مطابق ۶ رمصان المبارک ۱۴۳۵ھ

مکان کے فروخت کے معاملات بھی شروع کردیے گئے۔ ہم بھائیوں کا یہ فیصلہ تھا کہ ہم نے اس جائیداد پر جو کچھ بھی لگایا وہ لگا چکے ۔ اس سے تمام دستبردار ہوگئے۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ خاص طو ر پر میرے چھوٹے بھائی کی زیادہ رقم اس پر لگی تھی لیکن اس نے بھی بڑے پن کا ثبوت دیا اور یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوگیا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین کے گھر میں رہائش رکھنے والے بیٹے، بیٹی یا داماد اس وقت کے حالات کے پیش نظر اس مکان پر رقم خرچ کرکے اپنے لیے ایک یا دو کمرے بسااوقات ایک منزل، کبھی مکان کی آرائش و ذیبائش پر ہزاروں یا لاکھوں خرچ کردیتے ہیں ۔ جب اس جائیداد کی شرعی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو جنہوں نے اس جگہ اپنا پیسہ لگایا ہوتا ہے وہ اس رقم کو علیحدہ سے وصول کرنے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔ حلانکہ وہ اس جگہ کئی برس رہ چکے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ اب رنجش اور باہمی اختلاف کا باعث ہوجاتا ہے۔ جو لوگ وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہاں یہ مسئلہ بہ آسانی اتفاق رائے سے حل ہوجاتا ہے۔ سخت گیر لوگوں کے سخت رویے کے باعث مسئلہ عدالتوں میں چلا جاتا ہے اور برسوں چلتا رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تمام طرح کے مسائل و مشکلات سے بچائے رکھا ۔

ہمارا گھر فروخت ہوگیاجو رقم موصول ہوئی اسے اﷲ کے اور اس کے رسول ؑکے بتائے ہوئے حقِ وراثت(تقسیم ِمیراث) کے مطابق تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ یہ اہم ذمہ داری جو مجھ پر آن پڑی تھی جملہ بہن بھائیوں کے عملی تعاون سے خوش اسلوبی کے ساتھ پائے تکمیل کو پہنچی۔ تمام معاملات تحریری صورت میں عمل میں لائے گئے۔ رقم کی تقسیم بنک کی پابندیوں کے باعث وقفہ وقفہ سے کی گئی۔ ہر ایک کو کراس چیک کے ذریعہ رقم کی ادائیگی کی گئی۔ کس کے حصے میں کتنی رقم آئی یہ پرچی موصول ہوجانے کے خوف سے لکھا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ آج کل پرچی سسٹم بہت عام ہو چکا ہے۔ چیک کے ساتھ بھی رقم کی تقسیم کی تفصیل کا خط منسلک کیا گیا تھا اس خط کو یہاں درج کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس میں رقم تحریر تھی ۔ رقم کی تقسیم کا عمل کوئی دو ماہ پر مشتمل رہا اور یہ دو ماہ کا عرصہ میری زندگی کا کٹھن وقت تھا۔ متعلقہ فریق کو چیک دینے کے بعد میں اس فکر میں بے چین رہتا تھا کہ جس کو چیک دیا ہے وہ جلد سے جلد اسے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرادے اور اس کی رقم میرے اکاؤنٹ سے اس کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوجائے۔ اس دوران میری ایک بہن پنجاب چلی گئی جتنے دن وہ واپس نہیں آئی میں انتہائی کرب میں رہا۔اس کی امانت میرے پاس تھی جسے امانت دار ہی کو دینا تھا۔ آخر کار میں نے اس کے نام کا دستخط شدہ چیک بنایا اور اپنے بیٹے کو ہدایت کی کہ اگر اُس کے کراچی آنے سے قبل مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو یہ امانت اس تک پہنچا دی جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ میری زندگی ہی میں واپس آگئی ۔ باوجود اس کے کہ وہ میرے گھر سے بہت دور سرجانی ٹاؤن میں رہتی ہے میں دوسرے دن ہی شہناز کے ہمراہ اس کے گھر پہنچ گیا اور اس کی امانت اس کے حوالے کی۔ اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھ پر میرے والدین کے ترکہ کی تقسیم کی جو ذمہ داری ڈالی میں نے کوشش کی کہ اسے احسن طریقے سے پائے تکمیل کو پہنچا دوں۔ مجھے قوی امید ہے کہ میرا یہ عمل اﷲ کے بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرے گا ساتھ ہی میرے مرحوم والد اور میری امی کی ارواح کو بھی سکون اور خوشی عطا ہوئی ہوگی۔ فرتاشؔ سید کا شعر ؂
کل بزرگوں کے اثاثوں کی جو تقسیم ہوئی
مال و زر چھوڑ دیا میں نے ، قناعت رکھ لی

ہم اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ وراثت( جائیداد)کی تقسیم جیسے نازک معاملات انتہائی خوش اسلوبی سے اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ کسی ایک کو بھی کسی بھی قسم کی شکایت نہیں ہوئی۔ یہ ہمارے مرحوم والدین کی سوچ اور اولاد کی تربیت کا نتیجہ تھا ۔ ہم نے اپنے والد کو کبھی غلط کام کرتے ، ھَوس، لالچ کرتے نہیں دیکھا حالانکہ جب وہ 1947میں کراچی آئے تھے تو بے شمار طریقوں سے لوگوں نے مکانات ، فلیٹ اور پلاٹ بنائے لیکن ہمارے والد قناعت پسند ، اعتدال پسندتھے۔ حوص اور لالچ ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا۔ یہ سب انہی کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ ہم تقسیمِ وراثت جیسے اہم اور نازک مسئلہ کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437648 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More